درس گاہ – 17

میاں چنوں کی رہائش سے پہلے میں نے مغرب کی جانب تو سفر کیا تھا کہ میرے والد اور والدہ اپنے مرشد سے ملاقات کے لیے ملتان جاتے رہتے تھے اور کئی بار ہم دونوں بھائیوں کو بھی ساتھ لے لیتے تھے۔تب ہم لوگ ٹرین کے ذریعے کینٹ اسٹیشن پر اترتے تھے اور تانگہ لے کر پاک دروازےآجاتےتھے جہاں سے صرافہ بازار میں داخل ہو کر سونے کی دکّانوں کی سیر کرتے اور کم وبیش ہر ہٹّی میں آغا خان کی تصویر دیکھتےدربار موسیٰ پاک پر آ کر پیر شوکت حسین گیلانی سے ملاقات کرتے تھے جو بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔میری والدہ اندر زنان خانے میں چلی جاتی تھی اور ہم مہمان خانے میں۔شربت اور طعام کے بعد خصوصی دعا کی جاتی تھی اور پھر دیگر کام کاج کرنے یا واپسی کی اجازت ملتی تھی۔اس خصوصی سلوک کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد حقیقت میں گیلانی صاحب کے والد کے مرید تھے اور موجودہ گدّی نشین انھیں اپنے بزرگ جیسا احترام دیتے تھے مگر جب ہم بیگم پیر برکت علی شاہ کے ساتھ آتے تھے تو مقصد صرف اور صرف تفریح ہوتا تھا۔کبھی ملتان کی سوغاتیں چکھی جاتی تھیں، کبھی کسی سنیما کا رُخ کیا جاتا اور کبھی شاہ صاحب کے کسی سجّن کی مہمانداری کا لطف اُٹھایا جاتا۔اس ٹور میں شاہ صاحب ہمارے ساتھ ہوتے تھے نہ میرے والد۔عام طور پر عشا تک واپسی ہو جایا کرتی تھی تاہم قیام کے ارادے یا قیام کرنے کی کوئی مجبوری ہونےکی صورت میں شہر کے اسٹیشن کے بالمقابل شاہ صاحب کی اپنی کوٹھی کا رُخ کیا جاتا تھا جو”برکت منزل” کہلاتی تھی اور شاگرد پیشہ کمروں،وسیع برامدے۔اوپر شیش محل اور برساتی اور برآمدے سے آگے کوئی ایک کنال کے وسیع صحن کے بعد اصل بنگلے پر مشتمل تھی جو سطح ِزمیں سے نو سیڑھیاں بلند تھا۔اس میں چار بیڈ روم بیرونی برآمدے کے ساتھ اس طرح ڈیزائن کیے گئے تھے کہ بیچ میں ایک وسیع و عریض گول کمرہ نکل آیا تھا،جہاں لکڑی کی نہایت خوبصورت منقش الماریاں تھیں اور ملٹی کلر رنگین شیشوں والے دیدہ زیب روشن دان۔سُنا تھا یہ بنگلہ پیر صاحب کی پھوپھی نے اپنے بھتیجے کے ملتان میں زیر ِسماعت مقدمات کی پیروی کے لیے بنوایا تھا اور اسے اسٹیشن کے بالمقابل نشاط روڈ پر بنوانے میں حکمت یہ تھی کہ یہاں آنے والوں کو یہاں پہنچنے کے لیےاسٹیشن سے نکل کر کسی سواری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
میں جب ایف ایس سی کرنے کی کوشش کے زمانے میں،اس کوٹھی میں مقیم ہوا تو اس بنگلے کا ماسٹر بیڈ روم چھے ماہ تک میرے تصرّف میں رہا مگر یہ قصہ تو بہت بعد کا ہے۔
میں نے پہلی بار رکشا ملتان ہی میں دیکھا اور اس کی پُھرتی اور مستی دیکھ کر اس قدر بدحواس ہوا کہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بے اختیار اُس کے آگے آگے بھاگ کھڑا ہوا۔
ابّا جی بتاتے تھے کہ ہمارے علاقے میں پہلی کار برکت علی شاہ نے کہیں 1930ء کے آس پاس لی تھی۔اُس وقت کیفیت یہ تھی کہ تلمبہ ملتان روڈ پر بیٹھے پرندے کار آنے پر اُڑنے کی زحمت ہی نہیں کرتے تھے اور کئی بار بچانے کی کوشش کے باوجود کچلے جاتے تھے۔میری کتاب”بانے”میں شامل نظم "گنجی بار وچ پہلی کار”میں اسی قصّے کا شاعرانہ اظہار ہے۔
گُھگھّیاں توں اُڈن نئیں ہوندا
کاں ہیٹھاں نئیں لَہندے
سَییّڑ لاٹو بن بن ویہندے
گِدڑ ڈگدے ڈَھہندے
گاواں،مجھّاں چرنا چھڈ کے
بھجدیاں ابھڑّ واہندے
پھنئیر اوڑاں نوں سِر دے کے
بن گئے لال پراندے
پینڈے پُٹھّے پیریں بھجدے
وات کھڑائی جاندے
کوئی ہنیری کردی جاندی
سُکھ سجناں دے ماندے

ماسی نُوراں جب بھی "لانگ ڈرائیور”پر نکلتی تھیں۔اپنی جیپ میں ہمارے گھرانے کو بھی بھر لیتی تھیں۔ انہی کے ساتھ دو ایک بار عبدالحکیم،تلمبہ اور خانیوال جانا ہوا تھا اور اُسی زمانے میں ہیڈ سندھائی کے بننے کا نظارہ بھی کیا تھا۔بھاری مشینری کو کام کرتے دیکھنا ایک یادگار تجربہ تھا اور اس سے بھی دل فریب اور متاثر کرنے والے انجینیئرز کے لیے تعمیر کیے گئے وہ بنگلے تھے جو اب پاک فوج کے استعمال میں ہیں اور عبدالحکیم چھاؤنی کا حصہ ہیں۔اُسی زمانے میں ایک بار سیلاب آنے پر بند کے ساتھ ساتھ سفر کر کےخلقت کی حالت ِزار دیکھنے کا موقع بھی ملا تھا جو بہت بعد میں میری کہانی”اُروار”کی بنیاد بنا۔

سو میں ملتان تک کے مغربی قصبوں سے آگاہ تھا اور اسٹیشنوں کے تو نام تک یاد کر رکھے تھے مگر مشرق کی طرف کبھی اقبال نگر سے آگے جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔1964ء کے اوائل میں ابّاجی نے خوش خبری سنائی کہ مجھے اُن کے ساتھ لاہور جانا ہے کہ خان عبدالحمیدخاں کی صاحب زادی کی شادی تھی اور انہیں اُس میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔خاں صاحب غالباً کلکٹر ہو گئے تھے مگر لوگ انہیں ڈپٹی صاحب کہہ کر ہی یاد کرتے تھے۔ہمارے علاقے میں اُن کی سب سے زیادہ قربت میرے والد صاحب ہی سے تھی سو جانا ضروری تھا اور ہم سفری کا قرعہ خوش قسمتی سے میرے نام نکلا۔تب تک میں اکھان”جہنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمّیا ای نئیں”سُن چکا تھا۔اس لیے لاہور دیکھنے کی تمنا اپنے زوروں پر تھی۔پھر یہ کتابوں اور کہانیوں کا شہر تھا جسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا کسی خواب کو تعبیر سے ہم کنار ہوتے دیکھنے جیسا تھا۔
ہم ڈیڑھ بجے خیبر میل پر بیٹھے اور کپڑوں کا ایک ایک اضافی جوڑا ٹرنک میں ٹھونس کر لاہور کے لیے نکل پڑے۔تب ٹرین وقت پر آتی تھی اور لوگ اسے دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کیا کرتے تھے۔ہم بھی ٹھیک وقت پر نکلے۔میں سوار ہوتے ہی کھڑکی سے لگ گیا تھا۔درختوں اور عمارتوں کو پیچھے کی طرف بھاگتے،آسمان کو ایک بڑے دائرے میں گھومتے محسوس کرنا،حدِ نظر پر زمین اور آسمان کو ایک دوسرے سے ملتے دیکھنا میرے لیے نیا تجربہ نہیں تھا مگر اس طرف کے درخت،جانور،لوگ،قصبے اور اسٹیشن میرے لیے نئے تھے اور اس سے بھی نئی بات چائے اور کھانے سے بھری کشتیوں کے ساتھ وردی پوش
بیروں کا چلتی ٹرین میں ایک سے دوسرے ڈبے میں منتقل ہونے کا منظر تھا۔پھیری والے،بھکاریوں اور ٹرین کے عملے کی بھاگ دوڑ اس پر مستزاد تھی۔ٹرین ساہیوال اور اوکاڑہ کے اسٹیشنوں پر رُکی تو نیچے اُتر کر شربت پیا اور چلے پھرے کہ ٹانگوں کی اکڑن ٹھیک ہو اور واقعی اس عمل سے بدن اور ذہن کو بہت آرام ملا۔

لاہور اسٹیشن میری توقع سے بہت بڑا تھا۔پلیٹ فارموں کی تعداد،
گاڑیوں کی بہتات اور ان کی آمدورفت کے حوالے سے فضا میں تیرنے والے مخصوص لہجے اور زبان میں کیے گئے اعلانات۔پلیٹ فارم پر سجی دکانیں اور پھیری والے،ریڑھیاں اور ہر سمت میں ہراساں ہو کر بھاگتے ہجوم۔ میں جو رائے ونڈ کے بعد مسلسل لاہور کی جھلک دیکھنے کے شوق میں کارخانوں کا دھواں پھانکتا آیا تھا۔یہاں کی چہل پہل، افراتفری اور بھول بھلیوں کی طرح چڑھتی اترتی سیڑھیاں دیکھ کر یقیناً بوکھلا جاتا اگر ابّا جی میری انگلی تھام کر باہر کی طرف چل نہ دیتے۔ہم مین بلڈنگ سے اپنے ٹکٹ دکھا کر بلکہ چیکر کے حوالے کر کے باہر نکلے تو کوئی آدھ فرلانگ کے فاصلے پر بیسیوں تانگے والے منحنی وجود والے گھوڑوں کو اُلار تانگوں میں جوتے بھاٹی لوہاری کا راگ الاپ رہے تھے۔ابھی میرے ابّاجی ایک تانگے والے سے موچی دروازے جانے کی بات کر ہی رہے تھےکہ میں نے اپنے آپ کو ننھے ٹرنک سمیت ایک اور تانگے کی اگلی سیٹ پر پایا۔پچھلی سیٹ پہلے ہی بھری ہوئی تھی۔میں نے ابّاجی کو آواز دے کر اپنے مقامِ استراحت سے آگاہ کیا تو وہ بھی میرے ساتھ آ بیٹھے مگر ان کے بیٹھنے کی دیر تھی کہ ہمارے علاوہ تمام سواریاں ایک ایک کرکے کھسک لیں اور ہم اُس وقت تک اپنی یکتائی کا مزہ لیتے رہے جب تک تانگہ واقعی بھر نہیں گیا اور دونوں طرف کے بم سواریوں سے خمیدہ کر کے تانگے کا توازن درست نہیں کر لیا گیا۔
خیر موچی دروازہ زیادہ دور نہیں تھا۔وہاں آ کر پتا چلا کہ ڈپٹی صاحب گلبرگ منتقل ہو گئے ہیں(یہ جگہ بعد میں حسین چوک اور ایم ایم عالم روڈ کہلائی)مگر اس خبر سے ہمیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ہم نے رات بھر کے لیے اپنا میزبان بدل لیا اور خان لیاقت خاں کے مہمان بن بیٹھے۔ہمارے لیے چارپائیاں لگائی گئیں۔نکور بستر،چادریں اور رضائیاں نکالی گئیں۔بالکل دیہات کی طرز پر رکابیوں میں دو طرح کا سالن تندوری روٹیوں کے ساتھ مع ٹھنڈے پانی کی شیشے کی بوتلوں کے بھجوایا گیا۔یہ پہلا موقع تھاجب میں نے کسی کے گھر کی فریج کا پانی پیا اور پانی کو جگ کی بجائے بوتل بند پایا۔
ہم موچی دروازہ برانڈرتھ روڈ کی طرف سے آئے تھے۔ دھاتی مشینری کی اس قدر دکانوں کو ایک ساتھ دیکھنا انوکھا تجربہ تھا مگر اس سے زیادہ حیرت صبح ناشتے کے بعد سالم تانگے پر،جو دس روپے میں خاں صاحب کے کسی کارندے نے منگوا دیا تھا،گلبرگ جاتے ہوئے بانساں والا بازار سے گزرتے ہوئے ہوئی۔بانس کے ڈھیر،چارپائیاں اور پوڑیاں اور جانے کیا کیا۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ بانس کی چارپائی میں نے پہلی بار لاہور ہی میں دیکھی۔مجھے حسین چوک جانے کا روٹ تو یاد نہیں مگر ہم شاید ہال روڈ،لارنس روڈ اور جیل روڈ سے لبرٹی پہنچے تھے۔جہاں ابھی رونق نہ ہونے کے برابر تھی اور کوٹھی کے سامنے کی سڑک پر تو ہُو کا عالم طاری تھا۔
لاہور میں تانگے بھی تھے،رکشے اور ٹیکسی بھی۔یہ میٹر گھما کر سفر کرنے کا زمانہ تھا۔پھر ہمارے لیے تانگہ کیوں منگایا گیا اور ہم گھنٹہ بھر لاہور کی سڑکوں پر ڈُک ڈُک کیوں کرتے رہے؟اس کا راز یہ تھا کہ وہ تانگے والا اس منزل سے بخوبی آگاہ تھا اور اٗسے کوٹھی پر سامان پہنچانے کے لیے جانا ہی تھا۔
خاں عبدالحمیدخاں کا یہ گھر ابھی بن رہا تھا۔یہ ایک نہیں چار چار کنال کی دوجُڑواں کوٹھیاں ہیں اور اس سڑک کے آغاز میں واقع ہیں۔
پندرہ برس بعد میری شادی کی تیاری کے لیے میرے ماں باپ خاں صاحب کی دعوت پر اسی گھر میں ٹکے رہے۔میری برات کو یہیں ناشتا کرایا گیا اور یہیں سے تیّار ہو کر سب دلھن کی طرف پدھارے۔

اُس روز یہاں آنے سے پہلے ہم نے خوب بن ٹھن لیا تھا۔خاں صاحب کے مینیجر نے ہمارے ملبوس سویرے دھوبی کو بھجوا کر استری کرا دیے تھے۔میں نے پتلون اور شرٹ پہنی تھی۔پہلی بار تو نہیں مگر میری بے چینی اور بے زاری پہلی بار جیسی ہی تھی۔ابّا جی نے سفید کرتا اور دھوتی،سفید طرّے اور کُھسے کے ساتھ۔اس لباس والے دو ایک زمیندار اور بھی تھے۔اس لیے ہمیں حیرت سے دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔
نکاح کے بعد بوفے تھا۔مہمانوں میں سرکاری افسروں کا تناسب زیادہ تھا۔وہ لوگ چُھری کانٹے سے کھا رہے تھے۔میں نے ابّا جی کی توجہ ادھر دلائی اور بھاگ کر چھری کانٹے لے آیا مگر چھری کی پوزیشن غلط ہو جاتی کبھی کانٹے کی۔وہ تو بھلا ہو پیر سوہارے شاہ کا۔انہوں نے تکّلف برطرف کر کے ہاتھ سے کھانا شروع کیا تو ہم بھی اپنی تہذیب سے بار ِدگر جُڑ گئے۔
تقریب کے اختتام پر پیر سوہارے شاہ اور ابّا جی میں کیا گِٹ مِٹ ہوئی،معلوم نہیں۔ہم خاں صاحب سے اجازت لے کر اُن کے ساتھ ہو لیے۔وہ ہمیں سمن آباد مارکیٹ کے قریب ایک بڑی سی مگر پُرانی دھرانی کوٹھی میں لے آئے۔یہ کوٹھی اُن کے سالے قمر الزمان کھگہ کی تھی جو بعد میں زراعت کے صوبائی وزیر بنے۔رات وہیں بسر ہوئی مگر اللّٰہ اللّٰہ کرتے۔وجہ یہ کہ خان لیاقت خاں کے ہاں استراحت کے لیے دیے جانے والے بستر جس قدر اجلے تھے۔یہاں لگائے جانے والے بستر اتنے ہی بُسے ہوئے اور بدبودار تھے۔ابھی سال کا آغاز تھا اور موسم سرد مگر ان رضائیوں میں سر منہ چُھپانے کی جسارت وہی کر سکتا تھا جو حبس دم کی مشق میں کسی نانگے سادھو کی طرح طاق ہو۔
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ صبح ناشتے کے بعد ہم پیر صاحب کی مصاحبت سے تائب ہو کر چڑیا گھر پہنچے۔وہاں دوپہر تک گھومے پھرے۔ہاتھی،گینڈے،دریائی بھینسے،زرافے اور بیسیوں ایسے جانور دیکھے،جن کا ذکر نصابی کتابوں میں آیا تھا مگر جس محترمہ کے نام پر یہ دُنیا بسائی گئی تھی۔وہ کم کم ہی دکھائی دی۔
افسوس اس پھیرے میں نولکھا بازار دیکھا نہ اردو بازار میں کتابوں کی ہٹیاں۔اُس وقت کون جانتا تھا کہ آنے والے دنوں میں موخرالذکر بازار سے میری نسبت کس قدر گہری ہونے والی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے تب تعلیم اور ملازمت کے لیے میاں چنوں کے علاوہ کوئی اور شہر میرے دھیان میں آتا ہی نہیں تھا۔رہائش کے لیے میری ترجیح بستی کبیر سنپال تھی اور گھومنے پھرنے کے لیے ایک عدد شیطانی چرخہ۔جو ان دنوں میرے تایا زاد بھائی مہر دلدار کے علاؤہ کسی کے پاس نہیں تھا۔یہ شیل کمپنی کا بنایا ہوا تھا اورغالبا”
پانچ ہارس پاور کا انجن رکھتا تھا۔سلف سٹارٹ ہونے کی وجہ سے اُسے سٹارٹ کرنا تو آسان تھا مگر سنبھالنا مشکل۔اُس کی طاقت پانچ گھوڑوں کے برابر تھی یا نہیں مگر اُس کی رفتار بہرحال کسی بھی گھوڑے سے زیادہ تھی۔

درس گاہ – 16

اُن دنوں ہم ہر سنیچر کو بستی چلے جاتے تھے ۔ سہہ پہر کو سکول سے پلٹ کر کھانا کھاتے ہی ضروری سامان تانگے پر دھر ، جو ہمیں لانے کے لیے صبح ہی بھجوا دیا جاتا تھا ، ہم کچھ ہلکی پھلکی خریداری کے بعد اس اہتمام سے گاؤں کا رُخ کرتے تھے کہ شام سے پہلے گھر پہنچ جائیں ۔ وجہ راستے کا غیر محفوظ ہونا نہیں تاریکی میں سفر کا دشوار ہو جانا تھا ۔ تعطیلات میں مستقل قیام بستی ہی میں رہتا تھا البتہ کسی کام کے لیے شہر آتے تو مکان کا چکر بھی لگا لیا جاتا۔

شہر میں کمروں کی تقسیم یوں تھی کہ پچھلے حصّے کا شمالی کمرہ مردانہ استعمال میں تھا اور بائیں جانب والا کمرہ مستورات کے حصّے میں آیا ۔ دائیں بائیں دونوں دیواروں میں الماریاں بنی تھیں اور کمرے میں آنے اور دوسرے کمرے میں جانے کا دروازہ دائیں طرف تھا ۔ اس لیے میں بائیں الماری پر قابض ہوا ۔ وہیں نواڑ کی پٹّی والا سنگل پلنگ ڈلوایا اور ساتھ والا پلنگ طالب کے حصّے میں آیا ۔ سرہانے ہوا کے لیے بڑی سی ونڈو تھی ۔ اس کے اوپر روشنی کے لیے بلب ۔ مجھے یاد ہے فلپس کا وہ دودھیا بلب کہیں تیس برس کے بعد فیوز ہوا اور اس کمرے کا پنکھا تو اب بھی بستی کے ایک کمرے میں ہوا دیتا ہے۔

یہ الماری میری کتابوں سے بھری رہتی تھی ، جن میں اکثریت کہانیوں کی کتابوں اور رسائل کی تھی ۔ ایک ٹرنک میں نے بستی کے منّھی والے کمرے میں بھر رکھّا تھا ۔ مجھے ماں کے منع کرنے کے باوجود رات کو دیر تک لیٹ کر پڑھنے کی عادت تھی ۔ اس لیے ایک نفیس ٹیبل لیمپ کا بندوست لازم تھا سو وہ بھی کر لیا مگر اب خریدی ہوئی کتب میرے مطالعے کی رفتار کا ساتھ نہیں دیتی تھیں سو میں مزید کی جستجو میں لگ گیا ۔ کسی نے مجھے میونسپل لائبریری کے خزانے کے بارے میں بتایا ۔ میں دو ایک بار وہاں گیا اور لوگوں کو کتابیں لیتے اور پڑھتے دیکھا مگر میری عمر کا کوئی قاری وہاں موجود نہیں تھا اور کتاب دار نے بھی میری حوصلہ افزائی نہیں فرمائی تو مجھے یہ مسئلہ اپنے والد کے حضور پیش کرنا پڑا ۔ انھوں نے اپنے دوست میاں ثنا اللہ بودلہ سے ذکر کیا جو شاید اُس زمانے میں شہر یا تحصیل کی سطح پر کسی نوع کے حکومتی نمائندے تھے ۔ اُن کے خوشہ چینوں اور سیاسی کارندوں میں غلام حیدر وائیں بھی تھے جو بعد میں پنجاب کے وزیرِ ِاعلیٰ بنے ۔ وہ ان دنوں میونسپل کمیٹی کے کسی عہدے پر متمکن تھے اور اُس وقت میاں صاحب کی محفل میں موجود تھے ۔ میری خواہش فوراً ان کے علم میں لائی گئی اور انہوں نے ترنت میرے لیے لائبریری کے دروازے کھلوا دیے ۔ میں نے اگلے روز ہی سے عصر کے لگ بھگ وہاں جانا شروع کر دیا اور کوئی کتاب پسند آنے پر اسے میرے ہمراہ کرنا ممکن ہو گیا مگر وہاں نولکّھا بازار کی کتابوں کا کال تھا ۔ البتہ ظفر عمر ، تیرتھ رام فیروز پوری ، قیسی رام پوری ، دت بھارتی ، عادل رشید ، شوکت تھانوی وغیرہ کی اپنی اور ترجمہ کی ہوئی کتابوں کی کمی نہیں تھی ۔ میں نے انہیں پڑھنا شروع کیا اور نہ معلوم کیا کچھ پڑھ ڈالا مگر میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ کتاب بہت زیادہ ضخیم نہ ہو تاکہ ایک آدھ دن میں ختم کی جا سکے۔

اکرم الہٰ آبادی کے جاسوس کرداروں”خان”اور بالے” سے تعارف کا یہی زمانہ تھا ۔ میں اب ساتویں جماعت میں تھا اور شہری پنجابی کو شہریوں جیسی روانی سے بولنے لگا تھا مگر گاؤں آتے ہی میرا لہجہ بھی بدل جاتا تھا اور برتاؤ بھی ۔ سبھی ترک کئے ہوئے کھیل کھیلے جاتے ۔ کھال میں نہایا اور درختوں پر ڈیرا جمایا جاتا ۔ پٹھو گرم کیا جاتا گو اب کپڑے کی گیند کی جگہ ست ربڑی گیند (ٹینس بال) نے لے لی تھی ۔ کبڈی کھیلی اور کُشتی لڑی جاتی اور گھر کے صحن میں نیٹ لگا کر چِڑی چھکّا (بیڈ منٹن) بھی کھیل لیتے لیکن یہ کھیل ہم بہن بھائیوں تک ہی محدود رکھّا جاتا تھا اور اس میں کسی اور کی شمولیت بند تھی۔
اُس وقت میں بہت دُبلا اور پست قد تھا مگر بہت پُھرتیلا اور طرّار۔
اپنے ہم عمر کھلاڑی کو پھلانگ کر نکل جاتا اور کُشتی میں بھی مضبوط حریف ثابت ہوتا ۔ فٹ بال سے بھی شغف تھا ۔ ایک بار 14چک کے ساتھ میچ میں ٹیم کا حصّہ بنا تو اکلوتے گول کی سعادت میرے حصّے میں آئی مگر پاؤں میں موچ کے ساتھ ۔ تاہم ہماری ٹیم کے بڑے لڑکے اتنے خوش تھے کہ دو میل واپسی کے سفر میں مجھےچلنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی ۔ بستی آنے تک میں ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر منتقل ہوتا رہا اور کسی نے مجھے زمین پر قدم دھرنے کی اجازت نہیں دی۔

بستی میں دو بھائی علی محمد اور بلی محمد تھے۔موخرالذکر کا اصل نام ولی محمد تھا اور میرے ایک کزن کے گہرے دوست تھے ۔ آدمی معقول تھے ۔ ان دنوں بستی میں ایک دکّان چلا رہے تھے ۔ میں کچھ لینے جاتا تو میرے ذوقِ مطالعہ کی تعریف کرتے ۔ ایک دن کسی کام سے گیا تو ایک ضخیم کتاب میں غرق تھے ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ نسیم حجازی کا ناول”اور تلوار ٹوٹ گئی” پڑھ رہے ہیں ۔ انہوں نے ناول کی اس قدر تعریف کی کہ مجھے بھی اس کتاب کے پڑھنے کی ہُڑک لگ گئی ۔ انہوں نے کمال مہربانی یہ کی کہ کتاب دوسرے دن ہی میرے حوالے کر دی ۔ میں نے پڑھنا آغاز کی تو مجاہدین کے بارے میں سُنی ہوئی سبھی حکایتیں میری سہاتا کو آن کھڑی ہوئیں ۔ تخّیل ، تاریخ ، مثالی کردار، جذباتیت ، منظر کشی اور اسلامی رومانس مجھے اپنے ساتھ اس طرح بہا کر لے گیا کہ میں نے اس ضخیم کتاب کو ایک ہی دن میں پڑھ ڈالا ۔ غالبا” گرمی کی چھٹیاں تھیں مگر میں ہی اگلے دن شہر پہنچا اور میونسپل لائبریری سے”معظم علی” تلاش کر لایا ۔ پھر یہ سلسلہ اُن کے پہلے سے آخری ناول تک پھیل گیا ۔ اس بیچ میں رئیس احمد جعفری ، صادق حسین سردھنوی اور ہیرلڈ لیم بھی آدھمکے ۔ "بابر” سے "صلاح الدین ایوبی” تک آنے میں مجھے دو برس لگے اور میں اپنے آپ کو کبھی "زبیر” اور کبھی "یوسف” کی جگہ پر رکھ کر دیکھنے لگا۔

سکول معمول کے مطابق چل رہا تھا ۔ کلاس فیلوز میں ایک طرف نذر اور منظور جیسے لوگ تھے ۔ جن کا مستقبل معلوم تھا ۔ وہی سبزی کی دکّان اور ناشتے کا ڈھابہ تو دوسری طرف ظفر(غلام حیدر وائیں کے بھانجے۔۔ مقیم لندن) ، آصف (مقیم ریاض) ، شاکر (مرحوم) ، محمود الحسن (مقیم اسلام آباد) ممتاز (تبلیغی جماعت کو پیارے ہوئے) ضیا احمد (مقیم شکاگو) اور سلیم (مرحوم) جیسے فطین لوگ بھی تھے ۔ ملاقات تو سب سے تھی اور مسلسل تھی مگر محفل آصف کے گھر ہی میں جمتی تھی کہ اُن کی بیٹھک بہت کشادہ اور سلیقے سے سجی تھی اور اس کے ماں باپ اُس کے دوستوں کے لیے بہت شفیق تھے ۔ شربت ، پانی اور پُرتکلف چائے سے تواضع عام بات تھی اور اُس کے بھائی بہن اپنوں سے زیادہ اپنے محسوس ہوتے تھے ۔ مدّت بعد ایک بار ماسی نے میری ماں سے شکوہ کیا کہ ان کی صاحب زادی کا معقول رشتہ اس لیے نہیں مل سکا کہ آصف کے سبھی دوست اُسے بہن جانتے تھے اور وہ بھی منہ چڑھ کر کسی کو رشتے کی پیشکش نہ کر سکیں۔
آصف کے یہاں نششت روز کا معمول تھی ۔ میرے والد صاحب جب بھی شہر آ کر قیام پذیر ہوتے تھے تو عصر کے بعد لائنیں کراس کر کے بودلہ صاحب کے یہاں جایا کرتے تھے ۔ گھر کے درختوں سے ڈھکے وسیع لان میں کرسیاں اور مُوڑھے دھرے رہتے تھے اور طرح طرح کا شخص آتا رہتا تھا ۔ آُن کے صاحب زادوں میں سے میاں اسلم میرے ہم جماعت تھے جو باپ کی موروثی گدّی پر بیٹھے تو پانچ مرتبہ ایم این اے بنے ۔ افضل اور سلیم بڑے اور باقی بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔عموما” یہ بھائی ہمارا تانگہ لے کر گھومنے نکل جاتے تھے کہ اُن دنوں اس سواری کا بھی اپنا ایک رومانس تھا ۔ میں بڑے میاں صاحب اور دوسرے لوگوں کی باتیں سُنتا اور حیران ہوتا کہ ان لوگوں نےاس قدر دانش کہاں سے پائی ہے ۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ہر آدمی کے اندر دیکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو جمادات کو بھی بولنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ میں بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر یہ میرے حجاب کا زمانہ تھا ، جس نے اب تک میرا دامن نہیں چھوڑا۔

درس گاہ – 15

یہ زمانہ سُست رو تبدیلیوں کا تھا۔ہم محلّہ رحمانیہ میں تھے اور چھے نمبر گلی کا دوسرا پلاٹ ہمارا تھا۔پہلے پلاٹ میں پہلوان گِل کا ٹال تھا اور سامنے حکیم عصمت اللہ کا کُشادہ گھر اور اُس کے بغل میں محلّے کی جامع مسجد یعنی "یہ بندہءکمینہ ہمسایہءخُدا تھا”. مسجد میں اذان دی جاتی تھی تو اس کے حلق سے فلک تک رسائی رکھنے والے سپیکروں کا ارتعاش گھر کے درودیوار پر لرزہ طاری کر دیتا تھا ۔ گھر پر لرزہ طاری ہونے کا ایک سبب اور بھی تھا اور وہ تھا ٹرینوں کی آمدورفت ۔ پہلے پہل تو میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتا تھا مگرجلد ہی ہر دو طرح کے بھونچال سے اچھی نسبت قائم ہو گئی اور بعض اوقات اذان اور ٹرین لوری کا کام دینے لگیں۔
کچھ حق ِ ہمسائیگی، کچھ رواداری اور کبھی اپنے ہم جماعت ممتاز احمد (اب میاں چنوں کی تبلیغی جماعت کے امیر) جن کے والد ہمارے ایک عزیز کی آڑھت پر منشی تھے اور جو ہماری ہی گلی کے آخر میں چلنے والے پانی کے کھال کے پار رہتے تھے، کے اُکسانے پر ہم چو وقتے نمازی تو بن گئے مگر پنج وقتہ نمازی بننے کی سعادت حاصل نہیں کر پائے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ظہر کے وقت ہم ابھی سکول میں ہوا کرتے تھے۔
سکول آنے جانے کے دو راستے تھے ۔ لائنیں پار کر کے ٹی چوک سے لاہور روڈ پر چلتے ہوئے سکول تک یا گھر سے نکلتے ہی دائیں مڑ کر پلیٹ فارم پر مٹر گشت کرتے ہوئےاسٹیشن کے سامنے سے گزر کر ریلوے بازار کے پل کے نیچے سے گزر کر میونسپل کمیٹی کے دفتر کی بغل سے لاہور ملتان روڈ پر نکل کر سکول ۔ ہم عموماً یہی راہ اختیار کرتے تھے ۔ اس قافلے میں محلے کے کئی طلبہ شامل ہو جاتے تھے ۔ جن میں سے ممتاز اور اشرف سنارا میرے ہم جماعت بھی تھے ۔ ہم لوگوں میں پلیٹ فارم کو چھوڑ کر ریلوے لائن پر توازن برقرار رکھ کر چلنے کے مقابلے ہوتے ۔ گاڑی آنے کی خبر پاؤں کے نیچے لائن کے دھڑکنے سے ہو جاتی اور ہم اپنی مشق کسی اور ٹریک پر منتقل کر لیتے ۔ مجھے اس کام میں اتنی مہارت ہو گئی تھی کہ بعض اوقات میں سکول کے موڑ تک بغیر گرے لائن پر چلتا جاتا تھا ۔ چالیس برس بعد اس یاد نے ایک نظم کا روپ دھارا جو ذیل میں درج کرتا ہوں


"گڈّی دی لیناں تے ٹُریاں
پُل صراطوں ودھ چس آؤندی
ساہ لیاں جد تِھڑکے پِنڈا
آسے پاسے سبھ کجھ ڈولے
دوویں باہواں اِنج کُھل جاون
جیکن پکھوآں دے کھنب کُھلدے
وچ ہواواں دی مستی دے

میرا گھر سی ٹیشن نیڑے
اوہ وی نیڑے ای رہندی سی
نِت بنیرے دیہنہ چڑھدے ای
کُچھّڑ بستے مار کے دونویں
شنٹنگ کردیاں گڈیاں لنگھ کے
روز دیہاڑی مِل بہندے ساں
بنھ بنھ شرطاں لیناں اُتّے
سبھ ترانیں بھجدیاں ہویاں
تِکھے تِکھے ساہ لیندے ساں
ڈر سی کِدرے ڈول نہ پئیے
کوئی غُوچا مار نہ بہیے
مُڑ وی ڈول گئے سی دونویں
کیہ کجھ بول گئے سی دونویں

ایہہ گُزرے سمیاں دی گل اے
آج میں ویلے دی لیناں تے
باہواں کھول کے ٹُر نئیں سکدا
بھاویں جیڈے ترلے پاواں
ایہہ دریا نئیں پُٹھّا وگدا”
(نظم:نِکّے ہندیاں/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)
طالب حسین کا سکول میرے سکول کے پچھواڑے میں تھا سو اسے کلاس روم تک پہنچا کر میں اپنی کلاس میں چلا آتا جو گرمیوں میں سکول کی مشرقی چاردیواری کے ساتھ بنے کمروں میں اور سردیوں میں باہر کسی گھاس کے میدان پر بٹھائی جاتی۔کلاس انچارج ماسٹر عبدالحق تھے اور شاید اساتذہ میں سب سے زیادہ ڈراؤنے ۔ اُن کاجسم دُبلا، لباس سادہ اور قد درمیانہ تھا مگر شو کیس میں سجی آنکھیں خوب بڑی بڑی تھیں ۔ چہرے پر ایک دائمی سنجیدگی بل کہ خشونت سجی رہتی تھی ۔ اس لیے اُن سے خیر کی توقّع کم ہی کی جاتی تھی ۔ انہیں ہر لڑکے پر نگاہ رکھنے کا ہُنر آتا تھا ۔ اس لیے اُن کی کلاس میں شرارت کرنا محال تھا ۔ اُن کی کلاس اچھا رزلٹ دیتی تھی ۔ لوگ سفارش کرا کے اپنے بچے ان کی کلاس میں بٹھاتے تھے مگر جو بیٹھ جاتا تھا وہ ہمیشہ نکلنے کا متمنی رہتا تھا تاہم اس خُوش بختی کی کوئی مثال میرے علم میں نہیں۔
انگریزی سے پہلی بار اسی جماعت میں سامنا ہوا اور اس نے پہلی ہی کوشش میں ہمیں پچھاڑ دیا، اس شان سے کہ ہم آج تک اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکے ۔ یہ جو ہم سلمان باسط پر اور اُس کے”ناسٹلجیا” پر واری واری جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی خِلقی کمزوری ہے ۔ انگریزوں کو انگریزی پڑھانے والے ہمیں بہت مرعوب کرتے ہیں ۔ اس لیے ہم پطرس اور مامون ایمن سے زمانی بُعد کے باوجود ایک جیسی عقیدت رکھتے ہیں اور عقیدت کا یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا جا رہا ہے۔

ماسٹر عبدالحق بہت ہتھ چُھٹ تھے مگر اس سے زیادہ خوش خط اور طلبہ کے خط کو سنوارنے کی فکر کرنے والے ۔ وہ ہر طالبِ علم کی تختی پر اپنے خط میں کچھ لکھ دیا کرتے تھے اور اٗسے اُس پر قلم پھیرتے رہنے کی ہدایت کرتے تھے ۔ اپنی خطّاطی کی طرز پر لکھنے کو بھی اُکساتے تھے ۔ میرا خط قدرے بہتر نکل آیا تو مجھے جتایا کرتے تھے کہ بات تب بنے گی جب تم بوتل کے اندر بھی مجھ جیسا ہی جمیل لکھ سکو گے ۔ دھمکاتے تھے کہ وہ دن آنے پر وہ میرے والد سے "اکہوتر سو روپے انعام لیں گے” . یہ رقم کبھی میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ میں ڈرتا تھا کہ نہ معلوم میرے والد یہ رقم دے سکیں گے بھی یا نہیں ۔ میں بوتل کے اندر تو کیا کاغذ پر بھی کبھی اُن جیسا منّور حرف نقش کرنے پر قادر نہیں ہوا ۔ اس لیے اُن کو اکہوتر سو روپے کا انعام دینے کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی اور برسوں بعد میں یہ جان کر آب دیدہ ہوا کہ وہ جس انعام کے متمنی تھے، وہ ایک اُتّر سو یعنی صرف ایک سو ایک روپے تھا ۔ یہ رقم اس دور میں جتنی بڑی بھی ہو میرے والد کے لیے معمولی تھی۔
ماسٹر صاحب جلد ہی اپنی کلاس کو گھر پر بھی بلانے لگے ۔ ان کا مکان امام باڑہ والی گلی کے آخر میں چراغ چڑھوئے کے گھر سے متصل تھا اور مین بازار سے بہت قریب ۔ ہم وہاں چار بجے کے لگ بھگ یک جا ہوتےاور کوئی دو گھنٹے تک پڑھا کرتے ۔ اپنے کلاس فیلوز اور بعد میں گہرے دوست بن جانے والے محمد آصف اعجاز، شاکر علی، ممتاز احمد، جمیل اقبال، اقبال کلاچی، محمود الحسن وغیرہ سے زیادہ قربت اسی اضافی کلاس کے دوران میں ہوئی ۔ یہ کلاس اُن کے گھر کی چھت پر ہوتی تھی اور اس نے مجھ ایسے کڈھب کے سب کس بل نکال دیے۔ گھر کی سیڑھیاں عمودی تھیں اور ان پر چڑھنا اُترنا ایک امتحان ۔ جب ماسٹر صاحب کی غیر نرینہ اولاد ان سیڑھیوں پر دڑنگے مارتی چڑھتی اُترتی تھی تو میرا خوف اور بڑھ جاتا تھا۔

معلوم نہیں ماسٹر صاحب اس خدمت کا کوئی معاوضہ لیتے تھے یا نہیں مگر یہ تاکید ضرور کرتے تھے کہ اُستاد کے دروازے پر دستک کُہنی سے دینی چاہیے ۔ ہم نے تو ہمیشہ ہتھیلی ہی آزمائی اور یہ راز بہت دیر میں کُھلا کہ دروازے پر کُہنی سے دستک صرف اُس صورت میں دی جاتی ہے جب آپ کے دونوں ہاتھ کسی سوغات کو احتیاط سے تھامے ہوئے ہوں۔
اُنہوں نے اپنی بے مثل خطّاطی میں اردو کا ایک قاعدہ چار رنگوں میں تخلیق کر رکھا تھا کہ وہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے قاعدے سے مطمئن نہیں تھے ۔ شاید اُن کی زندگی کی سب سے بڑی تمنّا اس قاعدے کی بطور ٹیکسٹ بُک منظوری تھی ۔ مجھے اس قاعدے کو کئی بار دیکھنے کا موقع ملا اور ہر بار اُس کا جمال اور تدریسی مہارت دل کو موہ لیتی تھی مگر برسوں بعد جب میں نصابی کمیٹی کا رُکن بنا تو وہ قاعدہ اپنے خالق کے ساتھ خواب ہو چکا تھا۔اور وارث شاہ کے بقول” اجیہا کوئی نہ ملیا میں ڈھونڈھ تھکّی،جیہڑا گیاں نوں موڑ لیانوندا ای” – میرا داستانیں پڑھنے کا سلسلہ جاری تھا ۔ بچّوں کے رسائل باقاعدگی سے خریدتا تھا اور اب تو مین بازار سے گزرتے ہوئے تمباکو کی ہٹّی سے آواز دے کر بھی نئی کہانی یا رسالے کی آمد کی نوید مل جاتی تھی ۔ ایک بار میرے جی میں آئی کہ کیوں نہ میں بھی کہانی لکھنے کی کوشش کر دیکھوں سو میں نے ماں سے سُنی ہوئی ایک کہانی اپنے اکھڑ بیانیے میں ڈھالی اور”بچوں کی دنیا” کو”غلام حسین” کے نام سے بھجوا دی ۔ یہ کہانی کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ اگلے ہی ماہ شائع ہو گئی اور وہ شمارہ مجھے آصف کے گھر کے پتے پر مل گیا کیونکہ میں نے خط کتابت کے لیے اُس کے گھر کا پتا دیا تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو اپنی سرگرمی کو خُفیہ رکھنا تھا اور دوسری وجہ اپنے گھر کے پتے پر عدم اعتماد تھا ۔ مجھے وہ علاقہ شہر سے باہر اور غیر منّظم محسوس ہوتا تھا اور میرا خیال تھا کہ ڈاکیے کے لیے اُسے تلاش کرنا مشکل ہو گا۔
پڑھنے کے ساتھ شہر میں پینڈو کھیلوں کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ ریلوے لائن اور لکڑی کے ٹال کے درمیان کنچے اور اخروٹ کھیلنے اور بے وجہ اچھل کود کو کافی جگہ تھی ۔ کبھی پلیٹ فارم پر مٹر گشت کی جاتی تو کبھی سگنل ٹاور کا معائنہ کیا جاتا ۔ دو ایک بار کانٹا بدلنے کی کوشش بھی کی مگر ٹریک کو متحرک کرنا ممکن نہ ہو سکا۔گاڑی کی لائن پر سکّے رکھ کے اُن کو پھیلانے کا مشغلہ بھی جاری رکّھا اور گھر کے سامنے بند ٹریک پر لگے متروکہ ڈِبوں میں استراحت کرنے کا شوق بھی پورا کر دیکھا ۔ پھر بھی گھر پر گزارنے اور سونے کے لیے بہت وقت مِل جاتا تھا اور اس کی وجہ دنوں کا بڑا ہونا نہیں شہر کا چھوٹا ہونا تھا۔

درس گاہ – 14

میں نے شہر جانے یا شہر سے آنے کی کئی ذاتی نشانیاں مقّرر کر رکھی تھیں ۔ پکاحاجی مجید کی طرف سے جاتے ہوئے پیر شینہ، پکا حاجی مجید، پکّا موڑ، خُونی موڑ، گھراٹ، کوارٹرز اور شہر اور جراحی روڈ کی طرف سے کوٹ برکت علی، کشنے والا کھوہ، کچّی مسجد، گھراٹ وغیرہ ۔ لاری یا سالم تانگہ نہ ملنے پر میں پیدل سفر کے لیے ہمیشہ جراحی بینس کاانتخاب کرتا تھا مگر یہ قِصّہ بہت بعد کا ہے ۔ بچپن میں اس کی نوبت کبھی نہیں آئی اور اس کی وجہ یہ کہ اکیلے سفر کرنے کی اجازت ہی نہیں تھی سوائے ایک بار کے جب مجھے اور میرے ہم عمر ملازم چراغ کو نہ معلوم کس وجہ سے شہر بھجوانے کے لیے ماچھیوں کے ہمراہ کر دیا گیا جو لئی کے لدے اونٹ لے کر بالن بیچنے کے لیے میاں چنوں جا رہے تھے ۔ طے یہ تھا کہ وہ گھراٹاں سے یا جراحی روڈ پر کسی شہر جانے والے تانگے سے معاملہ کر کے ہمیں سوار کرا دیں گے اور خود اپنی راہ لیں گے مگر گھراٹ پہنچ کر انھوں نے وہاں موجود ایک آدھ تانگے والے سے سرسری مذاکرات کیے اور ہمیں ساتھ لے کر آگے چل دیے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے وہاں سے شہر جانے کا کرایہ چار آنے تھا اور دو روپے میں سالم تانگہ مل جاتا تھا مگر وہ بڑھتی ہوئی حدّت کی پرواہ کئے بغیر چلتے رہے ۔ شہر ہر قدم پر دور ہوتا گیا اور چھے میل کے پیدل سفر کے بعد جب منزل قریب آئی تو اونٹ اور ان کے ساربان ہم دونوں خُرد ہمراہیوں سے اتنے فاصلے پر تھے کہ ہم بمشکل ان کے ہیولے ہی دیکھ سکتے تھے۔


یہ دونوں راستے میری پنجابی شاعری کی کتابوں میں اپنے تمام تر اسرار کے ساتھ موجود ہیں،ذرا دیکھیے تو

کوئی گھر نئیں،کوئی ڈر نئیں
نہ کوئی ہٹّی،نہ کجھ کھٹّی
نہ کوئی بیلی،نہ کوئی تیلی
نہ کوئی بُوٹا،نہ کوئی ہُوٹا
نہ کوئی پرایا،نہ ماں جایا
نہ کوئی لنگھیا،نہ کوئی کھنگیا
ہکّو چُپ اے،ہکّو چّپ سی
(نظم:چونہہ سڑکاں تے/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)

"سُتیاں پیراں ہیٹھ مدھولے،جاگدیاں چِتھ ویکھے
ٹُریاں کانیاں پِچھوں شُوکن،کھلیاں مویاں لیکھے

گُزرے ویلے ورگیاں قبراں،کلّر مارے بُوٹے
بھونہہ دے گارے رنگّی لیمبی،دیسی کال دے ہُوٹے

سُکیاں پتراں ہیٹھوں بولن،ازلوں رنڈن رُتّاں
ہک واری مُڑ جیون منگن،مِٹّی ہوئیاں گُتّاں

جد کوئی رُت دا بُھلیا جھکّڑ،پِپل اوہلے رووے
اکھاں جھمک نہ سکدے پنچھی،سپ ہووے نہ ہووے
(نظم:پیر شینے دے سپ/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)

"کشنے والے کھوہ”توں میرے گھر دی ڈیڈھی تائیں
کِنّی کُو وِتھ اے
چونہہ قدماں دی
ہک تکنی دی
سرہیوں رنگے پِپل اوہلے
بھمبی ٹاہلی ساہنویں
میرا گھر سے

میرا گھر اے میری ساری جد دی کھٹّی
میری تاہنگھ دا تارا
سَے کوہاں توں میرے جُثّے دی کالک وچ جگدا
سَے ورھیاں توں میرے اندر وانگ چنانہہ دے وگدا

لکھ کوہاں دے پینڈے کٹ کے جد گھر پھیرا پاواں
"کشنے والے کُھوہ”تے آ کے بے چسّا ہو جاواں

ربّا! چونہہ قدماں دا پینڈا جھبدے کیوں نئیں مُکدا
میری سِک دے تا وچ رُڑ کے کیوں میرا ساہ سُکدا؟
(نظم:جراحی بینس تُوں مُڑدیاں/کتاب:بیلے وچ چِڑیاں

"پانی نال نیں وگدیاں چکیاں
جیہڑا وی ان پِیہن،نِکّا کر کے پِیہن
ٹھڈھا مِٹھّا پِیہن
بُرک دیندی اے پانی دی چِھٹ اندر دے انگارے
میں نئیں کہندا،ایہہ کہندے نیں اوڑک دے ونجارے

میرے اندر و اندری وی وگدا اے پانی
میرے جُثے وِچ وی گُھوکے چّکی
دینہہ بر رات پئی گُھوکے
میری رُوح نوں نِکّا مِٹھّا پِیھ کے ساواں کردی
پر میرے اندر دی آگ نئیں نِمھّی ہوندی
اوویں میریاں اکّھاں،میرے بِت نوں لوہندی
(نظم:پُل گھراٹاں تے/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)

مگر یہ تو بہت بعد کی واپری ہے تب تو یہ دُنیا میرے باہر اور اندر ابھی پھیلنا شروع ہی ہوئی تھی ۔ یہ نشانیاں سواد ِمنزل کی نوید تھیں ۔ شہر میں داخل ہونے سے پہلے چونگی تھی، جہاں شہر میں لائی جانے والی ہر سوغات پر ٹیکس دیا جاتا تھا ۔ یہ محصول شاید تجارت کے لیے لائی جانے والی اجناس پر تھا مگر وہ اسے ہر سواری سے وصولنا لازمی جانتے تھے ۔ ہم اپنا آٹا دال گھر میں استعمال کے لیے لاتے تھے ۔ پھر بھی اُس پر چونگی لگائی جاتی تھی اور ہم بخوشی ادا بھی کر دیتے تھے ۔ چونگی سے آگے لیڈیز پارک اور میونسپل لائبریری تھی اور اس سے آگے تانگوں کا اڈّا اور ڈنگر ہسپتال، پھر ہانسی بس سروس کی پارکنگ لاٹ اور اڈا اور اس سے پیوست جالندھر سویٹ ہاؤس ۔ شہر کا اصل چہرہ یہاں سے نمودار ہوتا تھا مگر بازار دو ہی تھے۔مین بازار جہاں کھوے سے کھوا چِھلتا تھا ۔ اُس کا مشرقی بازار جو سُناروں، بزازوں اور جوتوں کی دکانوں کا مرکز تھا ۔ اس کے ماتھے پر "ٹرنک بازار” اور اس سے آگے ریل بازار، جس کے مشرق میں سول ہسپتال ،ایم سی سکولوں کی چین اور اس سے بہت آگے کی طرف نشاط سنیما تھا جو آبادی کی آخری اور اُدھر سےآغاز ِشہر کی پہلی نشانی تھی۔
ہم جس سڑک یعنی تلمبہ روڈ سے آتے تھے ۔ شہر اس کے بائیں جانب تھا ۔ دائیں طرف گوشت مارکیٹ اور مین بازار کے ماتھے پر مغرب کی طرف کچھ آگے چل کر ڈاکٹر عنایت کا کلینک تھا جو درحقیقت کمپونڈر ہی تھے مگر مزے کے آدمی تھے ۔ دوسرا کلنیک ایک اور کمپونڈر محمد حسین کا تھا اور یہ دونوں صاحبان میرے والد کے دوست تھے ۔ مجھے ان سے کئی بار انجکشن لگوانے کا تجربہ ہے، جو آپریشن کی تیاری جیسا سنجیدہ کام ہوا کرتا تھا۔سُرنج کی ہڈیاں الگ کر کے اُبالی جاتیں، پھر انہیں جوڑ کر ایک خاص ادا سے دو تین شیشے کی نفیس نلکیوں کی گردن مروڑ کر بھرا جاتا ۔ چند کڑے جھٹکے دے کر شیرازے کو محلول کی شکل دی جاتی اور اس دعوے کے ساتھ کندھے کے کہیں قریں جلد میں اُتارا جاتا کہ ان کے ہاتھ کی نرمی اور ملاحت کی تعریف تو ماورائی مخلوق بھی کرتی ہے مگر یہاں مشکل یہ تھی کہ پوروں سے کندھے تک کہیں گوشت کی نمو ہو ہی نہیں پائی تھی سو ہڈّی میں اُترنے والی سوئی کی جو تکلیف ہونی چاہیے، وہ ہوتی تھی اور تب یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ میرے سِوا ان کے سبھی مریض ایجکشن تیار ہوتے ہی پِیٹھ موڑ کر کھڑے کیوں ہو جاتے ہیں۔
ایک اور کمپونڈر ڈاکٹر ڈُڈّا تھے ۔ نام تو کچھ بھلا سا تھا مگر اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا ۔ ان کی دکان کے ساتھ افیون کا ٹھیکہ تھا ۔ میں ان کے پاس برسوں جاتا رہا مگر وہ کبھی پِینک میں دکھائی نہیں دیے ۔ ہمیشہ بنے ٹھنے رہتے تھے اور مجھے دیکھ کر خصوصی بتّیسی دکھاتے تھے ۔ کیوں یہ بھید مجھ پر کبھی کُھل نہیں پایا۔
ٹی چوک سے بائیں طرف وسیع و عریض غلّہ منڈی تھی ۔ لاہور جانے والی سڑک کے مشرقی جانب اجناس اور کھل بنولے کی دکانیں اور دو ایک بینک، مغربی سمت میں ملتان جانے والی سڑک پر اُجل سنگھ بلڈنگ سے آگے سڑک کی بائیں طرف چار عدد کپاس کے کارخانے اور دائیں سمت دو ایک مشروب کی دکانوں اور بوہڑ درخت کے بعد رڑا میدان ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ڈیڑھ ماہ ہی میں ہر شخص ہمیں پہچاننے لگا اور جب میرے برادرِ عزیز مہر طالب کو سکول سے سٹکنے یا سِرے ہی سے وہاں قدم رنجہ نہ فرمانے کا شوق چرایا تو ان کا کھوج لگانے اور ڈنڈا ڈولی کر کے سکول پُہنچانے میں اٗن کی خدمات ہر وقت صرف دستیاب ہی نہیں تھیں بلکہ وہ کئی بار خود کفالت کا مظاہرہ بھی کر لیتے تھے۔
یہی دن تھا جب میری شہر کے لڑکوں سے دوستی کا آغاز ہوا۔اس کے باوجود کہ میرے اندر اور باہر کے جانگلی پر ابھی شہر کا رنگ چڑھنے میں بہت دیر تھی۔

درس گاہ – 13

یہی زمانہ تھا جب مہر طالب حسین کو بھی پکا حاجی مجید کے سکول سے اُٹھا کر ایم سی پرائمری سکول میاں چنوں میں داخل کرایا گیا مگر اس سے پہلے ان کی چڑیا اُڑانے کا اہتمام کیا گیا ۔ اعزّہ اور سنگتیوں کو باقاعدہ نامہ بر بھیج کر سدّا دیا گیا ۔ خواتین بن ٹھن کر بلکہ میری ماں کے بقول ہندنیاں بن کر آئیں ۔ مردوں نے بھی دھوبی کے دُھلے مائع والے کپڑے پہنے اور پگڑیوں کے دو دو طُرّے نکال کر مسجد کے پیچھے کُھلے میدان میں لگی جھولداری میں یک جا ہوئے ۔ چاروں طرف رنگین پایوں والی دوہر سرہانے والی چارپائیوں کا پِڑ بنا کر بیچ میں رنگلے پیڑھے پر موصوف کو بٹھایا گیا تو مرکز ِ نگاہ ہونے کی لذت سے آپ کی باچھیں پھٹی پڑتی تھیں اور کیوں نہ پھٹتیں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ اپنے رضاعی رشتہ داروں کی سریلی اور رسیلی آواز میں "طالب حسینا پُھلاں دا شونقی،ٹہنی پھڑ کے کھلا رہیا” جیسے مدحیہ گیت سُن کر آئے تھے مگر جب محفل میں رنگین جِھمّی اوڑھا کر نائی نے اپنی رَچھانی کھول کر آلہِ پرواز ِاوسان نکالا تو مہر صاحب نے فرار کی ایک نحیف سی کوشش کی مگر وہ کہتے ہیں نا "پھاہدھی دا کیہ پھٹکن”- دیر ہو گئی تھی اور چڑیا ہی نہیں پورا سیمرغ قریبی جنّات کے قبضے میں تھا ۔ ایک فلک شگاف چیخ سینکڑوں تماشائیوں کے فلک شگاف قہقہے کے حضور سرنگوں ٹھہری اور کافری، سرجن کے ہاتھ میں سر چُھپا کر ہمیشہ کے لیے عنقا ہو گئی۔

ہمارے یہاں کئی اقسام کے میٹھے چاول پکتے تھے مگر پلاؤ خاص مواقع پر ہی بنایا جاتا تھا ۔ اس رسم کی ادائیگی پر مٹن (مگر یہ لفظ تو وہاں کے لوگوں کے لیے آج بھی اجنبی ہے) یعنی بکرے کے گوشت کی دیگیں چڑھیں، پلاؤ اور متنجن بنایا گیا ۔ ناظرین میں باٹنے کے علاوہ گھروں میں بھی مٹھائی بھجوائی گئی ۔ جس کے لیے حلوائی رات ہی کو پہنچ گیا تھا ۔ میسو، عربی توشہ، بوندی، نمک پارے، اندرسے اور جلیبی ہمارے سامنے بنائے گئے ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جلیبی میں شیرہ انجکشن کے ذریعے نہیں بھرا جاتا اور یوں بڑے بھائی مہر نواب کی بخشی وِدیا پر مجھے پہلی بار شک ہوا ۔ یہ بات مجھے بہت بعد میں سمجھ آئی کہ وِدیا ہمیشہ شک کی محتاج ہوتی ہے اور کوئی سچ مکمل سچ نہیں ہوا کرتا۔
مہر نواب جس قدر وجیہہ، شگفتہ مزاج، شرارتی اور بہار ایجاد تھے، مہر مراد خاں اتنے ہی خاموش، ذات مست اور لیے دیے رہنے والے تھے ۔ وہ سورج نکلتے ہی دودھ دوہنے کے برتن اُٹھا کر اپنی بھینی کا رُخ کرتے تھے ۔ جہاں انھوں نے اپنی مصروفیت کا وافر انتظام کر رکھا تھا ۔ وہ کھال کمیٹی کے سربراہ تھے سو پانی کی باری اور اس سے وابستہ امور کو نپٹانے کے علاوہ اپنے طرح طرح کے ملاقاتیوں میں گِھرے رہتے تھے ۔ وہ ہر کام کو اپنی بھینی پر ہی نپٹانے کے عادی تھے ۔ شام کو گھر آتے تھے تو وہ ہوتے تھے اور ان کا ریڈیو ۔ جس پر مستقل طور پر "بی بی سی” بجتی رہتی تھی بس لوکل خبروں کے لیے کہیں کہیں لاہور کی باری بھی آ جاتی تھی ۔ میں نے پہلا ٹرانسسٹر ریڈیو انہی کے پاس دیکھا اور اس کے بعد یہ ریڈیو گاؤں سے باہر جانے پر ان کے سائیکل پر ساتھ ہی سفر کرنے لگا ۔ سائیکل سے موٹر سائیکل پر منتقل ہونے پر بھی انہوں نے اس رفاقت کو ترک نہیں کیا۔
وہ ناظرہ قرآن پڑھے تھے ۔ ابّاجی کی طرح بلند آہنگ تلاوت کے عادی تھے اور پنج وقتہ نمازی بھی اور کبھی لہر میں آ جانے پر بالکل ابّاجی کی طرح چہکتے بھی تھے ۔ اس لیے مجھے اُن سے باتیں کرنا اچّھا لگتا تھا ۔ میں بطورِ خاص انھیں ملنے جاتا تھا تو وہ ضرروت سے زیادہ احترام دیتے تھے ۔ "یار ایتھے بہو” کہہ کر اپنی چارپائی پر سُکڑتے جاتے تھے ۔ اس قدر کہ اُن کے گِرنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا تھا۔
میں اور طالب نے پہلی بار سنیما انہی کی رفاقت میں دیکھا ۔ سنیما کا ذکر تو مہر نواب کرتے تھے مگر جب ابّا جی سے میرے پانچویں جماعت پاس کرنے پر فلم دیکھنے کی اجازت ملی تو تانگے پر ہمارے ساتھ جانے والے بھاؤ مراد تھے ۔ ہماری پہلی فلم، درپن اور غالباً مسرت نذیر کی "گُلفام” تھی ۔ جس کے ایک گیت کے بول تھے "اُٹھا لے آپ ہی خنجر اُٹھا لے۔۔۔نہ کر بے درد دُنیا کے حوالے” ۔ یہ فلم ہم نے میاں چنوں کے اکلوتے سنیما کے ڈریس سرکل میں دیکھی ۔ ہم آرام دہ کرسیوں پر تھے اور ہم سے آگے لکڑی کے بنچ دھرے تھے جن کی ٹکٹ بارہ آنے تھی سو گمان ہے کہ ہم ڈیڑھ روپے والی کلاس میں تھے۔
فلم سے پہلے انگریزی کی کوئی دستاویزی فلم دکھائی گئی ۔ جس میں شیروں کا ایک جُھنڈ شکار پر نکلا ہوا تھا ۔ اس سے پہلے ہم نے شیر کو صرف تصویروں میں دیکھا تھا اور کہانیوں میں ملاقات کی تھی ۔ اُسے اس قدر بڑی سکرین پر بھاگتے دوڑتے اور جانوروں کا شکار کرتے دیکھنا انوکھا تجربہ تھا۔کچھ کچھ مزہ بھی آیا مگر دل پر ہلکے ہلکے خوف کا غلبہ بھی تھا ۔ اس بیچ خرابی یہ ہوئی کہ ایک ببر شیر نے ناظرین کی طرف منہ کر کے جست بھری ۔ بخدا یوں لگا جیسے وہ سکرین سے نکل کر ہم پر آ گرے گا ۔ میں تو کانپ کر رہ گیا مگر طالب حسین نے چیخنا اور رونا شروع کر دیا سو ہمیں سنیما سے باہر آنا پڑا ۔ باقاعدہ فلم شروع ہونے تک ہم باہر ہی رہے ۔ بھائی نے طالب کو دلاسہ دیا ۔ دل جوئی کی، سوڈا پلایا، پیسٹری کھلائی جو کاغذ کی پھول نما رکابی میں رکھ کر بیچی جاتی تھی، نشاط سنیما کی عمارت گھوم پِھر کر دکھائی اور بڑی مشکل سے طالب کو اصل فلم دیکھنے پر آمادہ کیا ۔ خیر اُس فلم کے دوران میں خیریت گزری ۔ اس لیے کہ اس میں کوئی درندہ نہیں تھا اور جو تھے انہیں ایک دوسرے کی پٹائی ہی سے فرصت نہیں تھی۔
رات کو ہم علیا سُنارے (علی محمد کھرل) کےہاں ٹھہرے ۔ ان صاحب سے ہماری نسبت بھی خوب تھی ۔ یہ میرے والد اور بھائیوں کے مشترکہ دوست تھے اور ہمارے خاندانی زرگر ۔ انہوں نے بلاشبہ ہمارے خاندان کے لیے سیروں سونا گھڑا ہو گا ۔ کٹھ مالا، جُھومر، بلاق، پازیبیں، ٹِکّے، پنجانگلے اور نہ جانے کیا کیا مگر ایک بار ضرورت پڑنے پر کسی زیور کو تڑوانے کی ضرورت پڑی تو پتا چلا ٹھوس سونے کے زیور اصل میں لوہے کے ہیں اور ان پر سونے کی مہین تہ چڑھی ہے ۔ بیسیوں دوسرے رشتہ دار سنّاروں کی موجودگی میں انہوں نے سو تولے سے بھی زائد سونا لوٹا دینے کا وعدہ کیا جو کبھی ایفا نہیں ہوا مگر دوستی برقرار رہی۔ان کی بیگم میری ماں کو”بھین”کہتی رہی اور ہم وقتے کووقتے ان کے یہاں ٹھہرتے رہے۔

طالب حسین کے داخلے کے وقت تک میاں چنوں والا مکان بن گیا تھا ۔ ہماری چھوٹی بہن پیدا ہو کر پاؤں پاؤں چلنے لگی تھی ۔ مکان میں بجلی اور پانی کے کنکشن لگ گئے تھے ۔ چولھا جلانے کے لیے لکڑی کی کمی نہیں تھی کہ ہمارے ماچھی سلطان اور پہلوان ہٹھاڑ سے لئی اور کانہہ کی جھاڑیوں کے بھار اونٹوں پر لاد کر ہمارے مکان پر اتار جاتے تھے ۔ آٹا، چاول، گھی، دودھ، مکھن اور کئی دیگر لوازمات گاؤں سے بھجوا دیے جاتے تھے ۔ ریلوے لائن اور گھر کے بیچ سرکاری اور کہیں ذاتی زمین پر لکڑی کے کئی ٹال تھے، جہاں صبح سے شام تک آرے چلتے رہتے تھے اور لکڑی کا کام ہوتا رہتا تھا ۔ ہمیں "چھوڈوں” کی طلب ہوتی تو چاچا رحیم یا چاچا پہلوان گِل کے ٹال پر پیغام بھجوانا کافی رہتا تھا ۔ وہ منوں بل کہ ٹنوں کے حساب سے لکڑی کے گٹّھے بھجوا دیتے تھے۔
گوشت کے لیے گوشت مارکیٹ میں یوسف قسائی کی دکان پر جانا طے تھا ۔ وہ روزانہ بِن کہے، بکرے کا گول بوٹی والا ایک پاؤ گوشت صاف کرکے اور تول کر ہمارے حوالے کر دیتا ۔ سبزی کے لیے میرے ہم جماعت نذر کے والد کی دکان مقّرر تھی اور یہ ساری خریداری ایک روپے سے زیادہ کی نہیں ہوا کرتی تھی۔
کریانےکا سامان ایک اور ہم جماعت ادریس کے والد کی دکان سے آتا تھا ۔ ان کی پنسار بھی تھی ۔ ان کے روبرو حکیم کمال دین کی دکان تھی جو انگریزی دوائیاں بھی بیچتے تھے ۔ ان کے ایک صاحب زادے سلیم گِل میرے ہم جماعت تھے ۔ بعد میں ان کے بڑے بھائی جمیل اقبال گِل بھی فیل ہو کر میرے ہم جماعت بن گئے، جن کے چچا زاد حفیظ بھی ہمارے دوست بنے ۔ یہ وہی عبدالحفیط ہیں جو جماعتِ اسلامی کے اہم رُکن تھے ۔ اسلامک پبلی کیشنز کے انچارج رہے اور سُنا ہے کہ موجودہ سر براہِ جماعت اسلامی کے انتخاب کے عمل کے بھی انچارج تھے ۔ میں سونے اور چاندی کے ورق حفیظ کے والد کی دکان سے خریدا کرتا تھا جو گھر کی بنی برفی اور سوہن حلوہ پر لگائے جاتے تھے ۔ ان "ورق” کے حوالے سے ایک بار معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اقبال علی اظہر سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ان کے کرائے کیمیائی ٹیسٹ میں وہ ورق سو فیصد خالص ثابت ہوئے تھے۔
ء1962 اور شاید ستمبر کا آغاز تھا جب میں،میری والدہ،بڑی بہن شمیم اختر اور چھوٹی بہن تسلیم اختر میرے ہم عمر ملازم چراغ کے ساتھ اس گھر میں منتقل ہوئے۔جس کے ماتھے پر دوکمرے، پھر صحن بائیں طرف کچن اور گھوم کر پچھلے حصّے کی چھت پر جانے کے لیے سیڑھیاں تھیں ۔ پچھلے حصّے میں دو کمروں کے سامنے برآمدہ اور بغل میں غسل خانہ تھا۔دس مرلے کا یہ پلاٹ جو وسعت میں لاہور کے بارہ مرلے کے برابر تھا،پورا چھتا نہیں گیا تھا ۔ بغل میں چارمرلے جگہ نیم پختہ تھی اور شاید تانگے گھوڑے کے لیےخالی چھوڑ دی گئی تھی ۔ اس کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا تھا اور ایک اندر صحن میں ۔ باہر کے کمروں میں مہمان ہونے کی صورت میں یہ دروازے گھر سے باہر جانے کی سہولت دیتے تھے۔
میرا سکول اور طالب کا سکول ساتھ ساتھ تھے ۔ اس لیے طے تھا کہ ہم ساتھ ہی آیا جایا کریں گے ۔ تب وہ دوسری اور میں چھٹی جماعت میں تھا اور یقین تھا کہ یہ رفاقت کم از کم پانچ برس تو ضرور برقرار رہے گی۔

درس گاہ – 12

تانگے پر روزانہ میاں چنوں آنے کا وظیفہ جاری تھا کہ ابّا جی کو شہر میں گھر بنانے کا خیال آیا ۔ اس لیے بھی کہ روزانہ شہر آنے کی مشقت آسان نہیں تھی اور اس لیے بھی کہ ابا جی کے پاس رہن رکّھی گئی چار ایکڑ زمین پٹواری نے کسی اور کو الاٹ کر دی تھی جس کی ملکیت اور قبضے کا مقدمہ کئی برسوں سے پہلے تحصیل (خانیوال) اور بعد میں ضلع (ملتان) کی دیوانی عدالت میں چل رہا تھا ۔ اسی زمانے میں بڑے بھائی مہر مراد پر قتل کے الزام میں مقدمہ بنا اور وہ خانیوال شیشن جج کی عدالت میں زیر ِسماعت تھا ۔ ان مقدمات کی پیروی کے لیے ابّا جی اکثر ملتان یا خانیوال جاتے رہتے تھے اور مطلوبہ ٹرین پکڑنے کے لیے انہیں رات کو کسی جاننے والے کے ہاں قیام کرنا پڑتا تھا ۔ ایسے بہت سے گھر تھے جو ان کی آمد کے منتظر رہتے تھے، جیسے اسٹیشن کے بالکل مقابل ریاض حسین قریشی کا دولت کدہ، ذرا آگے چل کر معین الاسلام سکول کے پہلو میں حاجی محمد جرولہ کا مکان اور شہر میں پیر ثنا اللہ بودلہ کا گھر اور کھرلوں (جو زرگری کے کام سے وابستہ تھے) کے کئی گھرانے مگر شاید وہ خود اس آئے دن کی مہمانی سے اُکتا گئے تھے کہ بعض اوقات شام کو دیر ہو جانے پر بستی جانے کے لیے کوئی سواری نہ ملنے کی وجہ سے بھی رات کو شہر میں قیام کرنا ضروری ہو جاتا تھا ۔ کرائے پر چلنے والے تانگے مغرب تک اپنی منزل پر پہنچ جاتے تھے کہ شہر سے باہر روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔ آخری بس بھی مغرب کے لگ بھگ نکل جاتی تھی اور اُس سے اپنے اڈّے (جراحی موڑ،خونی موڑ یا موڑ پکا حاجی مجید) پر اترنے کے بعد تاریکی میں کم از کم دو میل کے پیدل سفر کا عذاب الگ ۔ اگرچہ راستے اور سفر محفوظ تھا مگر آخری سواری نکل جانے کے بعد شہر میں رکنا مجبوری تھی کہ چھے میل یا دس کلومیٹر کوئی چلے تو کیسے چلے اور وہ بھی گہرے اندھیرے یا ملگجے چاند کی روشنی میں ۔ سو شہر میں گھر بنانے کا خیال آنا فطری تھا اور یہ کام اس لیے قدرے آسان بھی تھا کہ میری ماں نے اپنے پلّے سے دس مرلے جگہ پہلے ہی خرید رکھی تھی۔
مکان کا نقشہ اور بنانے کا ٹھیکہ تلمبہ کے مستریوں کو دیا گیا ۔ اس سے برسوں پہلے انھی مستریوں نے قیام ِپاکستان سے پہلے غالباً 1940ء میں ہمارا بستی والا گھر تعمیر کیا تھا ۔ اس کارخانہ نما گھر کی لاگت تو مجھے معلوم نہیں مگر میاں چنوں والے مکان کا ٹھیکہ مع میٹریل چھے ہزار روپے تھا اور یہ مجھے اس لیے معلوم ہے کہ جمع بندی پر اس مکان کے اخراجات لکھنے کا کام میرے ذمّے تھا۔
اس مقصد کے لیے ابّا جی کبھی میرے ساتھ ہی شہر آ جاتے تھے پھر مجھے چھٹی ہونے پر ساتھ لیے بستی پلٹ جاتے تھے۔ تانگے پر مجھے سب سے زیادہ دلچسپی پاؤں سے بجانے والی گھنٹی سے تھی جس کی آواز برسوں بعد مجھے میرے دفتر میں پیون کو طلب کرنے والی انگلی کے دباؤ سے بجنے والی گھنٹی سے مماثل لگی ۔ یہ گھنٹی راہ چھوڑنے کی چتاؤنی بھی تھی اور سواری کے شاہی ہونے کا اعلان بھی اور اس آواز پر راہ سے ہٹتے لوگ مجھے اچّھے لگتے تھے۔
اسی زمانے میں بڑے بھائی مہر نواب نے مجھے ایک گھڑی تحفے میں دی ۔ اس سے پہلے ابا جی کے پاس ایک رسٹ واچ تھی مگر وہ اسےکم ہی استعمال کرتے تھے ۔ ان کی پسندیدہ گھڑی ایک ٹیبل کلاک تھی جو نماز کے اوقات کے لیے الارم بجانے کے کام آتا تھا اگرچہ انہیں نماز کے لیے کبھی الارم کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔وہ پنج وقتہ نمازی تھے اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے جایا کرتے تھے، جس کا ایک فائدہ یہ تھا کہ بستی کے مردوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ نماز میں شامل ہوتی تھی ۔ وہ ہم بہن بھائیوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرتے تھے مگر کبھی اصرار کر کے مسجد نہیں لے گئے ۔ ہاں جمعے کی نماز کے لیے خصوصی تیاری ہوا کرتی تھی اور ان کے ساتھ کوٹ برکت علی خاں کی جامع مسجد میں جا کر نماز پڑھنا لازم تھا ۔ جس کے بعد کوٹھی پر کسی نہ کسی خاں صاحب سے صاحب سلامت کے لیے رکا جاتا تھا ۔ خاں صاحب خواہ لیاقت علی خاں ہوں یا ڈپٹی عبدالحمید خاں کہ ذوالفقار علی خاں سب بہت آؤ بھگت کرتے تھے ۔ چائے، شربت اور پھل سے تواضع کی جاتی تھی اور وہ بھی باغ سے تازہ چُنے ہوئے ۔ میں آم ، انار، کیلےاور امرود وغیرہ سے تو متعارف تھا مگر انجیر اور بِل میں نے پہلی مرتبہ اس بنگلے سے ملحقہ باغ میں دیکھے ۔ بِل کی سختی اور وزن دیکھ کر پقین نہیں آتا تھا کہ اس کا شمار بھی پھلوں میں کیا جا سکتا ہے ۔ مجھے تو ناریل کی طرح یہ پھل کم اور آلہء ضرب ِ شدید زیادہ لگتا تھا۔
بھاؤ نواب (مہر نواب خاں) نے مجھے جو کلائی کی گھڑی تحفے میں دی وہ چمڑے کے پٹے والی نفیس سنہرے رنگ کی فیور لیوبا تھی ۔ شاید یہ کوئی سوِس کمپنی تھی ۔ گھڑی تو بہت خوب صورت تھی مگر اس میں دو قباحتیں تھیں ۔ پہلی یہ کہ اس پر کندہ ہندسے کسی اور زبان میں تھے ۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ گنتی کی یہ ادا رومن کہلاتی ہے ۔ میں اس سے پہلے اردو، انگریزی، عربی اور ہندی ہندسوں سے آشنا تھا کہ گھر کی جمع بندیوں، جنتریوں، مذہیی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے اور سکول میں ان ہندسوں کا استعمال دکھائی دیتا تھا مگر یہ ہندسے میرے لیے نئے تھے اور مجھے وقت دیکھنے اور بتانے میں دقت ہوتی تھی اور دوسری دقت یہ کہ میں بھاؤ کی بڑے بڑے انگریزی ہندسوں اور رات کو دمکنے والی ویسٹ اینڈ واچ پر عاشق تھا ۔ اس لیے میں نے ان سے بلا تکلف اپنی ناپسند کا اظہار کر دیا اور انہوں نے نئی گھڑی دینے کا وعدہ پورا ہونے تک مجھے یہ گھڑی پہنے رکھنے کی ہدایت کی ۔ یہ وعدہ پورا ہوا مگر اس سے پہلے مجھے اس گھڑی کے مکینکس سمجھنے کا شوق چرایا کہ میں نے کہیں گھڑیوں کی دکان پر ایک صاحب کو آنکھ پر ڈھکن نما عدسہ لگا کر کسی گھڑی کو مرمت کرتے دیکھا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ مجھے بھی اس گھڑی کو کھول کر دوبارہ فٹ کرنا چاہیے سو میں نے قینچی اور بلیڈ کی مدد سے اسے کھولا، اس کی سانس اور دھڑکن ملاحظہ کی اور اسے روک کر دوبارہ بحال بھی کر لیا مگر اس کلنیکل ملاحظے میں اس کی ایک سوئی کہیں کھو گئی اور اب وہ گھنٹوں کی ذیلی تقسیم کرنے سے معذور ہو گئی سو اسے طاق ِنسیاں کے سپرد کرنا پڑا جہاں وہ اکیلی نہیں تھی، ایک گراموفون، ایک ریڈیو اور متعدد چابی والے کھلونے اس کی دل داری کے لیے وہاں پہلے سے موجود تھے۔

بھاؤ نواب اس وقت کوئی چالیس بیالیس کے پیٹے میں تھے ۔ درمیانہ قد، فربہی مائل جسم، دیدہ زیب نقش (سنا تھا کہ جوانی میں لوگ انھیں دلیپ کمار سمجھ لیتے تھے) ،بالوں سے محروم ہوتی چندیا جسں پر وہ نفیس قراقلی ٹوپی پہنتے تھے اور یہ ٹوپیاں لاہور جا کر خریدی جاتی تھیں ۔ میری فیور لیوبا بھی ایسی ہی ایک مہم کے دوران میں آئی تھی ۔ ان کی طبیعت میں شگفتگی تھی اور لبوں پر چوبیس گھنٹے مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی ۔ مجھ سے چھوٹے بھائی مہر طالب حسین کو وہ خوب چڑاتے تھے مگر مجھے نہیں ۔ وہ عام طور پر میری ذہانت کا امتحان چیستانی سوالات سے کیا کرتے تھے۔ان میں سے کئی سوال مجھے آج تک یاد ہیں جیسے
ہم دیکھیں بار بار
بادشہ کبھی کبھی
کیا ہے ایسی چیز
جسے دیکھتا خدا نہیں
ایک سوال سات چار دیواریوں اور ہر چاردیواری کے گیٹ پر متعین نگرانوں والے باغ سے سیب توڑ کر لانے کے بارے میں تھا ۔ اس طرح کہ ہر نگران کو شرط کے مطابق آدھے سیب دینے اور وعدے کے مطابق ایک سیب واپس لینے کے بعد آپ کے توڑے ہوئے سیبوں کی تعداد اتنی ہی رہے ۔ میں اس نوع کے سوالات کے جواب کم ہی دے پاتا تھا مگر مجھےان کے ساتھ مغز ماری میں لطف بہت آتا تھا اور ان سے ملنے کا ہمیشہ متمنی رہتا تھا ۔ یہ بات الگ کہ اپنے ملازمتی امور اور احباب سے انہیں کم ہی فرصت ملتی تھی اور وہ ہر روز کسی نہ کسی افسر یا زمیندار کے یہاں دعوت پر مدعو ہوا کرتے تھے۔

درس گاہ – 11

زندگی کے پہلے دس برس کئی حوالوں سے اہم تھے ۔ اس لیے کہ میری کیفیت "صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے” جیسی تھی ۔ دونوں سوتیلے بھائی اور تینوں تایا زاد عمر میں پندرہ تا تیس برس بڑے تھے ۔ ایک بھائی اور ایک تایا زاد کبڈی کے معروف کھلاڑی رہ کر اب گھریلو زندگی میں مست تھے ۔ بڑے بھائی قیام پاکستان سے پہلے ایک اہم عہدے سے ترقیءمعکوس کر کے اب قریب کے کسی حلقے میں بہت دانش مند پٹواری تھے (سُنا تھا وہ کسی گیلانی وزیر کی سفارش پر نائب تحصیلدار بھرتی ہوئے تھے مگر پہلے کسی ڈپٹی کمشنر کو تھپڑ مارنے پر نوکری سے نکال دیے گئے اور پھر انہی وزیر کی دوبارہ سفارش پر ملازمت ملنے پر کاٹھیہ فیملی کے ایک بزرگ دوست کے دیوانی مقدمہ میں مدد کے لیے سرکاری ریکارڈ جلانے کے جرم میں معزول کیے گئے تھے اور اب اپنی پٹوار پر قانع تھے) ۔ دو کزنز کو اپنے دوستوں اور اپنی سیلانیء طبع سے فرصت نہیں تھی اور ایک بھائی اور کزن قتل کے الزام میں گرفتار تھےتاہم وہ جلد بری ہو کر آ گئے
سو میری دنیا اپنے ہم عمر بھائی بھتیجوں کے ساتھ کچھ دیر کھیل کود کر اپنی کتابوں تک محدود تھی ۔ گاؤں سے باہر ابھی دوستی کا دائرہ وجود میں نہیں آیا تھا ۔ ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ساتھ ارد گرد کی آبادیوں (جراحی، غازی پاندھا، بستی سنپالاں، سات چک اور کوٹ برکت علی وغیرہ) میں شادی بیاہ یا تہواروں کے مواقع پر آنا جانا رہتا تھا ۔ تلمبہ اور میاں چنوں کا چکر بھی لگ جاتا تھا (میاں چنوں کے زیادہ تلمبہ کے کم بہت کم) . میلے ٹھیلوں پر نورشاہ، پیر شینا، بالے بم تک (جدّی ملازم کے ساتھ) جانے کی اجازت بھی تھی، جہاں کبڈی کے میچ دیکھنے کا لطف اب بھی مرے وجود کا حصّہ ہے ۔ ایک آدھ بار حضرت عبدالحکیم کے میلے پر بھی گیا اور عنایت حسین بھٹّی کا تھیٹر دیکھنے کے بعد رات چڑھووں کے ہاں بسر کی تھی (نور شاہ کے میلے پر بھی کئی ٹھیٹر دیکھنے کا موقع ملا کہ وہاں تھیٹر لگانے والوں کی روٹی ہمارے یہاں سے جاتی تھی) مگر بستی میں میں اپنے کمرے تک محدود ہوتا جا رہا تھا اور مجھے اپنی اس تنہائی سے وحشت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ہم اور ہمارے ارد گرد کے زمیندار آسودہ حال تھےبلکہ ہم سے زیادہ مگر یہ نمود و نمائش کا زمانہ نہیں تھا ۔ اکثر زمینداروں کے پاس اپنے تانگے تھے۔مشینی سواریاں اتنی کم تھیں کہ مجھے ذہن پر زور دے کر صرف پیر برکت علی شاہ کی جیپ یاد آتی ہے، جسے سٹارٹ کرنے کے لیے پنکھے کے ساتھ ایک ہینڈل فٹ کر کے گھمانا پڑتا تھا اور ردھم پکڑنے کے بعد وہ کچے راستوں اور ندی نالوں کو ناپنے بلکہ ٹاپنے کے لیے تیار ہو جاتی تھی ( کسی کار یا جیپ پر میرا پہلا سفر اسی جیپ پر اپنے کنبے کے ساتھ ملتان گھومنے آنے کا تھا) ۔ کار نہ رکھنے کی ایک وجہ شاید سولنگ یا پختہ سڑکوں کا نہ ہونا بھی تھا ۔ جہاں تانگوں کے جہازی پہیے دھنس کر رہ جائیں وہاں کار کا کیا کام ۔ ہاں جیپ سے کام چل جاتا تھا ۔اس لیے وہ کچھ زمینداروں کے پاس تھی مگر بس گنتی کے دو ایک لوگوں کے پاس۔
ء1962 میں مجھے ایم سی ہائی سکول میاں چنوں داخل کرایا گیا۔اس سکول کی صلاح جراحی کے ماسٹر واحد بخش نے دی تھی اور وہ داخلہ ٹیسٹ کے سلسلے میں میرے ساتھ سکول بھی آئے تھے ۔ یہ ٹیسٹ صرف حساب کے مضمون کا تھا اور پرائمری سکول کے ایک کلاس روم میں لیا گیا تھا ۔ میرا فیل ہونا فطری تھا کہ شاید نصاب کی کتاب ہی مختلف تھی اور اکثر سوال میرے لیے نئے تھے ۔ سو میرے والد صاحب نے اپنے تعلقات کو آزمایا ۔ سکول میں ماسٹر واحد بخش کے ایک دوست ماسٹر عبدالحق تھے، جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہندو سے مسلمان ہوئے تھے، مجھے ان کی کلاس میں بٹھایا گیا اور میں اس سکول کی عمارت، وسعت اور میدان دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ یہ عمارت جلال وجمال کا خوبصورت نمونہ تھی اور میں خوش تھا کہ مجھے اگلے پانچ برس یہاں گزارنے ہیں۔

میں گھر سے تانگے پر سکول آتا ۔ سکول کے باہر درختوں کی چھاؤں میں تانگہ کھول دیا جاتا اور ممّو ماچھی جو بطور کوچوان میرے ساتھ آتا تھا، تین بجے سہہ پہر تک وہیں کہیں موجود رہ کر میرا انتظار کرتا ۔ سکول میں شہری پنجابی اور گلابی اردو بولنے کا رواج تھا اور اردو کی بیسیوں زائد از نصاب کتابیں چاٹنے کے باوجود مجھے ہر دو زبانیں بولنے میں جھجک کا سامنا تھا ۔ اس لیے شہری لڑکوں نے جو شرارتوں اور خود پر اعتماد میں مجھ سے بہت آگے تھے ۔ مجھے اپنی ذاتی گفتگو میں "جانگلی” کا لقب دے دیا ۔ میری طرف دوستی کے ہاتھ کم ہی بڑھے اور مجھے بھی کسی سے گھلنے ملنے میں دقت رہی، جب تک پہلے سہہ ماہی امتحان نہیں ہوئے ۔ اس امتحان کا نتیجہ خود میرے لیے حیران کن تھا ۔ میری پوزیشن بری نہیں تھی اور اردو میں تو میں پورے سکول میں اوّل آیا تھا ۔ میں جانگلی تو تب بھی رہا اور اب بھی ہوں مگر تب اساتذہ اور ہم جماعت لڑکوں نے مجھے سنجیدہ لینا آغاز کیا اور میں بھی اپنے احساس ِ کمتری سے نکل کر دوسروں کی برابری کی سطح پر آ کھڑا ہوا۔
سکول میں امیر غریب کی کوئی تفریق نہیں تھی ۔ سکول یونیفارم ملیشیا کا پاجامہ قمیص تھا ۔ سکول لگنے پر اسمبلی ہوتی تھی ۔ تلاوت اور ترجمے کے ساتھ تفسیر کے بعد دعا (لب یہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری..لحن کے ساتھ) اور پی ٹی ہوتی تھی اور پھر کلاسز ۔ وہی جانے پہچانے ٹاٹ، سلیٹ اور تختیاں ۔ ہاں گھر کا کام کرنے کے لیے کاپیوں ، پینسلوں اور رنگوں کا اضافہ ہوا ۔ آدھی چھٹی ہونے پر سکول کے سامنے بیسیوں ریڑھیاں مختلف سوغاتیں لیے لگ جاتی تھیں ۔ موسم کے لحاظ سے زیادہ بِکری قلفی، پکوڑوں اور شربت والوں کی ہوتی تھی ۔ خشک میوے اور پھل بھی خوب بکتے تھے اور اس عیاشی کے لیے دو آنے بہت ہوا کرتے تھے۔
میرے تانگے پر سکول آنے کا فائدہ اٹھانے والے کئی تھے ۔ شہر جانے کے لیے کچھ لوگ میرے منتظر رہتے تھے جن میں پیر سوہارے شاہ خصوصیت سے لائقِ ذکر ہیں ۔ واپسی پر بستی کا کوئی نہ کوئی آدمی ساتھ ہو لیتا تھا اور مجھے اس خدمت میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ اسی زمانے میں مجھے گھوڑے کی باگیں اپنے ہاتھ میں لینے کا شوق چرایا ۔ ہمارا گھوڑا نازوں پلا اور کافی اتھرا تھا اور وہ باگ پکڑنے والے کے ہاتھ پہچانتا تھا مگر میں نے جلد ہی اس پر قابو پا لیا اور شہر آتے جاتے تانگہ چلانے کا کام خود کرنے لگا۔اس کے باوجود کہ میرے ابّا جی کی طرف سے اس کی ممانعت تھی اور اس سلسلے میں ممّو کو خاص تاکید بھی تھی مگر جب خودسری سر چڑھ کر بول رہی ہو تو بے چارہ ممّو کیا کرتا۔

درس گاہ – 10

میں چوتھی جماعت میں تھا جب میرے چھوٹے بھائی مہر طالب حسین کو اس سکول میں داخل کرایا گیا اور بہن کو اُٹھا لیا گیا ۔ کھیلنے کودنے، لکھنے پڑھنے کے معمولات وہی تھے ۔ میں "خالص” دیہاتی تھا مگر مجھے دودھ، دہی، لسی اور مکھن سے وحشت ہوتی تھی ۔ آخری تین چیزوں کا استعمال میں نے زندگی بھر نہیں کیا ۔ دودھ پی لیتا ہوں مگر صرف دودھ نہیں ۔ رات کو دیسی تافتان کے ساتھ، جو تندور پر آٹے کو مکھن میں گوندھ کر پکایا جاتا ہے اور جسے "موئی روٹی” کہتے ہیں ۔ حالاں کہ وہ عام روٹی سے زیادہ "زندہ” ہوتی ہے ۔ "مو”کی یہ توضیح صرف تفنن ِ طبع کے لیے ہے ۔ اس لفظ کے قریب ترین معنی گداز اور خمیر ہو سکتے ہیں کہ اس میں ایک خاص طرح کی خستگی ہوتی ہے جو لقمہ توڑنے، چبانے اور کھانے میں خطائی جیسا مزہ دیتی ہے اور یہ مزہ شیریں دودھ کے ساتھ مل کر دوبالا ہو جاتا ہے
رات کو کھیل کود کر آنے کے بعد گاڑھے دودھ کا ایک گلاس پینے کی پابندی تھی مگر میں جان بوجھ کر دیر کرتے کرتے سو جاتا تھا ۔ یہ الگ بات کہ وہ اکثر غنودگی کے عالم میں پلا دیا جاتا تھا اور دن میں اس کی ایک دھندلی سی یاد ہی باقی رہ جاتی تھی۔
یہی رویّہ دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی تھا ۔ گھر ماں اور بڑی بہن نے سنبھال رکھا تھا ۔ ان کی مدد کے لیے ایک آدھ نو عمر ملازمہ اور ملازم بھی موجود رہتے تھے ۔ پانی بھرنے اور تندور کا کام ماچھنوں کا تھا ۔ گاؤں میں جولاہے اور کمھار بھی تھے اور لوہار بھی ۔ بعد میں ایک ایک خاندان موچیوں اور شرنائیوں کا بھی آ بسا ۔ کپڑا بُننے، لوہے سے اوزار بنانے، مٹّی سے برتن ڈھالنے اور تلے والی جوتیوں پر تلّا کاڑھنے کا کام اس قدر دل فریب تھا کہ میں اکثر اس صنّاعی کا نظّارہ کرنے جاتا تھا اور مبہوت ہو کر مٹّی اور آگ کے کھیل دیکھتا تھا ۔ گھر میں لاڈلا ہونے کی وجہ سے میں ضدی، غصیلا اور بدتمیز تھا مگر گالی بکنے کی عادت نہیں تھی۔
ماں نے ذہن میں ایک بات ڈال دی تھی کہ کسی کو بددعا نہ دوں ۔ وہ کہتی تھیں "پُتر اساڈا پلوتا لگدا اے” .اس میں کتنی حقیقت تھی معلوم نہیں مگر ایک بار بچپن میں غصّے اور بے بسی کے عالم میں بددعا دی تو واقعی کارگر رہی۔تب متاثرہ خاندان مجھ سے اور میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا ۔ یہ تفصیل میری کہانی "تیسرے پلوتے پچھوں ” میں موجود ہے۔
چوتھی اور پانچویں جماعت میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ سال کے اختتام پر پتا چلا کہ امتحان کے لیے سنٹر گورنمنٹ ہائی سکول تلمبہ کو بنایا گیا ہے ۔ اپنے سکول سے اس امتحان کے لیے جانے والا میں اکیلا تھا ۔ مجھے تلمبہ میں رات کو ماسٹر غلام رسول کے گھر پہنچا دیا گیا اور وہ علی الصباح مجھے اپنے سائیکل پر تلمبہ سے کافی باہر میاں چنوں تلمبہ روڈ پر اس سکول میں لے کر گئے اور وہاں مذکورہ امتحان دلوایا ۔ اب یاد نہیں کہ یہ سب ایک دن کا عمل تھا کہ دو کا مگر گھر سے باہر شاید یہ میرا پہلا قیام تھا ۔ سوائے جراحی کے، جہاں ہمارا گھرانہ محرم کے دنوں میں ضروری انتظامات میں مدد کے لیے مدعو کیا جاتا تھا اور کئی بار وہاں رات کو رُکنے کی نوبت بھی آ جاتی تھی ۔ اگرچہ محرم میں وہاں رُکنا مجھے پسند نہیں تھا اور اس کی وجہ رات کو اُلٹی چارپائی پر سونے کی پابندی تھی۔

گورنمنٹ ہائی سکول تلمبہ اب بھی شہر سے کافی فاصلے پر ہے ۔ میں اس سکول میں دو ہی بار گیا ۔ پہلی بار امتحان دینے اور دوسری بار ملتان بورڈ کے انسپکٹر کی حیثیت سے میٹرک کے امتحانی مرکز کا معائنہ کرنے اور میں نے محسوس کیا کہ سکول کے شہر سے باہر ہونے کے باعث امتحان دینے والے بہت فائدے میں ہیں۔
ہم تلمبہ جاتے تھے مگر بہت کم، زیادہ رجحان میاں چنوں جانے کا تھا ۔ یوں بھی مرکزی ریلوے لائن اور لاہور ملتان روڈ پر ہونے کی وجہ سے اس کی ترقی کی رفتار بہت تیز تھی ۔ اس زمانے میں آبادی تو آٹھ دس ہزار سے زائد نہیں تھی مگر شہر کا نقشہ اور بازار بے مثال تھے ۔ تلمبہ روڈ جو ہمارے شہر جانے کا ذریعہ تھی ۔ شہر کے بیچ سے گزر کر ٹی چوک پر ختم ہوتی تھی، جہاں ایک پٹرول پمپ تھا اور لاہور ملتان روٹ پر جانے والی لاریوں کا استراحت کدہ ۔ ملتان براستہ عبدالحکیم کبیر والا کے لیے اڈہ تلمبہ روڈ پر شہر کے آغاز ہی میں تھا اور وہاں ہانسی بس سروس والوں کی اجارہ داری تھی ۔ کچھ بسیں دوست بس کمپنی کی بھی تھیں مگر شاید ان کی نسبت میاں چنوں سے نہیں تھی۔
شہر پہچنے کے بعد تانگے کو ٹی چوک میں کھول دیا جاتا تھا اور ہم لوگ شہر گھومنے کے لیے نکل جاتے تھے۔کپڑوں کی دکانوں پر ششماہی حساب چلتا تھا اور مجھے اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ وہ لوگ نقد رقم وصول کرنے سے کتراتے تھے ۔ ہم عام طور پر چراغ چڑھوئے اور مجید آرائیں کی ہٹّی پر جاتے تھے اور وہ ضرورت سے تین گُنا زائد کپڑے لادے بغیر اُٹھنے نہیں دیتے تھے ۔ وہیں شفیع درزی کی دکان تھی جو کپڑے وصول کرنے دکان پر ہی آ جاتا تھا ۔ اس کے پاس میرا ناپ موجود تھا مگر وہ ہر بار اپنا فیتہ آزماتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں مسلسل بڑا ہو رہا تھا۔
پرائمری پاس کرنے پر مجھے ایم سی ہائی سکول میاں چنوں میں داخل کرایا گیا ۔ مجھ سے پہلے میرے ایک بھانجے مہر احمد نواز وہاں پڑھ رہے تھے اور سکول کے بورڈنگ ہاؤس، جو تلمبہ روڈ پر ھانسی بس کمپنی کے اڈے کے مقابل تھا، میں رہائش پذیر تھے ۔ موصوف مجھ سے چار برس بڑے تھے اور شاید نویں جماعت میں تھے۔ان کے بڑے بھائی مہر حق نواز جو ان سے چار برس بڑے تھے، خانیوال کے اسلامیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھے اور سوٹ بوٹ میں ان کی تصویریں اچھی لگتی تھیں ۔ احمد نواز بہت مستقل مزاج طالب علم تھے ۔ ایک ایک جماعت کو خوب پختہ کرتے تھے ۔ اس لیے میٹرک کا امتحان ہم نے ایک ساتھ پاس کیا لیکن اس اجمال کی تفصیل پانچ برسوں پر محیط ہے اور یہ پانچ برس ایک نئی دنیا کی طرف بڑھنے کے لیے میرا پہلا قدم تھے۔

درس گاہ – 9

پکا حاجی مجید کی آبادی ہمارے گاؤں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی اور گلیاں یا سڑکیں کشادہ ۔ سکول گاؤں کے ایک کونے پر تھا مگر نہ معلوم آدھی چھٹی کے وقت یہاں پھیری والے کیوں چکر نہیں لگاتے تھے ۔ شاید اس لیے کہ کھگّوں کی اپنی اولاد اس سکول میں داخل نہیں کرائی جاتی تھی مگر ایسا تو جراحی میں بھی تھا کہ سیّدوں کی نئی نسل بھی گاؤں کے سکول میں داخل نہیں کی جاتی تھی بلکہ وہ تو کسی بھی سکول میں داخلے سے مستشنی تھی ۔ ہاں پیر برکت علی شاہ کے دو پوتے ابنِ حسن اور سبطِ حسن کے بارے میں سُنا تھا کہ "لاسال” ملتان میں پڑھتے ہیں اور بورڈر ہیں ۔
پھیری والوں کی عدم دستیابی کے باعث گاؤں کے لڑکے آدھی چھٹی ہونے پر گھروں کا رخ کرتے تھے اور ہم جیسے دو چار ایلین دکانوں کا ۔ سکول سے دائیں مڑ کر پیر رحیم شاہ کے ڈیرے سے آگے دو ایک دکانیں نسبتاً قریب تھیں مگر ہم عام طور پر کشن کی دکان پر ہی جاتے تھے جو پیر سوہارے شاہ کی کوٹھی کے سامنے سے دائیں مڑ کر بائیں گلی کی بغل میں تھی ۔ اس زمانے میں تمام دیہاتی دکانوں کا ایک ہی نقشہ ہوا کرتا تھا ۔ کوٹھڑی نما کمرہ ۔پیچھے لکڑی کی شیلفوں میں ضرورت کی چیزیں سجی ہوئی ۔ بیچ میں دکاندار کی چوکی ۔ چاروں طرف ٹین کے ڈھکنے والے کنستر اجناس اور دیسی، بناسپتی گھی یا تیل سے بھرے ۔ مٹّی کے تیل کا ڈرم الگ دھرا ہوا اور زیادہ مقدار میں بکنے والی اجناس یا سوغات کی بوریاں جمی ہوئیں ۔ چوں کہ گندم یا کپاس بھی خریدی جاتی تھی ۔ اس لیے عام ترازو کے علاوہ کونے کے شہتیر کے ساتھ ایک بڑا کنڈا مستقل طور پر لٹکا ہوا ۔ بس فرق تھا تو یہ کہ کشن کی دکان کی پچھلی دیوار میں گھر کے اندر کھلنے والی ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی تھی ۔ جہاں سے ضرورت پڑنے پر پانی یا شکر کے شربت کی ترسیل آسان تھی اور ہماری یاترا پر یہ کھڑکی ضرور کھلتی تھی۔
لباس، گفتگو، بولی ٹھولی اور شکل وصورت کے لحاظ سے کشن اور گاؤں کے دوسرے باشندوں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ وہ بہت دھیمے مزاج کا آدمی تھا اور ہر آنے جانے والے کا محبت اور احترام سے استقبال کرتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ ہمیں کیا درکار ہو سکتا ہے ۔ سو ہماری ضرورت کی چیز ہمیں دیکھتے ہی نکال کر ہمارے حوالے کر دیتا تھا ۔ اس لیے پکّا میں پڑھنے کے دوران میں ہمیں کسی اور دکان پر جانے کی حاجت نہیں ہوئی۔
سکول کی تعطیلات کا شیڈول وہی تھا جو سارے ملک میں رائج تھا ۔ تئیس مارچ سے یکم اپریل تک موسم ِبہار کی تعطیلات، پھر نئی کلاسوں کا اجرا، سولہ جون سے اکتیس اگست تک گرمیوں اور چوبیس دسمبر سے اکتیس دسمبر تک سردیوں کی چھٹیاں ۔ ہر تہوار کی تعطیلات اس کے علاوہ تھیں ۔ حتی کہ ہندو اور سکھی تہواروں کی چھٹی بھی دی جاتی تھی ۔ گھروں میں جنتری کا ہونا لازم تھا ۔ سال کے آخری دنوں میں شہروں میں اخبار کے ہاکر جنتری کی مدح میں بھی رطب اللسان رہتے تھے ۔ میں نے اپنی زندگی کی پہلی فحش نظم "کلید ِجنّت” ایسی ہی کسی جنتری میں پڑھی تھی۔
یہ ایوب خانی مارشل لاء کا زمانہ تھا ۔ سنا تھا پاکستان ایشین ٹائیگر بن رہا ہے اور ملک میں سبز انقلاب آیا ہی چاہتا ہے مگر ہمارے علاقے اور سکول ابھی اس انقلاب کی زد میں نہیں آئے تھے ۔ ابھی اعشاری نظام بھی لاگو نہیں ہوا تھا اور اگر تھا تو ہمارے علاقے میں ابھی رائج نہیں ہوا تھا ۔ گندم دس روپے اور کپاس بیس روپے من رہی ہو گی ۔دیسی گھی کے کنستر چونگی بھر کر بکنے کو شہر بھجوائے جاتے تھے تو سولہ سیر کے کنستر کے مشکل سے نوے روپے ملتے تھے مگر یہ نوے روپے بہت معنی رکھتے تھے ۔ چاندی چھے روپے اور سونا ایک سو بیس روپے تولہ تھا اور میاں چنوں شہر میں زمین پچاس سے سو روپے مرلہ ۔ میری والدہ نے ہمارے جدّی سنارے رمضان کو گیارہ سو دیے تو اس نے میرے والد کے علم میں لائے بغیر بورا روڈ پر لائن پار بودلہ ہاؤس کے سامنے دس مرلہ جگہ لے کر رجسٹری کرا دی ۔ جس پر میرے میاں چنوں ایم سی ہائی سکول میں داخل ہونے کے بعد مکان بنایا گیا اور ہم اس گھر میں برسوں مقیم رہے۔
چوری چکاری تھی مگر مال ڈنگر کھول کر لے جانے کی حد تک ۔ گھروں کو سنھ کم ہی لگائی جاتی تھی ۔ یہ چوریاں عام طور پر پکڑی جاتی تھیں اور اس کی پشت پر کوئی نہ کوئی زمیندار ہی ہوا کرتا تھا ۔ چور تلاش کرنے کا کام کھوجی کا تھا اور ان کی نظر، باریک بینی اور قیافہ بے مثل ہوا کرتا تھا ۔ میرے والد صاحب جو لائی(سر پنچ)تھے ۔ چوری کی واردات کی تفصیل اور طریقہء کار جان کر ہی چور بتا دیا کرتے تھے بلکہ اسی وقت کسی دوست کو پیغام بھجواتے تھے کہ چور سے چوری کا مال برآمد کروا دے اور مال برآمد ہو بھی جاتا تھا ۔ بڑی چوریوں کی تلاش اور واپسی کے لیے واہریں نکلتی تھیں، جس کے راستے میں آنے والے گھر ان کی مناسب آؤ بھگت کرتے تھے ۔ یہ واہریں عام طور پر کامیاب لوٹتی تھیں اور ان کے ذریعے”بازوؤں”یعنی اغوا شدہ عورتوں کی واپسی بھی کرائی جاتی تھی مگر یہ قصّہ الگ تفصیل کا مقتضی ہے۔
میری تعطیلات گاؤں ہی میں گزرتی تھیں اور عام طور پر کھیل کود میں ۔ مجھے جب پتا چلتا تھا کہ فلاں لڑکا اپنے رشتہ داروں کے ہاں فلاں شہر یا گاؤں گیا ہے تو مجھے عجیب سی کمی کا احساس ہوتا تھا ۔ وجہ یہ کہ ہمارا کوئی رشتہ دار اس بستی سے باہر تھا ہی نہیں ۔ دادا اکلوتے تھے اور ان کے تین ہی بیٹے تھے، جن کی اولاد اس بستی میں مقیم تھی ۔ رشتوں میں بھی عجیب سی کمی کا سامنا تھا ۔ کوئی پھوپھی تھی نہ ماموں ۔ خالائیں تھیں مگر ہمارے خود کفیل ہونے تک وہاں جانے کا کبھی ذکر ہی نہیں چھڑا ۔ لے دے کر جراحی اور ترتالیس چک میں مہر پہلوان کاٹھیا کی طرف چکر لگ جاتا تھا، جو میرے بڑے بھائی کے ہم عمر تھے مگر میرے والد کے بھی اتنے ہی گہرے دوست تھے ۔ ان کے دو صاحب زادے حق نواز (حاکم علی رضا) اور ریاض تھے اور بالترتیب ہم دونوں بھائیوں کے ہم عمر اور دوست ۔ اس لیے ان کے یہاں جا کر یا ان کے آنے پر مسرت ہوتی تھی مگر یہ مسرت شام تک ہی کھینچی جا سکتی تھی کہ ہر دو مقام اتنے ہی فاصلے پر تھے کہ کھا پی کر اور گپ شپ لگا کر شام تک گھر پلٹ آئیں۔
کھیلوں میں دو اور کھیل گاگریں (کنچے) اور اخروٹ کھیلنا تھے ۔ پہلا بیٹھ کر انگلیوں سے کمان بنا کر اور دوسرے میں کھڑے ہو کر اخروٹ سے اخروٹ کا اس سلیقے سے نشانہ لگانا کہ مضروب کنچا یا اخروٹ کسی اور کنچے یا اخروٹ کے ساتھ مس نہ ہو ۔ چوٹ لگانے والے اخروٹ میں سیسہ بھر کر اسے وزنی بھی کیا جاتا تھا کہ ضرب لگانا آسان ہو ۔ مجھے سیسہ بھرنے اور نشانہ بازی میں بہت مہارت تھی اور میں نے اخروٹ اور کنچے جیت جیت کر دو کنستر بھر رکھے تھے ۔ اس میں فاصلے اور وزن کا اندازہ، نظر کی درستی اور کنچے یا اخروٹ کو درست نشانے پر پھینکنے کی بڑی اہمیت تھی ۔ مدتوں بعد جب ایک بار گورنمنٹ کالج ملتان (اب ایمرسن کالج)کے سالانہ کھیلوں کے چاٹی توڑنے کے مقابلے کی ایک ٹیم میں مجھے شامل کیا گیا تو اسی مہارت کی بنیاد پر ساری چاٹیاں توڑنے کی "سعادت” میرے حصّے میں آئی تھی۔
گرمیوں کی دوپہر میں ساری بستی پیپل کی چھاؤں میں اکٹھی ہو جاتی تھی ۔ چارپائیاں ڈال کر آرام بھی کیا جاتا تھا اور بُننے بٹنے کا کام بھی ۔ میں بھی سکول کا کام کرنے کے بعد بھائی، بہنوں، بھتیجوں اور بھانجوں یا گاؤں کے ہم عمر لڑکے لڑکیوں کے ساتھ بارہ ٹینی، نو گوٹی، اڈا کھڈا یا لڈو کھیلا کرتا ۔ پیپل کے نیچے نہری پانی کا کھال بھی تھا اور ہم نے بڑے مضبوط رسے کی پینگھ بھی ڈال رکھی تھی، جس پر لکڑی کی خاص طور پر بنوائی ہوئی چوکی جما کر پینگھ بھی جھُوٹی جاتی تھی ۔ دن اسی ہنگامے میں گزر جاتا اور رات کہانیاں سننے، پڑھنے اور تاروں سے باتیں کرنے میں ۔ گھر میں ریڈیو تھا اور گراموفون بھی مگر عجیب بات ہے کہ مجھے ان میں زیادہ رغبت نہیں تھی۔
حویلی تین حصوں میں بٹی تھی ۔ ایک ایکڑ ہمارے قبضے میں تھا جس کے آدھے حصے میں گھر اور دیوار کی مغربی سمت آدھی زمین زرعی تھی ۔ جس کے بیچ میں سے اور گھر کے باہر سے نہری پانی کا پیپل کے نیچے سے گزرنے والا کھال تھا ۔ گھر میں سولہ فٹ اونچی چھت اور دو فٹ چوڑی دیواروں والے دو پختہ کمرے، غلام گردش اور وسیع پختہ برامدے، سیڑھیوں، ممٹی اور قد ِآدم فینسی پردے کے ساتھ تھے، اسی طرح کے دو کمرے مکان کے اس حصے میں تھے جو بڑے بھائیوں کے تصرف میں تھا۔ سو چھت اور پردے مشترک تھے اور ایک ننھی فیکٹری جیسی طوالت رکھتے تھے ۔ کمروں کے سامنے صحن دو تختوں میں بٹا ہوا۔پہلا تختہ دوسرے کے مقابلے میں قدرے بلند، بیچ میں پھولوں کی باڑ اور پودے، دوسرے تختے کے اختتام پر ڈیوڑھی اور اس کی بغل میں دو نیم پختہ کمرے، کچن اور بیٹھک ۔ جہاں گرمیوں میں ریت ڈال کر کھڑکیوں پر خس کے چوکھٹے جڑ دیے جاتے تھے ۔ شہتیر پر جھالر والا پنکھا لگا تھا ۔ جسے فرش کی ریت اور خس کو پانی سے تر کرنے کے بعد ان کمروں پر سایہ کرنے والے چھوٹے پیپل کے تلے چارپائی ڈال کر کوئی نہ کوئی ملازم گھنٹوں کھینچتا رہتا تھا ۔ اسی پیپل کے تلے تندور تھا ۔ جہاں دوپہر اور رات کو خوب رونق ہوتی مگر صرف گرمیوں میں۔سردیوں میں توے کی روٹی کا رواج تھا اور شاید اس لیے کہ تب چولھے کے نزدیک رہنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔
بقیہ حویلی کا آدھا حصہ میرے بھائیوں اور آدھا دو برابر حصوں میں تایا زاد بھائیوں کے پاس تھا ۔ پھر انہوں نے الگ کوٹھیاں بنا لیں تو یہ ساری حویلی ہم بھائیوں کے حصے میں آگئی اور اسے ہم نے اپنی مرضی کی شکل دی مگر یہ قصّہ بہت بعد کا ہے۔

درس گاہ – 8

سکول کا کوئی یونیفارم مقرر نہیں تھا مگر کم وبیش سبھی لڑکے پاجامہ قمیص پہن کر آتے تھے اور لڑکیاں (جو تعداد میں بہت کم تھیں) شلوار قمیص ۔ یوں عام دیہاتیوں کا لباس چادر(دھوتی) اور کُرتا تھا اور سچ پوچھیے تو اس کے پہننے میں کئی آسانیاں تھیں ۔ گھروں میں بھی اسی لباس کا رواج تھا، ہاں اس کے رنگ، کپڑا اور ڈیزائن صنفی لحاظ سے الگ ہوتے تھے ۔ ہماری بستی کی بہار قدرے الگ تھی ۔ یہاں سے ہندوؤں کے ہجرت کرنے کے بعد جو راجبوت خاندان مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آیا تھا ۔ اُن کی عورتوں اور مردوں کا پہناوا شلوار قمیص تھا ۔ زبان ماجھی اور رسم و رواج، آرائشِ جمال اور فلاحت کے انداز پر سکھ کلچر کے اثرات نمایاں تھے۔ ان کی ایک خاتون میرے ایک تایا زاد کی بیگم اور دو خواتین میری بہن اور چھوٹے بھائی کی رضاعی ماں تھیں ۔ اس لیے ان سے بہت محبت اور احترام کا رشتہ تھا اور ہے ۔ چوں کہ ایک "شلوار قمیص” ہماری حویلی میں بھی مستقل طور پر موجود تھی سو اس کے اثرات نئی نسل خصوصاً خواتین پر بڑی شدت سے مرتب ہوئے اور ایسا ہونا فطری تھا۔
بستی بیسویں صدی کے اوائل میں بسائی گئی اور میرے دادا کے ساتھ جس کسی نے بھی بیٹھ کر”ٹاؤن پلاننگ” کی، خوب کی ۔ یہ مستطیل صورت میں بسائی گئی ۔ جنوب کی طرف ہماری حویلی تین بھائیوں کے مکانوں میں بٹی ہوئی، جس کے مغرب میں مسجد اور حویلی کے سامنے پیپل کے دو درخت جو میرے پیدا ہونے تک چھتنار ہو چکے تھے ۔ ان میں سے ایک پیپل تنے کی موٹائی اور پھیلاؤ میں اس قدر بڑا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا پیپل کا درخت نہیں دیکھا اور میں آج تک سوچتا ہوں کہ چِینا کے ایک ذرے برابر بیچ میں قدرت نے اتنا بڑا درخت بننے اور نمو کی اس قدر طاقت کیوں رکھّی ہے تو مجھے دھیان آتا ہے کہ یہی اصول بڑے آدمیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ صفر سے آغاز کرنے والے ہی تاریخ ِعالم پر ان مٹ نقوش چھوڑتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔
خیر یہ تو ایک جُملہء معترضہ تھا ۔ ہماری حویلی کی پشت پر دو "محلے” تھے ۔ پہلا ایک کنال کے ایک ہی نقشے پر مشتمل دو رویہ مکانوں والا ۔ دو نیم پختہ کمرے، خوبصورت آدھ ڈھکے برآمدے کے ساتھ، پیچھے بیک یارڈ یا صحن ۔ یہ سب مکان ہندوؤں کے تھے اور تعداد میں دس یا بارہ رہے ہوں گے ۔ ان کی بغل میں ایک پختہ کمرہ جو میری ہوش میں گردوارہ کہلاتا تھا مگر حقیقت میں مندر رہا ہو گا کہ گاؤں میں سکھوں کا کبھی کوئی وجود نہیں رہا تھا ۔ ان سب مکانوں کے سامنے کھلا میدان اور اس میں پانی کے لیے چرخی والا کنواں تھا جہاں ہر وقت رونق رہتی تھی ۔ اس کے سامنے اسی طوالت اور نقشے کا شاگرد پیشہ (کمیوں) کا محلّہ مگر یہ بغیر برآمدے کے ایک نیم پختہ کمرے اور صحن پر مشتمل تھا اور اس کی پشت پر کھیت تھے ۔ ہماری حویلی کوئی دو ایکڑ پر مشتمل تھی ۔ مسجد کے بعد کھلا میدان اور ایک قطار میں لگے شیشم کے درخت، تالاب اور "مسلم کنواں” ۔ اسے میں نے مسلم کنویں کا نام اس لیے دیا کہ ہمارے گھروں کے لیے پانی یہیں سے آتا تھا اور تمام شاگرد پیشہ لوگ بھی یہیں نہاتے دھوتے تھے ۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ یہ ماہل والا کنواں تھا ۔ اسے کھوپے چڑھے بیل چلاتے تھےاور اس سے کھیتوں کو پانی بھی دیا جاتا تھا ۔ گھروں میں غسل خانے تو تھے مگر ٹائلٹ ندارد سو سحر خیزی ایک عادت ہی نہیں فطری ضرورت تھی اور سحر کے وقت دور دور تک سیر کے لیے نکلنا کئی حوالوں سے سود مند تھا۔
میں اور میرے بہن بھائی ہمیشہ تلاوت کی آواز پر بیدار ہوتے تھے جو میرے والد صاحب ہر روز علی الصباح نماز پڑھنے کے بعد ایک خاص لحن میں کرنے کے عادی تھے ۔ ان کی نزدیک کی نظر یقیناً کمزور تھی کہ وہ یہ تلاوت ایک جہازی سائز کے نسخہ سے کیا کرتے تھے ۔ پھر بھی وہ کسی لفظ یا حرف کی شناخت میں شبہ کا شکار ہوتے تھے تو مجھے بلا کر لفظ کے ہجّے کر لیا کرتے تھے اور دوبارہ رواں ہو جاتے تھے ۔ اتنی سی بات سے میری گردن فخر سے اکڑ جاتی تھی اور میں اپنی کمر کو آپ ہی تھاپڑنے لگتا تھا۔
گھر میں بجلی تھی نہ اس سے چلنے والے اپلائنسز سو چولھا تین بار جلتا تھا اور ہر چیز تازہ پکائی جاتی تھی ۔ ہم ڈبل روٹی تو نہیں کھاتے تھے مگر پراٹھے کے ساتھ آملیٹ، فرائڈ اور کبھی خاگینہ ضرور بنایا جاتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے گھر میں مرغیاں موجود تھیں ۔ کبھی ضرورت پڑنے پر بستی کے دوسرے گھروں سے بھی انڈے منگوا لیے جاتے تھے ۔ موسم آنے پر مجھے ناشتے میں سبز مرچوں والی بھنڈی کی ترکاری پسند تھی سو اسے گھر کے سامنے کی زمین پر بو لیا جاتا تھا اور میں ضرورت کے مطابق چن لایا کرتا تھا ۔ توری، کدو، کریلے، گاجر مولی، دھنیا، پودینہ، پیاز، لہسن، سونف اور بینگن وغیرہ بھی بوئے جاتے تھے اور فریش فرام دی گارڈن کچن میں آتے اور پکائے جاتے تھے ۔ ذائقے کی وہ بہار اور خدائی نعمتوں کی وہ خوشبو میرے دماغ میں رچی ہے مگر اُسے اب لائے کون اور میرے دماغ سے نکالے کون؟
ڈیرے میں اپنا اور مسجد میں اللّٰہ کا کوئی نہ کوئی مہمان ہر روز موجود ہوتا تھا ۔ ان کے کھانے اور ٹھہرنے کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا تھا ۔ ہاتھ دھلانے کے لیے خصوصی چلمچی تھی جس پر بڑا تھال لگا تھا کہ پانی باہر نہ گرے ۔ موسم کے لحاظ سے شربت چائے بھی پیش کی جاتی تھی اور ٹھہرنے کی وجہ کم ہی پوچھی جاتی تھی ۔ کوئی کام سے آیا ہو تو کہہ دیتا تھا وگرنہ کھا پی کر اپنی راہ لیتا تھا ۔ میری تربیت میں یہ چیز شامل تھی کہ ملازم کے ساتھ مہمان کا ہاتھ منہ مَیں دھلواوں ۔ پانی میں ڈالتا تھا جب کہ تولیہ ملازم پیش کرتا تھا۔
سکول سے واپسی پر نہانا لازم تھا ۔ اس لیے کہ راستے کی دھول کھانے اور ساتھیوں کے ساتھ سر پھٹول کے بعد نہانا ضروری ہو جاتا تھا ۔ میری مشکل یہ تھی کہ میں ماں، بڑی بہن یا ملازمہ کے ہاتھوں نہانے سے چڑتا تھا ۔ آم کے درختوں کے تلے نلکے کا پانی گرمیوں میں اس قدر یخ ہوتا تھا کہ وہاں سردیوں میں نہانا زیادہ آسان محسوس ہوتا تھا ۔ اس لیے نہانا ایک مشکل کام تھا ۔ ماں اس معاملے میں رعایت کرتی تو نہانے کے حوالے سے سارے لطیفے مجھ پر صادق اتے۔
سکول کے دونوں استاد شلوار قمیص میں آتے تھے اور اچھے لگتے تھے ۔ میرے مطالعے کا سلسلہ جاری تھا اور والد یا والدہ کے ساتھ شہر جا کر کتابیں اور بچوں کے رسائل لانے کا بھی ۔ کبھی کبھار کوئی موٹر والا کھلونا بھی لے لیتا تھا مگر میری خوشی کتابیں خریدنے ہی میں تھی ۔ ایک بار "اپنا کتاب گھر” پر پینسلیں خریدنے گیا تو نہ معلوم کیوں ایک معمولی لغت بھی خرید لایا ۔ میں نے اسے دیکھنا شروع کیا تو بہت مزہ آیا ۔ میں نے ترتیب سے پڑھنا شروع کی اور کئی روز تک پڑھتا رہا اور مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ کہانیوں سے باہر بھی معلومات کی ایک وسیع دنیا ہے ۔ اس عمل میں مزے کی بات لفظ کے معنی دیکھنے کے بعد ان لفظوں کے معکوس معنی تلاش کرنا تھا ۔ میں ایسا کیوں کر رہا تھا معلوم نہیں مگر اس نے میرے مطالعے کے سلسلے کو اور آسان بنا دیا اور مجھے لگا کہ میں پہلے کے مقابلے میں دور تک دیکھ سکتا ہوں۔