میاں چنوں کی رہائش سے پہلے میں نے مغرب کی جانب تو سفر کیا تھا کہ میرے والد اور والدہ اپنے مرشد سے ملاقات کے لیے ملتان جاتے رہتے تھے اور کئی بار ہم دونوں بھائیوں کو بھی ساتھ لے لیتے تھے۔تب ہم لوگ ٹرین کے ذریعے کینٹ اسٹیشن پر اترتے تھے اور تانگہ لے کر پاک دروازےآجاتےتھے جہاں سے صرافہ بازار میں داخل ہو کر سونے کی دکّانوں کی سیر کرتے اور کم وبیش ہر ہٹّی میں آغا خان کی تصویر دیکھتےدربار موسیٰ پاک پر آ کر پیر شوکت حسین گیلانی سے ملاقات کرتے تھے جو بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔میری والدہ اندر زنان خانے میں چلی جاتی تھی اور ہم مہمان خانے میں۔شربت اور طعام کے بعد خصوصی دعا کی جاتی تھی اور پھر دیگر کام کاج کرنے یا واپسی کی اجازت ملتی تھی۔اس خصوصی سلوک کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد حقیقت میں گیلانی صاحب کے والد کے مرید تھے اور موجودہ گدّی نشین انھیں اپنے بزرگ جیسا احترام دیتے تھے مگر جب ہم بیگم پیر برکت علی شاہ کے ساتھ آتے تھے تو مقصد صرف اور صرف تفریح ہوتا تھا۔کبھی ملتان کی سوغاتیں چکھی جاتی تھیں، کبھی کسی سنیما کا رُخ کیا جاتا اور کبھی شاہ صاحب کے کسی سجّن کی مہمانداری کا لطف اُٹھایا جاتا۔اس ٹور میں شاہ صاحب ہمارے ساتھ ہوتے تھے نہ میرے والد۔عام طور پر عشا تک واپسی ہو جایا کرتی تھی تاہم قیام کے ارادے یا قیام کرنے کی کوئی مجبوری ہونےکی صورت میں شہر کے اسٹیشن کے بالمقابل شاہ صاحب کی اپنی کوٹھی کا رُخ کیا جاتا تھا جو”برکت منزل” کہلاتی تھی اور شاگرد پیشہ کمروں،وسیع برامدے۔اوپر شیش محل اور برساتی اور برآمدے سے آگے کوئی ایک کنال کے وسیع صحن کے بعد اصل بنگلے پر مشتمل تھی جو سطح ِزمیں سے نو سیڑھیاں بلند تھا۔اس میں چار بیڈ روم بیرونی برآمدے کے ساتھ اس طرح ڈیزائن کیے گئے تھے کہ بیچ میں ایک وسیع و عریض گول کمرہ نکل آیا تھا،جہاں لکڑی کی نہایت خوبصورت منقش الماریاں تھیں اور ملٹی کلر رنگین شیشوں والے دیدہ زیب روشن دان۔سُنا تھا یہ بنگلہ پیر صاحب کی پھوپھی نے اپنے بھتیجے کے ملتان میں زیر ِسماعت مقدمات کی پیروی کے لیے بنوایا تھا اور اسے اسٹیشن کے بالمقابل نشاط روڈ پر بنوانے میں حکمت یہ تھی کہ یہاں آنے والوں کو یہاں پہنچنے کے لیےاسٹیشن سے نکل کر کسی سواری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
میں جب ایف ایس سی کرنے کی کوشش کے زمانے میں،اس کوٹھی میں مقیم ہوا تو اس بنگلے کا ماسٹر بیڈ روم چھے ماہ تک میرے تصرّف میں رہا مگر یہ قصہ تو بہت بعد کا ہے۔
میں نے پہلی بار رکشا ملتان ہی میں دیکھا اور اس کی پُھرتی اور مستی دیکھ کر اس قدر بدحواس ہوا کہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بے اختیار اُس کے آگے آگے بھاگ کھڑا ہوا۔
ابّا جی بتاتے تھے کہ ہمارے علاقے میں پہلی کار برکت علی شاہ نے کہیں 1930ء کے آس پاس لی تھی۔اُس وقت کیفیت یہ تھی کہ تلمبہ ملتان روڈ پر بیٹھے پرندے کار آنے پر اُڑنے کی زحمت ہی نہیں کرتے تھے اور کئی بار بچانے کی کوشش کے باوجود کچلے جاتے تھے۔میری کتاب”بانے”میں شامل نظم "گنجی بار وچ پہلی کار”میں اسی قصّے کا شاعرانہ اظہار ہے۔
گُھگھّیاں توں اُڈن نئیں ہوندا
کاں ہیٹھاں نئیں لَہندے
سَییّڑ لاٹو بن بن ویہندے
گِدڑ ڈگدے ڈَھہندے
گاواں،مجھّاں چرنا چھڈ کے
بھجدیاں ابھڑّ واہندے
پھنئیر اوڑاں نوں سِر دے کے
بن گئے لال پراندے
پینڈے پُٹھّے پیریں بھجدے
وات کھڑائی جاندے
کوئی ہنیری کردی جاندی
سُکھ سجناں دے ماندے
ماسی نُوراں جب بھی "لانگ ڈرائیور”پر نکلتی تھیں۔اپنی جیپ میں ہمارے گھرانے کو بھی بھر لیتی تھیں۔ انہی کے ساتھ دو ایک بار عبدالحکیم،تلمبہ اور خانیوال جانا ہوا تھا اور اُسی زمانے میں ہیڈ سندھائی کے بننے کا نظارہ بھی کیا تھا۔بھاری مشینری کو کام کرتے دیکھنا ایک یادگار تجربہ تھا اور اس سے بھی دل فریب اور متاثر کرنے والے انجینیئرز کے لیے تعمیر کیے گئے وہ بنگلے تھے جو اب پاک فوج کے استعمال میں ہیں اور عبدالحکیم چھاؤنی کا حصہ ہیں۔اُسی زمانے میں ایک بار سیلاب آنے پر بند کے ساتھ ساتھ سفر کر کےخلقت کی حالت ِزار دیکھنے کا موقع بھی ملا تھا جو بہت بعد میں میری کہانی”اُروار”کی بنیاد بنا۔
سو میں ملتان تک کے مغربی قصبوں سے آگاہ تھا اور اسٹیشنوں کے تو نام تک یاد کر رکھے تھے مگر مشرق کی طرف کبھی اقبال نگر سے آگے جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔1964ء کے اوائل میں ابّاجی نے خوش خبری سنائی کہ مجھے اُن کے ساتھ لاہور جانا ہے کہ خان عبدالحمیدخاں کی صاحب زادی کی شادی تھی اور انہیں اُس میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔خاں صاحب غالباً کلکٹر ہو گئے تھے مگر لوگ انہیں ڈپٹی صاحب کہہ کر ہی یاد کرتے تھے۔ہمارے علاقے میں اُن کی سب سے زیادہ قربت میرے والد صاحب ہی سے تھی سو جانا ضروری تھا اور ہم سفری کا قرعہ خوش قسمتی سے میرے نام نکلا۔تب تک میں اکھان”جہنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمّیا ای نئیں”سُن چکا تھا۔اس لیے لاہور دیکھنے کی تمنا اپنے زوروں پر تھی۔پھر یہ کتابوں اور کہانیوں کا شہر تھا جسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا کسی خواب کو تعبیر سے ہم کنار ہوتے دیکھنے جیسا تھا۔
ہم ڈیڑھ بجے خیبر میل پر بیٹھے اور کپڑوں کا ایک ایک اضافی جوڑا ٹرنک میں ٹھونس کر لاہور کے لیے نکل پڑے۔تب ٹرین وقت پر آتی تھی اور لوگ اسے دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کیا کرتے تھے۔ہم بھی ٹھیک وقت پر نکلے۔میں سوار ہوتے ہی کھڑکی سے لگ گیا تھا۔درختوں اور عمارتوں کو پیچھے کی طرف بھاگتے،آسمان کو ایک بڑے دائرے میں گھومتے محسوس کرنا،حدِ نظر پر زمین اور آسمان کو ایک دوسرے سے ملتے دیکھنا میرے لیے نیا تجربہ نہیں تھا مگر اس طرف کے درخت،جانور،لوگ،قصبے اور اسٹیشن میرے لیے نئے تھے اور اس سے بھی نئی بات چائے اور کھانے سے بھری کشتیوں کے ساتھ وردی پوش
بیروں کا چلتی ٹرین میں ایک سے دوسرے ڈبے میں منتقل ہونے کا منظر تھا۔پھیری والے،بھکاریوں اور ٹرین کے عملے کی بھاگ دوڑ اس پر مستزاد تھی۔ٹرین ساہیوال اور اوکاڑہ کے اسٹیشنوں پر رُکی تو نیچے اُتر کر شربت پیا اور چلے پھرے کہ ٹانگوں کی اکڑن ٹھیک ہو اور واقعی اس عمل سے بدن اور ذہن کو بہت آرام ملا۔
لاہور اسٹیشن میری توقع سے بہت بڑا تھا۔پلیٹ فارموں کی تعداد،
گاڑیوں کی بہتات اور ان کی آمدورفت کے حوالے سے فضا میں تیرنے والے مخصوص لہجے اور زبان میں کیے گئے اعلانات۔پلیٹ فارم پر سجی دکانیں اور پھیری والے،ریڑھیاں اور ہر سمت میں ہراساں ہو کر بھاگتے ہجوم۔ میں جو رائے ونڈ کے بعد مسلسل لاہور کی جھلک دیکھنے کے شوق میں کارخانوں کا دھواں پھانکتا آیا تھا۔یہاں کی چہل پہل، افراتفری اور بھول بھلیوں کی طرح چڑھتی اترتی سیڑھیاں دیکھ کر یقیناً بوکھلا جاتا اگر ابّا جی میری انگلی تھام کر باہر کی طرف چل نہ دیتے۔ہم مین بلڈنگ سے اپنے ٹکٹ دکھا کر بلکہ چیکر کے حوالے کر کے باہر نکلے تو کوئی آدھ فرلانگ کے فاصلے پر بیسیوں تانگے والے منحنی وجود والے گھوڑوں کو اُلار تانگوں میں جوتے بھاٹی لوہاری کا راگ الاپ رہے تھے۔ابھی میرے ابّاجی ایک تانگے والے سے موچی دروازے جانے کی بات کر ہی رہے تھےکہ میں نے اپنے آپ کو ننھے ٹرنک سمیت ایک اور تانگے کی اگلی سیٹ پر پایا۔پچھلی سیٹ پہلے ہی بھری ہوئی تھی۔میں نے ابّاجی کو آواز دے کر اپنے مقامِ استراحت سے آگاہ کیا تو وہ بھی میرے ساتھ آ بیٹھے مگر ان کے بیٹھنے کی دیر تھی کہ ہمارے علاوہ تمام سواریاں ایک ایک کرکے کھسک لیں اور ہم اُس وقت تک اپنی یکتائی کا مزہ لیتے رہے جب تک تانگہ واقعی بھر نہیں گیا اور دونوں طرف کے بم سواریوں سے خمیدہ کر کے تانگے کا توازن درست نہیں کر لیا گیا۔
خیر موچی دروازہ زیادہ دور نہیں تھا۔وہاں آ کر پتا چلا کہ ڈپٹی صاحب گلبرگ منتقل ہو گئے ہیں(یہ جگہ بعد میں حسین چوک اور ایم ایم عالم روڈ کہلائی)مگر اس خبر سے ہمیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ہم نے رات بھر کے لیے اپنا میزبان بدل لیا اور خان لیاقت خاں کے مہمان بن بیٹھے۔ہمارے لیے چارپائیاں لگائی گئیں۔نکور بستر،چادریں اور رضائیاں نکالی گئیں۔بالکل دیہات کی طرز پر رکابیوں میں دو طرح کا سالن تندوری روٹیوں کے ساتھ مع ٹھنڈے پانی کی شیشے کی بوتلوں کے بھجوایا گیا۔یہ پہلا موقع تھاجب میں نے کسی کے گھر کی فریج کا پانی پیا اور پانی کو جگ کی بجائے بوتل بند پایا۔
ہم موچی دروازہ برانڈرتھ روڈ کی طرف سے آئے تھے۔ دھاتی مشینری کی اس قدر دکانوں کو ایک ساتھ دیکھنا انوکھا تجربہ تھا مگر اس سے زیادہ حیرت صبح ناشتے کے بعد سالم تانگے پر،جو دس روپے میں خاں صاحب کے کسی کارندے نے منگوا دیا تھا،گلبرگ جاتے ہوئے بانساں والا بازار سے گزرتے ہوئے ہوئی۔بانس کے ڈھیر،چارپائیاں اور پوڑیاں اور جانے کیا کیا۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ بانس کی چارپائی میں نے پہلی بار لاہور ہی میں دیکھی۔مجھے حسین چوک جانے کا روٹ تو یاد نہیں مگر ہم شاید ہال روڈ،لارنس روڈ اور جیل روڈ سے لبرٹی پہنچے تھے۔جہاں ابھی رونق نہ ہونے کے برابر تھی اور کوٹھی کے سامنے کی سڑک پر تو ہُو کا عالم طاری تھا۔
لاہور میں تانگے بھی تھے،رکشے اور ٹیکسی بھی۔یہ میٹر گھما کر سفر کرنے کا زمانہ تھا۔پھر ہمارے لیے تانگہ کیوں منگایا گیا اور ہم گھنٹہ بھر لاہور کی سڑکوں پر ڈُک ڈُک کیوں کرتے رہے؟اس کا راز یہ تھا کہ وہ تانگے والا اس منزل سے بخوبی آگاہ تھا اور اٗسے کوٹھی پر سامان پہنچانے کے لیے جانا ہی تھا۔
خاں عبدالحمیدخاں کا یہ گھر ابھی بن رہا تھا۔یہ ایک نہیں چار چار کنال کی دوجُڑواں کوٹھیاں ہیں اور اس سڑک کے آغاز میں واقع ہیں۔
پندرہ برس بعد میری شادی کی تیاری کے لیے میرے ماں باپ خاں صاحب کی دعوت پر اسی گھر میں ٹکے رہے۔میری برات کو یہیں ناشتا کرایا گیا اور یہیں سے تیّار ہو کر سب دلھن کی طرف پدھارے۔
اُس روز یہاں آنے سے پہلے ہم نے خوب بن ٹھن لیا تھا۔خاں صاحب کے مینیجر نے ہمارے ملبوس سویرے دھوبی کو بھجوا کر استری کرا دیے تھے۔میں نے پتلون اور شرٹ پہنی تھی۔پہلی بار تو نہیں مگر میری بے چینی اور بے زاری پہلی بار جیسی ہی تھی۔ابّا جی نے سفید کرتا اور دھوتی،سفید طرّے اور کُھسے کے ساتھ۔اس لباس والے دو ایک زمیندار اور بھی تھے۔اس لیے ہمیں حیرت سے دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔
نکاح کے بعد بوفے تھا۔مہمانوں میں سرکاری افسروں کا تناسب زیادہ تھا۔وہ لوگ چُھری کانٹے سے کھا رہے تھے۔میں نے ابّا جی کی توجہ ادھر دلائی اور بھاگ کر چھری کانٹے لے آیا مگر چھری کی پوزیشن غلط ہو جاتی کبھی کانٹے کی۔وہ تو بھلا ہو پیر سوہارے شاہ کا۔انہوں نے تکّلف برطرف کر کے ہاتھ سے کھانا شروع کیا تو ہم بھی اپنی تہذیب سے بار ِدگر جُڑ گئے۔
تقریب کے اختتام پر پیر سوہارے شاہ اور ابّا جی میں کیا گِٹ مِٹ ہوئی،معلوم نہیں۔ہم خاں صاحب سے اجازت لے کر اُن کے ساتھ ہو لیے۔وہ ہمیں سمن آباد مارکیٹ کے قریب ایک بڑی سی مگر پُرانی دھرانی کوٹھی میں لے آئے۔یہ کوٹھی اُن کے سالے قمر الزمان کھگہ کی تھی جو بعد میں زراعت کے صوبائی وزیر بنے۔رات وہیں بسر ہوئی مگر اللّٰہ اللّٰہ کرتے۔وجہ یہ کہ خان لیاقت خاں کے ہاں استراحت کے لیے دیے جانے والے بستر جس قدر اجلے تھے۔یہاں لگائے جانے والے بستر اتنے ہی بُسے ہوئے اور بدبودار تھے۔ابھی سال کا آغاز تھا اور موسم سرد مگر ان رضائیوں میں سر منہ چُھپانے کی جسارت وہی کر سکتا تھا جو حبس دم کی مشق میں کسی نانگے سادھو کی طرح طاق ہو۔
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ صبح ناشتے کے بعد ہم پیر صاحب کی مصاحبت سے تائب ہو کر چڑیا گھر پہنچے۔وہاں دوپہر تک گھومے پھرے۔ہاتھی،گینڈے،دریائی بھینسے،زرافے اور بیسیوں ایسے جانور دیکھے،جن کا ذکر نصابی کتابوں میں آیا تھا مگر جس محترمہ کے نام پر یہ دُنیا بسائی گئی تھی۔وہ کم کم ہی دکھائی دی۔
افسوس اس پھیرے میں نولکھا بازار دیکھا نہ اردو بازار میں کتابوں کی ہٹیاں۔اُس وقت کون جانتا تھا کہ آنے والے دنوں میں موخرالذکر بازار سے میری نسبت کس قدر گہری ہونے والی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے تب تعلیم اور ملازمت کے لیے میاں چنوں کے علاوہ کوئی اور شہر میرے دھیان میں آتا ہی نہیں تھا۔رہائش کے لیے میری ترجیح بستی کبیر سنپال تھی اور گھومنے پھرنے کے لیے ایک عدد شیطانی چرخہ۔جو ان دنوں میرے تایا زاد بھائی مہر دلدار کے علاؤہ کسی کے پاس نہیں تھا۔یہ شیل کمپنی کا بنایا ہوا تھا اورغالبا”
پانچ ہارس پاور کا انجن رکھتا تھا۔سلف سٹارٹ ہونے کی وجہ سے اُسے سٹارٹ کرنا تو آسان تھا مگر سنبھالنا مشکل۔اُس کی طاقت پانچ گھوڑوں کے برابر تھی یا نہیں مگر اُس کی رفتار بہرحال کسی بھی گھوڑے سے زیادہ تھی۔