اُس نے قدم بڑھایا نہ میرے قدم بڑھے
یعنی فقط خیال کی دُنیا میں ہم بڑھے
بازار چڑھ رہا تھا مگر میرے کنز ِ خواب
جتنا مجھے گمان تھا،اُس سے بھی کم بڑھے
ثابت ہوا کہ میں بھی کسی کی نظر میں ہوں
جب بھی مری خوشی کے تناسب سے غم بڑھے
اُس کے کرم سے ہو گی مرے گھر میں روشنی
دریا لپک کے آئے تو مٹّی میں نم بڑھے
سینے میں گھٹ رہی ہیں مرے دل کی دھڑکنیں
کوئی پلٹ کے آئے تو یہ زیر و بم بڑھے
اُس کے بدن کی آنچ سے زرّیں ہوا عدن
اُس کی نگاہ ِ ناز سے دام ِ عجم بڑھے
منعم پہ کم ہوئیں نہ عنایات ِ خسروی
لیکن غریب ِ شہر پہ جور و ستم بڑھے
ساجد کسی کو بار ِ دگر دیکھنا ہے آج
اب کے سبو بڑھے نہ بڑھے ، جام ِ جم بڑھے