Category Archives: غزل

اُس نے قدم بڑھایا نہ میرے قدم بڑھے

اُس نے قدم بڑھایا نہ میرے قدم بڑھے
یعنی فقط خیال کی دُنیا میں ہم بڑھے

بازار چڑھ رہا تھا مگر میرے کنز ِ خواب
جتنا مجھے گمان تھا،اُس سے بھی کم بڑھے

ثابت ہوا کہ میں بھی کسی کی نظر میں ہوں
جب بھی مری خوشی کے تناسب سے غم بڑھے

اُس کے کرم سے ہو گی مرے گھر میں روشنی
دریا لپک کے آئے تو مٹّی میں نم بڑھے

سینے میں گھٹ رہی ہیں مرے دل کی دھڑکنیں
کوئی پلٹ کے آئے تو یہ زیر و بم بڑھے

اُس کے بدن کی آنچ سے زرّیں ہوا عدن
اُس کی نگاہ ِ ناز سے دام ِ عجم بڑھے

منعم پہ کم ہوئیں نہ عنایات ِ خسروی
لیکن غریب ِ شہر پہ جور و ستم بڑھے

ساجد کسی کو بار ِ دگر دیکھنا ہے آج
اب کے سبو بڑھے نہ بڑھے ، جام ِ جم بڑھے

زمیں سے کوئی تعلق نہ آسماں سے عشق

زمیں سے کوئی تعلق نہ آسماں سے عشق
نہیں ہے اور نہ ہو گا ترے جہاں سے عشق

دیارِ دل میں ٹھہرنے کے سو بہانے ہیں
کبھی مکین سے نسبت کبھی مکاں سے عشق

فقیہہِ شہر بھی دیوانہ وار پھرتے ہیں
فقط ہمیں ہی نہیں کوئے ِ دلبراں سے عشق

رواں دواں ہیں کہ سب لوگ چل رہے ہیں میاں
مسافرت کی لپک ہے نہ کارواں سے عشق

کبھی سیاہئ شب کا خیال ہے تو کبھی
ظہور کرتی ہوئی رود ِ کہکشاں سے عشق

شکست و فتح کی نسبت ہماری ذات سے ہے
عدو سے داد طلب ہیں نہ مہرباں سے عشق

وہ کون ہے جو نہیں تیرے کنجِ لب پہ فدا
کسے نہیں ہے تری خوبئ بیاں سے عشق

کسی کا شہرِ طرب میں بھی جی نہیں لگتا
خوش آ گیا ہے کسی کو غم ِ جہاں سے عشق

مگر یہ راز بہت دیر میں کُھلا مجھ پر
جمالِ یار کو ہے زرِ عاشقاں سے عشق

کہاں رہا ہے ہوا و ہوس کے بندوں کو
غبار ِ خواب میں لپٹے ہوئے زیاں سے عشق

ہمیں طلسم ِ صدا کی ہے آرزو ساجد
ہمارے دل کو ہے میراث ِ رفتگاں سے عشق

جہاں میں ڈالتے رہتے ہیں ماسِوا کی طرح

جہاں میں ڈالتے رہتے ہیں ماسِوا کی طرح
درخت چل نہیں سکتے مگر ہوا کی طرح

بھٹک کر آئی تھی کچھ دیر کو اِدھر دُنیا
لپٹ گئی مرے دل سے کسی بلا کی طرح

مرے حصار سے باہر بھی وہ نہیں رہتا
مرے قریب بھی آتا نہیں خدا کی طرح

بہت سے رنگ اُترتے ہیں میری آنکھوں میں
کسی کے دھیان میں اُلجھی ہوئی صدا کی طرح

اُتر گیا مرے دل میں وہ بے دھڑک لیکن
لبوں پہ آ نہیں پایا ہے مدعا کی طرح

رواں دواں ہیں مرے آس پاس کی اشیا
پڑا ہوا ہوں زمیں پر میں نقش ِ پا کی طرح

سمٹ سکوں گا نہ اپنے وجود میں ساجد
پہن لیا ہے کسی نے مجھے قبا کی طرح

غلام حسین ساجد

غیرت ِ گُل کوئی آئے ، بُت ِ شمشاد ائے

غیرت ِ گُل کوئی آئے ، بُت ِ شمشاد ائے
جس کو آنا یے وہ ہر فکر سے آزاد آئے

کچھ تو ہے صبحِ دل افروز کے آئینے میں
بھول بیٹھے تھے جنہیں ، آج بہت یاد آئے

جادۂ شوق پہ رفتار ِ قدم یکساں تھی
وہ جو نکلے تھے مرے بعد ، مرے بعد آئے

کبھی لاہور میں ظاہر ہو ادا بابل کی
خوئے ملتان پہن کر کبھی بغداد آئے

بارے کچھ روز قرنطینہ کو جاری رکھیے
عین ممکن ہے کہیں غیب سے امداد آئے

یہ نہ ہو اپنے قدم آپ ہی اُلٹے پڑ جائیں
یہ نہ ہو اپنے ہی سر پر کوئی اُفتاد آئے

میری آواز سے پیوست رہے میری صدا
میں پکاروں تو لپک کر مرا ہم زاد آئے

خیر مقدم ہوا اُس بزم میں دیوانوں کا
زعم تھا عقل پہ جن کو وہی ناشاد آئے

ناز ساجد مجھے تب اپنے کہے پر ہو گا
میر صاحب کے گھرانے سے اگر داد آئے

٢١ مارچ ، بستی کبیر سنپال

ہنس رہا ہے جو مری حالت پہ ، جانے کون ہے

ہنس رہا ہے جو مری حالت پہ ، جانے کون ہے
آئنے کے سامنے میں ہوں تو پیچھے کون ہے

کس کے آنے سے منّور ہو گئی ہے بزم ِ خواب
جس کی آنکھوں میں دمکتے ہیں ستارے کون ہے

گھر کی چوکھٹ پر کسے روکا گیا ہے صبح دم
جو گریزاں ہے حصار ِ بام و در سے ، کون ہے

جس کی آنکھیں تھیں مرے قدموں کی آہٹ پر نثار
آج شاید وہ پلٹ کر بھی نہ پوچھے ، کون ہے

کوئی اپنا ہے کہ جس کا حکم چلتا ہے یہاں
اب بھلا کوئی کسی کو کیا بتائے ، کون ہے

دشت و دریا کاٹ کر پہنچوں کسی کے سامنے
اور وہ پلکیں اُٹھا کر بھی نہ دیکھے کون ہے

کوئی چُھپ کر میرے لہجے میں اُسے آواز دے
اور وہ آ کر دریچے میں پُکارے "کون ہے”

اس لیے کرتا ہوں ساجد اب میں دستک سے گریز
کوئی دروازے کے پیچھے سے نہ کہہ دے،کون ہے

چلنے لگا ہے پھر سے مرا دل رُکا ہوا

چلنے لگا ہے پھر سے مرا دل رُکا ہوا
کیا تُو ہے آئنے کے مقابل رُکا ہوا؟

اب اذن دے کہ میرے لہو میں اُتر سکے
طوفان ِ رنگ و بُو لب ِ ساحل رُکا ہوا

تاخیر ہو نہ جائے کہیں کار ِ خیر میں
چوکھٹ نہ چھوڑ دے کہیں سائل رُکا ہوا

اک دائرے میں گھومتی رہتی ہے کائنات
کچھ بھی نہیں یہاں ارے غافل رُکا ہوا

آنکھوں پہ ہے چراغ ِحقیقت کی چھاؤں دھوپ
عارض کی روشنی میں کہیں تِل رُکا ہوا

انجام تک پہنچنے میں جلدی نہ کیجیے
آغاز ہی میں ہے ابھی حاصل رُکا ہوا

ساجد پڑی ہے خلق ِ خدا پاؤں توڑ کر
تنہا نہیں ہوں میں سر ِ منزل رُکا ہوا

دیکھے غلط کہا کوئی سوچے غلط کہا

دیکھے غلط کہا کوئی سوچے غلط کہا
میں نے غلط کہا ہے کہ اُس نے غلط کہا

تائید ہو گئی مری اُس کے جواب سے
مجھ کو گماں ہوا تھا کہ جیسے غلط کہا

بس ایک سرد خامشی کُن کے جواب میں
کیا میں نے اس مقام سے آگے غلط کہا

سو بار کوئی اپنے غلط کو کہے درست
میں نے غلط کو آج بھی کھل کے غلط کہا

آئے گا حرف میرے عدو کے وجود پر
میری گزارشات کو کیسے غلط کہا

میں اُن کے خواب کا کبھی حصّہ نہیں رہا
وہ میرے خواب میں نہیں آئے ، غلط کہا

رہتے ہیں اس نواح میں کچھ سرپھرے چراغ
آتے ہیں اس طرف بھی پرندے غلط کہا

ساجد ترا کلام ہے تاثیر سے تہی
یہ اور بات تُو یہی سمجھے غلط کہا

نیند ورثہ ہے مرا ، خواب امانت ہے مری

نیند ورثہ ہے مرا ، خواب امانت ہے مری
اور اِن مدھ بھرے آئینوں میں صورت ہے مری

آنکھ اُٹھا کر بھی کسی شخص نے دیکھا نہ مجھے
میں سمجھتا تھا مرے شہر میں عزّت ہے مری

"ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں”
میرا ہونا مرے کوچے میں کرامت ہے مری

سوچتا ہوں جو وہی سامنے آ جاتا ہے
آج تابندہ بصیرت سے بصارت ہے مری

میری تہذیب کی نسبت ہے مری مٹّی سے
چُپ سمندر ہے مری ، بات قیامت ہے مری

عکس در عکس اُترتا ہوں کہیں پانی میں
اور قُرباں کسی آئینے پہ حیرت ہے مری

دور رہتا ہوں کبھی پاس بھی آ جاتا ہوں
یہ عنایت ہے تمہاری کہ سعادت ہے مری

ہوش آتا ہے مجھے عالم ِ مدہوشی میں
رنج کو رقص بناتی ہوئی وحشت ہے مری

رات دن میرے تعاقب میں ہیں میری آنکھیں
یہی تقدیر ہے میری ، یہی قسمت ہے مری

داور ِ حشر وہی ، صاحب ِ ایجاد وہی
یعنی آغاز ہے میرا نہ نہایت ہے مری

شمس تبریز ہو ، حلّاج ہو یا سرمد ہو
اب اسی ایک گھرانے سے ارادت ہے مری

میرا دُشمن مجھے معزول نہیں کر سکتا
بر سر ِ تخت بہر طور محبّت ہے مری

رُخ بدلتے ہو کبھی سامنے آ جاتے ہو
کیا گراں تیرے شب و روز پہ صحبت ہے مری

خاک اُڑاتا ہوں نہ خاموش پڑا رہتا ہوں
میری توقیر کا باعث یہی غیرت ہے مری

اپنی قسمت سے شکایت ہے اُسے کیوں ساجد
جب میسّر اُسے اس بار رفاقت ہے مری

————————————————-


٣ تا ٥ مئی ، بستی کبیر سنپال

عشق سے اور کار دنیا سے حذر کرتا ہوں میں

عشق سے اور کار دنیا سے حذر کرتا ہوں میں

اب فقط اپنی معیت میں بسر کرتا ہوں میں

اک اندھیرے میں بھٹکتے رہ نہ جایئں میرے خواب

اپنی آنکھوں کو اگر وقف سحر کرتا ہوں میں

وہ نہتا کر نہ پایئں گے سر میداں مجھے

خلق اپنی خاک سے تیغ و سپر کرتا ہوں میں

عکس بن کر کب تلک میں اسکی آنکھوں میں رہوں

آیئنے کو کل سے اپنا مستقر کرتا ہوں میں

راہ میں پڑتا ہے شہر عشق میں دشت جنوں

گاہے اس دنیائے وحشت کا سفر کرتا ہوں میں

کھینچ دیتا ہے کوئی دیوار گریہ بیچ میں

جب پلٹ کر اس دریچے پر نظر کرتا ہوں میں

کیا وہ ملنے کے لئے آ پائے گا ساجد مجھے

اپنے آنے کی اگر اسکو خبر کرتا ہوں

خواب اچّھے ھیں نہ خوابوں کا بیاں اچّھا ھے

خواب اچّھے ھیں نہ خوابوں کا بیاں اچّھا ھے 
جو بھی اچھا ھے حقیقت میں کہاں اچھا ہے

آگ احساس ِتحفظ بھی دیا کرتی ہے
گھر کےچولہے سےجو اٹھتا ہے دھواں اچّھا ہے

دل کوئی باغ نہیں ہے کہ فقط گھوم آئیں 
کوئی تا دیر مکیں هو تو مکا ں اچّھا ہے

بات کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ھیں 
چُپ ھی اچھی ہے نہ یہ زور ِ بیاں اچّھا ھے

ایک سے لوگ ھیں دیوار کی دونوں جانب 
کوئی اچّھا ہے یہاں ، کوئی وہاں اچّھا ہے

میری تنہائی کا آزار بڑھا دیتا ہے
اس کے موجود نہ ھونے کا گماں اچّھا ہے

مجھ کو شرمندہ کیا میری غلط فہمی نے 
میں سمجھتا تھا کہ یہ دور زماں اچھّا ہے

ھجر کا لُطف اٹھا کر یہی جانا ساجد 
راحت ِ وصل کا ھوتا ہے زیاں ، اچّھا ہے