Category Archives: تبصرے

سود و زیاں کے درمیاں / خالد فتح محمد

"پری” سے "زینہ”تک خالد فتح محمد وطنِ عزیز کی سیاسی اور سماجی کروٹوں کو موضوع بنا رہے تھے جس میں کہیں آپ بیتی کا ثڑکا اس طور لگا تھا کہ میری عمر کے قارئین اس آئینے میں اپنے کچلے ہوئے خوابوں کی جھلک دیکھتے تھے۔اس پر ان کا منہ زور چشمے کی طرح ابلتا اور باہر کی مٹی پر پھیلتا چلا جاتا بیانیہ کہ جو موجود کی تمام تر کیفیت اور تفصیل کو سمیٹ لے،حقیقت اور ماورائے حقیقت منظر نامے کو ایک مانوس علاقے کی شکل دے دیتا تھا کہ جس سے ہم آہنگ ہو کر ہم کھوئی ہوئی راحتوں کی بازیافت کے مرحلے سے گزرنے لگتے اور ہر گزرتا ہوا لمحہ جگنو کی طرح دمک کر کسی خاص کیفیت کو زندہ کر دیتا تھا۔شاید اسی لیے میں نے خالد فتح محمد کا لکھا ہر ناول پڑھا اور اپنی زندگی کے کھوئی ہوئی نعمتوں کی صرف بازیافت ہی نہیں کی انھیں بے محابا لطافت کے ساتھ دوبارہ جیا بھی۔
۔۔۔۔یہ سب ہے مگر کیا ضروری ہے کہ لکھنے والا اپنے ہی جادو کا اسیر رہے۔موضوع،اسلوب اور فکری منہاج سے اختلاف کرنا اس کا حق بھی ہے اور تخلیقی ہونے کی دلیل بھی۔خالد فتح محمد نے”شہر ِ مدفون”
اور اب”سود و زیاں کے درمیاں”میں اپنے تخلیقی اسلوب سے انحراف کیا ہے۔”سود و زیاں کے درمیاں”ہمارے معاشرے کی کتھا ضرور بیان کرتا ہے مگر یہ کسی خاص علاقے،زمانے یا مانوس تجربے سے اس طرح پیوست نہیں کہ قاری کی اس بیانیے سے ذاتی نسبت پیدا ہو اور وہ اسے اپنے حوالے سے آگے بڑھتا دیکھنے کا متمنی ہو اور خالد فتح محمد کو بھی اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ کہانی کیا رخ اختیار کرتی ہے اور کسی منطقی انجام کو پہنچتی ہے یا نہیں۔وہ کہانی میں جس لطافت سے داخل ہوتا ہے،کرداروں کو خود مختار بنا کر اسی ادا سے الگ ہو جاتا ہے سو یہ زندگی کی جدو جہد میں شامل لوگوں کی کہانی ضرور ہے،ان کے کامیاب یا ناکام ہونے کی نہیں اور یہی حقیقت ہے کہ ہم اسی نوشتہ جبر کے ساتھ زندگی سے جڑتے ہیں اور اسی طرح کی کامیابی یا ناکامی کا شکار ہو کر اس سے الگ ہو جاتے ہیں۔ضرودی نہیں کہ ہم موجود کے جبر کو توڑ سکیں اور ضروری نہیں کہ موجود کا جبر ہماری کوشش کو بے چہرہ بنا دے۔”سود و زیاں کے درمیاں”میں ہم ایسی ہی بساط بچھتے دیکھتے ہیں اور کہانی کسی منطقی انجام کے بغیر ختم ہو جاتی ہے۔
ہمیشہ کی طرح خالد فتح محمد کرداروں پر کوئی حکم لگاتے ہیں نہ کتھا کو ثمرور بنانے کی سعی کرتے ہیں۔وہ ایک خاص زمانے اور کیفیت کو پینٹ کرتے ہوئے ایک خاص کیفیت میں اپنے اشہب ِخیال کی باگ کھینچ لیتے ہیں اور باقی کا کام کرداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں گو خان فضل الرحمان کی طرح وہ اپنے کرداروں کو بے راہ رو نہیں ہونے دیتے مگر انہیں ان کی غلامی اور مصنف کی فکر کے تابع رہنے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔اس طرح ان کے کردار ایک فطری ماحول میں رم کرتے اور معدوم ہوتے ہیں۔
"پری”سے”زینہ”تک خالد فتح محمد کے ناولوں کی عورتیں نسبتاً فعال ہیں۔یہ رنگ اس ناول میں بھی موجود ہے مگر کسی ناول میں بھی قصے پر غالب نہیں۔ہاں خالد فتح محمد کو نسائیت اور نسائی نفسیات سے دلچسپی ضرور ہے۔اس طرح اس کے ناولوں میں مردانہ اور نسائی کرداروں کی باطنی زندگی ایک سی الجھن اور کش مکش کا شکار نظر آتی ہے اور وہ برابری کی سطح پر کھڑے محسوس ہوتے ہیں۔
خالد فتح محمد ناصح نہیں اس لیے”سود و زیاں کے درمیاں”ہر طرح کے تبلیغی رنگ سے پاک ہے اور اس کا معاشرہ اور کردار کہیں بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کا یہ ناول بھی شعور کی رو کا ناول ہے جو کہیں بھی بیانیے سے الگ ہوتی ہے نہ بیانیے کو یک سطحی ہونے دیتی ہے۔اس طرح فطری تعامل کا جادو برقرار رہتا ہے اور خالد فتح محمد کی انفرادیت کی دلیل بنتا ہے۔

غلام حسین ساجد

سود و زیاں کے درمیاں/ خالد فتح محمد "پری" سے "زینہ"تک خالد فتح محمد وطنِ عزیز کی سیاسی اور سماجی کروٹوں کو موضوع بنا…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Friday, March 20, 2020

ریاظ احمد کا” شجر ِحیات”

تخلیہ میرے لیے کئی طرح کے قرض اتارنے کی سبیل بنا ہے۔ثروت حسین نے کہا تھا”میں نے خود کو جمع کیا پچیس برس میں”،اس خود اختیار کردہ قرنطینہ کے دوران میں مجھے خود کو یکجا کرنے میں دو ہی دن لگے ہیں اور میں ہر روز ایک کتاب پڑھ رہا ہوں۔
خالد فتح محمد کا”سُود و زیاں کے درمیاں”پہلے پڑھا اور اس پر اپنی رائے دے چکا۔آج ریاظ احمد کا ناول”شجر ِحیات”پڑھ کر بیٹھا ہوں اور اس کی زبان،اُسلوب اور موضوع کے سِحر میں گرفتار ہوں۔کتاب کے پہلے باب اور کتاب ِمقدس کے حوالوں سے مجھے گمان گزرا تھا کہ شاید مجھے اساطیر سے سابقہ پڑے گا مگر ناول کے پہلے ہی باب سے میں ایک ہمیشہ برقرار رہنے والی روشنی کے ہم راہ ہو لیا اور مصنف نے اس کی دمک کو آخری سطر تک محفوظ رکھا۔
"شجر ِحیات”محبت کی کہانی ہے جسے دانش اور رنگوں کی زباں سے بیان کیا گیا ہے۔موت کی عملداری میں اپنے آپ کو دیکھنا اور اس سے باہر نکل کر ایک رویائی کیفیت کو مصور کرنا ایک منفرد تجربہ ہی نہیں،زندگی کی قوت اور حقانیت کا اعتراف بھی ہے۔فن ِ مصوری کی ادا اور رنگوں کی کیمیا کو اس سہولت سے بیان کرنے کا حق تو ریاظ احمد کو تھا ہی کہ وہ ایک پیشہ ور مصور ہیں مگر ان توضیحات کو ان کے فکری اور تخلیقی وفور نے ایک اور ہی رنگ دے دیا ہے۔اس سے ناول میں ایک سِرّی عمق پیدا ہو گیا ہے جسے زبان کی ششتگی اور بیانیے کے طلسم نے بہت دل پسند بنا دیا ہے اور ہم آخری صفحے تک ایک لطیف روانی میں بہتے چلے جاتے ہیں۔
کہانی حال سے ماضی اور پھر حال سے وابستہ ہو کر ایک ایسے مصور کی زندگی سے علاقہ رکھتی ہے جو پہلی نظر کی محبت اور اچانک حادثے کے بیچ رویا میں روشنی کو ایک شکل میں ڈھلتے دیکھتا ہے اور اسے مسیح جان کر ایک بشپ کی خواہش پر اسے چرچ کے لیے مصور کرتا ہے۔اس تصویر کی باطنی نسبت اس کی ذات سے بھی ہے اور اس کی محبت سے بھی اور یہ دونوں وجوہات اس ندرت کا سبب بنتی ہیں جو اس تصویر کی انفرادیت بھی ہے اور اس کی خامی بھی۔مصور کی دشمنی اور رقابت میں مبتلا لوگ اس انفرادیت کو مذہبی اہانت کا رنگ دے کر مصور کے لیے زیست کرنے کی کوشش کو مشکل بنا دیتے ہیں مگر بعد میں محبت اور عدو کا پچھتاوا اس مشکل کے ختم ہونے کا سبب بن جاتے ہیں اور کہانی ایک زندگی بخش تجربے میں ڈھل جاتی ہے۔
ناول کی زبان،لفظیات،جمالیاتی آہنگ دل پذیر ہے اور مصنف نے ایک متوازن تخلیقی شگفت کے ساتھ اسے مکمل کیا ہے۔پروفیسر کا کردار بہت دلچسپ اور ناول کی علویت کے لیے مددگار ہے۔کرداروں کی ذہنی کیفیات کا بیان بہت خوب ہے اور رنگوں،لمسی مناظر اور نفسیاتی ابعاد کو بہت سلیقے سے برتا گیا ہے جس پر ریاظ احمد داد کے حق دار ہیں۔
کہانی کا اکلوتا جھول حضرت عیسیٰ کی پینٹنگ کے حوالے سے لوگوں کے ردعمل کا بیان ہے۔دنیا بھر کے کلیساؤں میں حضرت عیسیٰ کی تصاویر بھی موجود ہیں اور مجسمے بھی اور یقیناً مسیحی اس حوالے سے اتنے جذباتی نہیں کہ ایک پینٹنگ کے حوالے سے اس قدر جذباتیت کا مظاہرہ کریں کہ مصور کے خلاف جلوس لے کر نکل پڑیں اور اسے بے وجہ زد وکوب کریں مگر شاید یہ مصنف کی مجبوری تھی ۔ہم سب جانتے ہیں کہ مصور اس کے علاوہ کوئی اور قدم کیوں نہیں اُٹھا سکتا تھا۔
بہر صورت یہ ایک ترجیحی طور پر قابلِ مطالعہ ناول ہے جسے پہلی فرصت میں پڑھنے کی ضرورت ہے۔میرے ایک نوجوان دوست جاوید اقبال سہو تو اس کے حوالے سے بہت جذباتی ہیں۔انہوں نے ملاقات میں اس ناول کی اتنی تعریف کی کہ مجھے اسے مطالعاتی ترجیح میں اوپر لانا پڑا۔۔یہ الگ بات ہے کہ اس کی رائے غلط نہیں تھی۔

غلام حسین ساجد

ریاظ احمد کا"شجر ِحیات" تخلیہ میرے لیے کئی طرح کے قرض اتارنے کی سبیل بنا ہے۔ثروت حسین نے کہا تھا"میں نے خود کو جمع کیا…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Wednesday, March 25, 2020

کاشف حسین غائر کی دو کتابیں

شمیم حنفی نے کاشف حسین غائر کی شاعری کو غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام قرار دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خیال کی ہر ممکنہ صورت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور کسی ایسی امکانی نسبت کو منتخب کرتے ہیں جو غزل کی روایت میں پہلے استعمال میں نہ آئی ہو۔اس کے باوجود کہ وہ لسانی سطح پر غزل کی عمومی روایت سے انحراف نہیں کرتے اور سہل ِ ممتنع سے اپنی نسبت کو برقرار رکھتے ہیں۔
میں نے بہت پہلے کہیں لکھا تھا کہ وہ احمد مشتاق اور ناصر کاظمی کی چھتری پہن کر چلے ہیں۔اب میں اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ اُسلوب کے حوالے سے وہ نسبتاً احمد مشتاق کے قریب ضرور ہیں مگر اپنی فکری شگفت کے حوالے سے ان سے الگ ہیں اور یہ فرق حسّی انفرادیت کا ہے۔وہ موجود میں نئے پن کی ایسی جہت پیدا کرتے ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہوئے بھی ہمارے خیال سے ماورا ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے شعر سامنے کی بات محسوس ہوتے بھی سامنے کی بات ہوتے نہیں اور ہم چاہیں بھی تو ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں ہو سکتے۔
غزل کی ہم عصر روایت میں کاشف حسین غائر کی اہمیت مسلم ہے اور نئی راہ نکالنے والے شاعروں میں وہ خصوصیت سے توجہ پانے کے مستحق ہیں۔دیکھیے ان کے کچھ بے مثل اشعار:
رات کرتے ہیں ستارے کیسے
رات بھر نیند نہ آنے سے کھلا

ہوائیں دکھ بٹاتی پھر رہی ہیں
زمیں کا بوجھ ہلکا ہو رہا ہے

لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں
دشت آباد کہاں ہوتا ہے

دھوپ رستہ نہیں چلنے دیتی
سایے اٹھ کر نہیں جانے دیتے

آئی ہوا خود آپ بجھانے چراغ کو
کوئی چراغ لے کے ہوا تک نہیں گیا

مجھ سے رستوں کا بچھڑنا نہیں دیکھا جاتا
مجھ سے ملنے وہ کسی موڑ پہ آیا نہ کرے

ملنے آیا ہوں چراغِ شب سے
اور ہوا چھوڑنے آئی ہے مجھے

یا تو کچھ بھی نہیں موجود یہاں
یا مجھے ہوش نہیں میں بھی ہوں

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستی میں اک چراغ کے جلنے سے رات بھر
کیا کیا خلل پڑا ہے ستاروں کے کام میں

ایک دیوار کو تصویر سمجھتا رہا میں
اور تصویر سمجھتی رہی دیوار مجھے

اپنی یکجائی سے،تنہائی سے پورا نہ ہوا
جتنا نقصان ہوا شہر بسانے میں مرا

ہے ایک عمر کا حاصل ہماری بے کاری
گنوائیں کیوں اسے مصروف ِکار ہونے میں

اس محبت کا ہو انجام بخیر
جس کا آغاز جدائی سے ہوا

تحریر: غلام حسین ساجد

کاشف حسین غائر کی دو کتابیں شمیم حنفی نے کاشف حسین غائر کی شاعری کو غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام قرار دیا ہے۔اس کی…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Thursday, March 26, 2020

روز بناتا ہوں پُل / عتیق احمد جیلانی

1985ء میں جب میری شاعری کی کتاب "موسم” شائع ہوئی تو ثروت حسین نے اپنے حلقۂ احباب کے جن لوگوں کو اس کتاب کا حق دار قرار دیا۔ان میں ایک نام عتیق احمد جیلانی کا بھی تھا۔کچھ دنوں بعد میں نے عتیق احمد جیلانی کا نام حیدرآباد سے شائع ہونے والے ایک ادبی جریدے کی مجلس ِادارت میں دیکھا،جس میں میری بھی ایک غزل شائع کی گئی تھی تو ان کی ادب سے وابستگی پر میرا یقین پختہ ہوا اور ان کی شاعری کے مطالعے سے اس یقین کو اور تقویت ملی کہ ان کی غزل نئی پاکستانی غزل کی ہر لحاظ سے ہم سر تھی۔
اب 2019ء میں مکتبہ ارتفاع حیدرآباد نے ان کی شاعری کا مجموعہ”روز بناتا ہوں پُل”شائع کیا ہے جو ان کے شاگرد محمد علی منظر نے مجھے بھجوایا ہے۔اس کتاب میں ان کی چھیاسٹھ غزلیں شامل ہیں جو 1974ء سے 2018ء کے مابین کہی گئی ہیں۔اب معلوم نہیں کہ یہ ان کا کُل کلام ہے یا کلام کا انتخاب مگر پینتالیس برس میں ایک شعری مجموعہ شائع کر کے انہوں نے اپنی بے نیازی کا ثبوت ضرور دیا ہے۔یہ اور بات کہ اس استغنا میں وہ ہمارے دوست محمد خالد کو نہیں پچھاڑ سکے جن کا ساٹھ سالہ شعری سفر ابھی تک کتابی شکل اختیار نہیں کر پایا مگر اس کی غریب و سادہ و رنگیں داستان الگ مضمون کی مقتضئ ہے۔
عتیق احمد جیلانی نے اپنی کتاب کو کسی بھی قسم کے رسمی تبصرے کے لیے ناموزوں قرار دیا ہے اور یہ ان کا حق ہے مگر میں اس کتاب کو اردو غزل کا ایک اہم مجموعہ جانتا ہوں۔اس لیے اس پر اپنی رائے دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔یوں بھی میں کوئی پیشہ ور نقّاد نہیں ہوں اور میری رائے ایک قاری کی رائے سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتی۔
"روز بناتا ہوں پُل” کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے دو باتوں کا احساس شدت سے ہوا۔پہلی بات یہ کہ وہ ایک قادرالکلام شاعر ہیں اور غزل کی روایت کو جذب کر کے نیا شعری آہنگ وضع کرنے پر قادر ہیں اور دوسری بات یہ کہ وہ اپنے شعری وفور کو تادیر برقرار رکھتے اور اس کے طلسم سے مضامینِ نو کے انبار لگانے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔اسی لیے ان کی اکثر غزلیں طویل ہیں اور ایک دل کش روانی میں تکمیل پاتی ہیں۔وہ قافیہ پیمائی نہیں کرتے،اس کا خلاقانہ استعمال کرتے ہیں اور کچھ ایسی غیر متوقع جہتیں آشکار کرتے ہیں جو ان کے اسلوب کے طلسم سے قطعاً اجنبی اور انوکھی محسوس نہیں ہوتیں۔شاید اس لیے کہ ایسی نادر شے یا کیفیت ہمارے پاس ہی موجود ہوتی ہے مگر عتیق احمد جیلانی کے منور کرنے سے پہلے وہ ہماری نظر سے اوجھل رہی ہوتی ہے۔
یوں عتیق احمد جیلانی موجود کے غیاب کے شاعر ہیں اور ان کے مکاشفے اس روشنی کی مثال ہیں جو گہری تاریکی سے دمک کر کسی منظر کو امر کر دے۔”روز بناتا ہوں پُل”تاریکی سے روشنی میں آئے ایسے ہی نادر مناظر کا سلسلہ ہے جو ہر قدم پر پہلے سے زیادہ انوکھا اور دل پذیر ہے۔
"روز بناتا ہوں پُل”ایک مختلف شاعر کی مختلف کتاب ہے۔اس عہد میں جب اردو غزل ایک مشترکہ آہنگ بن چکی ہے اور لہجے کی یکسانیت اسے ناقابل ِشناخت لحن بنانے پر تلی ہے۔ایک مختلف شاعر کا ظہور خوش کن ہے کہ آج بڑا شاعر ہونے سے زیادہ اہمیت مختلف ہونے کی ہے اور یہی ادا اردو غزل کی روایت کو آگے بڑھا سکتی ہے۔کچھ شعر دیکھیے:
یقین کیوں نہیں کرتے ہیں یہ در و دیوار
انھیں بتاؤ اسی گھر کا آدمی تھا میں

رات اک خواب کو مہمان بنایا میں نے
کبھی تکیہ،کبھی چادر کبھی بستر ہوا میں

نا خدائی تمھیں مبارک ہو
اب تو دریا اتر رہا ہے میاں

خامشی سے کلام کرنے کو
شور سن کر گلی میں آتا ہوں

مسافت کی تھکن بھی ساتھ آئی
مرے ہم راہ گھر سے واپسی پر

قبائے وقت مجھ پر تنگ ہوتی جا رہی ہے
سو یہ پوشاک آئندہ نہ پہنی جا سکے گی

کوئی سادہ سا ورق ڈھونڈ رہا تھا کل شام
ایک دفتر نکل آیا مری الماری سے

اب کوئی راز نہیں کوچہ نوردی میری
سب کو معلوم ہے کس کام سے نکلا ہوا ہوں

یہ ضروری تو نہیں ہے کہ نظر بھی آئے
فرق ہوتا ہے جو ہونے میں نظر آنے میں

گزرتے موسموں کی انگلیوں پر
بس اپنے آپ کو گنتا رہا میں

کس قدر شور ہے مرے اندر
چائے خانہ بنا ہوا ہوں میں

ابھی تو یہیں تھا جہان ِ خراب
خدا جانے میں نے کہاں رکھ دیا

سُنا ہے یاد کرتا ہے سمندر
تو کیا لے جائے گا دریا مجھے بھی

کوئی حد ہی نہیں سمجھنے کی
کوئی کتنا سمجھ میں آئے گا

اے صبح مجھے آئینہ دے
میں تیرا عکس بناتا ہوں

تحریر: غلام حسین ساجد

روز بناتا ہوں پُل/عتیق احمد جیلانی 1985ء میں جب میری شاعری کی کتاب "موسم" شائع ہوئی تو ثروت حسین نے اپنے حلقۂ احباب کے…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Friday, March 27, 2020

سایہ / سعید شارق

اردو شاعری (غزلوں)کا یہ بے مثل مجموعہ مثال پبلشرز فیصل آباد سے 2017ءمیں شائع ہوا اور مجھ تک ایک ماہ پہلے پہنچاجب”دعوت ِشیراز”ڈیرہ غازی خان کے مشاعرے میں میری سعید شارق سے پہلی ملاقات ہوئی۔
اس مجموعے کے مطالعے کی بڑی وجہ سعید شارق کا اعتماد ہے۔سو سے زیادہ غزلوں پر مشتمل یہ مجموعہ انہوں نے صرف چوبیس سال کی عمر میں شائع کیا اور بغیر کسی دیباچے،تقریظ،پس نوشت اور فلیپ کے۔اور تو اور وہ اپنے تخلص کے استعمال کے بھی کچھ زیادہ شائق نہیں جو اس امر کی دلیل ہے کہ انہیں اپنے کلام کی ندرت پر کس قدر اعتبار ہے۔
سعید شارق کا یہ اعتماد ہے سبب نہیں۔”سایہ”ایک الگ ذائقے کی کتاب ہے اور سعید شارق غزل کی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا الگ رنگِ سخن پیدا کرنے میں کامیاب ہیں۔وہ جدت طراز اور تخلیقی اپج کے آدمی ہیں اور اردو غزل کے مجموعی رجحان سے انحراف کی طاقت رکھتے ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر وہ اس قدر تنوع پیدا کرنے پر کس طرح قادر ہیں۔میری دانست میں اس کی ایک ہی وجہ ہے،کلاسیکی اور ہم عصر غزل کا دلجمعی سے مطالعہ،جس نے انہیں اس بات کا ادراک بخشا ہے کہ کیا کچھ کہا جا چکا جسے دہرانے کی ضرورت نہیں اور کیا کچھ ہے جسے نیا کرنے اور روشنی میں لا کر اُجلا کرنے کی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ نیا مضمون پیدا کرنے پر قادر ہیں اور روایت کو دمکانے اور اس میں توسیع کرنے پر بھی۔
سعید شارق کا اختصاص غزل کے فکری ڈھانچے کو نیا رنگ دینا ہے۔غزل کے مروجہ استعارے ان کے یہاں مفاہیم کی ایک نئی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔اس کے باوجود کہ ان کے یہاں عشق و عاشقی کے مضامین کی کمی نہیں اُن کا رُخ پیش پا اُفتادہ حقیقتوں کو اُجالنے کی طرف ہے اور رنج کا ایک مہین سایہ ان کی شاعری کی تاثیر کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔اس لیے کہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت نارسائی اور شکست ِآرزو سے کشید ہونے والا رنج ہی ہے۔
سعید شارق لمس اور احساس کی نرم صباحت اور فکری ارژنگ کو تسخیر اور بیان کرنے کے باعث اپنے عہد کے عمومی مزاج اور آہنگ سے الگ ہیں اور انہیں پڑھتے ہوئے ہمیں قدم قدم پر تازگی اور نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔کچھ کچھ ویسا ہی جیسا احساس ہمیں محمد علوی کو پڑھتے ہوئے ہوا تھا۔
بجھا بیٹھا ہوں آنکھیں اور اب یہ سوچتا ہوں
ذرا سی دیر پہلے مجھ میں کتنی روشنی تھی

کب تھک کے گروں اور مرے اوپر سے گُزر جائے
اک راہ گزر کب سے پڑی ہے مرے پیچھے

کبھی سنّاٹے کی تصویر،کبھی چاپ کا عکس
کتنے منظر نظر آئے ہمہ تن گوشی میں

یہ باغ ِدل ہے یہیں اک اداس شہزادی
گلاب توڑتی ہے ، تتلیاں پکڑتی ہے

جوں ہی چھپتا ہوں میں اندھیرے میں
پھوٹ پڑتی ہے روشنی مجھ میں

تنگ آیا ہوا ہوں دنیا سے
سوچتا ہوں کہیں چلا جاؤں

کیا اُگتا ہے کرچیوں سے
مٹّی میں دبا کے دیکھتا ہوں

بھاگتا ہوں تو قدم اٹھتے نہیں
یہ سبھی کچھ خواب کا عالم نہ ہو

یوں بیٹھے بٹھائے لرز اٹھتا ہوں اب بھی
جس طرح اچانک کوئی سوتے ہوئے ڈر جائے

آتی رہی قہقہوں کی آواز
جس وقت کوئی نہیں تھا گھر میں

نئے کپڑے یونہی افسردہ پڑے رہتے ہیں
کون سمجھے یہ اذیّت مری الماری کی

بہت پہلے کبھی سرمایہ کاری کی تھی ہم نے
یہ تب کی بات ہے جب نیند میں نقصان کم تھا

یقیں تھا باغ ِ فردا تو مہکتا ہو گا لیکن
میں پہنچا تو وہاں کچھ بھی تروتازہ نہیں تھا

آئینے کے ساتھ پی لیتا ہوں چائے شام کو
اور کبھی یہ کرسیاں دیتی ہیں ظہرانہ مجھے

کسی نادیدہ بوسے کی نمی کا سرد احساس
اور اس کے ساتھ یہ ڈر بھی کہ کوئی آ نہ جائے

اک راستہ بن چکا تھا شارق
جب ختم ہوا سفر ہمارا

تحریر: غلام حسین ساجد

سایہ/سعید شارق اردو شاعری (غزلوں)کا یہ بے مثل مجموعہ مثال پبلشرز فیصل آباد سے 2017ءمیں شائع ہوا اور مجھ تک ایک ماہ…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Wednesday, April 1, 2020

شعور / محمد ظفر الحق چشتی

1997ء میں جب میں نے ملتان سے لاہور مراجعت کی تو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے انتخاب کرنے کی وجہ اس کالج میں محمد خالد اور محمد ظفر الحق مجید چشتی کی موجودگی تھی۔تب تک چشتی صاحب سے میری ایک ہی ملاقات ہوئی تھی مگر ان کی شخصیت اور محبت کا سِحر ایسا قوی تھا کہ اس نے مجھے اپنے گھر کی بغل میں موجود گورنمنٹ کالج آف سائنس کے بجائے ہر روز اٹھائیس کلومیٹر کا فاصلہ ناپنے پر مجبور کر دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس محبت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔انہوں نے مشکل کی ہر گھڑی میں چھوٹے بھائی ہونے کا حق ادا کیا مگر میرے سر پر ان کا قرض آخری سانس تک باقی رہے گا کہ مجھے اپنی محبت کے اظہار کا سلیقہ ہے نہ اس کی حقیقت کو ظاہر کرنے کا ہنر آتا ہے۔۔۔مگر یہ مضمون ایک الگ کتاب کا طلبگار ہے۔
میں نے اس کالج میں پندرہ برس گزارے اور اس دوران میں میری شاعری اور نثر کی تیرہ کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے تین کتابوں پر چشتی صاحب نے مفصل مضامین لکھے مگر ایک لمحے کے لیے بھی اندازہ نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی دلجمعی سے تخلیقی اور تنقیدی/تحقیقی کام میں مصروف ہیں۔اب 2019ء میں فکشن ہاؤس۔لاہور نے ان کی چھے کتابیں (نالۂ من سِرّ ِمن،سُلگت ہوں دن رین،ہے یہی میری نماز،مکہ مدینہ،عرفان اور شعور)ایک ساتھ شائع کی ہیں تو میں ان کی رفعت ِخیال اور تنقیدی بصیرت سے حد درجہ مرعوب ہوا ہوں اور اس وقت اُن کی کتاب”شعور”پر اپنی کج مج رائے کا اظہار کرنے چلا ہوں۔
"شعور”میں تیرہ مضامین ہیں جو متنوع موضوعات پر مشتمل ہیں۔یہ مضامین ادب کی قدر کی تعیین کے ساتھ ساتھ قدیم سے جدید تر ادبی شعری اور فکری روایت کو موضوع بناتے ہیں۔”ادب اور غیر ادب میں حدِ فاصل” میں مشرق و مغرب کے ادبی نابغوں کے بیانات اور اپنے استحسان سے کسی تحریر کے ادب پارہ بننے کی رمز کشائی کرتے ہیں تو”دیوان ِغالب:ایک حبسیہ”میں غالب کے کلام کے تجزیے سے اس کیفیت کو ابھارتے ہیں جو دیوان ِغالب کو ایک حبسیے میں بدل دیتی ہے۔اسی طرح”پاکستانی/اسلامی ادب کی تحریک اور ناول نگاری”میں وہ محمد حسن عسکری کے بیان کی روشنی میں اسلامی ادب کی تاریخ کی قدر متعین کرتے ہیں تو میر،راشد اور عطار سے محمد اظہار الحق اور مجھ ناچیز کی شاعری سے سمیع الحق قریشی کی”کنج ِلب” کے تجزیے تک وہ خالص معروضی نکتۂ نظر کو روا رکھتے ہیں اور کہیں بھی ذاتی نسبت اور پسند کو اپنی تنقیدی بصیرت پر غالب نہیں آنے دیتے۔
محمد ظفر الحق چشتی بے لاگ رائے دیتے ہیں اور اپنی رائے پر اصرار کرتے ہیں۔اس لیے کہ انہیں اپنے تجزیے پر بھی اعتماد ہے اور اپنے ذوق پر بھی۔مجھے یاد ہے جب انہوں نے میری شاعری پر ایک طویل مضمون لکھ کر ایک معاصر ادبی پرچے میں شائع کرایا تو مجھے ان کی رائے سے کئی جگہوں پر اختلاف تھا اور میں نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا مگر وہ اپنی رائے پر قائم رہے اور مجھے ان کی استقامت اور صداقت پر تب یقین آیا جب ایک ملاقات میں پروفیسر سہیل احمد خان نے ان کے مضمون کی تعریف کی اور اصرار کیا کہ میں چشتی صاحب کے تجزیے کو اپنا نقظہ نظر بدل کر دیکھوں۔
"شعور”ایک صاحب ِرائے ادیب کی بے مثل بصیرت کا اعلامیہ ہے جسے بہت توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے اور یہ ہم عصر ادب کے فکری منہاج کو سمجھنے کے لیے بلا شبہ ایک اہم قدم ہے

غلام حسین ساجد

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Saturday, April 4, 2020

اچھی گزر گئی / محمد سعید جاوید

سعید جاوید کوئی معروف ادیب ہیں نہ شاعر۔سیاست دان ہیں نہ صنعتکار۔کبھی بینکار رہے تھے مگر ہمیں بینکاری سے کیا نسبت؟ ان سےجنابِ حسین مجروح کے گھر ایک ملاقات ہوئی اور انہوں نے کراچی کی سکونت کے دنوں کی یادوں پر مشتمل اپنی کتاب”ایسا تھا میرا کراچی”سے ایک باب پڑھ کر سنایا مگر اس سے کوئی خاص کیفیت پیدا ہوئی نہ کوئی دیرپا تاثر قائم ہوا۔ہوتا بھی کیسے کہ وہ شعر کی محفل تھی اور اس وقت اپنے عروج پر تھی۔
کچھ دنوں بعد بک ہوم پر جانا ہوا تو انہوں نے محمد سعید جاوید کی دو کتابیں تحفے میں دیں۔”ایسا تھا میرا کراچی”اور”اچھی گزر گئی”۔جو ان کی بے تکلفانہ آپ بیتی ہے۔
بڑی تقطیع (20×30÷8)کے پانچ سو ساٹھ صفحات کی کتاب کو دو نشستوں اور دو روز میں پڑھ لینے کا راز بہت سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہے۔readablity،سادہ اور شگفتہ نثر اور اس حقیر کے اپنے ماضی سے مماثلت۔محمد سعید جاوید فورٹ عباس کے نواح کے رہنے والے ہیں اور میں تلمبہ کے نواح کا مگر اس زمینی فاصلے کے باوجود ہمارے دیہات ایک ہی جیسے ہیں اور ان میں ہونے والی کایا کلپ بھی،اور تو اور گرد اور گڑھوں سے بھرے راستے،نہروں کے کناروں پر جھومتے شیشم کے درخت،گھروں میں مہکتے آم کے پیڑ،ہٹیوں پر بکنے والی کھٹی میٹھی گولیاں،کھیل اور تعلیمی مراحل اور اس بے رس دھول بھری زندگی میں شادمانی کی لہر دوڑانے کی ادا،سب کچھ وہی تو ہے جو میں اور میرے ہم جولی بھی کرتے آئے تھے۔اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یوں لگا جیسے میں اپنی ہی کتابِ زیست کو پڑھ رہا ہوں اور ہر منظر میں محمد سعید جاوید کے ساتھ کسی جادوئی کرامت سے موجود ہوں۔
ظاہر ہے میری اور محمد سعید جاوید کی اپنی کہانی الگ الگ ہے مگر ہم دونوں کی جڑیں ایک ہی رنگ اور تاثیر رکھنے والی مٹی میں ہیں۔اس کے گاؤں کی طرح میرے گاؤں کے شیشم بھی کجلا چکے۔آم بوڑھے ہو گئے اور بیسویوں پیارے داغ ِمفارقت دے چکے۔گھر اور سڑکیں پختہ اور کھیت ہموار ہو گئے۔فاصلے سمٹ چکے اور نئی نسل انٹرنیٹ کے عہد میں داخل ہو کر ہر طرح کی روایتی نسبت سے بیگانہ ہو چکی۔پھر بھی ہمارا ماضی ہمارے وجود میں کہیں پوری توانائی سے سانس لینے پر قادر ہے جسے صفحۂ قرطاس پر اتارنا لازم تھا اور محمد سعید جاوید نے یہ کام بڑی آسانی سے کر دکھایا ہے۔
کتاب کی زبان سادہ اور شگفتہ ہے۔مصنف نے کہیں مبالغہ آرائی کی ہے نہ کوئی ڈینگ ماری ہے۔کتھا دلفریب ہے تو اس لیے کہ یہ ہر سطح پر عمومی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔لوگ اجنبی لگتے ہیں نہ ان کے ارد گرد کی زندگی۔کہیں بھی تجرید اور اساطیر کی آمیزش محسوس نہیں ہوتی۔۔اتنی سچی کتاب کسی نے کم ہی پڑھی ہو گی۔
کتاب میں دوست احباب کے مختصر مگر عمدہ خاکے بھی ہیں جو بے تکلفانہ ہونے کے باوجود محکوک کا خاکہ نہیں اڑاتے بل کہ ان کے بارے میں ایسا تاثر پیدا کرتے ہیں کہ قاری ان سے محبت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اس کتاب کو پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محبت کرنے کے لیے محبت کا دکھاوا کرنا ضروری نہیں ہوتا اور دل سے نکلنے والی بات کو سننے والوں کی حاجت نہیں ہوتی۔

غلام حسین ساجد

اچھی گزر گئی/محمد سعید جاوید سعید جاوید کوئی معروف ادیب ہیں نہ شاعر۔سیاست دان ہیں نہ صنعتکار۔کبھی بینکار رہے تھے مگر…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Sunday, April 12, 2020

دیوار پہ چاک سے لکھا ہوں/صابر ظفر

اس کی طاقت تو ظفر تم دیکھو
کتنی صنفوں کو غزل نے چھینا

صابر ظفر کا یکم جنوری 2020ء کو شائع ہونے والا یہ مجموعہ مجھے قبل از وقت مل گیا تھا اور اس تیز رفتاری نے مجھے منیر نیازی کی نظم”وقت توں اگّے لنگھن دی سزا” یاد دلا دی۔
"بندہ کلّا رہ جاندا اے”
صابر ظفر بھی اپنے اس بیالیسویں مجموعے کے بعد اپنے ہم عصر غزل گوؤں میں اپنی طرز کا اکیلا آدمی ہے۔اس نے غزل میں اتنے تجربات کیے ہیں کہ اس کی غزل اس کے اوپر نقل کیے گئے شعر کی مصداق ہر شعری صنف کا بدل بن گئی ہے اور زندگی کی ہر کیفیت اور تجربے پر محیط ہے۔بحور،مضامین،اسلوب اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے اسے کسی کی مثل قرار دیا جا سکتا ہے نہ اس کا کسی سے تقابل کیا جا سکتا ہے۔وہ خیال کی ہر صورت اور فکر کی ہر پرت کو شعر بنانے پر قادر ہے اور داد وتحسین کی ہڑک سے بے نیاز ہے۔اس عہد میں شاعری کو اسلوب ِحیات بنا کر اگر کسی نے زیست کی ہے تو صرف صابر ظفر نے کی ہے۔اس کے اندر اس کے قد کے برابر نہیں اس کے تخیل کی ہم قد آگ ہے۔اسی لیے وہ ہر طرح کے انتشار کو لپیٹ میں لے کر شعلوں میں بدلنے کا ہنر جانتا ہے۔وہ اپنی لپیٹ میں آنے والے ہر خیال کو جلا کر پوّتِر اور تابناک بناتا ہے اور اس میں دیر تک دمکنے کی ادا شامل کرکے اسے بے مثل بنا دیتا ہے جسے ہم جدیدیت یا فکری صباحت کا نام دیتے ہیں۔
کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا ہے؟کم از کم صابر ظفر کا مسئلہ نہیں کہ وہ الہام کی ہر دمک کو جذب کرنے اور اسے اپنا بنانے میں صرف سبک دست ہی نہیں،منفرد بھی ہے۔اس لیے اس کے یہاں آہنگ کے انوکھے رنگ اور تجربات ملتے ہیں اور بعض اوقات قاری کو چکرا کر رکھ دیتے ہیں۔میں ان کی ایسی ہر غزل کو رک کر اور آہنگ سے ہم آہنگ کر پڑھتا ہوں تو اس سے غزل کی سلطنت میں ایک خاص طرح کی کشادگی کا رنگ پیدا ہوتا محسوس ہوتا ہے جو غزل کی یکسانیت کو توڑنے میں بہت کام آتا ہے۔
فہیم شناس کاظمی نے اس کتاب پر بہت عمدہ دیباچہ لکھا ہے۔انہوں نے کتاب کے نام کے حق میں دلیل دی ہے کہ”بارش جو تخلیق اور زندگی کی علامت ہے وہ چاک سے دیوار پر لکھے کے لیے پیام ِفنا ہے مگر اس دوران کا عرصہ جو وہ دیوار پر ہلکی سفیدی کے ساتھ اپنا پیغام اپنے ہم نفسوں کو دے رہا ہے وہ اسی درمیانی عرصے کو اپنی زندگی تصور کرتا ہے”.
ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر مجھے اس کتاب کے نام سے حوالے سے یہ گمان گزرتا ہے کہ اندر ہی اندر کہیں شاعر کو اپنی تگ و دو کی رائیگانی کا ڈر ہے اور کیوں نہ ہو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہماری بے گانگی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات خود مجھ پر بھی یہ کیفیت وارد ہوتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ لکھنا ترک کر کے کچھ اور دال دلیا کیا جائے،پھر بھی میں کہوں گا کہ صابر ظفر دیوار پر چاک سے نہیں چاقو کی نوک سے لکھا ہوا ہے۔اسے مٹانے کے لیے غزل کی دیوار کو مٹانا ہو گا۔
گریہ بڑھا جو حد سے تو بے صبر چشم کو
ٹوکا قبول ہوتی دعا نے کہ خیریت؟

یاد میں اس کی جلے آج بھی مقتل میں چراغ
ایک پروانہ ٔ پارینہ جو وحشت سے جلا

تیرے پیروں کی مٹّی سلامت رہے اے مرے پیش رو
تیری جائے شہادت ہے میرے لیے بندگی کی جگہ

ملا ہے حکم کہ ہم بندگی بھی چھپ کے کریں
سو اپنی جائے نماز ایک جائے نا معلوم

پیچھے رہ جائیں گے وہ،آگے نکل جاؤں گا میں
آنے والے جو شب و روز ہیں میرے آگے

تحریر: غلام حسین ساجد

دیوار پہ چاک سے لکھا ہوں/صابر ظفر اس کی طاقت تو ظفر تم دیکھو کتنی صنفوں کو غزل نے چھینا صابر ظفر کا یکم جنوری 2020ء…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Sunday, April 19, 2020

فیری میڈوز/ آغا سلمان باقر

نثر کی بہت کم کتابیں ایسی ہوا کرتی ہیں جنہیں آپ دوبارہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہاں شاعری کی کتاب کو بار بار پڑھا جا سکتا ہے کہ وہ عورت کی طرح کبھی اپنے من کے بھید کی پوری طرح خبر نہیں ہونے دیتی۔نثری کتاب اور خاص طور پر فکشن کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے پڑھ کر آپ اس کیفیت سے نکل آتے ہیں جسےشعری کتاب کی فضا اپنے اختتام تک سنبھالے رکھتی ہے۔اس لیے بار ِدگر مطالعے کی کوشش ایک خاص طرح کی اکتاہٹ پیدا کرتی ہےجو کتاب سے نسبت پیدا کرنے میں حارج ہوتی ہے۔سچ کہوں تو فکشن میں”بیتال پچیسی”،”باغ وبہار”،”سدھارتھ”اور”میرا داغستان” کے سوا”طلسم ِ ِہوش رُبا”اور "الف لیلہ”ہی ایسی کتابیں ہیں جو اپنے جوبن کی محافظ ہیں اور ہر بار نئی چھب دکھاتی ہیں۔
پھر بھی میں نے آغا سلمان باقر کے سفرنامے”،فیری میڈوز”کو دوبارہ پڑھا۔اس لیے کہ اس کی نثر،مناظر،واقعات اور بیانیے میں ایک خاص طرح کا اسرار ہے۔کچھ کچھ داستانوی اور الف لیلوی مگر واقعاتی طور پر حقیقت اور زمانی طور پر اپنے عصر سے جُڑا ہوا جس کا خود مصنف کو بخوبی احساس ہے۔اسی لیے تو وہ اس سفر نامے کے بارے میں ذاتی رائے دیتے ہوئے یہ لکھتے ہیں:
"میں نے اس سفر نامے کا ایک ایک لفظ،ایک ایک پیراگراف،ایک ایک بات،ایک ایک واقعہ اور تمام تر منظر کشی حقیقت کے قریب تر رہ کر تحریر کی ہے”.
ان کا کہا سچ ہے۔کتاب واقعاتی مبالغے سے پاک ہے مگر ایک اسرار بھری کیفیت پیدا کرنے سے پاک نہیں اور اس کا سبب ان کا جادوئی بیانیہ ہے اور کیوں نہ ہو وہ ابن ِ نبیرۂ آزاد ہیں۔مولوی محمد حسین آزاد کے پڑپوتے ہیں اور داستان طرازی کی منفرد روایت کے وارث ہی نہیں مجتہد بھی۔اس پر تصویری(photo genic) یاداشت کے مالک۔اس لیے انہوں نے مناظر اور سفر کی تفاصیل کو اس طرح پھیلا دیا ہے جیسے وہ اپنی حقیقت میں دراز تھیں۔اغا سلمان باقر نے انہیں خوردبینی آنکھ اور ایک ایسے عاشق کی آنکھ سے دیکھا ہے جو قطرے میں گُہر نہیں سمندر دیکھنے کی قوّت رکھتا ہو اور جس کے یاد کرنے پر مظاہر زوم ہوتے ہوئے ایک دل رُبا پینٹنگ میں ڈھل جاتے ہوں۔
بٹ گرام کے مندروں میں بجتی گھنٹیوں کی آواز ابھی آ رہی ہوتی ہے کہ ہم خود کو آغا صاحب کے ساتھ قراقرم اور ہندوکش کی مانگ میں سفر کرتے دیکھتے ہیں۔نیل کنٹھ کی طرح رنگ بدلتے ہمالیہ کی دھرتی سے رائے کوٹ کے آگ برساتے علاقے میں تتلیوں جیسی جیپ پر تاتو کا سفر ایک کچومر بنا دینے والی کتھا ہے۔ہاٹ ڈیزرٹ کی اس مسافت کو طے کرنے میں نصف رات ہی صرف ہوتی ہے مگر اس دورانیے میں موت دو بار آغا صاحب کو چھو کر گزر جاتی ہے اور بھوج پتر کے حریری لباس میں لپٹی زندگی گلابی عروسی جوڑا پہن کر ان کا پیچھا کرتی ہوئی،خوشبو کی لپٹیں بکھیرتی ایک منور سایے کی طرح ان کے قریب سے گزر کر ان کی پیش رو بن جاتی ہے۔کہیں وہ جنگل کی خاموشی میں ان سے ہم کلام ہوتی ہے تو کہیں ایک نظر نہ آنے والے پرندے کی پُکار بن کر اپنے جمال کو جنگل کی رنگارنگی میں ضم کر دیتی ہے اور آغا صاحب کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے قاری کے وجود کی ہم زاد بن جاتی ہے۔
آغا سلمان باقر کا یہ سفر لاہور سے لاہور کا نہیں۔ایک دنیا سے دوسری دنیا تک کا سفر ہے۔اس میں بٹ گرام،تھاہ کوٹ،بشام ،چلاس،رائے کوٹ،تاتو،فیری پوائنٹ،فن ٹوری،نانگا پربت،جوتھ گاؤں،فیری میڈوز کے پڑاؤ ہیں۔کرامت علی،فرید کبریا،علی رضا،خرم شکیب،سرفراز اور مرسلین خان جیسے منفرد اور زندہ کردار ہیں۔مارخور کے سر کے نیچے کھڑی دوشیزہ کا ہیولیٰ ہے اورپروین نورجہاں۔لیڈی پینو،ہائے ٹی ٹوائے ٹی کی لو سٹوری ہے اور غیبی دنیا کی خوشبو سے مہکتےحقُے والا بابا جو سلمان باقر کے باطنی رخ اور رنگ سے آگاہ ہے اور منظر کے اجالے میں ضم ہونے کی شکتی رکھتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ آغا صاحب کے صاحب زادے وجدان کی بدولت ہے کہ آغا کا ایک قدم موجود کی دنیا میں رہا اور شاید اس حنائی ہاتھ کی برکت ہے جس نے انہیں لڑکھڑانے سے بچایا تھا ورنہ وہ موجود سے موہوم کی طرف اتر جاتے اور نانگا پربت کی بلندی پر آباد پریوں کی بستی میں روشنی کی رنگین گیندوں سے کھیل رہے ہوتے۔
مجھ میں یہ صلاحیت نہیں کہ میں اس کتاب کے اسرار کو لفظوں میں بیان کروں۔یہ صلاحیت اور خوش بیانی اس کتاب کے مصنف کے پاس ہے اور اس فراوانی سے ہے کہ ان کی یاداشت،بیانیے،سبک دستی،تفصیلات کو ذہن سے اتارنے اور جزیات کو مائیکرو سکوپک ڈھنگ سے کاغذ پر اتار دینے کی آساں کوشی پر رشک آتا ہے۔جو شخص زر ِگُل کی بدلتی صورت کو پہچانتا ہو،اس سے گھاس اور پھولوں کے رنگ اور رنگوں کی رنگا رنگی کیسے مخفی رہ سکتی ہے۔اسی لیے تو چشمے،ندی نالے،دریا،ترائیاں،وادیاں اور پہاڑ ایک جادوئی منتر سے اس کی کتاب میں اپنے تمام تر اسرار کے ساتھ سمٹ آئے ہیں اور کسی آسیبی سایے کی طرح لفظوں کی بساط پر پھیلے ہوئے ہیں جیسے انہیں اپنا وجود ڈھانپنے کا لبادہ مل گیا ہو اور ہمیشگی کی دیوی نے انہیں اپنا ہم زاد بنا لیا ہو۔
ہرمن میلول کی”موبی ڈک”کا اہاب ہو یا ہرمن ہیسے کا سدھارتھ۔ان کی خرابی یہ ہے کہ وہ قاری کو اپنے ہمراہ چلنے پر اکساتے ہیں۔یہ خرابی”فیری میڈوز”کے محمد حسین میں بھی ہے اور مرسلین میں بھی۔وہ نانگا پربت کا چہرہ ہیں اور اس نقرئی عفریت کو پریوں کا دیس بنانے میں ان کا بہت حصہ ہے۔آغا سلمان باقر نے انہیں اس بات کا کریڈٹ دیا ہے اور خوب دیا ہے۔اس لیے کہ وہ فطرت سے قریب بھی رہتے ہیں اور اسے اس کے اصل روپ میں دیکھنے اور دکھانے کے حق میں ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے ان علاقوں کی رسوم،رواج اور معاشرت کو جس نوع کی محبت اور عزت سے برقرار رکھنے اور اس کا احترام کرنے کی بات کی ہے۔وہ صرف قابل ِقدر ہی نہیں قابل ِ پیروی بھی ہے اور اس سے خود سیّاحوں کی تکریم میں اضافہ ہو گا۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں نے ہر اس خوشبو کو اپنے قریب محسوس کیا جس کا ذکر اس کتاب میں آیا ہے۔مجھے تو یہ کتاب کم،برچ کے پنّوں پر لکھی ہوئی نظم زیادہ محسوس ہوئی۔کچھ کچھ اوڈیسی جیسی اور کیوں نہ ہو کہ اس کتاب کی سبک رفتار،پتھروں پر نرم قدموں سے چلتی ہوئی پری کیا کسی ڈائنا سے کم ہے۔

غلام حسین ساجد

فیری میڈوز/آغا سلمان باقر نثر کی بہت کم کتابیں ایسی ہوا کرتی ہیں جنہیں آپ دوبارہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہاں شاعری کی…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Monday, April 20, 2020