"پری” سے "زینہ”تک خالد فتح محمد وطنِ عزیز کی سیاسی اور سماجی کروٹوں کو موضوع بنا رہے تھے جس میں کہیں آپ بیتی کا ثڑکا اس طور لگا تھا کہ میری عمر کے قارئین اس آئینے میں اپنے کچلے ہوئے خوابوں کی جھلک دیکھتے تھے۔اس پر ان کا منہ زور چشمے کی طرح ابلتا اور باہر کی مٹی پر پھیلتا چلا جاتا بیانیہ کہ جو موجود کی تمام تر کیفیت اور تفصیل کو سمیٹ لے،حقیقت اور ماورائے حقیقت منظر نامے کو ایک مانوس علاقے کی شکل دے دیتا تھا کہ جس سے ہم آہنگ ہو کر ہم کھوئی ہوئی راحتوں کی بازیافت کے مرحلے سے گزرنے لگتے اور ہر گزرتا ہوا لمحہ جگنو کی طرح دمک کر کسی خاص کیفیت کو زندہ کر دیتا تھا۔شاید اسی لیے میں نے خالد فتح محمد کا لکھا ہر ناول پڑھا اور اپنی زندگی کے کھوئی ہوئی نعمتوں کی صرف بازیافت ہی نہیں کی انھیں بے محابا لطافت کے ساتھ دوبارہ جیا بھی۔
۔۔۔۔یہ سب ہے مگر کیا ضروری ہے کہ لکھنے والا اپنے ہی جادو کا اسیر رہے۔موضوع،اسلوب اور فکری منہاج سے اختلاف کرنا اس کا حق بھی ہے اور تخلیقی ہونے کی دلیل بھی۔خالد فتح محمد نے”شہر ِ مدفون”
اور اب”سود و زیاں کے درمیاں”میں اپنے تخلیقی اسلوب سے انحراف کیا ہے۔”سود و زیاں کے درمیاں”ہمارے معاشرے کی کتھا ضرور بیان کرتا ہے مگر یہ کسی خاص علاقے،زمانے یا مانوس تجربے سے اس طرح پیوست نہیں کہ قاری کی اس بیانیے سے ذاتی نسبت پیدا ہو اور وہ اسے اپنے حوالے سے آگے بڑھتا دیکھنے کا متمنی ہو اور خالد فتح محمد کو بھی اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ کہانی کیا رخ اختیار کرتی ہے اور کسی منطقی انجام کو پہنچتی ہے یا نہیں۔وہ کہانی میں جس لطافت سے داخل ہوتا ہے،کرداروں کو خود مختار بنا کر اسی ادا سے الگ ہو جاتا ہے سو یہ زندگی کی جدو جہد میں شامل لوگوں کی کہانی ضرور ہے،ان کے کامیاب یا ناکام ہونے کی نہیں اور یہی حقیقت ہے کہ ہم اسی نوشتہ جبر کے ساتھ زندگی سے جڑتے ہیں اور اسی طرح کی کامیابی یا ناکامی کا شکار ہو کر اس سے الگ ہو جاتے ہیں۔ضرودی نہیں کہ ہم موجود کے جبر کو توڑ سکیں اور ضروری نہیں کہ موجود کا جبر ہماری کوشش کو بے چہرہ بنا دے۔”سود و زیاں کے درمیاں”میں ہم ایسی ہی بساط بچھتے دیکھتے ہیں اور کہانی کسی منطقی انجام کے بغیر ختم ہو جاتی ہے۔
ہمیشہ کی طرح خالد فتح محمد کرداروں پر کوئی حکم لگاتے ہیں نہ کتھا کو ثمرور بنانے کی سعی کرتے ہیں۔وہ ایک خاص زمانے اور کیفیت کو پینٹ کرتے ہوئے ایک خاص کیفیت میں اپنے اشہب ِخیال کی باگ کھینچ لیتے ہیں اور باقی کا کام کرداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں گو خان فضل الرحمان کی طرح وہ اپنے کرداروں کو بے راہ رو نہیں ہونے دیتے مگر انہیں ان کی غلامی اور مصنف کی فکر کے تابع رہنے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔اس طرح ان کے کردار ایک فطری ماحول میں رم کرتے اور معدوم ہوتے ہیں۔
"پری”سے”زینہ”تک خالد فتح محمد کے ناولوں کی عورتیں نسبتاً فعال ہیں۔یہ رنگ اس ناول میں بھی موجود ہے مگر کسی ناول میں بھی قصے پر غالب نہیں۔ہاں خالد فتح محمد کو نسائیت اور نسائی نفسیات سے دلچسپی ضرور ہے۔اس طرح اس کے ناولوں میں مردانہ اور نسائی کرداروں کی باطنی زندگی ایک سی الجھن اور کش مکش کا شکار نظر آتی ہے اور وہ برابری کی سطح پر کھڑے محسوس ہوتے ہیں۔
خالد فتح محمد ناصح نہیں اس لیے”سود و زیاں کے درمیاں”ہر طرح کے تبلیغی رنگ سے پاک ہے اور اس کا معاشرہ اور کردار کہیں بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کا یہ ناول بھی شعور کی رو کا ناول ہے جو کہیں بھی بیانیے سے الگ ہوتی ہے نہ بیانیے کو یک سطحی ہونے دیتی ہے۔اس طرح فطری تعامل کا جادو برقرار رہتا ہے اور خالد فتح محمد کی انفرادیت کی دلیل بنتا ہے۔
غلام حسین ساجد
سود و زیاں کے درمیاں/ خالد فتح محمد "پری" سے "زینہ"تک خالد فتح محمد وطنِ عزیز کی سیاسی اور سماجی کروٹوں کو موضوع بنا…
Posted by Ghulam Hussain Sajid on Friday, March 20, 2020