ریاظ احمد کا” شجر ِحیات”

تخلیہ میرے لیے کئی طرح کے قرض اتارنے کی سبیل بنا ہے۔ثروت حسین نے کہا تھا”میں نے خود کو جمع کیا پچیس برس میں”،اس خود اختیار کردہ قرنطینہ کے دوران میں مجھے خود کو یکجا کرنے میں دو ہی دن لگے ہیں اور میں ہر روز ایک کتاب پڑھ رہا ہوں۔
خالد فتح محمد کا”سُود و زیاں کے درمیاں”پہلے پڑھا اور اس پر اپنی رائے دے چکا۔آج ریاظ احمد کا ناول”شجر ِحیات”پڑھ کر بیٹھا ہوں اور اس کی زبان،اُسلوب اور موضوع کے سِحر میں گرفتار ہوں۔کتاب کے پہلے باب اور کتاب ِمقدس کے حوالوں سے مجھے گمان گزرا تھا کہ شاید مجھے اساطیر سے سابقہ پڑے گا مگر ناول کے پہلے ہی باب سے میں ایک ہمیشہ برقرار رہنے والی روشنی کے ہم راہ ہو لیا اور مصنف نے اس کی دمک کو آخری سطر تک محفوظ رکھا۔
"شجر ِحیات”محبت کی کہانی ہے جسے دانش اور رنگوں کی زباں سے بیان کیا گیا ہے۔موت کی عملداری میں اپنے آپ کو دیکھنا اور اس سے باہر نکل کر ایک رویائی کیفیت کو مصور کرنا ایک منفرد تجربہ ہی نہیں،زندگی کی قوت اور حقانیت کا اعتراف بھی ہے۔فن ِ مصوری کی ادا اور رنگوں کی کیمیا کو اس سہولت سے بیان کرنے کا حق تو ریاظ احمد کو تھا ہی کہ وہ ایک پیشہ ور مصور ہیں مگر ان توضیحات کو ان کے فکری اور تخلیقی وفور نے ایک اور ہی رنگ دے دیا ہے۔اس سے ناول میں ایک سِرّی عمق پیدا ہو گیا ہے جسے زبان کی ششتگی اور بیانیے کے طلسم نے بہت دل پسند بنا دیا ہے اور ہم آخری صفحے تک ایک لطیف روانی میں بہتے چلے جاتے ہیں۔
کہانی حال سے ماضی اور پھر حال سے وابستہ ہو کر ایک ایسے مصور کی زندگی سے علاقہ رکھتی ہے جو پہلی نظر کی محبت اور اچانک حادثے کے بیچ رویا میں روشنی کو ایک شکل میں ڈھلتے دیکھتا ہے اور اسے مسیح جان کر ایک بشپ کی خواہش پر اسے چرچ کے لیے مصور کرتا ہے۔اس تصویر کی باطنی نسبت اس کی ذات سے بھی ہے اور اس کی محبت سے بھی اور یہ دونوں وجوہات اس ندرت کا سبب بنتی ہیں جو اس تصویر کی انفرادیت بھی ہے اور اس کی خامی بھی۔مصور کی دشمنی اور رقابت میں مبتلا لوگ اس انفرادیت کو مذہبی اہانت کا رنگ دے کر مصور کے لیے زیست کرنے کی کوشش کو مشکل بنا دیتے ہیں مگر بعد میں محبت اور عدو کا پچھتاوا اس مشکل کے ختم ہونے کا سبب بن جاتے ہیں اور کہانی ایک زندگی بخش تجربے میں ڈھل جاتی ہے۔
ناول کی زبان،لفظیات،جمالیاتی آہنگ دل پذیر ہے اور مصنف نے ایک متوازن تخلیقی شگفت کے ساتھ اسے مکمل کیا ہے۔پروفیسر کا کردار بہت دلچسپ اور ناول کی علویت کے لیے مددگار ہے۔کرداروں کی ذہنی کیفیات کا بیان بہت خوب ہے اور رنگوں،لمسی مناظر اور نفسیاتی ابعاد کو بہت سلیقے سے برتا گیا ہے جس پر ریاظ احمد داد کے حق دار ہیں۔
کہانی کا اکلوتا جھول حضرت عیسیٰ کی پینٹنگ کے حوالے سے لوگوں کے ردعمل کا بیان ہے۔دنیا بھر کے کلیساؤں میں حضرت عیسیٰ کی تصاویر بھی موجود ہیں اور مجسمے بھی اور یقیناً مسیحی اس حوالے سے اتنے جذباتی نہیں کہ ایک پینٹنگ کے حوالے سے اس قدر جذباتیت کا مظاہرہ کریں کہ مصور کے خلاف جلوس لے کر نکل پڑیں اور اسے بے وجہ زد وکوب کریں مگر شاید یہ مصنف کی مجبوری تھی ۔ہم سب جانتے ہیں کہ مصور اس کے علاوہ کوئی اور قدم کیوں نہیں اُٹھا سکتا تھا۔
بہر صورت یہ ایک ترجیحی طور پر قابلِ مطالعہ ناول ہے جسے پہلی فرصت میں پڑھنے کی ضرورت ہے۔میرے ایک نوجوان دوست جاوید اقبال سہو تو اس کے حوالے سے بہت جذباتی ہیں۔انہوں نے ملاقات میں اس ناول کی اتنی تعریف کی کہ مجھے اسے مطالعاتی ترجیح میں اوپر لانا پڑا۔۔یہ الگ بات ہے کہ اس کی رائے غلط نہیں تھی۔

غلام حسین ساجد

ریاظ احمد کا"شجر ِحیات" تخلیہ میرے لیے کئی طرح کے قرض اتارنے کی سبیل بنا ہے۔ثروت حسین نے کہا تھا"میں نے خود کو جمع کیا…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Wednesday, March 25, 2020

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے