درس گاہ- 53

فروری 1974ء کے پہلے ہفتے میں نواز نے یونیورسٹی اوریئنٹل کالج میں داخلہ شروع ہونے کی نوید سنائی تو میں اگلے ہی روز لاہور پہنچا اور پراسپیکٹس لے کر ارود اور پنجابی زبان وادب،دونوں شعبوں میں داخلے کی درخواستیں داغ دیں۔اردو بازارچوک کی حبیب بنک بلڈنگ کے کمرہ نمبر سات میں علی ظہیر منہاس سے نشست جمائی۔شام کو ٹی ہاؤس کا چکر لگا کر اگلے روز گاؤں پلٹنے کا ارادہ تھا کہ نواز اور اورینٹل کالج کے بعض دوسرے دوستوں نے دو روز بعد ترقی پسند طلبہ کے کراچی میں ہونے والے کنوینشن میں شرکت کے لیے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔میں اس نیّت سے آیا تو نہیں تھا مگر کراچی دیکھنے اور دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کی ہوس اور اس سے زیادہ اس تاریخی اجلاس کا حصہ بننے کے شوق میں ساتھ جانے کے لیے تیار ہوا اور اگلی دوپہر لاہور کے طلبہ کا یہ وفد خصوصی ٹرین سے جو پشاور سے گوجرانولہ تک کے طلبہ کو لےکر پانچ گھنٹے کی تاخیر سے سہ پہر کو لاہور پہنچی اور جس کی دو بوگیاں لاہور کے طلبہ و طالبات کے لیے مخصوص تھیں،کراچی کے لیے روانہ ہوا۔اس ادا کے ساتھ کہ یہ طلبہ کی مرضی سے رکتی اور چلتی تھی اور راہ میں آنے والی ہر سومنات کو محمود غزنوی کی طرح روندتی جاتی تھی۔پہلے رینالہ کے کسان اسٹیشن کے قرب و جوار میں کنّو اور مالٹے کے باغوں پر دھاوا بولا گیا پھر ساہیوال اسٹیشن کو لُوٹنے کی باری آئی اور کیفیت یہ ہوئی کہ پنجاب کراس کرنے سے پہلے ہی ہر سٹاپ خالی ملنے لگا۔یہ ٹرین عام مسافروں کے لیے نہیں تھی اور نہ ہی اس پر راہ میں منتظر طلبہ کے سوا کسی کو سوار ہونے کی اجازت تھی مگر طلبہ کے سیلِ بے اماں کے آگے بند کون باندھتا۔ہماری بوگی میں روہڑی سے کچھ سندھی مسافر بٹھا لیے گئے اور نہ معلوم کیسے نواز سمیت دوستوں کے ایک وفد نے ان کے ساتھ ایک روپیہ بوٹ رکھ کر فلاش کھیلنی شروع کی اور یہ سلسلہ رات بھر جاری رہا۔ٹرین ضرورت سے کہیں کم رفتار کے ساتھ چلتی تھی اور جہاں جی چاہتا تھا،زنجیر کھینچ کر روک لی جاتی تھی۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کی ایک تقریباً ویران جگہ پر رک کر کچھ طلبہ سامنے دکھائی دینے والے گاؤں میں کسی سے ملنے چلے گئے اور ان کی واپسی تک کم و بیش تمام مسافر نیچے اتر کر طرح طرح کے کام کرتے رہے،جن میں نواحِ دہلی کے صبح کے وقت داخلے کے منظر کا اعادہ بھی شامل تھا(سمجھوتہ ایکسپریس لاہور سے فجر کے وقت دہلی پہنچتی تھی تب شہر کے آغاز سے پہلے ریلوے کی پٹڑیاں لوٹا اور پانی کی بوتل بردار لوگوں سے بھری ہوتی تھیں جو ٹرین کی طرف رُخ کیےحوائج ِضروریہ سے فارغ ہو رہے ہوتے تھے۔ان کی تعداد گنتی سے باہر ہوتی ہے۔کہیں بھی کھڑے ہو کر کسی بھی دیوار کو سیراب کرنے کی ادا دہلی اور ڈھاکہ کے باسیوں میں مشترک ہے اور ان دونوں شہروں کی فضا پر غالب بُو پیشاب کی ہے)۔لاہور کے مختلف اداروں سے شامل ہونے والے طلبہ و طالبات دو سو سے کم کیا ہوں گے مگر مجھے نواز،انیس،میاں سعید،عبدالغفور،رانا تصور حسین،ضیا آفتاب،رانا سہیل،محمد جہانگیر،محمد باقر،مختار اور نشاط کاظمی کے نام ہی یاد ہیں۔راہ میں فلاش کھیلنے کے نتیجے میں نواز اپنے مالی اثاثے سے پوری طرح فارغ ہوا تو مجھ پر انحصار کی ضرورت درپیش ہوئی۔میں فلاش دیکھتا ضرور تھا کہ یہ کام ہاسٹلز میں بھی ہوا کرتا تھا مگر اس کے کھلاڑیوں یا شیدائیوں میں شمار نہیں ہوتا تھا۔اب دوستوں کے اصرار اور سندھی ہمراہیوں کے للکارنے پر پال میں صرف اس شرط پر بیٹھا کہ ایک گھنٹے سے زیادہ اور پچاس روپے( جو آج کے پانچ ہزار کے برابر تھے) سے زیادہ نہیں کھیلوں گا۔میں نے ایسا ہی کیا مگر اپنی ناتجربہ کاری کے باوجود وہ رات میری تھی۔ایک ہی گھنٹے میں ساتھیوں کی ہاری ہوئی رقم واپس آ چکی تھی بل کہ کچھ فائدے ہی میں رہے۔میں نے کراچی یاترا کے دوران میں کسی کی رقم اّسے باقاعدہ نہیں لوٹائی۔منوڑا،ہاکس بے،کیماڑی،صدر،زیرو پوائنٹ،لیاقت آباد وغیرہ کی سیر اور مزار ِقائد پر حاضری کا خرچ میں نے ہی اٹھایا مگر انھی کے پیسوں سے اور شاید یہ ان کے اور میرے حق میں بہتر رہا۔ہماری ٹرین لگ بھگ چھتیس گھنٹوں کے بعد کراچی پہنچی۔کینٹ اسٹیشن سے ہمیں نیشنل اسٹیڈیم لے جایا گیا۔لڑکیوں کے لیے ہاسٹل کا انتظام تھا مگر ہمیں گراؤنڈ میں خیمے الاٹ کیے گئے۔تاہم بستر وغیرہ کا معقول انتظام تھا اور نہانے دھونے کو کھلاڑیوں کے لیے مخصوص غسل خانے دستیاب تھے۔خیمے میں بستر پر قبضہ کرنے اور سامان رکھنے کے بعد میں نے تازہ دم ہونے کے لیے غسل خانوں کا رُخ کیا۔غسل کرنے کے لیے شاور کھولنے کی دیر تھی کہ انتہائی یخ پانی کی زور دار دھار نے لپیٹ میں لے لیا۔اُف خدایا! میں اس حماقت اور اذیت کو آج تک نہیں بھولا۔پتا نہیں کوئی خصوصی اہتمام کیا گیا تھا یا کراچی کے موسم کی تاثیر تھی کہ دریائے سوات اور کنہار کا پانی بھی اس پانی کی ٹھنڈک کے آگے پانی بھرتا تھا مگر اب نہائے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔سو جیسے تیسے نہا کر کپڑے بدلے اور نواز کو ساتھ لے کر کینٹین سے چائے کے دو کپ پئیے تو ہوش قدرے ٹھکانے آئے۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے بعد میں نہانے سے پہلے پانی کا درجۂ حرارت معلوم کر کے ہی غسل کی زحمت اٹھاتا رہا۔کراچی قیام کی پہلی ہی رات ہم سب NOPS کے ممبر بنے۔یہ نیشنل آرگنائزیشن آف پراگریسو سٹوڈنٹس کا مخفف تھا۔اس میں شامل ہونے والے تمام طلبہ پہلے مختلف ترقی پسند تنظیموں کے رکن تھے۔اس موقع پر کراچی کے کئی گلوکاروں نے لائیو پرفارم کیا.کراچی کے گٹارسٹ جو بعد میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام کے مستقل پرفارمر رہے،عالمگیر سے پہلی دفعہ تعارف اسی موقع پر ہوا اور انھوں نے زیادہ تر کشور کمار کو گایا۔خصوصاً”یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے”نے تو رنگ باندھ دیا۔رات کو بون فائر کے وقت تو جیسے کسی میلے کا سماں تھا کہ چاروں صوبوں کے طلبہ کے علاقائی رقص اور گیت تھمنے ہی میں نہیں آتے تھے۔اس ہلّے گُلّے میں طالبات کا حصہ طلبہ سے بڑھ کر تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے نوجوان پاکستانی نسل کوئی نئی کروٹ لے رہی ہے۔اس وقت لاؤڈ سپیکر پر اور ہر ایک کی زبان پر ایک ہی گیت تھا:ہو مبارک آج کا دنرات آئی ہے سُہانیشادمانی ہو شادمانی۔۔۔دوسرا دن گھومنے پھرنے میں گزارا۔تیسرے دن کی رات کنوینشن ہال میں بڑا جلسہ ہوا۔جس کی صدارت ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ہال کو ماؤ اور دیگر مارکسی اور سوشلسٹ رہنماؤں کی تصاویر اور اقوال سے سجایا گیا تھا۔اس ہال میں مختار وغیرہ کے ایما پر "کھر ساڈا شیر اے،باقی ہیر پھیر اے” کے نعرے لگائے گئے اور خوب دھما چوکڑی مچی۔اس نعرے نے بھٹو کو بدمزہ کر دیا اور اس نے انتہائی مختصر تقریر پر اکتفا کر کے جانے میں عافیت جانی۔شاید بھٹو اور کھر کے بیچ مخاصمت کی بنا اسی کنوینشن سے پڑی۔ہم نے دو روز مزید اسی سٹیڈیم میں گزارے۔جی بھر کر گھومے پھرے۔اپنے عزیزوں کے لیے معمولی تحائف خریدے اور اُسی سپیشل ٹرین سے لاہور مراجعت کی۔واپسی کے سفر کی کتھا جانے کی کتھا سے مختلف نہیں تھی۔ایک جگہ سینکڑوں طلبہ کے ایک جتھے نے پونے گنّا کے کھیت پر یلغار کی تو چند دیہاتی بندوق لے کر مرنے مارنے پر اُتر آئے۔ان کی عورتیں ماتم کرتی ہوئی بین کرنے لگیں۔ادھر طلبہ بھی پستول لہراتے ہوئے مقابلے پر اُتر آئے۔اُن دیہاتیوں کا غصہ اور رنج فطری تھا۔وہ بین آج بھی میرے دل پر لکھے ہیں۔افسوس شاید میرے سوا ان کا کوئی ہم درد نہ تھا۔اپنے دوستوں کو بڑی مشکل سے اس تصادم سے باز رکھا۔ان غریب کسانوں کی مدد کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں تھی مگر شاید اس سے زیادہ کچھ کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔یہ کہانی رینالہ پہنچنے پر دہرائی گئی اور ہم لوگ جب لاہور اترے تو کئی طلبہ کے تکیوں کے غلاف مالٹوں سے بھرے تھے۔اس سفر نے مجھے طلبہ سیاست سے متنفر کر دیا مگر میرے اندر کا ترقی پسند پھر بھی نہیں مرا۔اگرچہ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ ترقی پسند طلبہ کبھی کسی تنظیم میں نہیں ڈھل سکتے اور وہ ایک متشدد ہجوم ہی رہیں گے۔لاہور پلٹے تو داخلے کی فہرستیں لگ چکی تھیں۔مجھے اردو اور پنجابی دونوں میں داخلے کا حق دار قرار دے دیا گیا تھا۔اردو کی فہرست میں میرا نام چودھویں اور پنجابی شعبے کی فہرست میں پہلا تھا۔انٹرویو کی تاریخ اگلے ہی روز تھی اور مجھے یہ فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی کہ کس مضمون میں داخلہ لوں۔نواز تب اردو کو خیرباد کہہ کر پنجابی کی فائنل کلاس میں تھا اور اس کا اصرار تھا کہ اگر مجھے وقت گزاری کے لیے ہی داخلہ لینا ہے تو اس کے لیے پنجابی میں داخلہ لینا ہی مناسب رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے