زمیں سے کوئی تعلق نہ آسماں سے عشق
نہیں ہے اور نہ ہو گا ترے جہاں سے عشق
دیارِ دل میں ٹھہرنے کے سو بہانے ہیں
کبھی مکین سے نسبت کبھی مکاں سے عشق
فقیہہِ شہر بھی دیوانہ وار پھرتے ہیں
فقط ہمیں ہی نہیں کوئے ِ دلبراں سے عشق
رواں دواں ہیں کہ سب لوگ چل رہے ہیں میاں
مسافرت کی لپک ہے نہ کارواں سے عشق
کبھی سیاہئ شب کا خیال ہے تو کبھی
ظہور کرتی ہوئی رود ِ کہکشاں سے عشق
شکست و فتح کی نسبت ہماری ذات سے ہے
عدو سے داد طلب ہیں نہ مہرباں سے عشق
وہ کون ہے جو نہیں تیرے کنجِ لب پہ فدا
کسے نہیں ہے تری خوبئ بیاں سے عشق
کسی کا شہرِ طرب میں بھی جی نہیں لگتا
خوش آ گیا ہے کسی کو غم ِ جہاں سے عشق
مگر یہ راز بہت دیر میں کُھلا مجھ پر
جمالِ یار کو ہے زرِ عاشقاں سے عشق
کہاں رہا ہے ہوا و ہوس کے بندوں کو
غبار ِ خواب میں لپٹے ہوئے زیاں سے عشق
ہمیں طلسم ِ صدا کی ہے آرزو ساجد
ہمارے دل کو ہے میراث ِ رفتگاں سے عشق