جہاں میں ڈالتے رہتے ہیں ماسِوا کی طرح
درخت چل نہیں سکتے مگر ہوا کی طرح
بھٹک کر آئی تھی کچھ دیر کو اِدھر دُنیا
لپٹ گئی مرے دل سے کسی بلا کی طرح
مرے حصار سے باہر بھی وہ نہیں رہتا
مرے قریب بھی آتا نہیں خدا کی طرح
بہت سے رنگ اُترتے ہیں میری آنکھوں میں
کسی کے دھیان میں اُلجھی ہوئی صدا کی طرح
اُتر گیا مرے دل میں وہ بے دھڑک لیکن
لبوں پہ آ نہیں پایا ہے مدعا کی طرح
رواں دواں ہیں مرے آس پاس کی اشیا
پڑا ہوا ہوں زمیں پر میں نقش ِ پا کی طرح
سمٹ سکوں گا نہ اپنے وجود میں ساجد
پہن لیا ہے کسی نے مجھے قبا کی طرح
غلام حسین ساجد