Author Archives: Ghulam Hussain Sajid

درس گاہ- 53

فروری 1974ء کے پہلے ہفتے میں نواز نے یونیورسٹی اوریئنٹل کالج میں داخلہ شروع ہونے کی نوید سنائی تو میں اگلے ہی روز لاہور پہنچا اور پراسپیکٹس لے کر ارود اور پنجابی زبان وادب،دونوں شعبوں میں داخلے کی درخواستیں داغ دیں۔اردو بازارچوک کی حبیب بنک بلڈنگ کے کمرہ نمبر سات میں علی ظہیر منہاس سے نشست جمائی۔شام کو ٹی ہاؤس کا چکر لگا کر اگلے روز گاؤں پلٹنے کا ارادہ تھا کہ نواز اور اورینٹل کالج کے بعض دوسرے دوستوں نے دو روز بعد ترقی پسند طلبہ کے کراچی میں ہونے والے کنوینشن میں شرکت کے لیے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔میں اس نیّت سے آیا تو نہیں تھا مگر کراچی دیکھنے اور دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کی ہوس اور اس سے زیادہ اس تاریخی اجلاس کا حصہ بننے کے شوق میں ساتھ جانے کے لیے تیار ہوا اور اگلی دوپہر لاہور کے طلبہ کا یہ وفد خصوصی ٹرین سے جو پشاور سے گوجرانولہ تک کے طلبہ کو لےکر پانچ گھنٹے کی تاخیر سے سہ پہر کو لاہور پہنچی اور جس کی دو بوگیاں لاہور کے طلبہ و طالبات کے لیے مخصوص تھیں،کراچی کے لیے روانہ ہوا۔اس ادا کے ساتھ کہ یہ طلبہ کی مرضی سے رکتی اور چلتی تھی اور راہ میں آنے والی ہر سومنات کو محمود غزنوی کی طرح روندتی جاتی تھی۔پہلے رینالہ کے کسان اسٹیشن کے قرب و جوار میں کنّو اور مالٹے کے باغوں پر دھاوا بولا گیا پھر ساہیوال اسٹیشن کو لُوٹنے کی باری آئی اور کیفیت یہ ہوئی کہ پنجاب کراس کرنے سے پہلے ہی ہر سٹاپ خالی ملنے لگا۔یہ ٹرین عام مسافروں کے لیے نہیں تھی اور نہ ہی اس پر راہ میں منتظر طلبہ کے سوا کسی کو سوار ہونے کی اجازت تھی مگر طلبہ کے سیلِ بے اماں کے آگے بند کون باندھتا۔ہماری بوگی میں روہڑی سے کچھ سندھی مسافر بٹھا لیے گئے اور نہ معلوم کیسے نواز سمیت دوستوں کے ایک وفد نے ان کے ساتھ ایک روپیہ بوٹ رکھ کر فلاش کھیلنی شروع کی اور یہ سلسلہ رات بھر جاری رہا۔ٹرین ضرورت سے کہیں کم رفتار کے ساتھ چلتی تھی اور جہاں جی چاہتا تھا،زنجیر کھینچ کر روک لی جاتی تھی۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کی ایک تقریباً ویران جگہ پر رک کر کچھ طلبہ سامنے دکھائی دینے والے گاؤں میں کسی سے ملنے چلے گئے اور ان کی واپسی تک کم و بیش تمام مسافر نیچے اتر کر طرح طرح کے کام کرتے رہے،جن میں نواحِ دہلی کے صبح کے وقت داخلے کے منظر کا اعادہ بھی شامل تھا(سمجھوتہ ایکسپریس لاہور سے فجر کے وقت دہلی پہنچتی تھی تب شہر کے آغاز سے پہلے ریلوے کی پٹڑیاں لوٹا اور پانی کی بوتل بردار لوگوں سے بھری ہوتی تھیں جو ٹرین کی طرف رُخ کیےحوائج ِضروریہ سے فارغ ہو رہے ہوتے تھے۔ان کی تعداد گنتی سے باہر ہوتی ہے۔کہیں بھی کھڑے ہو کر کسی بھی دیوار کو سیراب کرنے کی ادا دہلی اور ڈھاکہ کے باسیوں میں مشترک ہے اور ان دونوں شہروں کی فضا پر غالب بُو پیشاب کی ہے)۔لاہور کے مختلف اداروں سے شامل ہونے والے طلبہ و طالبات دو سو سے کم کیا ہوں گے مگر مجھے نواز،انیس،میاں سعید،عبدالغفور،رانا تصور حسین،ضیا آفتاب،رانا سہیل،محمد جہانگیر،محمد باقر،مختار اور نشاط کاظمی کے نام ہی یاد ہیں۔راہ میں فلاش کھیلنے کے نتیجے میں نواز اپنے مالی اثاثے سے پوری طرح فارغ ہوا تو مجھ پر انحصار کی ضرورت درپیش ہوئی۔میں فلاش دیکھتا ضرور تھا کہ یہ کام ہاسٹلز میں بھی ہوا کرتا تھا مگر اس کے کھلاڑیوں یا شیدائیوں میں شمار نہیں ہوتا تھا۔اب دوستوں کے اصرار اور سندھی ہمراہیوں کے للکارنے پر پال میں صرف اس شرط پر بیٹھا کہ ایک گھنٹے سے زیادہ اور پچاس روپے( جو آج کے پانچ ہزار کے برابر تھے) سے زیادہ نہیں کھیلوں گا۔میں نے ایسا ہی کیا مگر اپنی ناتجربہ کاری کے باوجود وہ رات میری تھی۔ایک ہی گھنٹے میں ساتھیوں کی ہاری ہوئی رقم واپس آ چکی تھی بل کہ کچھ فائدے ہی میں رہے۔میں نے کراچی یاترا کے دوران میں کسی کی رقم اّسے باقاعدہ نہیں لوٹائی۔منوڑا،ہاکس بے،کیماڑی،صدر،زیرو پوائنٹ،لیاقت آباد وغیرہ کی سیر اور مزار ِقائد پر حاضری کا خرچ میں نے ہی اٹھایا مگر انھی کے پیسوں سے اور شاید یہ ان کے اور میرے حق میں بہتر رہا۔ہماری ٹرین لگ بھگ چھتیس گھنٹوں کے بعد کراچی پہنچی۔کینٹ اسٹیشن سے ہمیں نیشنل اسٹیڈیم لے جایا گیا۔لڑکیوں کے لیے ہاسٹل کا انتظام تھا مگر ہمیں گراؤنڈ میں خیمے الاٹ کیے گئے۔تاہم بستر وغیرہ کا معقول انتظام تھا اور نہانے دھونے کو کھلاڑیوں کے لیے مخصوص غسل خانے دستیاب تھے۔خیمے میں بستر پر قبضہ کرنے اور سامان رکھنے کے بعد میں نے تازہ دم ہونے کے لیے غسل خانوں کا رُخ کیا۔غسل کرنے کے لیے شاور کھولنے کی دیر تھی کہ انتہائی یخ پانی کی زور دار دھار نے لپیٹ میں لے لیا۔اُف خدایا! میں اس حماقت اور اذیت کو آج تک نہیں بھولا۔پتا نہیں کوئی خصوصی اہتمام کیا گیا تھا یا کراچی کے موسم کی تاثیر تھی کہ دریائے سوات اور کنہار کا پانی بھی اس پانی کی ٹھنڈک کے آگے پانی بھرتا تھا مگر اب نہائے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔سو جیسے تیسے نہا کر کپڑے بدلے اور نواز کو ساتھ لے کر کینٹین سے چائے کے دو کپ پئیے تو ہوش قدرے ٹھکانے آئے۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے بعد میں نہانے سے پہلے پانی کا درجۂ حرارت معلوم کر کے ہی غسل کی زحمت اٹھاتا رہا۔کراچی قیام کی پہلی ہی رات ہم سب NOPS کے ممبر بنے۔یہ نیشنل آرگنائزیشن آف پراگریسو سٹوڈنٹس کا مخفف تھا۔اس میں شامل ہونے والے تمام طلبہ پہلے مختلف ترقی پسند تنظیموں کے رکن تھے۔اس موقع پر کراچی کے کئی گلوکاروں نے لائیو پرفارم کیا.کراچی کے گٹارسٹ جو بعد میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام کے مستقل پرفارمر رہے،عالمگیر سے پہلی دفعہ تعارف اسی موقع پر ہوا اور انھوں نے زیادہ تر کشور کمار کو گایا۔خصوصاً”یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے”نے تو رنگ باندھ دیا۔رات کو بون فائر کے وقت تو جیسے کسی میلے کا سماں تھا کہ چاروں صوبوں کے طلبہ کے علاقائی رقص اور گیت تھمنے ہی میں نہیں آتے تھے۔اس ہلّے گُلّے میں طالبات کا حصہ طلبہ سے بڑھ کر تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے نوجوان پاکستانی نسل کوئی نئی کروٹ لے رہی ہے۔اس وقت لاؤڈ سپیکر پر اور ہر ایک کی زبان پر ایک ہی گیت تھا:ہو مبارک آج کا دنرات آئی ہے سُہانیشادمانی ہو شادمانی۔۔۔دوسرا دن گھومنے پھرنے میں گزارا۔تیسرے دن کی رات کنوینشن ہال میں بڑا جلسہ ہوا۔جس کی صدارت ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ہال کو ماؤ اور دیگر مارکسی اور سوشلسٹ رہنماؤں کی تصاویر اور اقوال سے سجایا گیا تھا۔اس ہال میں مختار وغیرہ کے ایما پر "کھر ساڈا شیر اے،باقی ہیر پھیر اے” کے نعرے لگائے گئے اور خوب دھما چوکڑی مچی۔اس نعرے نے بھٹو کو بدمزہ کر دیا اور اس نے انتہائی مختصر تقریر پر اکتفا کر کے جانے میں عافیت جانی۔شاید بھٹو اور کھر کے بیچ مخاصمت کی بنا اسی کنوینشن سے پڑی۔ہم نے دو روز مزید اسی سٹیڈیم میں گزارے۔جی بھر کر گھومے پھرے۔اپنے عزیزوں کے لیے معمولی تحائف خریدے اور اُسی سپیشل ٹرین سے لاہور مراجعت کی۔واپسی کے سفر کی کتھا جانے کی کتھا سے مختلف نہیں تھی۔ایک جگہ سینکڑوں طلبہ کے ایک جتھے نے پونے گنّا کے کھیت پر یلغار کی تو چند دیہاتی بندوق لے کر مرنے مارنے پر اُتر آئے۔ان کی عورتیں ماتم کرتی ہوئی بین کرنے لگیں۔ادھر طلبہ بھی پستول لہراتے ہوئے مقابلے پر اُتر آئے۔اُن دیہاتیوں کا غصہ اور رنج فطری تھا۔وہ بین آج بھی میرے دل پر لکھے ہیں۔افسوس شاید میرے سوا ان کا کوئی ہم درد نہ تھا۔اپنے دوستوں کو بڑی مشکل سے اس تصادم سے باز رکھا۔ان غریب کسانوں کی مدد کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں تھی مگر شاید اس سے زیادہ کچھ کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔یہ کہانی رینالہ پہنچنے پر دہرائی گئی اور ہم لوگ جب لاہور اترے تو کئی طلبہ کے تکیوں کے غلاف مالٹوں سے بھرے تھے۔اس سفر نے مجھے طلبہ سیاست سے متنفر کر دیا مگر میرے اندر کا ترقی پسند پھر بھی نہیں مرا۔اگرچہ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ ترقی پسند طلبہ کبھی کسی تنظیم میں نہیں ڈھل سکتے اور وہ ایک متشدد ہجوم ہی رہیں گے۔لاہور پلٹے تو داخلے کی فہرستیں لگ چکی تھیں۔مجھے اردو اور پنجابی دونوں میں داخلے کا حق دار قرار دے دیا گیا تھا۔اردو کی فہرست میں میرا نام چودھویں اور پنجابی شعبے کی فہرست میں پہلا تھا۔انٹرویو کی تاریخ اگلے ہی روز تھی اور مجھے یہ فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی کہ کس مضمون میں داخلہ لوں۔نواز تب اردو کو خیرباد کہہ کر پنجابی کی فائنل کلاس میں تھا اور اس کا اصرار تھا کہ اگر مجھے وقت گزاری کے لیے ہی داخلہ لینا ہے تو اس کے لیے پنجابی میں داخلہ لینا ہی مناسب رہے گا۔

اُس نے قدم بڑھایا نہ میرے قدم بڑھے

اُس نے قدم بڑھایا نہ میرے قدم بڑھے
یعنی فقط خیال کی دُنیا میں ہم بڑھے

بازار چڑھ رہا تھا مگر میرے کنز ِ خواب
جتنا مجھے گمان تھا،اُس سے بھی کم بڑھے

ثابت ہوا کہ میں بھی کسی کی نظر میں ہوں
جب بھی مری خوشی کے تناسب سے غم بڑھے

اُس کے کرم سے ہو گی مرے گھر میں روشنی
دریا لپک کے آئے تو مٹّی میں نم بڑھے

سینے میں گھٹ رہی ہیں مرے دل کی دھڑکنیں
کوئی پلٹ کے آئے تو یہ زیر و بم بڑھے

اُس کے بدن کی آنچ سے زرّیں ہوا عدن
اُس کی نگاہ ِ ناز سے دام ِ عجم بڑھے

منعم پہ کم ہوئیں نہ عنایات ِ خسروی
لیکن غریب ِ شہر پہ جور و ستم بڑھے

ساجد کسی کو بار ِ دگر دیکھنا ہے آج
اب کے سبو بڑھے نہ بڑھے ، جام ِ جم بڑھے

زمیں سے کوئی تعلق نہ آسماں سے عشق

زمیں سے کوئی تعلق نہ آسماں سے عشق
نہیں ہے اور نہ ہو گا ترے جہاں سے عشق

دیارِ دل میں ٹھہرنے کے سو بہانے ہیں
کبھی مکین سے نسبت کبھی مکاں سے عشق

فقیہہِ شہر بھی دیوانہ وار پھرتے ہیں
فقط ہمیں ہی نہیں کوئے ِ دلبراں سے عشق

رواں دواں ہیں کہ سب لوگ چل رہے ہیں میاں
مسافرت کی لپک ہے نہ کارواں سے عشق

کبھی سیاہئ شب کا خیال ہے تو کبھی
ظہور کرتی ہوئی رود ِ کہکشاں سے عشق

شکست و فتح کی نسبت ہماری ذات سے ہے
عدو سے داد طلب ہیں نہ مہرباں سے عشق

وہ کون ہے جو نہیں تیرے کنجِ لب پہ فدا
کسے نہیں ہے تری خوبئ بیاں سے عشق

کسی کا شہرِ طرب میں بھی جی نہیں لگتا
خوش آ گیا ہے کسی کو غم ِ جہاں سے عشق

مگر یہ راز بہت دیر میں کُھلا مجھ پر
جمالِ یار کو ہے زرِ عاشقاں سے عشق

کہاں رہا ہے ہوا و ہوس کے بندوں کو
غبار ِ خواب میں لپٹے ہوئے زیاں سے عشق

ہمیں طلسم ِ صدا کی ہے آرزو ساجد
ہمارے دل کو ہے میراث ِ رفتگاں سے عشق

جہاں میں ڈالتے رہتے ہیں ماسِوا کی طرح

جہاں میں ڈالتے رہتے ہیں ماسِوا کی طرح
درخت چل نہیں سکتے مگر ہوا کی طرح

بھٹک کر آئی تھی کچھ دیر کو اِدھر دُنیا
لپٹ گئی مرے دل سے کسی بلا کی طرح

مرے حصار سے باہر بھی وہ نہیں رہتا
مرے قریب بھی آتا نہیں خدا کی طرح

بہت سے رنگ اُترتے ہیں میری آنکھوں میں
کسی کے دھیان میں اُلجھی ہوئی صدا کی طرح

اُتر گیا مرے دل میں وہ بے دھڑک لیکن
لبوں پہ آ نہیں پایا ہے مدعا کی طرح

رواں دواں ہیں مرے آس پاس کی اشیا
پڑا ہوا ہوں زمیں پر میں نقش ِ پا کی طرح

سمٹ سکوں گا نہ اپنے وجود میں ساجد
پہن لیا ہے کسی نے مجھے قبا کی طرح

غلام حسین ساجد

سود و زیاں کے درمیاں / خالد فتح محمد

"پری” سے "زینہ”تک خالد فتح محمد وطنِ عزیز کی سیاسی اور سماجی کروٹوں کو موضوع بنا رہے تھے جس میں کہیں آپ بیتی کا ثڑکا اس طور لگا تھا کہ میری عمر کے قارئین اس آئینے میں اپنے کچلے ہوئے خوابوں کی جھلک دیکھتے تھے۔اس پر ان کا منہ زور چشمے کی طرح ابلتا اور باہر کی مٹی پر پھیلتا چلا جاتا بیانیہ کہ جو موجود کی تمام تر کیفیت اور تفصیل کو سمیٹ لے،حقیقت اور ماورائے حقیقت منظر نامے کو ایک مانوس علاقے کی شکل دے دیتا تھا کہ جس سے ہم آہنگ ہو کر ہم کھوئی ہوئی راحتوں کی بازیافت کے مرحلے سے گزرنے لگتے اور ہر گزرتا ہوا لمحہ جگنو کی طرح دمک کر کسی خاص کیفیت کو زندہ کر دیتا تھا۔شاید اسی لیے میں نے خالد فتح محمد کا لکھا ہر ناول پڑھا اور اپنی زندگی کے کھوئی ہوئی نعمتوں کی صرف بازیافت ہی نہیں کی انھیں بے محابا لطافت کے ساتھ دوبارہ جیا بھی۔
۔۔۔۔یہ سب ہے مگر کیا ضروری ہے کہ لکھنے والا اپنے ہی جادو کا اسیر رہے۔موضوع،اسلوب اور فکری منہاج سے اختلاف کرنا اس کا حق بھی ہے اور تخلیقی ہونے کی دلیل بھی۔خالد فتح محمد نے”شہر ِ مدفون”
اور اب”سود و زیاں کے درمیاں”میں اپنے تخلیقی اسلوب سے انحراف کیا ہے۔”سود و زیاں کے درمیاں”ہمارے معاشرے کی کتھا ضرور بیان کرتا ہے مگر یہ کسی خاص علاقے،زمانے یا مانوس تجربے سے اس طرح پیوست نہیں کہ قاری کی اس بیانیے سے ذاتی نسبت پیدا ہو اور وہ اسے اپنے حوالے سے آگے بڑھتا دیکھنے کا متمنی ہو اور خالد فتح محمد کو بھی اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ کہانی کیا رخ اختیار کرتی ہے اور کسی منطقی انجام کو پہنچتی ہے یا نہیں۔وہ کہانی میں جس لطافت سے داخل ہوتا ہے،کرداروں کو خود مختار بنا کر اسی ادا سے الگ ہو جاتا ہے سو یہ زندگی کی جدو جہد میں شامل لوگوں کی کہانی ضرور ہے،ان کے کامیاب یا ناکام ہونے کی نہیں اور یہی حقیقت ہے کہ ہم اسی نوشتہ جبر کے ساتھ زندگی سے جڑتے ہیں اور اسی طرح کی کامیابی یا ناکامی کا شکار ہو کر اس سے الگ ہو جاتے ہیں۔ضرودی نہیں کہ ہم موجود کے جبر کو توڑ سکیں اور ضروری نہیں کہ موجود کا جبر ہماری کوشش کو بے چہرہ بنا دے۔”سود و زیاں کے درمیاں”میں ہم ایسی ہی بساط بچھتے دیکھتے ہیں اور کہانی کسی منطقی انجام کے بغیر ختم ہو جاتی ہے۔
ہمیشہ کی طرح خالد فتح محمد کرداروں پر کوئی حکم لگاتے ہیں نہ کتھا کو ثمرور بنانے کی سعی کرتے ہیں۔وہ ایک خاص زمانے اور کیفیت کو پینٹ کرتے ہوئے ایک خاص کیفیت میں اپنے اشہب ِخیال کی باگ کھینچ لیتے ہیں اور باقی کا کام کرداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں گو خان فضل الرحمان کی طرح وہ اپنے کرداروں کو بے راہ رو نہیں ہونے دیتے مگر انہیں ان کی غلامی اور مصنف کی فکر کے تابع رہنے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔اس طرح ان کے کردار ایک فطری ماحول میں رم کرتے اور معدوم ہوتے ہیں۔
"پری”سے”زینہ”تک خالد فتح محمد کے ناولوں کی عورتیں نسبتاً فعال ہیں۔یہ رنگ اس ناول میں بھی موجود ہے مگر کسی ناول میں بھی قصے پر غالب نہیں۔ہاں خالد فتح محمد کو نسائیت اور نسائی نفسیات سے دلچسپی ضرور ہے۔اس طرح اس کے ناولوں میں مردانہ اور نسائی کرداروں کی باطنی زندگی ایک سی الجھن اور کش مکش کا شکار نظر آتی ہے اور وہ برابری کی سطح پر کھڑے محسوس ہوتے ہیں۔
خالد فتح محمد ناصح نہیں اس لیے”سود و زیاں کے درمیاں”ہر طرح کے تبلیغی رنگ سے پاک ہے اور اس کا معاشرہ اور کردار کہیں بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کا یہ ناول بھی شعور کی رو کا ناول ہے جو کہیں بھی بیانیے سے الگ ہوتی ہے نہ بیانیے کو یک سطحی ہونے دیتی ہے۔اس طرح فطری تعامل کا جادو برقرار رہتا ہے اور خالد فتح محمد کی انفرادیت کی دلیل بنتا ہے۔

غلام حسین ساجد

سود و زیاں کے درمیاں/ خالد فتح محمد "پری" سے "زینہ"تک خالد فتح محمد وطنِ عزیز کی سیاسی اور سماجی کروٹوں کو موضوع بنا…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Friday, March 20, 2020

غیرت ِ گُل کوئی آئے ، بُت ِ شمشاد ائے

غیرت ِ گُل کوئی آئے ، بُت ِ شمشاد ائے
جس کو آنا یے وہ ہر فکر سے آزاد آئے

کچھ تو ہے صبحِ دل افروز کے آئینے میں
بھول بیٹھے تھے جنہیں ، آج بہت یاد آئے

جادۂ شوق پہ رفتار ِ قدم یکساں تھی
وہ جو نکلے تھے مرے بعد ، مرے بعد آئے

کبھی لاہور میں ظاہر ہو ادا بابل کی
خوئے ملتان پہن کر کبھی بغداد آئے

بارے کچھ روز قرنطینہ کو جاری رکھیے
عین ممکن ہے کہیں غیب سے امداد آئے

یہ نہ ہو اپنے قدم آپ ہی اُلٹے پڑ جائیں
یہ نہ ہو اپنے ہی سر پر کوئی اُفتاد آئے

میری آواز سے پیوست رہے میری صدا
میں پکاروں تو لپک کر مرا ہم زاد آئے

خیر مقدم ہوا اُس بزم میں دیوانوں کا
زعم تھا عقل پہ جن کو وہی ناشاد آئے

ناز ساجد مجھے تب اپنے کہے پر ہو گا
میر صاحب کے گھرانے سے اگر داد آئے

٢١ مارچ ، بستی کبیر سنپال

ریاظ احمد کا” شجر ِحیات”

تخلیہ میرے لیے کئی طرح کے قرض اتارنے کی سبیل بنا ہے۔ثروت حسین نے کہا تھا”میں نے خود کو جمع کیا پچیس برس میں”،اس خود اختیار کردہ قرنطینہ کے دوران میں مجھے خود کو یکجا کرنے میں دو ہی دن لگے ہیں اور میں ہر روز ایک کتاب پڑھ رہا ہوں۔
خالد فتح محمد کا”سُود و زیاں کے درمیاں”پہلے پڑھا اور اس پر اپنی رائے دے چکا۔آج ریاظ احمد کا ناول”شجر ِحیات”پڑھ کر بیٹھا ہوں اور اس کی زبان،اُسلوب اور موضوع کے سِحر میں گرفتار ہوں۔کتاب کے پہلے باب اور کتاب ِمقدس کے حوالوں سے مجھے گمان گزرا تھا کہ شاید مجھے اساطیر سے سابقہ پڑے گا مگر ناول کے پہلے ہی باب سے میں ایک ہمیشہ برقرار رہنے والی روشنی کے ہم راہ ہو لیا اور مصنف نے اس کی دمک کو آخری سطر تک محفوظ رکھا۔
"شجر ِحیات”محبت کی کہانی ہے جسے دانش اور رنگوں کی زباں سے بیان کیا گیا ہے۔موت کی عملداری میں اپنے آپ کو دیکھنا اور اس سے باہر نکل کر ایک رویائی کیفیت کو مصور کرنا ایک منفرد تجربہ ہی نہیں،زندگی کی قوت اور حقانیت کا اعتراف بھی ہے۔فن ِ مصوری کی ادا اور رنگوں کی کیمیا کو اس سہولت سے بیان کرنے کا حق تو ریاظ احمد کو تھا ہی کہ وہ ایک پیشہ ور مصور ہیں مگر ان توضیحات کو ان کے فکری اور تخلیقی وفور نے ایک اور ہی رنگ دے دیا ہے۔اس سے ناول میں ایک سِرّی عمق پیدا ہو گیا ہے جسے زبان کی ششتگی اور بیانیے کے طلسم نے بہت دل پسند بنا دیا ہے اور ہم آخری صفحے تک ایک لطیف روانی میں بہتے چلے جاتے ہیں۔
کہانی حال سے ماضی اور پھر حال سے وابستہ ہو کر ایک ایسے مصور کی زندگی سے علاقہ رکھتی ہے جو پہلی نظر کی محبت اور اچانک حادثے کے بیچ رویا میں روشنی کو ایک شکل میں ڈھلتے دیکھتا ہے اور اسے مسیح جان کر ایک بشپ کی خواہش پر اسے چرچ کے لیے مصور کرتا ہے۔اس تصویر کی باطنی نسبت اس کی ذات سے بھی ہے اور اس کی محبت سے بھی اور یہ دونوں وجوہات اس ندرت کا سبب بنتی ہیں جو اس تصویر کی انفرادیت بھی ہے اور اس کی خامی بھی۔مصور کی دشمنی اور رقابت میں مبتلا لوگ اس انفرادیت کو مذہبی اہانت کا رنگ دے کر مصور کے لیے زیست کرنے کی کوشش کو مشکل بنا دیتے ہیں مگر بعد میں محبت اور عدو کا پچھتاوا اس مشکل کے ختم ہونے کا سبب بن جاتے ہیں اور کہانی ایک زندگی بخش تجربے میں ڈھل جاتی ہے۔
ناول کی زبان،لفظیات،جمالیاتی آہنگ دل پذیر ہے اور مصنف نے ایک متوازن تخلیقی شگفت کے ساتھ اسے مکمل کیا ہے۔پروفیسر کا کردار بہت دلچسپ اور ناول کی علویت کے لیے مددگار ہے۔کرداروں کی ذہنی کیفیات کا بیان بہت خوب ہے اور رنگوں،لمسی مناظر اور نفسیاتی ابعاد کو بہت سلیقے سے برتا گیا ہے جس پر ریاظ احمد داد کے حق دار ہیں۔
کہانی کا اکلوتا جھول حضرت عیسیٰ کی پینٹنگ کے حوالے سے لوگوں کے ردعمل کا بیان ہے۔دنیا بھر کے کلیساؤں میں حضرت عیسیٰ کی تصاویر بھی موجود ہیں اور مجسمے بھی اور یقیناً مسیحی اس حوالے سے اتنے جذباتی نہیں کہ ایک پینٹنگ کے حوالے سے اس قدر جذباتیت کا مظاہرہ کریں کہ مصور کے خلاف جلوس لے کر نکل پڑیں اور اسے بے وجہ زد وکوب کریں مگر شاید یہ مصنف کی مجبوری تھی ۔ہم سب جانتے ہیں کہ مصور اس کے علاوہ کوئی اور قدم کیوں نہیں اُٹھا سکتا تھا۔
بہر صورت یہ ایک ترجیحی طور پر قابلِ مطالعہ ناول ہے جسے پہلی فرصت میں پڑھنے کی ضرورت ہے۔میرے ایک نوجوان دوست جاوید اقبال سہو تو اس کے حوالے سے بہت جذباتی ہیں۔انہوں نے ملاقات میں اس ناول کی اتنی تعریف کی کہ مجھے اسے مطالعاتی ترجیح میں اوپر لانا پڑا۔۔یہ الگ بات ہے کہ اس کی رائے غلط نہیں تھی۔

غلام حسین ساجد

ریاظ احمد کا"شجر ِحیات" تخلیہ میرے لیے کئی طرح کے قرض اتارنے کی سبیل بنا ہے۔ثروت حسین نے کہا تھا"میں نے خود کو جمع کیا…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Wednesday, March 25, 2020

کاشف حسین غائر کی دو کتابیں

شمیم حنفی نے کاشف حسین غائر کی شاعری کو غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام قرار دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خیال کی ہر ممکنہ صورت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور کسی ایسی امکانی نسبت کو منتخب کرتے ہیں جو غزل کی روایت میں پہلے استعمال میں نہ آئی ہو۔اس کے باوجود کہ وہ لسانی سطح پر غزل کی عمومی روایت سے انحراف نہیں کرتے اور سہل ِ ممتنع سے اپنی نسبت کو برقرار رکھتے ہیں۔
میں نے بہت پہلے کہیں لکھا تھا کہ وہ احمد مشتاق اور ناصر کاظمی کی چھتری پہن کر چلے ہیں۔اب میں اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ اُسلوب کے حوالے سے وہ نسبتاً احمد مشتاق کے قریب ضرور ہیں مگر اپنی فکری شگفت کے حوالے سے ان سے الگ ہیں اور یہ فرق حسّی انفرادیت کا ہے۔وہ موجود میں نئے پن کی ایسی جہت پیدا کرتے ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہوئے بھی ہمارے خیال سے ماورا ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے شعر سامنے کی بات محسوس ہوتے بھی سامنے کی بات ہوتے نہیں اور ہم چاہیں بھی تو ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں ہو سکتے۔
غزل کی ہم عصر روایت میں کاشف حسین غائر کی اہمیت مسلم ہے اور نئی راہ نکالنے والے شاعروں میں وہ خصوصیت سے توجہ پانے کے مستحق ہیں۔دیکھیے ان کے کچھ بے مثل اشعار:
رات کرتے ہیں ستارے کیسے
رات بھر نیند نہ آنے سے کھلا

ہوائیں دکھ بٹاتی پھر رہی ہیں
زمیں کا بوجھ ہلکا ہو رہا ہے

لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں
دشت آباد کہاں ہوتا ہے

دھوپ رستہ نہیں چلنے دیتی
سایے اٹھ کر نہیں جانے دیتے

آئی ہوا خود آپ بجھانے چراغ کو
کوئی چراغ لے کے ہوا تک نہیں گیا

مجھ سے رستوں کا بچھڑنا نہیں دیکھا جاتا
مجھ سے ملنے وہ کسی موڑ پہ آیا نہ کرے

ملنے آیا ہوں چراغِ شب سے
اور ہوا چھوڑنے آئی ہے مجھے

یا تو کچھ بھی نہیں موجود یہاں
یا مجھے ہوش نہیں میں بھی ہوں

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستی میں اک چراغ کے جلنے سے رات بھر
کیا کیا خلل پڑا ہے ستاروں کے کام میں

ایک دیوار کو تصویر سمجھتا رہا میں
اور تصویر سمجھتی رہی دیوار مجھے

اپنی یکجائی سے،تنہائی سے پورا نہ ہوا
جتنا نقصان ہوا شہر بسانے میں مرا

ہے ایک عمر کا حاصل ہماری بے کاری
گنوائیں کیوں اسے مصروف ِکار ہونے میں

اس محبت کا ہو انجام بخیر
جس کا آغاز جدائی سے ہوا

تحریر: غلام حسین ساجد

کاشف حسین غائر کی دو کتابیں شمیم حنفی نے کاشف حسین غائر کی شاعری کو غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام قرار دیا ہے۔اس کی…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Thursday, March 26, 2020