شمیم حنفی نے کاشف حسین غائر کی شاعری کو غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام قرار دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خیال کی ہر ممکنہ صورت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور کسی ایسی امکانی نسبت کو منتخب کرتے ہیں جو غزل کی روایت میں پہلے استعمال میں نہ آئی ہو۔اس کے باوجود کہ وہ لسانی سطح پر غزل کی عمومی روایت سے انحراف نہیں کرتے اور سہل ِ ممتنع سے اپنی نسبت کو برقرار رکھتے ہیں۔
میں نے بہت پہلے کہیں لکھا تھا کہ وہ احمد مشتاق اور ناصر کاظمی کی چھتری پہن کر چلے ہیں۔اب میں اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ اُسلوب کے حوالے سے وہ نسبتاً احمد مشتاق کے قریب ضرور ہیں مگر اپنی فکری شگفت کے حوالے سے ان سے الگ ہیں اور یہ فرق حسّی انفرادیت کا ہے۔وہ موجود میں نئے پن کی ایسی جہت پیدا کرتے ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہوئے بھی ہمارے خیال سے ماورا ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے شعر سامنے کی بات محسوس ہوتے بھی سامنے کی بات ہوتے نہیں اور ہم چاہیں بھی تو ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں ہو سکتے۔
غزل کی ہم عصر روایت میں کاشف حسین غائر کی اہمیت مسلم ہے اور نئی راہ نکالنے والے شاعروں میں وہ خصوصیت سے توجہ پانے کے مستحق ہیں۔دیکھیے ان کے کچھ بے مثل اشعار:
رات کرتے ہیں ستارے کیسے
رات بھر نیند نہ آنے سے کھلا
ہوائیں دکھ بٹاتی پھر رہی ہیں
زمیں کا بوجھ ہلکا ہو رہا ہے
لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں
دشت آباد کہاں ہوتا ہے
دھوپ رستہ نہیں چلنے دیتی
سایے اٹھ کر نہیں جانے دیتے
آئی ہوا خود آپ بجھانے چراغ کو
کوئی چراغ لے کے ہوا تک نہیں گیا
مجھ سے رستوں کا بچھڑنا نہیں دیکھا جاتا
مجھ سے ملنے وہ کسی موڑ پہ آیا نہ کرے
ملنے آیا ہوں چراغِ شب سے
اور ہوا چھوڑنے آئی ہے مجھے
یا تو کچھ بھی نہیں موجود یہاں
یا مجھے ہوش نہیں میں بھی ہوں
زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستی میں اک چراغ کے جلنے سے رات بھر
کیا کیا خلل پڑا ہے ستاروں کے کام میں
ایک دیوار کو تصویر سمجھتا رہا میں
اور تصویر سمجھتی رہی دیوار مجھے
اپنی یکجائی سے،تنہائی سے پورا نہ ہوا
جتنا نقصان ہوا شہر بسانے میں مرا
ہے ایک عمر کا حاصل ہماری بے کاری
گنوائیں کیوں اسے مصروف ِکار ہونے میں
اس محبت کا ہو انجام بخیر
جس کا آغاز جدائی سے ہوا
تحریر: غلام حسین ساجد
کاشف حسین غائر کی دو کتابیں شمیم حنفی نے کاشف حسین غائر کی شاعری کو غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام قرار دیا ہے۔اس کی…
Posted by Ghulam Hussain Sajid on Thursday, March 26, 2020