غیرت ِ گُل کوئی آئے ، بُت ِ شمشاد ائے
جس کو آنا یے وہ ہر فکر سے آزاد آئے
کچھ تو ہے صبحِ دل افروز کے آئینے میں
بھول بیٹھے تھے جنہیں ، آج بہت یاد آئے
جادۂ شوق پہ رفتار ِ قدم یکساں تھی
وہ جو نکلے تھے مرے بعد ، مرے بعد آئے
کبھی لاہور میں ظاہر ہو ادا بابل کی
خوئے ملتان پہن کر کبھی بغداد آئے
بارے کچھ روز قرنطینہ کو جاری رکھیے
عین ممکن ہے کہیں غیب سے امداد آئے
یہ نہ ہو اپنے قدم آپ ہی اُلٹے پڑ جائیں
یہ نہ ہو اپنے ہی سر پر کوئی اُفتاد آئے
میری آواز سے پیوست رہے میری صدا
میں پکاروں تو لپک کر مرا ہم زاد آئے
خیر مقدم ہوا اُس بزم میں دیوانوں کا
زعم تھا عقل پہ جن کو وہی ناشاد آئے
ناز ساجد مجھے تب اپنے کہے پر ہو گا
میر صاحب کے گھرانے سے اگر داد آئے
٢١ مارچ ، بستی کبیر سنپال