اچھی گزر گئی / محمد سعید جاوید

سعید جاوید کوئی معروف ادیب ہیں نہ شاعر۔سیاست دان ہیں نہ صنعتکار۔کبھی بینکار رہے تھے مگر ہمیں بینکاری سے کیا نسبت؟ ان سےجنابِ حسین مجروح کے گھر ایک ملاقات ہوئی اور انہوں نے کراچی کی سکونت کے دنوں کی یادوں پر مشتمل اپنی کتاب”ایسا تھا میرا کراچی”سے ایک باب پڑھ کر سنایا مگر اس سے کوئی خاص کیفیت پیدا ہوئی نہ کوئی دیرپا تاثر قائم ہوا۔ہوتا بھی کیسے کہ وہ شعر کی محفل تھی اور اس وقت اپنے عروج پر تھی۔
کچھ دنوں بعد بک ہوم پر جانا ہوا تو انہوں نے محمد سعید جاوید کی دو کتابیں تحفے میں دیں۔”ایسا تھا میرا کراچی”اور”اچھی گزر گئی”۔جو ان کی بے تکلفانہ آپ بیتی ہے۔
بڑی تقطیع (20×30÷8)کے پانچ سو ساٹھ صفحات کی کتاب کو دو نشستوں اور دو روز میں پڑھ لینے کا راز بہت سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہے۔readablity،سادہ اور شگفتہ نثر اور اس حقیر کے اپنے ماضی سے مماثلت۔محمد سعید جاوید فورٹ عباس کے نواح کے رہنے والے ہیں اور میں تلمبہ کے نواح کا مگر اس زمینی فاصلے کے باوجود ہمارے دیہات ایک ہی جیسے ہیں اور ان میں ہونے والی کایا کلپ بھی،اور تو اور گرد اور گڑھوں سے بھرے راستے،نہروں کے کناروں پر جھومتے شیشم کے درخت،گھروں میں مہکتے آم کے پیڑ،ہٹیوں پر بکنے والی کھٹی میٹھی گولیاں،کھیل اور تعلیمی مراحل اور اس بے رس دھول بھری زندگی میں شادمانی کی لہر دوڑانے کی ادا،سب کچھ وہی تو ہے جو میں اور میرے ہم جولی بھی کرتے آئے تھے۔اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یوں لگا جیسے میں اپنی ہی کتابِ زیست کو پڑھ رہا ہوں اور ہر منظر میں محمد سعید جاوید کے ساتھ کسی جادوئی کرامت سے موجود ہوں۔
ظاہر ہے میری اور محمد سعید جاوید کی اپنی کہانی الگ الگ ہے مگر ہم دونوں کی جڑیں ایک ہی رنگ اور تاثیر رکھنے والی مٹی میں ہیں۔اس کے گاؤں کی طرح میرے گاؤں کے شیشم بھی کجلا چکے۔آم بوڑھے ہو گئے اور بیسویوں پیارے داغ ِمفارقت دے چکے۔گھر اور سڑکیں پختہ اور کھیت ہموار ہو گئے۔فاصلے سمٹ چکے اور نئی نسل انٹرنیٹ کے عہد میں داخل ہو کر ہر طرح کی روایتی نسبت سے بیگانہ ہو چکی۔پھر بھی ہمارا ماضی ہمارے وجود میں کہیں پوری توانائی سے سانس لینے پر قادر ہے جسے صفحۂ قرطاس پر اتارنا لازم تھا اور محمد سعید جاوید نے یہ کام بڑی آسانی سے کر دکھایا ہے۔
کتاب کی زبان سادہ اور شگفتہ ہے۔مصنف نے کہیں مبالغہ آرائی کی ہے نہ کوئی ڈینگ ماری ہے۔کتھا دلفریب ہے تو اس لیے کہ یہ ہر سطح پر عمومی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔لوگ اجنبی لگتے ہیں نہ ان کے ارد گرد کی زندگی۔کہیں بھی تجرید اور اساطیر کی آمیزش محسوس نہیں ہوتی۔۔اتنی سچی کتاب کسی نے کم ہی پڑھی ہو گی۔
کتاب میں دوست احباب کے مختصر مگر عمدہ خاکے بھی ہیں جو بے تکلفانہ ہونے کے باوجود محکوک کا خاکہ نہیں اڑاتے بل کہ ان کے بارے میں ایسا تاثر پیدا کرتے ہیں کہ قاری ان سے محبت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اس کتاب کو پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محبت کرنے کے لیے محبت کا دکھاوا کرنا ضروری نہیں ہوتا اور دل سے نکلنے والی بات کو سننے والوں کی حاجت نہیں ہوتی۔

غلام حسین ساجد

اچھی گزر گئی/محمد سعید جاوید سعید جاوید کوئی معروف ادیب ہیں نہ شاعر۔سیاست دان ہیں نہ صنعتکار۔کبھی بینکار رہے تھے مگر…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Sunday, April 12, 2020

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے