دیوار پہ چاک سے لکھا ہوں/صابر ظفر

اس کی طاقت تو ظفر تم دیکھو
کتنی صنفوں کو غزل نے چھینا

صابر ظفر کا یکم جنوری 2020ء کو شائع ہونے والا یہ مجموعہ مجھے قبل از وقت مل گیا تھا اور اس تیز رفتاری نے مجھے منیر نیازی کی نظم”وقت توں اگّے لنگھن دی سزا” یاد دلا دی۔
"بندہ کلّا رہ جاندا اے”
صابر ظفر بھی اپنے اس بیالیسویں مجموعے کے بعد اپنے ہم عصر غزل گوؤں میں اپنی طرز کا اکیلا آدمی ہے۔اس نے غزل میں اتنے تجربات کیے ہیں کہ اس کی غزل اس کے اوپر نقل کیے گئے شعر کی مصداق ہر شعری صنف کا بدل بن گئی ہے اور زندگی کی ہر کیفیت اور تجربے پر محیط ہے۔بحور،مضامین،اسلوب اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے اسے کسی کی مثل قرار دیا جا سکتا ہے نہ اس کا کسی سے تقابل کیا جا سکتا ہے۔وہ خیال کی ہر صورت اور فکر کی ہر پرت کو شعر بنانے پر قادر ہے اور داد وتحسین کی ہڑک سے بے نیاز ہے۔اس عہد میں شاعری کو اسلوب ِحیات بنا کر اگر کسی نے زیست کی ہے تو صرف صابر ظفر نے کی ہے۔اس کے اندر اس کے قد کے برابر نہیں اس کے تخیل کی ہم قد آگ ہے۔اسی لیے وہ ہر طرح کے انتشار کو لپیٹ میں لے کر شعلوں میں بدلنے کا ہنر جانتا ہے۔وہ اپنی لپیٹ میں آنے والے ہر خیال کو جلا کر پوّتِر اور تابناک بناتا ہے اور اس میں دیر تک دمکنے کی ادا شامل کرکے اسے بے مثل بنا دیتا ہے جسے ہم جدیدیت یا فکری صباحت کا نام دیتے ہیں۔
کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا ہے؟کم از کم صابر ظفر کا مسئلہ نہیں کہ وہ الہام کی ہر دمک کو جذب کرنے اور اسے اپنا بنانے میں صرف سبک دست ہی نہیں،منفرد بھی ہے۔اس لیے اس کے یہاں آہنگ کے انوکھے رنگ اور تجربات ملتے ہیں اور بعض اوقات قاری کو چکرا کر رکھ دیتے ہیں۔میں ان کی ایسی ہر غزل کو رک کر اور آہنگ سے ہم آہنگ کر پڑھتا ہوں تو اس سے غزل کی سلطنت میں ایک خاص طرح کی کشادگی کا رنگ پیدا ہوتا محسوس ہوتا ہے جو غزل کی یکسانیت کو توڑنے میں بہت کام آتا ہے۔
فہیم شناس کاظمی نے اس کتاب پر بہت عمدہ دیباچہ لکھا ہے۔انہوں نے کتاب کے نام کے حق میں دلیل دی ہے کہ”بارش جو تخلیق اور زندگی کی علامت ہے وہ چاک سے دیوار پر لکھے کے لیے پیام ِفنا ہے مگر اس دوران کا عرصہ جو وہ دیوار پر ہلکی سفیدی کے ساتھ اپنا پیغام اپنے ہم نفسوں کو دے رہا ہے وہ اسی درمیانی عرصے کو اپنی زندگی تصور کرتا ہے”.
ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر مجھے اس کتاب کے نام سے حوالے سے یہ گمان گزرتا ہے کہ اندر ہی اندر کہیں شاعر کو اپنی تگ و دو کی رائیگانی کا ڈر ہے اور کیوں نہ ہو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہماری بے گانگی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات خود مجھ پر بھی یہ کیفیت وارد ہوتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ لکھنا ترک کر کے کچھ اور دال دلیا کیا جائے،پھر بھی میں کہوں گا کہ صابر ظفر دیوار پر چاک سے نہیں چاقو کی نوک سے لکھا ہوا ہے۔اسے مٹانے کے لیے غزل کی دیوار کو مٹانا ہو گا۔
گریہ بڑھا جو حد سے تو بے صبر چشم کو
ٹوکا قبول ہوتی دعا نے کہ خیریت؟

یاد میں اس کی جلے آج بھی مقتل میں چراغ
ایک پروانہ ٔ پارینہ جو وحشت سے جلا

تیرے پیروں کی مٹّی سلامت رہے اے مرے پیش رو
تیری جائے شہادت ہے میرے لیے بندگی کی جگہ

ملا ہے حکم کہ ہم بندگی بھی چھپ کے کریں
سو اپنی جائے نماز ایک جائے نا معلوم

پیچھے رہ جائیں گے وہ،آگے نکل جاؤں گا میں
آنے والے جو شب و روز ہیں میرے آگے

تحریر: غلام حسین ساجد

دیوار پہ چاک سے لکھا ہوں/صابر ظفر اس کی طاقت تو ظفر تم دیکھو کتنی صنفوں کو غزل نے چھینا صابر ظفر کا یکم جنوری 2020ء…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Sunday, April 19, 2020

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے