فیری میڈوز/ آغا سلمان باقر

نثر کی بہت کم کتابیں ایسی ہوا کرتی ہیں جنہیں آپ دوبارہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہاں شاعری کی کتاب کو بار بار پڑھا جا سکتا ہے کہ وہ عورت کی طرح کبھی اپنے من کے بھید کی پوری طرح خبر نہیں ہونے دیتی۔نثری کتاب اور خاص طور پر فکشن کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے پڑھ کر آپ اس کیفیت سے نکل آتے ہیں جسےشعری کتاب کی فضا اپنے اختتام تک سنبھالے رکھتی ہے۔اس لیے بار ِدگر مطالعے کی کوشش ایک خاص طرح کی اکتاہٹ پیدا کرتی ہےجو کتاب سے نسبت پیدا کرنے میں حارج ہوتی ہے۔سچ کہوں تو فکشن میں”بیتال پچیسی”،”باغ وبہار”،”سدھارتھ”اور”میرا داغستان” کے سوا”طلسم ِ ِہوش رُبا”اور "الف لیلہ”ہی ایسی کتابیں ہیں جو اپنے جوبن کی محافظ ہیں اور ہر بار نئی چھب دکھاتی ہیں۔
پھر بھی میں نے آغا سلمان باقر کے سفرنامے”،فیری میڈوز”کو دوبارہ پڑھا۔اس لیے کہ اس کی نثر،مناظر،واقعات اور بیانیے میں ایک خاص طرح کا اسرار ہے۔کچھ کچھ داستانوی اور الف لیلوی مگر واقعاتی طور پر حقیقت اور زمانی طور پر اپنے عصر سے جُڑا ہوا جس کا خود مصنف کو بخوبی احساس ہے۔اسی لیے تو وہ اس سفر نامے کے بارے میں ذاتی رائے دیتے ہوئے یہ لکھتے ہیں:
"میں نے اس سفر نامے کا ایک ایک لفظ،ایک ایک پیراگراف،ایک ایک بات،ایک ایک واقعہ اور تمام تر منظر کشی حقیقت کے قریب تر رہ کر تحریر کی ہے”.
ان کا کہا سچ ہے۔کتاب واقعاتی مبالغے سے پاک ہے مگر ایک اسرار بھری کیفیت پیدا کرنے سے پاک نہیں اور اس کا سبب ان کا جادوئی بیانیہ ہے اور کیوں نہ ہو وہ ابن ِ نبیرۂ آزاد ہیں۔مولوی محمد حسین آزاد کے پڑپوتے ہیں اور داستان طرازی کی منفرد روایت کے وارث ہی نہیں مجتہد بھی۔اس پر تصویری(photo genic) یاداشت کے مالک۔اس لیے انہوں نے مناظر اور سفر کی تفاصیل کو اس طرح پھیلا دیا ہے جیسے وہ اپنی حقیقت میں دراز تھیں۔اغا سلمان باقر نے انہیں خوردبینی آنکھ اور ایک ایسے عاشق کی آنکھ سے دیکھا ہے جو قطرے میں گُہر نہیں سمندر دیکھنے کی قوّت رکھتا ہو اور جس کے یاد کرنے پر مظاہر زوم ہوتے ہوئے ایک دل رُبا پینٹنگ میں ڈھل جاتے ہوں۔
بٹ گرام کے مندروں میں بجتی گھنٹیوں کی آواز ابھی آ رہی ہوتی ہے کہ ہم خود کو آغا صاحب کے ساتھ قراقرم اور ہندوکش کی مانگ میں سفر کرتے دیکھتے ہیں۔نیل کنٹھ کی طرح رنگ بدلتے ہمالیہ کی دھرتی سے رائے کوٹ کے آگ برساتے علاقے میں تتلیوں جیسی جیپ پر تاتو کا سفر ایک کچومر بنا دینے والی کتھا ہے۔ہاٹ ڈیزرٹ کی اس مسافت کو طے کرنے میں نصف رات ہی صرف ہوتی ہے مگر اس دورانیے میں موت دو بار آغا صاحب کو چھو کر گزر جاتی ہے اور بھوج پتر کے حریری لباس میں لپٹی زندگی گلابی عروسی جوڑا پہن کر ان کا پیچھا کرتی ہوئی،خوشبو کی لپٹیں بکھیرتی ایک منور سایے کی طرح ان کے قریب سے گزر کر ان کی پیش رو بن جاتی ہے۔کہیں وہ جنگل کی خاموشی میں ان سے ہم کلام ہوتی ہے تو کہیں ایک نظر نہ آنے والے پرندے کی پُکار بن کر اپنے جمال کو جنگل کی رنگارنگی میں ضم کر دیتی ہے اور آغا صاحب کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے قاری کے وجود کی ہم زاد بن جاتی ہے۔
آغا سلمان باقر کا یہ سفر لاہور سے لاہور کا نہیں۔ایک دنیا سے دوسری دنیا تک کا سفر ہے۔اس میں بٹ گرام،تھاہ کوٹ،بشام ،چلاس،رائے کوٹ،تاتو،فیری پوائنٹ،فن ٹوری،نانگا پربت،جوتھ گاؤں،فیری میڈوز کے پڑاؤ ہیں۔کرامت علی،فرید کبریا،علی رضا،خرم شکیب،سرفراز اور مرسلین خان جیسے منفرد اور زندہ کردار ہیں۔مارخور کے سر کے نیچے کھڑی دوشیزہ کا ہیولیٰ ہے اورپروین نورجہاں۔لیڈی پینو،ہائے ٹی ٹوائے ٹی کی لو سٹوری ہے اور غیبی دنیا کی خوشبو سے مہکتےحقُے والا بابا جو سلمان باقر کے باطنی رخ اور رنگ سے آگاہ ہے اور منظر کے اجالے میں ضم ہونے کی شکتی رکھتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ آغا صاحب کے صاحب زادے وجدان کی بدولت ہے کہ آغا کا ایک قدم موجود کی دنیا میں رہا اور شاید اس حنائی ہاتھ کی برکت ہے جس نے انہیں لڑکھڑانے سے بچایا تھا ورنہ وہ موجود سے موہوم کی طرف اتر جاتے اور نانگا پربت کی بلندی پر آباد پریوں کی بستی میں روشنی کی رنگین گیندوں سے کھیل رہے ہوتے۔
مجھ میں یہ صلاحیت نہیں کہ میں اس کتاب کے اسرار کو لفظوں میں بیان کروں۔یہ صلاحیت اور خوش بیانی اس کتاب کے مصنف کے پاس ہے اور اس فراوانی سے ہے کہ ان کی یاداشت،بیانیے،سبک دستی،تفصیلات کو ذہن سے اتارنے اور جزیات کو مائیکرو سکوپک ڈھنگ سے کاغذ پر اتار دینے کی آساں کوشی پر رشک آتا ہے۔جو شخص زر ِگُل کی بدلتی صورت کو پہچانتا ہو،اس سے گھاس اور پھولوں کے رنگ اور رنگوں کی رنگا رنگی کیسے مخفی رہ سکتی ہے۔اسی لیے تو چشمے،ندی نالے،دریا،ترائیاں،وادیاں اور پہاڑ ایک جادوئی منتر سے اس کی کتاب میں اپنے تمام تر اسرار کے ساتھ سمٹ آئے ہیں اور کسی آسیبی سایے کی طرح لفظوں کی بساط پر پھیلے ہوئے ہیں جیسے انہیں اپنا وجود ڈھانپنے کا لبادہ مل گیا ہو اور ہمیشگی کی دیوی نے انہیں اپنا ہم زاد بنا لیا ہو۔
ہرمن میلول کی”موبی ڈک”کا اہاب ہو یا ہرمن ہیسے کا سدھارتھ۔ان کی خرابی یہ ہے کہ وہ قاری کو اپنے ہمراہ چلنے پر اکساتے ہیں۔یہ خرابی”فیری میڈوز”کے محمد حسین میں بھی ہے اور مرسلین میں بھی۔وہ نانگا پربت کا چہرہ ہیں اور اس نقرئی عفریت کو پریوں کا دیس بنانے میں ان کا بہت حصہ ہے۔آغا سلمان باقر نے انہیں اس بات کا کریڈٹ دیا ہے اور خوب دیا ہے۔اس لیے کہ وہ فطرت سے قریب بھی رہتے ہیں اور اسے اس کے اصل روپ میں دیکھنے اور دکھانے کے حق میں ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے ان علاقوں کی رسوم،رواج اور معاشرت کو جس نوع کی محبت اور عزت سے برقرار رکھنے اور اس کا احترام کرنے کی بات کی ہے۔وہ صرف قابل ِقدر ہی نہیں قابل ِ پیروی بھی ہے اور اس سے خود سیّاحوں کی تکریم میں اضافہ ہو گا۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں نے ہر اس خوشبو کو اپنے قریب محسوس کیا جس کا ذکر اس کتاب میں آیا ہے۔مجھے تو یہ کتاب کم،برچ کے پنّوں پر لکھی ہوئی نظم زیادہ محسوس ہوئی۔کچھ کچھ اوڈیسی جیسی اور کیوں نہ ہو کہ اس کتاب کی سبک رفتار،پتھروں پر نرم قدموں سے چلتی ہوئی پری کیا کسی ڈائنا سے کم ہے۔

غلام حسین ساجد

فیری میڈوز/آغا سلمان باقر نثر کی بہت کم کتابیں ایسی ہوا کرتی ہیں جنہیں آپ دوبارہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہاں شاعری کی…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Monday, April 20, 2020

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے