چلنے لگا ہے پھر سے مرا دل رُکا ہوا

چلنے لگا ہے پھر سے مرا دل رُکا ہوا
کیا تُو ہے آئنے کے مقابل رُکا ہوا؟

اب اذن دے کہ میرے لہو میں اُتر سکے
طوفان ِ رنگ و بُو لب ِ ساحل رُکا ہوا

تاخیر ہو نہ جائے کہیں کار ِ خیر میں
چوکھٹ نہ چھوڑ دے کہیں سائل رُکا ہوا

اک دائرے میں گھومتی رہتی ہے کائنات
کچھ بھی نہیں یہاں ارے غافل رُکا ہوا

آنکھوں پہ ہے چراغ ِحقیقت کی چھاؤں دھوپ
عارض کی روشنی میں کہیں تِل رُکا ہوا

انجام تک پہنچنے میں جلدی نہ کیجیے
آغاز ہی میں ہے ابھی حاصل رُکا ہوا

ساجد پڑی ہے خلق ِ خدا پاؤں توڑ کر
تنہا نہیں ہوں میں سر ِ منزل رُکا ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے