1997ء میں جب میں نے ملتان سے لاہور مراجعت کی تو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے انتخاب کرنے کی وجہ اس کالج میں محمد خالد اور محمد ظفر الحق مجید چشتی کی موجودگی تھی۔تب تک چشتی صاحب سے میری ایک ہی ملاقات ہوئی تھی مگر ان کی شخصیت اور محبت کا سِحر ایسا قوی تھا کہ اس نے مجھے اپنے گھر کی بغل میں موجود گورنمنٹ کالج آف سائنس کے بجائے ہر روز اٹھائیس کلومیٹر کا فاصلہ ناپنے پر مجبور کر دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس محبت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔انہوں نے مشکل کی ہر گھڑی میں چھوٹے بھائی ہونے کا حق ادا کیا مگر میرے سر پر ان کا قرض آخری سانس تک باقی رہے گا کہ مجھے اپنی محبت کے اظہار کا سلیقہ ہے نہ اس کی حقیقت کو ظاہر کرنے کا ہنر آتا ہے۔۔۔مگر یہ مضمون ایک الگ کتاب کا طلبگار ہے۔
میں نے اس کالج میں پندرہ برس گزارے اور اس دوران میں میری شاعری اور نثر کی تیرہ کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے تین کتابوں پر چشتی صاحب نے مفصل مضامین لکھے مگر ایک لمحے کے لیے بھی اندازہ نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی دلجمعی سے تخلیقی اور تنقیدی/تحقیقی کام میں مصروف ہیں۔اب 2019ء میں فکشن ہاؤس۔لاہور نے ان کی چھے کتابیں (نالۂ من سِرّ ِمن،سُلگت ہوں دن رین،ہے یہی میری نماز،مکہ مدینہ،عرفان اور شعور)ایک ساتھ شائع کی ہیں تو میں ان کی رفعت ِخیال اور تنقیدی بصیرت سے حد درجہ مرعوب ہوا ہوں اور اس وقت اُن کی کتاب”شعور”پر اپنی کج مج رائے کا اظہار کرنے چلا ہوں۔
"شعور”میں تیرہ مضامین ہیں جو متنوع موضوعات پر مشتمل ہیں۔یہ مضامین ادب کی قدر کی تعیین کے ساتھ ساتھ قدیم سے جدید تر ادبی شعری اور فکری روایت کو موضوع بناتے ہیں۔”ادب اور غیر ادب میں حدِ فاصل” میں مشرق و مغرب کے ادبی نابغوں کے بیانات اور اپنے استحسان سے کسی تحریر کے ادب پارہ بننے کی رمز کشائی کرتے ہیں تو”دیوان ِغالب:ایک حبسیہ”میں غالب کے کلام کے تجزیے سے اس کیفیت کو ابھارتے ہیں جو دیوان ِغالب کو ایک حبسیے میں بدل دیتی ہے۔اسی طرح”پاکستانی/اسلامی ادب کی تحریک اور ناول نگاری”میں وہ محمد حسن عسکری کے بیان کی روشنی میں اسلامی ادب کی تاریخ کی قدر متعین کرتے ہیں تو میر،راشد اور عطار سے محمد اظہار الحق اور مجھ ناچیز کی شاعری سے سمیع الحق قریشی کی”کنج ِلب” کے تجزیے تک وہ خالص معروضی نکتۂ نظر کو روا رکھتے ہیں اور کہیں بھی ذاتی نسبت اور پسند کو اپنی تنقیدی بصیرت پر غالب نہیں آنے دیتے۔
محمد ظفر الحق چشتی بے لاگ رائے دیتے ہیں اور اپنی رائے پر اصرار کرتے ہیں۔اس لیے کہ انہیں اپنے تجزیے پر بھی اعتماد ہے اور اپنے ذوق پر بھی۔مجھے یاد ہے جب انہوں نے میری شاعری پر ایک طویل مضمون لکھ کر ایک معاصر ادبی پرچے میں شائع کرایا تو مجھے ان کی رائے سے کئی جگہوں پر اختلاف تھا اور میں نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا مگر وہ اپنی رائے پر قائم رہے اور مجھے ان کی استقامت اور صداقت پر تب یقین آیا جب ایک ملاقات میں پروفیسر سہیل احمد خان نے ان کے مضمون کی تعریف کی اور اصرار کیا کہ میں چشتی صاحب کے تجزیے کو اپنا نقظہ نظر بدل کر دیکھوں۔
"شعور”ایک صاحب ِرائے ادیب کی بے مثل بصیرت کا اعلامیہ ہے جسے بہت توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے اور یہ ہم عصر ادب کے فکری منہاج کو سمجھنے کے لیے بلا شبہ ایک اہم قدم ہے
غلام حسین ساجد
Posted by Ghulam Hussain Sajid on Saturday, April 4, 2020