ہنس رہا ہے جو مری حالت پہ ، جانے کون ہے

ہنس رہا ہے جو مری حالت پہ ، جانے کون ہے
آئنے کے سامنے میں ہوں تو پیچھے کون ہے

کس کے آنے سے منّور ہو گئی ہے بزم ِ خواب
جس کی آنکھوں میں دمکتے ہیں ستارے کون ہے

گھر کی چوکھٹ پر کسے روکا گیا ہے صبح دم
جو گریزاں ہے حصار ِ بام و در سے ، کون ہے

جس کی آنکھیں تھیں مرے قدموں کی آہٹ پر نثار
آج شاید وہ پلٹ کر بھی نہ پوچھے ، کون ہے

کوئی اپنا ہے کہ جس کا حکم چلتا ہے یہاں
اب بھلا کوئی کسی کو کیا بتائے ، کون ہے

دشت و دریا کاٹ کر پہنچوں کسی کے سامنے
اور وہ پلکیں اُٹھا کر بھی نہ دیکھے کون ہے

کوئی چُھپ کر میرے لہجے میں اُسے آواز دے
اور وہ آ کر دریچے میں پُکارے "کون ہے”

اس لیے کرتا ہوں ساجد اب میں دستک سے گریز
کوئی دروازے کے پیچھے سے نہ کہہ دے،کون ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے