سایہ / سعید شارق

اردو شاعری (غزلوں)کا یہ بے مثل مجموعہ مثال پبلشرز فیصل آباد سے 2017ءمیں شائع ہوا اور مجھ تک ایک ماہ پہلے پہنچاجب”دعوت ِشیراز”ڈیرہ غازی خان کے مشاعرے میں میری سعید شارق سے پہلی ملاقات ہوئی۔
اس مجموعے کے مطالعے کی بڑی وجہ سعید شارق کا اعتماد ہے۔سو سے زیادہ غزلوں پر مشتمل یہ مجموعہ انہوں نے صرف چوبیس سال کی عمر میں شائع کیا اور بغیر کسی دیباچے،تقریظ،پس نوشت اور فلیپ کے۔اور تو اور وہ اپنے تخلص کے استعمال کے بھی کچھ زیادہ شائق نہیں جو اس امر کی دلیل ہے کہ انہیں اپنے کلام کی ندرت پر کس قدر اعتبار ہے۔
سعید شارق کا یہ اعتماد ہے سبب نہیں۔”سایہ”ایک الگ ذائقے کی کتاب ہے اور سعید شارق غزل کی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا الگ رنگِ سخن پیدا کرنے میں کامیاب ہیں۔وہ جدت طراز اور تخلیقی اپج کے آدمی ہیں اور اردو غزل کے مجموعی رجحان سے انحراف کی طاقت رکھتے ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر وہ اس قدر تنوع پیدا کرنے پر کس طرح قادر ہیں۔میری دانست میں اس کی ایک ہی وجہ ہے،کلاسیکی اور ہم عصر غزل کا دلجمعی سے مطالعہ،جس نے انہیں اس بات کا ادراک بخشا ہے کہ کیا کچھ کہا جا چکا جسے دہرانے کی ضرورت نہیں اور کیا کچھ ہے جسے نیا کرنے اور روشنی میں لا کر اُجلا کرنے کی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ نیا مضمون پیدا کرنے پر قادر ہیں اور روایت کو دمکانے اور اس میں توسیع کرنے پر بھی۔
سعید شارق کا اختصاص غزل کے فکری ڈھانچے کو نیا رنگ دینا ہے۔غزل کے مروجہ استعارے ان کے یہاں مفاہیم کی ایک نئی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔اس کے باوجود کہ ان کے یہاں عشق و عاشقی کے مضامین کی کمی نہیں اُن کا رُخ پیش پا اُفتادہ حقیقتوں کو اُجالنے کی طرف ہے اور رنج کا ایک مہین سایہ ان کی شاعری کی تاثیر کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔اس لیے کہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت نارسائی اور شکست ِآرزو سے کشید ہونے والا رنج ہی ہے۔
سعید شارق لمس اور احساس کی نرم صباحت اور فکری ارژنگ کو تسخیر اور بیان کرنے کے باعث اپنے عہد کے عمومی مزاج اور آہنگ سے الگ ہیں اور انہیں پڑھتے ہوئے ہمیں قدم قدم پر تازگی اور نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔کچھ کچھ ویسا ہی جیسا احساس ہمیں محمد علوی کو پڑھتے ہوئے ہوا تھا۔
بجھا بیٹھا ہوں آنکھیں اور اب یہ سوچتا ہوں
ذرا سی دیر پہلے مجھ میں کتنی روشنی تھی

کب تھک کے گروں اور مرے اوپر سے گُزر جائے
اک راہ گزر کب سے پڑی ہے مرے پیچھے

کبھی سنّاٹے کی تصویر،کبھی چاپ کا عکس
کتنے منظر نظر آئے ہمہ تن گوشی میں

یہ باغ ِدل ہے یہیں اک اداس شہزادی
گلاب توڑتی ہے ، تتلیاں پکڑتی ہے

جوں ہی چھپتا ہوں میں اندھیرے میں
پھوٹ پڑتی ہے روشنی مجھ میں

تنگ آیا ہوا ہوں دنیا سے
سوچتا ہوں کہیں چلا جاؤں

کیا اُگتا ہے کرچیوں سے
مٹّی میں دبا کے دیکھتا ہوں

بھاگتا ہوں تو قدم اٹھتے نہیں
یہ سبھی کچھ خواب کا عالم نہ ہو

یوں بیٹھے بٹھائے لرز اٹھتا ہوں اب بھی
جس طرح اچانک کوئی سوتے ہوئے ڈر جائے

آتی رہی قہقہوں کی آواز
جس وقت کوئی نہیں تھا گھر میں

نئے کپڑے یونہی افسردہ پڑے رہتے ہیں
کون سمجھے یہ اذیّت مری الماری کی

بہت پہلے کبھی سرمایہ کاری کی تھی ہم نے
یہ تب کی بات ہے جب نیند میں نقصان کم تھا

یقیں تھا باغ ِ فردا تو مہکتا ہو گا لیکن
میں پہنچا تو وہاں کچھ بھی تروتازہ نہیں تھا

آئینے کے ساتھ پی لیتا ہوں چائے شام کو
اور کبھی یہ کرسیاں دیتی ہیں ظہرانہ مجھے

کسی نادیدہ بوسے کی نمی کا سرد احساس
اور اس کے ساتھ یہ ڈر بھی کہ کوئی آ نہ جائے

اک راستہ بن چکا تھا شارق
جب ختم ہوا سفر ہمارا

تحریر: غلام حسین ساجد

سایہ/سعید شارق اردو شاعری (غزلوں)کا یہ بے مثل مجموعہ مثال پبلشرز فیصل آباد سے 2017ءمیں شائع ہوا اور مجھ تک ایک ماہ…

Posted by Ghulam Hussain Sajid on Wednesday, April 1, 2020

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے