نیند ورثہ ہے مرا ، خواب امانت ہے مری

نیند ورثہ ہے مرا ، خواب امانت ہے مری
اور اِن مدھ بھرے آئینوں میں صورت ہے مری

آنکھ اُٹھا کر بھی کسی شخص نے دیکھا نہ مجھے
میں سمجھتا تھا مرے شہر میں عزّت ہے مری

"ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں”
میرا ہونا مرے کوچے میں کرامت ہے مری

سوچتا ہوں جو وہی سامنے آ جاتا ہے
آج تابندہ بصیرت سے بصارت ہے مری

میری تہذیب کی نسبت ہے مری مٹّی سے
چُپ سمندر ہے مری ، بات قیامت ہے مری

عکس در عکس اُترتا ہوں کہیں پانی میں
اور قُرباں کسی آئینے پہ حیرت ہے مری

دور رہتا ہوں کبھی پاس بھی آ جاتا ہوں
یہ عنایت ہے تمہاری کہ سعادت ہے مری

ہوش آتا ہے مجھے عالم ِ مدہوشی میں
رنج کو رقص بناتی ہوئی وحشت ہے مری

رات دن میرے تعاقب میں ہیں میری آنکھیں
یہی تقدیر ہے میری ، یہی قسمت ہے مری

داور ِ حشر وہی ، صاحب ِ ایجاد وہی
یعنی آغاز ہے میرا نہ نہایت ہے مری

شمس تبریز ہو ، حلّاج ہو یا سرمد ہو
اب اسی ایک گھرانے سے ارادت ہے مری

میرا دُشمن مجھے معزول نہیں کر سکتا
بر سر ِ تخت بہر طور محبّت ہے مری

رُخ بدلتے ہو کبھی سامنے آ جاتے ہو
کیا گراں تیرے شب و روز پہ صحبت ہے مری

خاک اُڑاتا ہوں نہ خاموش پڑا رہتا ہوں
میری توقیر کا باعث یہی غیرت ہے مری

اپنی قسمت سے شکایت ہے اُسے کیوں ساجد
جب میسّر اُسے اس بار رفاقت ہے مری

————————————————-


٣ تا ٥ مئی ، بستی کبیر سنپال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے