عشق سے اور کار دنیا سے حذر کرتا ہوں میں

عشق سے اور کار دنیا سے حذر کرتا ہوں میں

اب فقط اپنی معیت میں بسر کرتا ہوں میں

اک اندھیرے میں بھٹکتے رہ نہ جایئں میرے خواب

اپنی آنکھوں کو اگر وقف سحر کرتا ہوں میں

وہ نہتا کر نہ پایئں گے سر میداں مجھے

خلق اپنی خاک سے تیغ و سپر کرتا ہوں میں

عکس بن کر کب تلک میں اسکی آنکھوں میں رہوں

آیئنے کو کل سے اپنا مستقر کرتا ہوں میں

راہ میں پڑتا ہے شہر عشق میں دشت جنوں

گاہے اس دنیائے وحشت کا سفر کرتا ہوں میں

کھینچ دیتا ہے کوئی دیوار گریہ بیچ میں

جب پلٹ کر اس دریچے پر نظر کرتا ہوں میں

کیا وہ ملنے کے لئے آ پائے گا ساجد مجھے

اپنے آنے کی اگر اسکو خبر کرتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے