خواب اچّھے ھیں نہ خوابوں کا بیاں اچّھا ھے
جو بھی اچھا ھے حقیقت میں کہاں اچھا ہے
آگ احساس ِتحفظ بھی دیا کرتی ہے
گھر کےچولہے سےجو اٹھتا ہے دھواں اچّھا ہے
دل کوئی باغ نہیں ہے کہ فقط گھوم آئیں
کوئی تا دیر مکیں هو تو مکا ں اچّھا ہے
بات کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ھیں
چُپ ھی اچھی ہے نہ یہ زور ِ بیاں اچّھا ھے
ایک سے لوگ ھیں دیوار کی دونوں جانب
کوئی اچّھا ہے یہاں ، کوئی وہاں اچّھا ہے
میری تنہائی کا آزار بڑھا دیتا ہے
اس کے موجود نہ ھونے کا گماں اچّھا ہے
مجھ کو شرمندہ کیا میری غلط فہمی نے
میں سمجھتا تھا کہ یہ دور زماں اچھّا ہے
ھجر کا لُطف اٹھا کر یہی جانا ساجد
راحت ِ وصل کا ھوتا ہے زیاں ، اچّھا ہے