درس گاہ – 18

تانگہ پورے خاندان کے استعمال کی سواری تھی۔والد صاحب کو اکیلے کہیں قریب جانا ہوتا تھا تو کسی ملازم کے ساتھ پیدل ہی چلے جاتے تھے یا گھوڑے پر زین ڈال خود ہی چکّر لگا آتے تھے۔گرمیوں میں جانوروں کو آرام کا موقع دیا جاتا تھا۔خاص طور پر برسات اور حبس کے موسم میں تو تانگہ جوتنے یا گھوڑے کی سواری سے پرہیز کرنے کی تاکید تھی۔روایت تھی کہ اس موسم میں کاغذ کے ساز( چمڑے کا سینہ بند اور پٹیاں جو تانگہ جوتنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں)اور زین بنا کر اپنے رہوار کو دکھا کر اُس کی آنکھوں کے سامنے جلا دیے جاتے تھے جو اس امر کا اشارہ ہوتا تھا کہ اس موسم میں جانور کو جوتنے کی تکلیف نہیں دی جائے گی،سو برسات میں باہر نکلنےکی شرح کم ہو جاتی تھی اور یہ اس لحاظ سے اچھا تھا کہ اس موسم میں دن بھر پسینہ بہنے کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ بڑھ جاتا تھا۔موسمی پھلوں اور نمکین کچّی لسّی کا استعمال بڑھا دیا جاتا تھا اور مسافروں کی تواضع شِکونجی یعنی شکنجبین سے کی جاتی تھی۔
فصلوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بھی بہت مزے کا تھا۔ابّاجی فجر کی نماز کے فورا بعد اپنے کُھوہ پر چلے جاتے تھے۔تمام کاشت شدہ رقبے کا دورہ کرتے،با آواز ِبلند فصلوں سے ہمکلام ہوتےاور ان کی تعریف کرتے۔کہا کرتے تھے کہ فصل مالک کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔مدتوں بعد میں نے ایک سائنس میگزین میں کسی جاپانی بائیو سائنسٹسٹ کی تحقیق پڑھی۔انہوں نے کسی اناج کے دو یکساں قطعے پانی،کھاد اور ضروری ادویات کے ایک جیسے اور بروقت استعمال کے ساتھ کاشت کیے مگر ایک کھیت کی پرورش موسیقی سُنا کر اور تعریفوں کے پُل باندھ کر کی اور دوسرے کھیت کی بدکلامی اور بد دماغی کے ساتھ۔موصوف کی تحقیق کا تت یہ تھا کہ پہلے کھیت کی فصل معیار،وزن اور یافت میں دوسرے کھیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔
میرے ابّاجی سائنس دان تو نہیں تھے مگر صدیوں سے چلی آتی لوک دانش کے امین ضرور تھے۔گندم کے موسم میں فروری کے آخر یا مارچ میں ہونے والی ہلکی بارش ہر کسان کو عزیز تھی اور اس کی بوندوں کو”سونے دی کنی”کہا جاتا تھا۔برسات میں معاملہ اگرحد سے نہیں بڑھے تو یہ بارشیں حبس پیدا کرنے کے باوجود پسندیدہ تھیں۔
اس سلسلے کے ایک واقعے کا تعلق خشک سالی سے ہے۔ساون بھادوں کا زمانہ تھا اور بادل تھے کہ دھوپ میں نہا کر آتے تھے اور زمین کی طرف دیکھے بغیر گزر جاتے تھے۔لوگ دن چڑھے درختوں کےنیچے آ جاتے تھے کہ اس موسم میں کمروں میں رُکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔جب موسم ختم ہونے پر آ گیا اور پانی کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑی تو بارش کے لیے کئی ٹوٹکے کیے گئے۔بے دھیانی میں بچوں کے منہ کالے کئے گئے۔نمازیں پڑھی گئیں۔اذانیں دی گئیں اور ایک روز جب میرے والد گھر کے سامنے کھال پر دھرا شہتیری پُل پار کر رہے تھے۔گاؤں کی کُنواریوں نےاچانک اپنے پانی سے بھرے گھڑے اُن پر خالی کر دیے۔وہ بہت خفا ہوئے کہ روایت کے مطابق یہ ٹوٹکہ اُس آدمی پر آزمایا جاتا ہے جو جتی ستی(پاکباز)ہو اور اب اگر بارش نہیں ہوتی تو اُن کی عزت پر حرف آنا لازم تھا مگر اللّٰہ نے اُن کی لاج رکھ لی۔کچھ ہی دیر میں بادل گھر آئے اور کُھل کر برسے۔
بہت بعد میں اُن سے ایک ملاقات کے بعد سرّاج منیر نے مجھےکہا تھا "غلام حسین ساجد!تمہارے والد ولی ہیں” تو میں نے اُس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔اس لیے کہ میرے لیے اُن کا انسان ہونا اُن کے ولی ہونے سے اہم تھا اور ہے۔
دوسرا واقعہ غیر معمولی بارش کے ہونے سے متعلق ہے۔بادل ظہر کے بعد ٹُوٹ کر برسنا شروع ہوا،پہلے اخروٹ کے سائز کے ان گھڑے اولے پڑے،پھر طوفانی ہوا اور بارش جو رات بھر جاری رہی۔ہوا اتنی تیز تھی کہ بیسیوں درخت زمیں بوس ہو گئے۔کھیت پانی سے بھرے،پھر گذرگاہیں اور سڑکیں اور پھر صحن۔مشرق سے سیلابی ریلہ چلا اور جراحی،ڈپیٹیاں والا،بستی کبیر سنپال کی فصلوں پر رواں آئینے کی تہ جماتا پکا حاجی مجید کو نگل کر آگے بڑھ گیا۔صبح ہونے پر بارش کی چھماچھم جاری تھی گو رات کے مقابلے میں ہلکی تھی۔میں باہر کا جائزہ لینے کو باہر نکلا تو گرے ہوئے پیڑوں اور کھڑے ٹُنڈ مُنڈ درختوں پر سینکڑوں پرندے اس حالت میں بھیگےبیٹھے تھے کہ ان میں دوسری ٹہنی تک اُڑ کر جانے کی سکت نہیں تھی۔بے شمار فاختائیں پانی میں پھڑپھڑاتی تھیں مگر کسی محفوظ جگہ تک پہنچنے سے معذور تھیں۔اتفاق سے ہمارے بیلنے کا کڑاہ گھر میں دھرا تھا۔میں نے اور میرے چھوٹے بھائی نے ماں کی اجازت سے اسے پانی میں ڈالا تو وہ تیرنے لگا۔ہم نے اس "کشتی”کے ذریعے پچاسوں فاختاؤں کو ریسکیو کیا۔اپنے گھر کے برآمدے میں لا کر رکھّا اورموسم کُھلنے پر اُڑا دیں تو یوں لگاجیسے کسی اپنے کو آزادی کا تحفہ دیا ہو۔
اب دھیان آیا ہے کہ یہ شعر غالباً اسی واقعے کا پرتو ہیں:
ہمارے دل غموں میں یُوں گِھرے ہیں
کہ جیسے بارشوں میں فاختائیں

درختوں پر فقط اب ڈھیر ہیں ٹوٹے پروں کے
پرندے کون سی دُنیا میں ضم ہونے لگے ہیں

افسوس کہ زندگی کے پہلے گہرے دکھ کی یاد بھی ایک پرندے ہی سے جُڑی ہے۔
اس واقعے سے کوئی برس دو برس پہلے اپنے گاؤں کے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود کے دوران میں نہ معلوم کیسے یہ بات ہم لوگوں پر اپنے آپ کُھل گئی کہ ایک خاص موسم میں زرد یا سُرخ بِھڑیں سُست اور نڈھال پڑ کر ڈسنےسے گریز کرتی ہیں اور اُن کو پکڑ کر اور اُن کا ڈنک نکال کر اُن سے کھیلنا ممکن ہوتا ہے سو ایسے موسم میں جو غالباً آمد ِسرما کے نزدیک کا ہوا کرتا تھا،ہم کسی نہ کسی طرح ان بِھڑوں کو پکڑ کر اور ان سے کسی بے جان شے کو ڈسوا کر بے ضرر بنا دیتے تھے اور ان کے پاؤں میں مشینی دھاگہ باندھ کر انہیں اُڑنے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔اس مقابلے میں ہماری ہارجیت کا فیصلہ ہماری بِھڑ کے اُڑنے کی بلندی سے ہوتا تھا۔پاؤں میں بندھے دھاگے کے بوجھ کو اُٹھا کر اُڑنے والی بِھڑ ایک خاص بُلندی اور فاصلے تک جا کر جیسے فضا میں ساکت ہو جاتی تھی اور دھاگے کو تھام کر بِھڑ کو کسی خاص علاقے میں محدود رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ایسی بِھڑیں فضا میں ایک مخصوص بلندی پر پھڑپھڑاتی تھیں اور بالآخر تھک کر کسی نزدیک کی شے پر بیٹھ جاتی تھیں۔یہی وقت،فاصلہ اور بلندی ہماری ہار جیت کی میزان تھی۔
ان بِھڑوں کا اُڑنا اور ہوا میں ساکت ہو کر پھڑپھڑانا ایک پُرلطف اور قابلِ دید نظارہ تھا اور اس سے کسی پچھتاوے کا وابستہ ہونا ممکن نہیں تھا کہ بِھڑوں اور ڈسنے والے دیگر زہریلے بُھنگوں کو مار ڈالنا کارِ ِثواب گردانا جاتا تھا۔پچھتاوے کا مرحلہ تو اس سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں آیا اور بقول ِمنیر نیازی میری ساری زندگی کو بے ثمر کر گیا۔
ہُوا یوں کہ ہماری ٹولی نے اس تجربےکو چِڑیوں تک پھیلانے کا سوچا اور ہم بہت جلد مختلف طریقوں سے چڑیاں پکڑ کر اور اُن کے پاؤں میں بندھے دھاگے کے سرے کو اپنی انگلی پر لپیٹ کر ان کی محدود پروازوں کے دورانیے سے اپنی ہار جیت کا فیصلہ کرنے لگے۔بھڑوں کی طرح چڑیاں بھی اپنے آپ کو آزاد سمجھ کر اڑتی تھیں اور دھاگے کی لمبائی کی حد پر جا کر ایک ہی جگہ ساکت ہیلی کاپٹر کی طرح پھڑپھڑانے لگتی تھیں۔اُن کے پروں کی جھنکار ایک خاص ردھم کے ساتھ ہمارے کانوں تک آتی تھی جیسے کوئی تیزی سے پنکھا جھل رہا ہو مگر اس کی ہوا کسی تک پہنچ نہ پا رہی ہو۔
دھاگے سے بندھی ہوئی چڑیاں ہوا میں پھڑپھڑاتے ہوئے کچھ دیر پکڑنے والی کی انگلی پر اپنی قوتِ پرواز کا دباؤ برقرار رکھتی تھیں مگر اس قدر نہیں کہ دھاگہ ٹوٹنے کی نوبت آئے یا چڑیوں کے فضا میں نکلنے اور مختلف سمتوں میں اڑنے کی کوشش کے تناؤ سے کسی کھلاڑی کی انگلی پر کوئی نشان پڑ جائے۔بھڑوں کی طرح ان چڑیوں کا بھی ہوا میں ساکت ہو کر پھڑپھڑانے کا منظر بہت پُرلطف ہوتا تھا اور شاید مجبوری و مختاری یعنی جبر و قدر کے مسئلے کو سمجھنے میں بہت معاون ہو سکتا تھا اگر اُس روز میری انگلی سے لپٹے دھاگے کا سرا پھسل کر میری انگلی سے بندھی چڑیا کو آزاد نہ کر دیتا۔
نہیں معلوم یہ کیسے ہوا مگر ہوا اور میری انگلی سے بندھی،دھاگے کے دوسرے سرے پر فضا میں تیرتی چڑیا کو اچانک افق کے کھلتے چلے جانے اور اپنے پروں کی طاقت کے کارگر ہونے کا ایسا احساس ہوا کہ وہ ایک لمبی اڑان کے ساتھ میرے ہاتھ کی رسائی سے دور ہوگئی۔کچّی زمین پر دُھول اُڑا کر اس کے پیچھے بھاگ کر،جلانے کے لیے رکھی لکڑیوں کے ڈھیروں پر چڑھ کر اور راہ میں حائل گھروں کی کچی داؤدی دیواروں کو پھلانگ کر بھی میں زمین سے ایک خاص بلندی پر لٹکتے دھاگے کے سرے کو پھر پکڑ نہیں پایا اور اپنی آزادی کے نشّے میں مست مگر اپنے تعاقب میں مری موجودگی سے باخبر چڑیا چھوٹی چھوٹی اڑانیں بھرتی بالآخر ہماری چھوٹی سی بستی سے باہر کھیتوں کی طرف پرواز کر گئی اور میں ایک غیر واضح احساس ِزیاں کے ساتھ گھر پلٹ آیا۔
گھر پلٹنے کے کئی روز بعد تک مجھے اندر ہی اندر کسی ان ہونی کے وقوع پذیر ہونے کا ڈر رہا جس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔شاید یہ اپنے ہم جولیوں کے کھیل سے باہر ہونے کا رنج تھا مگر اس میں شمولیت کے لیے تو بس ایک اور چڑیا پکڑنا کافی تھی اور چڑیوں کی گاؤں کے درختوں اور گھروں کے چھپروں میں کوئی کمی نہیں تھی۔پھر بھی میں نے کوئی نئی چڑیا نہیں پکڑی اور میرا جی چاہتا تھا کہ کہیں سے اچانک وہی رہا ہو کر معدوم ہونے والی میری اپنی چڑیا پلٹ آئے اور میں اسے دوبارہ اڑانے سے پہلے اس کے پاؤں میں بندھے دھاگے کو کھول دوں۔
میں نے کوئی چڑیا پکڑی نہ ہی میری اپنی چڑیا پلٹ کر آئی اور دن پرندوں کی طرح پھڑپھڑاتے گزرتے رہے۔دن بھر گھر میں،سکول میں اور ہم جولیوں کے ساتھ میں ہر طرح کے معمول میں شریک رہا مگر کئی دنوں سے ایک اضافی کام میرے معمول کا حصہ بن گیا تھا اور اس کام کے لیے میں نے کسی کو ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں جانی۔
یہ کام تھا ظہر کے بعد بستی کے ارد گرد کے درختوں کے جھنڈوں میں جا کر آوارہ گھومنا،پیلے پھولوں سے بھرے کیکروں کو جھومتے دیکھنا،شیشم کے لدے درختوں کی بوجھل مہک سے سرشار ہو کر اپنی تنہائی کا مزہ لیتے ہوئے،لو دیتے پتّوں کی سرسراہٹ سے مس ہوکر چھنتی کرنوں کا شمار کرنا اور ایک محسوس نہ ہونے والی بے چینی کے ساتھ اپنی کھوئی ہوئی چڑیا کو تلاش کرنا۔کیوں کہ کہیں اندر ہی اندر مجھے معلوم تھا کہ اس رس بھری دنیا کو چھوڑ کر وہ کہیں دور بہت دور نہیں گئی ہو گی۔
میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اور اپنے روحانی اضطراب سے بڑی حد تک انجان مگر میرا احساس برحق تھا اور میرا یہ گمان بھی کہ میری گرفت سے نکلنے والی چڑیا کہیں دور نہیں جا سکتی۔واقعی اس کو کہیں دور جانا نصیب نہیں ہوا۔بہت دنوں بعد وہ مجھے ایک کیکر پر ملی۔اس کا سوکھا ہوا پنجر اسی دھاگے سے بندھا ہوا زمین سے چند فٹ کی بلندی پر لٹکتا تھا۔دھاگے کا دوسرا سرا کیکر کی شاخوں میں الجھا ہوا تھا۔وہ شاخیں کسی بچے کی انگلی جیسی پھسلواں نہیں تھیں اور چڑیا کے لیے موت کی اس زنجیر کو توڑ کر نکلنا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ایک بچے کی حماقت سے کھینچے ہوئے اس دائرے میں اس کی بھوک اور پیاس بجھانے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی تھی اور اس کی آزادی اس کے لیے موت کا پروانہ بن گئی تھی۔کب؟مجھے معلوم نہیں مگر مری تلاش ختم ہونے تک اس کے پنجوں اور گوشت سے خالی ڈھانچے پر تھکے ہوئے پروں کا ایک ننھا سا ڈھیر ہی باقی تھا جسے میری روح،میرے احساس میں بھی باقی رہنا تھا۔
آج اپنے پاؤں کی زنجیر کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ میری آزادی کی حد کیا ہے اور میری زندگی کا انجام کیا ہوگا؟
کاش میں نے اُس چڑیا کو پہلے ہی روز ڈھونڈ لیا ہوتا تو اپنے اندر کی اس گھٹن اور پچھتاوے سے آزاد ہوتا مگر ِ تقدیر نے جو کمی کسی کی قسمت میں لکھ دی ہو،اسے کوئی کس طرح دور کر سکتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے