گاؤں کے کھیل بھی جاری تھے اور شہر کے معمولات بھی۔دوستوں کا ایک حلقہ وجود میں آرہا تھا۔باہر کے کام کاج کے لیے میرا ہم عمرملازم چراغ موجود تھا۔کریانے،کنجڑے,قسائی،دھوبی،درزی،حلوائی اور
دودھ والے کی ہٹّیاں مقرر تھیں۔ڈاکٹر اور دواخانہ بھی طےشدہ تھا اور بزاز اور سُنار بھی۔رسوئی میں ماں کی مدد کے لیے محلے ہی کی ایک بزرگ خاتون جنّت جنھیں ہم نانی کہنے لگے تھے،بن کہے روز ہی چلی آتی تھیں۔اس کے علاؤہ مجھ سے بڑی بہن بھی کھانا بنانا سیکھنےکے لیے ماں کےآس پاس ہی رہتی تھی۔سب کچھ بہت سادہ اور خانوں میں بٹا ہوا تھا۔وہی چھ دن شہر میں اور ایک دن گاؤں میں ادھم مچاتے گزرتا۔
شہر میں ہر شام دوستوں کے ساتھ نششت جمائی جاتی۔شاکر،محمود
،جمیل اور آصف کے گھر قریب قریب تھے مگر نششت آصف کے گھر ہی میں ہوتی تھی یا کبھی کبھار میرے یہاں۔تاہم اس کی نوبت کم آتی تھی کہ ایک تو ہمارےگھر میں کوئی باقاعدہ ڈرائنگ روم تھا ہی نہیں اور دوسری وجہ یہ کہ میرے اور ممتاز کے گھر کو شہر سے باہر جانا جاتا تھا۔
آصف کے ماں باپ اور بہن بھائی کمال کے خوش مزاج اور متواضع طبع تھے۔شربت،چائے بسکٹ اور چائے سے تواضع بھی کی جاتی تھی اور کئی بار زبردستی کھانے کے لیے بھی روک لیا جاتا تھا۔آصف کے والد،الیاس صاحب جنھیں ہم اور خود ان کی اولاد چچا کہہ کر بلاتی تھی۔ہم سب کا بڑی بڑی مسکاتی آنکھوں اور کھلے ہوئے چہرے کے ساتھ استقبال کرتے تھے اور انھوں نے ہم سب کی کوئی نہ کوئی چھیڑ مقرر کر رکھّی تھی جو تعلق کی ذاتی نسبت کو مضبوط کرتی تھی۔
آصف کے بڑے بھائی فیاض تو کیمسٹ تھے اور کابل کی کسی فیکٹری میں ملازم تھے۔منجھلے ریاض اور چھوٹی دونوں بہنوں سے ہم بالکل آصف ہی کی طرح بے تکلف تھے۔اس لیے ان کے ڈرائنگ روم پر قابض ہونے کے لیے آصف کا گھر میں ہونا ضروری نہیں تھا۔
ہماری نششت کے موضوعات مذہب،کتابیں اور سکول کے معمولات ہوا کرتے تھے۔اب اتنے برسوں بعد یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے مل کر کبھی کوئی کھیل ایک ساتھ نہیں کھیلا۔سنیما نہیں گئے۔آوارہ گردی نہیں کی اور نہ ہی کسی کی غیبت۔ہم بس بے سروپا مباحث میں الجھے رہتے تھے اور شاید اس کی وجہ ہمارے مابین دو ایک ایسے دوستوں کا وجود تھا جو دینی گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور مذہب و ملت کے حوالے سے غیر معمولی دانش کے حامل تھے۔ان سب میں میری حیثیت سامع کی ہوتی تھی اور اب بھی ہے۔
ہاں میں کبھی کبھی اپنے بھانجے احمد نواز سے ملنے بورڈنگ ہاؤس چلا جاتا تھا۔وہ لوگ پہلی منزل پر رہتے تھے اور ایک بڑے سے کمرے میں مل جل کر بسر کرتے تھے۔وہیں ایک نیم مغدور طالب علم تھےجو دونوں ہاتھوں سےخطاطی کرتے تھے۔بخدا اس عمر میں میں نے ان سے بڑھ کر کسی کا خط اس قدر اُجلا نہیں دیکھا۔
ماسٹر عبدالحق کے یہاں کلاس ششم کے بعد موقوف ہو گئی تھی۔وہ اب کلاس انچارج بھی نہیں تھے مگر ان کے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔کئی بار وہ بھی اہل وعیال سمیت ہمارے ہاں چلے آتے تھے۔ان کے بڑے صاحب زادے پولیس انسپکٹر تھے اور شہر کے جید عالم مولوی ہدایت اللہ کے داماد۔ان کی پوسٹنگ کہیں باہر تھی۔دوسرے صاحب زادے گلفام میاں بھی عمر میں ہم سے بڑے تھے اور اپنی ذات میں مست تھے۔اس لیے ماسٹر صاحب کی تشریف آوری اہلیہ اور بچیوں کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔جن میں سے ایک مجھ سے دو برس بڑی تھی تو دوسری دو ڈھائی برس چھوٹی۔
ساتویں جماعت ہی میں میں نےسکول کی مرکزی عمارت سےجُڑی، کوئی دس سیڑھیوں کے چبوترے پر واقع نہایت پُرجمال لائبریری
تک رسائی حاصل کر لی تھی۔یہاں سے ایشو ہونے والی پہلی کتاب
"او ہنری کے افسانے”تھی جو مختصر افسانے سے میرا پہلا تعارف تھا۔
مجھے مترجم کا نام تو یاد نہیں مگر اس کتاب نے میرے اندر کے رومانی مجاہد کا گلہ گھونٹ دیا۔میں نے نسیم حجازی اور اس کے کُٹم کے ناول نگاروں کو پڑھنا ترک تو نہیں کیا مگر افسانے کا جادو گہرا ہوتا چلا گیا۔میرے اندر ایک رومانوی ہیرو کی تشکیل ہونے لگی۔اس کو مزید تقویت اے آر خاتون اور اس کی چیلیوں کے ناولوں نے دی۔میں جن سے جلد ہی بھر پایا مگر ان سے مکمل نجات پانے میں برس دو برس تو لگے ہی ہوں گے۔
اسی زمانے میں ایک واقعے نے ہماری برادری میں میری دھوم مچا دی۔ہوا یوں کہ ماں،بہنیں اور بھائی کسی وجہ سے بستی گئے ہوئے تھے اور گھر پر صرف میں اور ملازم(چراغ)تھے کہ شام کو برادری (بستی سنپالاں)کے کوئی پندرہ لوگ رات کو ٹکنے کے لیے چلے آئے۔انہیں صبح کسی گاڑی سے غالباً لاہور جانا تھا۔ہمارے گھر میں اس وقت نہ اتنی چارپائیاں تھیں نہ بستر نہ کھانا۔سو ان کو دستیاب چارپائیوں پر ٹکا کر میں نے نانی جنت کو بلایا۔بازار جا کر سبزی،گوشت،برف اور دودھ لایا۔اس عالم میں کہ میری جیب میں کوئی پیسہ نہیں تھا۔محلے میں گھوم کر بستر اور چارپائیاں اکٹھی کیں۔سالن نانی نے پکایا اور روٹیاں تندور سے لگ کر آئیں۔اس کام میں نانی کے بیٹے نے بڑی مدد کی۔سب کی مقدور بھر تواضع کے بعد خواتین کو صحن اور مردوں کو کچے حصے میں پیڈسٹل فین لگا کر بستر لگوا دیے اور خود ملازم کے ساتھ چھت پر سویا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا معلوم نہیں مگر ہوا اور اس کی وجہ شاید وہ تربیت تھی جو گاؤں میں آنے والے مہمانوں کی تواضع کرنے سے پائی تھی مگر اس سے اپنی واہوا بلے بلے ہو گئی اور ابّا،اماں کی شاباش نے تو ہمیشہ کے لیے نہال کر دیا۔گو شاباش کے اصل مستحق وہ دکان دار اور محلے دار تھے جنہوں نے کوئی سوال پوچھے بغیر وہ سب کچھ فراہم کیا جو میں نے چاہا۔یقیناً میرے ابّا جی نے ان کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہو گی۔
سب ٹھیک چل رہا تھا اور میں جو مل رہا تھا،پڑھے جا رہا تھا۔بچوں کے رسائل اب مزہ نہیں دیتے تھے گو ان میں”ہمدرد نونہال”اور”تعلیم و تربیت”کا اضافہ ہو گیا تھا۔اب میں”قہقہہ”،چاند”اور”آداب عرض”
بھی پڑھنے لگا تھا۔”چاند”میں معروف گیتوں کی پیروڈی شائع کی جاتی تھی۔ایڈیٹر پیرجنگلی علیہ ماعلیہ تھے جن کا دوسرا نام وحشی مارہروی تھا۔اس کی”سچّی کہانیوں”پر وقت ِمطالعہ”درج کیا جاتا تھا۔شاید یہ ایجاد مصروف لوگوں کی اعانت کے لیے تھی کہ مجھ جیسا فارغ تو ان کہانیوں کو اس سے چوتھائی وقت میں نمٹا لیا کرتا تھا۔یہ کہانیاں عام طور پر ناکام عشّاق اور مجبور لڑکیوں کی
داستان ِحیات سے معاملہ رکھتی تھیں۔بہت بعد میں، میں نے اس سلسلے کی چند کہانیاں لکھی اور طبع کرائیں تو ان کی جذباتیت بھی خاصے کی چیز تھی اور بیسیوں تعریفی مراسلوں کی موصولی کا سبب بنی۔یہ بات میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس زمانے میں خط کتابت کے لیے میں آصف کے گھر کا پتا دیا کرتا تھا۔آداب عرض میں بھی میں یہی پتا چھپواتا رہا۔
نصاب کی کتابوں کے علاوہ شاعری کی مختلف صورتیں انہی رسائل میں دیکھیں۔ایم اسلم کے ناولوں کے ہر باب کے آغاز میں بھی شاعری پڑھنے کو ملتی تھی اور مجھے یاد ہو جاتی تھی۔کبھی کسی گیت کی پیروڈی کی سوجھتی تھی تو دل ہی دل میں گنگنا کر آزما لیتا تھا۔با آواز ِبلند گانے کی ہمّت اس لیے نہیں تھی کہ غسل خانے میں گاتے ہوئے بھی اپنی آواز بھدی ہی محسوس ہوتی تھی۔پھر کس بِرتے پر تتّا پانی۔تب اوزان و اوسان دونوں خطا رہتے تھے مگر ایک بار ہمت کرکے”چاند”کو مکیش کے ایک گیت”چل اکیلا”کی پیروڈی بھجوائی تو وہ چھپ گئی مگر اسے میں نے اپنے لیے مثال نہیں بنایا اور نہ اس عمل کا اعادہ کیا۔پڑھنے اور قدرے بعد میں لکھنے کے سلسلے میں نثر ہی کو ترجیح دی اور شاعری سے وہی نسبت رہی جو چرخے کو چرخِ ِادب سے ہے۔