درس گاہ – 20

اسی دوران میں مجھے اپنے محلّے میں اسٹیشن کے نزدیک ایک آنہ لائبریری کے وجود کی خبر ملی۔شہر کی دکّانوں پر ادبی کتابیں اوّل تو تھی ہی نہیں اور اگر تھیں تو انہی مقبول مصنّفین کی جو جناح میونسپل لائبریری میں بھی موجود تھے اور ان میں سے بیشتر کتب کو میں نے پڑھ لیا تھا۔مذہبی کتابوں اور علمی کتابوں سے مجھے رغبت نہیں تھی اور نہ ہی تاریخ اور علوم شرقیہ و غربیہ سے۔انگریزی سیکھتے دو ہی برس ہوئے تھے اور عربی فارسی کا تو سرے سے شعور ہی نہیں تھا سو ان زبانوں کی کتب میرے لیے اجنبی تھیں اور یہ کچھ نئے کی تلاش تھی جو مجھے اس آنہ لائبریری تک کھینچ لےگئی۔وہاں دو روپے زر ِضمانت جمع کرانےپر ایک آنہ فی کتاب کرایہ کےحساب سے بیک وقت دو کتابیں لی جا سکتی تھیں۔دکان دار کے مشورے سے میں نے ابن ِصفی کی جاسوسی دنیا کے دو ناول کرائے پر لیے اور جیسے ایک بار پھر خان اور بالے کی اسرار بھری دنیا میں داخل ہو گیا۔کیپٹن حمید،قاسم اور تنویر وغیرہ کے متنوع کردار،بیک وقت زیرکی شگفتگی اور قہر سے بھرے۔حماقت اور دانش کے مرقعے اور اس پر کرنل فریدی کا مثالی کردار۔متانت،دانش،حُب ِوطن اور استقلال سے بھرا۔میں نے پہلے بے ترتیبی اور پھر ترتیب سے ہر دستیاب ناول پڑھ ڈالا۔اسی سیریز کے مطالعے کے دوران میں کہیں "عمران”کا تعارف ہوا اور اب عمران سیریز کی طرف ایسا راغب ہوا کہ دو ایک ماہ میں دستیاب ساری کتب پڑھ ڈالیں اور صرف ابن ِصفی کی نہیں این صفی،نجمہ صفی اور نہ جانے کس کس کی مگر ان میں وہ مولوی”مدن”والی بات مفقود تھی۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ناول مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گئے اور میں اپنے آپ کو ان کرداروں جیسا ایک کردار ہی سمجھنے لگا۔ان کی تکلیف مجھے اپنی تکلیف محسوس ہوتی اور خوشی اپنی خوشی۔میں نے انہیں بیٹھ کر،لیٹ کر اور رضائی میں چُھپ کر پڑھا اور ایک دن میں پانچ پانچ ناول بھی پڑھ ڈالے اور اسی سال گرمیوں کی تعطیلات میں "عمران سیریز”کا ایک ناول خود بھی گھسیٹنے کی کوشش کی مگر بیس پچیس صفحوں کے بعد تخلیقی بصیرت ساتھ چھوڑ گئی اور میں”حسین صفی”بنتے بنتے رہ گیا۔
اسی برس یا اس سے پہلے میں نے سکول گراؤنڈ میں قینچی سائیکل چلانا سیکھا۔میں اس کوشش میں کئی بار گرا اور میرے قد بت کے لڑکےکا سائیکل کی مثلث میں گھس کر اس ہوا سے گِر پڑنے والی سواری کو سِدھانا آسان نہیں تھا مگر یہ ہوا اور میری مہارت کو دیکھ کر میرے ابّا جی مجھے سائیکل لے کر دینے پر راضی بھی ہو گئے۔ٹی چوک کے قریب ایک دکان سے”رستم سائیکل”مع کیرئیر،بیڑی سیل والے ہارن اور سرچ لائٹ کے ایک سو بیس روپے میں ملا اور میں اسے لے کر آس پاس کے علاقے میں گھومنے لگا۔
میں بارہ تیرہ برس کا ہو چلا تھا مگر میرا وزن اور قد سب ہم جماعتوں کے مقابلے میں کم تھا۔میری ماں کو وہم ہو چلا تھا کہ میں کہیں بونا ہی نہ رہ جاؤں۔اس لیے بادام،کشمش اور نامعلوم میوہ جات کے عجیب و غریب مرکبات بنا بنا کر ہم بہن بھائیوں کو کھلانے کی کوشش کرتی رہتی تھیں۔ان کا دل رکھنے کو کبھی میں وہ مرکبات کھا بھی لیتا تھا مگر عام طور پر انہیں دھونس سے کبھی ملازم اور گاؤں میں ہونے پر ملازمہ کو کھلا دیا کرتا تھا۔میٹرک کے امتحان کے قریب کی ایک تصویر میں میں سب ہم جماعتوں کے مقابلے میں پستہ قد آور کم عمر لگ رہا ہوں مگر فرسٹ ائیر میں آتے ہی میں نے چھ ماہ میں دس انچ قد نکالا اور سب کے درمیان مناسب منصب پر بحال ہو گیا اور میری ماں نے اسے اپنے خلق کیے مفرحات کا نتیجہ جان کر حقیقی خوشی منائی۔
جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق دو ایک دوستوں کو بھی تھا۔آصف کے ایک ہمسائے اور ہم سے عمر میں دو ایک برس بڑے اعجاز ہاشمی عرف بِڈّو نے قرت العین حیدر کے”آگ کے دریا”کا ذکر کیا تو میں نے پبلک اور سکول لائبریری کے علاوہ تمام آنہ لائبریریاں چھان ڈالیں مگر وہ ناول نہیں مل سکا۔ہاں کرشن چندر کا ناول”شکست”مل گیا اور میں اس کی منظر نگاری،زبان کی چاشنی اور رومانوی نثر سے اس قدر متاثر ہوا کہ برسوں تک میں اُس کی کتابیں ڈھونڈ کر پڑھتا رہا۔متعدد افسانے اس کے اسلوب میں لکھ کر نہایت خوبصورت نوٹ بکس میں محفوظ کیے،جو بُرے نہیں تھے۔وہ شاید اب بھی کہیں موجود ہوں مگر مجھے انہیں چھپوانے کی جسارت نہیں ہوئی۔
کرشن چندر سے عشق کا عالم یہ تھا کہ کسی کتاب کو پڑھنے کے لیے اس پر ان کا نام ہی کافی ہوتا تھا۔ان کی متعدد کتابیں پبلشر مختلف ناموں سے شائع کر لیا کرتے تھے۔ایک بار ان کی ایک کتاب”میری یادوں کے چنار”(جو ان کی زندگی کے پہلے اٹھارہ برس کی کہانی ہے) کے اگلے حصے کے بارے میں استفسار کے لیے انہیں ان کی کتابوں کی فہرست بھجوا کر رہنمائی چاہی تو انہوں نے اس فہرست کی متعدد کتابوں کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
مڈل کرنے کے دوران ہی میں پہلی بار اردو ڈائجسٹ پڑھنے کو ملا۔پھر میں اسے ہر ماہ خریدنے لگا۔اسے پہلی بار پڑھا تو اس رسالے نے مجھے مبہوت کر دیا۔خاص طور پر دوسری جنگ ِعظیم اور شکاریات سے متعلق کہانیوں نے۔اس رسالے کے خریدنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب میں نے ہر طرح کی تحریر پڑھنے کی عادت اپنا لی۔اسی بیچ میں کہیں بلونت سنگھ اور بیدی آ دھمکے اور پھر منٹو اور عصمت چغتائی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے