سعادت حسن منٹو تک رسائی پاتے میں نے مڈل پاس کر لیا تھا۔مجھ سمیت سکول کےمنتخب لڑکوں کو لاہور ڈائریکٹوریٹ کے امتحان میں بٹھایا گیا۔اس امتحان کو بورڈ امتحان کی طرز پر لیا گیا اور اسے فرسٹ کلاس میں پاس کرنے کی باقاعدہ سند جاری کی گئی۔مجھ سے پہلے مڈل تو میرے بڑے بھائی نے بھی کر رکھا تھا مگر گاؤں میں والد صاحب کے کمرے میں فریم ہو کر آویزاں ہونے کا اعزاز میری سند کو ملا۔
عصمت چغتائی از بے چادری تو نہیں تھیں مگر چادر میں کھیلے جانے والے کھیل نے مجھے بوکھلا دیا۔اس پر”منٹو کے افسانے”۔۔۔یوں کہیے ہم ایک ہی کتاب میں بڑے ہو گئے مگر بہت بڑے نہیں ہو پائے کہ ان کی اور کوئی کتاب کہیں مل نہیں سکی۔ملی تو عصمت چغتائی بھی نہیں مگر ان کی کتب کی عدم دستیابی جان کا روگ نہیں بنی۔اس کمی کو ہم نے مرزا عظیم بیگ چغتائی کی”شریر بیوی”اور "سوانہ کی روحیں”جیسی کتابوں سے پورا کیا۔آنہ لائبریری والوں کے اکسانے پر چوگنے کرایے پر دو تین کتابیں”و۔و” کی بھی پڑھ ڈالیں مگر اس سے معلومات میں اضافہ ہوا نہ تجربے میں کہ یہ شعبہ ابھی ہمارے مزاج کو خوش نہیں آیا تھا۔برسوں بعد عزیز دوست سعید مرتضیٰ زیدی نے شوکت تھانوی پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ”و۔و”انہی کا قلمی نام تھا اس انکشاف پر مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ پیٹ کا تنّور ہر طرح کی اخلاقیات کو چاٹ جاتا ہے۔اگر صاحبان ِعلم و دانش بُرا نہیں منائیں تو میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ جنسی اخلاقیات صرف اور صرف مڈل کلاس کا مسئلہ ہے۔
منٹو کی یہ کتاب”نیا ادارہ”سے شائع ہوئی تھی۔اس کتاب کے آخر میں اس ادارےسے شائع کی گئی کتابوں کی فہرست بھی تھی۔یہ سبھی کتابیں دل لبھانے والی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی کسی آنہ لائبریری میں موجود نہیں تھی اور وجہ یہ کہ وہ لوگ ایسی کتابیں خرید کرتے تھے جو ہاٹ کیک کی طرح ہاتھوں ہاتھ لی جائیں سو اولیت جاسوسی سیریز اور رومانی ناولوں کو حاصل تھی۔زندگی کی حقیقت اور انسانی نفسیات کی بوقلمونی سے آگاہی کی طلب کسی کو نہیں تھی۔منٹو،بیدی،عصمت اور غلام عباس اس معاشرت کے لیے اجنبی تھے اور میرا مسئلہ یہ تھا کہ میری دلچسپی کا مرکز اب یہی نام تھے۔
اسی زمانے میں جمیل اقبال کے بڑے بھائی مجید گِل نے اپنے سٹور
میں ایک آنہ لائبریری کی بنیاد رکھی۔انہوں نے میری پسند کی کتابیں بغیر کرایے پر فراہم کرنے کی آفر اس شرط پر دی کہ میں اپنے پاس موجود کاٹھ کباڑ ان کی لائبریری کے لیے عاریتا ً ان کے حوالے کر دوں۔میں نے ایسا ہی کیا اور وہ خانیوال اسٹیشن کے سٹال اور منٹگمری کی ہٹّیوں سے دو تین کتابیں لائے بھی مگر بات بنی نہیں اور یہ سلسلہ میری کتابوں کی ضبطی پر منتج ہوا۔میں چاہتا تو شاید وہ کتابیں واپس لے سکتا تھا مگر اندر ہی اندر کہیں میں ان کتابوں سے بھر پایا تھا۔اس لیے میں نے بھرپور احتجاج بھی ریکارڈ نہیں کرایا۔ہاں اس واقعے کے بعد آنہ لائبریریوں سے استفادے کا سلسلہ انجام کو پہنچا اور میں اپنے ذوق ِمطالعہ کی دل داری کی کوئی اور راہ نکالنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
اس دوران میں ایوب خانی الیکشن ہوئے۔میاں چنوں اسٹیشن پر ایک ریلوے بوگی کے دروازے سے لگ کر محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر سُنی جو سمجھ میں آئی نہ کانوں تک پہنچ پائی۔ان کی تصویر دیکھ کر مجھے ہمیشہ چاند کی بڑھیا یاد آتی تھی۔انہیں دیکھ کر یقین ہو گیا کہ میرا تاثر غلط نہیں تھا۔
اسی زمانے میں اسی اسٹیشن پر ایوب خان کو بھی دیکھا۔اس کی تقریر سنی اور وجاہت سے اس قدر متاثر ہوا کہ خلقت کی ٹانگوں سے گھسر کر ان کے اس قدر نزدیک جا پہنچا کہ میرے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھانے پر وہ میرا ہاتھ تھامنے پر مجبور ہو گئے۔افسوس وہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا وگرنہ آج فیس بک پر وہ میرے تھوبڑے کے سائے میں سمٹے دکھائی دیتے اور اچھّے لگتے۔
اسی دوران میں کہیں پاکستان نے خانہ کعبہ کے لیے غلاف بھجوایا تھا۔اس کی زیارت بھی اسی اسٹیشن پر ہوئی۔1965ء کی جنگ کا سامان بھی اسی اسٹیشن سے آتے جاتے دیکھا۔ایک پیسہ ایک ٹینک مہم میں بھرپور حصہ ڈالا اور دوستوں کے ساتھ گھر گھر جا کر سینکڑوں روپے اکٹھے کیے اور وار فنڈ میں جمع کرائے۔
میرے دوست حق نواز کاٹھیا کے ایک کزن نذر حسین لاہور میں پڑھ رہے تھے۔اُن سے صلاح مشورے کے بعد ہم دونوں موسم ِبہار کی تعطیلات میں اپنے ماں باپ سے اجازت لے کر بذریعہ بس لاہور کے لیے نکلے۔سن 1966ء تھا اور مارچ کے آخری دن جب ہم سمن آباد چوک پر اُترے۔بس تب ملتان روڈ سے براستہ سیکریٹریٹ بادامی باغ جاتی تھی۔اس لیے نیو مزنگ جانے کے لیے چوبرجی یا سمن آباد موڑ پر اترنا ہی سود مند تھا۔حق نواز مجھ سے عمر اور تجربے میں بڑا تھا(اُس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی)اور پہلے بھی نذر کے پاس لاہور آچکا تھا۔اس لیے رکشا لےکر ہمیں گھر تلاش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔سمن آباد دوسرے گول چکر کی بغل میں یہ گھر دس مرلوں پر محیط تھا اور چھے طلبہ کے تصرف میں تھا۔سب نے ہمیں بہت محبت سے خوش آمدید کہا اور دوپہر کے کھانے کے بعد ہم اومنی بس پکڑ کر اردو بازار جا پہنچے تاکہ لاہور کی باقاعدہ سیر سے پہلے”نیا ادارہ”کا کام نپٹا لیں۔
وہاں چودھری برادران موجود تھے۔شاید ریاض چودھری ہی تھے۔جنہوں نے ہمارا مطالبہ سُنا اور مطلوبہ کتابیں نکال کر دینے کے بعد اپنی پسند کی کتابیں بھی شامل کیں۔اسی پر بس نہیں مکتبہ پاکستان،البیان اور مکتبہءجدید سے انتظارحسین،احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس کے مجموعے بھی منگوا دیے۔انہوں نے تو فراق اور مجاز کو بیچنے کی سعی بھی کی مگر تب تک ہم بوکھلا چکے تھے۔سو کرشن سے انتظار حسین تک ہی محدود رہے۔ساحر لدھیانوی کی”تلخیاں”انہوں نے زبردستی شامل کر دی اور یہ اردو شاعری کی پہلی باقاعدہ کتاب تھی جو میرے مطالعے میں آئی۔اس کتاب نےاور ترقی پسند ادب کی نمائندہ کچھ اور کتابوں نے میرے سوچنے کا ڈھنگ ہی بدل دیا۔
ہماری پسندیدہ کتابیں تو پندرہ بیس سے زیادہ نہیں تھیں مگر ریاض صاحب کی توسیع پسندی نے یہ تعداد سو تک بڑھا دی۔زیادہ کتابیں پیپر بیک تھیں اور کافی سستی اس لیے بل دو سو سے زیادہ نہیں بنا۔میں نے بل کو توقع سے کم محسوس کرنے پر مکرر تصدیق چاہی تو ریاض صاحب نے خوش خبری دی کہ وہ اس پر تیس فیصد رعایت بھی دیں گے۔اس ادا کا تو ہمیں وہم و گمان بھی نہیں تھا۔میں ماں اور ابّا کو الگ الگ جذباتی”سیاہ خط”کر کے پانچ سو اینٹھ لایا تھا۔اس لیے اس رقم کی ادائیگی مشکل نہ تھی اور نہ یہ لاہور کی جی بھر کر سیر کرنے میں مانع ہو سکتی تھی۔سو رقم ادا کی۔کتابیں بندھوائیں،چائے پی اور مزنگ پلٹ آئے تا کہ اگلی منزل کے لیےکشادہ دست ہو سکیں۔
تب کون جانتا تھا کہ اسی ادارے پر محمد سلیم الرٰحمن،ریاض چودھری،انور سجاد،مستنصر حسین تارڑ،صلاح الدین محمود،احمد مشتاق،اختر حسین جعفری،سہیل احمد خان اور دیگر نابغوں کے ساتھ میں برسوں بیٹھتا رہوں گا اور کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ میں کبھی اس دکان پر صرف گاہک بن کر بھی آیا تھا۔