دیہات کا رہنے والا آدمی لاکھ شہر میں جا بسے۔اُس کا دیہاتی پن رخصت ہوتا ہے نہ بتیاں دیکھنے کا شوق مدھم پڑتا ہے اور میں تو آج بھی ایک ان گھڑ جانگلی ہوں۔میلے ٹھیلے مجھے تب بھی اپنی طرف بلاتے تھے اور اب بھی ڈھول بجنے پر میرے من میں دھمال مچنے لگتی ہے۔یہ اور بات میں نے کبھی رقص کی کوئی تال نہیں آزمائی۔جھومر نہیں کھیلی۔لُڈی نہیں ڈالی۔یہ سب کرنے کی خواہش ضرور رہی مگر تمام عمر عقل پاسبان ِدل رہی اور میں اندر سے آدھا ادھورا ہی رہا۔
ہماری بستی کے آس پاس کے معروف میلوں میں نور شاہ،پیرشینا،بالے
بم اور سنگ یعنی سخی سرور کا تلمبہ میں لگنے والا میلہ اہم تھے اور میں ان چاروں ہی کی سیر کو جاتا تھا۔مجھے فالودہ،پکوڑے اور مٹھائی کھانے کی ہُڑک تو کم ہی ہوتی تھی۔زیادہ دلچسپی قصےکہانیوں کے سٹالز،موت کےکنویں،سرکس اور عجائبات ِعالم میں تھی ۔کُشتی،کبڈّی،کُتوں کی لڑائی یا بلوان بیلوں سے ہل کشی کے مقابلوں میں میری دلچسپی صرف کبڈی میں تھی۔تھیٹر لگتا ضرور تھا مگرمیں نے ایک ہی بار دیکھنے کی زحمت کی اور خاصا بدمزہ ہوا۔
ایک دلچسپ کھیل پانی کی بالٹی کی تہ میں شیشے کی پیالی رکھ کر اس میں سکّہ ڈالنا تھا۔کامیابی کی صورت میں دُگنی رقم پیش کی جاتی تھی۔پیالی میں ڈالے جانے والے سکّے فرکشن کی وجہ سے رخ بدلتے تھے اور عمودی سفر نہیں کرتےتھے۔اس لیے پیالی میں کم ہی گرتے تھے۔دو ایک بار میں نے اپنا سکہ ضائع کر،سِکّے کے وزن،فرکشن کی شرح،سمت کی تبدیلی اور اسراع کا اندازہ کر کے پیالی پر کئی درست نشانے لگائے تو دو ایک روپے ہارنے کے بعد اس کھیل کے موجد نے مجھے کِھلانے سے انکار کر دیا۔
"عجائبات ِعالم” کی صورت بھی عجیب مضحکہ خیز ہوا کرتی تھی۔بالے بم کے میلے میں ایک بار بانس کی مچان پر چڑھے منادی والے کی باتوں میں آ کر ہاتھی،شیر اور مچھلی کے دھڑ والی لڑکی کو دیکھنے گیا تو عجیب تجربہ ہوا۔بانسوں سے بنی راہداری کو طے کرکے جھولداری کے دروازے میں داخل ہوا تو ایک شخص کٹے ہوئے آدھے ڈھول پر مڑھی کھال کے وسط میں سوراخ میں سے لکڑی کا ایک گز کھال کو مس کرتا ہوا اس مہارت سے گزار رہا تھا کہ اس سے ایک خاص طرح کی گونج پیدا ہوتی تھی جو شیر کی دھاڑ سے ملتی جلتی تھی۔جھولداری کے باہر لٹکتے پردوں پر بنے شیروں اور لاؤڈ سپیکر پر ان کے جھولداری میں موجود ہونے کی حقیقت بس اتنی تھی۔میں نے زندگی میں پہلی بار دھوکا کھایا اور ایک خاص طرح کے صدمے سے بھی دوچار ہوا مگر دو ایک پنجرے میں بند گیدڑوں اور ایک آدھ اجنبی پرندے کے پنجرے کو آگے بڑھتی راہداری میں رکھا دیکھ کر مچھلی کے دھڑ والی لڑکی کو دیکھنے کی امید برقرار رہی اور میں رسیوں سے بنے راستے کی حد بندی کے ساتھ گھومتا ہوا ادھر بڑھنے لگا،جہاں مجھ سے آگے چلنے والے لوگ جا رہے تھے۔
دوچار قدم کے بعد میں نے اپنے آپ کو ایک بڑے سے پانی بھرے ٹب کے سامنے پایا جہاں میری مقصود ِنظر موجود تھی۔لمبے،کُھلے اور بدن پر کمر بلکہ اس سے بھی پیچھے تک پھیلے ہوئے بالوں والی ایک لڑکی کمر سے نیچے کسی شے میں دھنسی ہوئی تھی جو کسی بڑی مردہ مچھلی کے نچلے دھڑ سے مثابہ تھی اور جس کے فلس اپنی دمک کھو چکے تھے۔اسے بدبو اور تعفن کے باعث غور اور توجہ سے دیکھنا ممکن نہیں تھا۔لمبے،گھنے اور وجود پر مہارت سے پھیلائے بالوں کے باعث ایک نظر میں یہ ادراک کرنا ممکن نہیں تھا کہ اُس کا اپنا دھڑ مچھلی کے دھڑ سے کہاں اور کس طور جُڑا ہوا ہے اور کیا اُس کے بدن کے نیچے اس کی اپنی ٹانگیں موجود ہیں بھی یا نہیں؟اب خیال آتا ہے کہ شاید وہ پیدائشی طور پر معذور رہی ہو اور اس کے دھڑ کو مچھلی کے دھڑ سے مثابہ دھڑ میں پھنسا کر ایسا لباس پہنا دیا جاتا ہو جو ان دونوں دھڑوں کے مقام ِاتصال کی پردہ پوشی کر سکے۔
بہر صورت وہ لڑکی اس وضع کے ساتھ وہاں موجود تھی اور اپنے وجود پر نگراں لوگوں کو ایک خاص طرح کی اداسی سے تک رہی تھی۔اُس کے چہرے پر غم،خوشی،حیرت یا خوف کا کوئی تاثر نہیں تھا اور مجھے آج اسے یاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اگر ایک پل کے لیے اُس کی بھیگی ہوئی آنکھیں میری آنکھوں سے نہ ملی ہوتیں۔پانی پر تیرتے ہوئے بُلبُلوں جیسی وہ آنکھیں ایک بد رنگ اداسی سے بھری تھیں اور اُن کی ملگجی سیاہی میں کہیں احتجاج کی ہلکی سی روشنی تھی۔جیسی روشنی مرتے ہوئے انسان کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔کچھ کہتی ہوئی مگر کہہ نہ پاتی ہوئی۔اپنی بے بسی پر نالاں مگر اُس کے اظہار کی خواہش سے پہلو بچاتی ہوئی۔اُن آنکھوں میں کوئی ایسی بات تھی جو اس لمحے مجھے اپنے لہو میں تیرتی محسوس ہوئی اور جسے میں آج بھی اپنے لہو میں تیرتے محسوس کرتا ہوں۔اسے میں نے ایک نظم میں یوں بیان کیا ہے۔
"مچّھی دے دھڑ والا جاتک
مینوں بِٹ بِٹ ویکھے
میریاں اکھّاں اندروں اوہنوں خبرے کیہ کجھ دِسیا
اوہدی روح دا ہِک ہِک چھالا چشماں تھانیں پِھسیا
مچّھی نوں میں روندیاں ویکھ کے آپ وی روون لگیا
میرے اندر دیوے وانگ سی کوئی تارا جگیا
مچّھی دے روون تے مینوں بڑی نموشی ہوئی
جُثّے دے پھٹ روحوں سِمدے جانے کوئی کوئی
(بالےبم دے میلے اندر/کتاب:”بیلے وچ چڑیاں”)
افسوس میں ساون کےحبس زدہ موسم میں مصنوعی مچھلی کے وجود میں دھنسی،مجھے دیکھ کر آب دیدہ ہونے والی اُس لڑکی کو
آزاد نہیں کرا سکا مگر یہ ضرور جان گیا کہ پیٹ کی آگ آنسوؤں سے نہیں بُجھتی اور بھوک ہر حس ِلطافت کو مِٹا دیتی ہے۔
میری شاعری میں در آنے والی اداسی کی مقدار زیادہ نہیں مگر اس کی ڈور کہیں نہ کہیں اس واقعے سے جُڑی ہے۔کیوں کہ زندگی میں آگے چل کر کھلنے والی حقیقتوں کا بیج کہیں بہت پہلے پڑ چکا ہوتا ہے جو اکھوا بن کر پھوٹنے کے بعد کہیں سالوں اور دھائیوں کے بعد دھیرے دھیرے ایک بڑے تجربے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
میری اداسی اور میری خوشی کی بنیاد بھی ایسے ہی بے خیالی میں کاشت کیے بیجوں پر ہے۔
نویں میں اساتذہ نے میرے لیے سائنس کا انتخاب کیا۔میرا بھانجا احمد نواز اب میرا ہم جماعت تھا مگر وہ آرٹس سیکشن میں تھا اور اس سے ملاقات اردو اور انگریزی کے پیریڈ ہی میں ہوتی تھی۔ان دو برسوں کے اساتذہ میں اردو کے غلام ربّانی،حساب کے شوکت حسین رضوی اور انگریزی کے مختار احمد صاحب سے زیادہ قربت رہی۔مختار صاحب بی۔اے،بی۔ایڈ کرنے کے بعد پہلے دن سب سے پہلے ہماری کلاس میں پڑھانے آئے تھے اور اپنے تعارف کے دوران میں گھبرا کر بے سُدھ ہو گئے تھے مگر بعد میں وہ اچھے ٹیچر ثابت ہوئے اور گرمیوں کی تعطیلات میں ہم سب دوستوں کو ہماری بیٹھک میں ٹیوشن پڑھاتے رہے۔ہم نے بیٹھک میں صرف چارپائیاں ڈال رکھی تھیں۔ماسٹر صاحب کی روز آمد اور قدرافزائی کے خیال سےمیری ماں نے مجھے پیسے دے کر دوستوں کے ہمراہ کُرسیاں خرید لانے کو ٹی چوک بھجوایا،جہاں دو ایک دکانیں فرنیچر کی بھی تھیں اور ہم سو روپے میں لکڑی کی چھ آرام کُرسیاں اور ایک سنٹر ٹیبل خرید کر اپنے سروں پر لاد کر گھر لے آئے۔ان میں سے کچھ کُرسیاں اب بھی سلامت ہیں اور بستی والے گھر میں موجود ہیں۔
پڑھنا جاری تھا اور جاری رہا۔”تلخیاں”پڑھی تو حافظے کا حصہ بن گئی۔ایک ایک مصرع ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔میں اس کتاب کے اُسلوب اور موضوع سےاس قدر متاثر ہوا کہ اُس کے تتّبع میں نظموں کی ایک کتاب گھسیٹ ڈالی جو نہ معلوم کہاں کھو گئی وگرنہ میری درد مندی،خرد افروزی اور روشن خیالی کی اب بھی بھرپور نمائندگی کرتی۔
لاہور سے لائی ہوئی کتابوں میں زیادہ تر کُتب افسانہ نگاروں کی تھیں۔کرشن چندر کے”ان داتا”سے”کچرا بابا”،بیدی کے "گرہن” سے "سونفیا”،عصمت کے”لحاف” سے”دوزخی”،بلونت سنگھ کے”جگّا”اور ندیم کے”رئیس ِخانہ”سے انتظار کے”آنجنہاری کی گھریا”غلام عباس کے”آنندی”سے”سایہ”اور منٹو کے”تماشا”سے”پُھندنے” تک کا سفر سیدھا تو نہیں تھا مگر انہی دو برسوں میں مکمل ہوا۔یہ افسانے اور ان کے کردار میرے ذہن سے اس طرح چمٹ گئے کہ لاکھ کُھرچنے پر بھی اُن کے نقوش مدھم نہیں ہوتے۔منٹو پر قائم کئے گئے مقدمات کی روداد اور منٹو کے موقف پر مبنی کتاب”لذّت ِسنگ” نے مجھے سب سے زیادہ مزا دیا۔
اس زمانے میں پڑھنے کی ہوس اس قدر زیادہ تھی کہ میں مختصر فاصلے کے سفر میں بھی کتاب نکال لیا کرتا تھا۔ایک بار کسی کام سے اکیلے ہی گاؤں جانا پڑا۔بس سے جراحی موڑ پر اُتر کر میں شیشم کے دیو آسا درختوں کے سائے میں اس طرح چلنے لگا کہ میری نگاہ راہ سے زیادہ کتاب پر تھی۔ایک دو بار کسی جملے کی بہ آوازِ بلند داد دی۔کہیں کسی جملے کی شگفتگی پر ہنسا اور ایک آدھ بار رُک کرکسی منظر کی نُدرت اور فطری نمو پر اپنا ماتھا پیٹا تو قریب ہی اِجڑ چراتے ایک چرواہے نے یہ منظر دیکھ کر اپنے ہاتھ بلند کیے اور "ربّا!ایس بال نوں رنگ لا”اس خلوص اور رقّت سے کہا کہ اُس کی آواز کی نمی مجھے آج بھی اپنے وجود کو بھگوتی محسوس ہوتی ہے۔
آپ بتائیے اس کے بعد بھی اگر میں شعر نہ کہتا تو اور کیا کرتا؟