درس گاہ – 16

اُن دنوں ہم ہر سنیچر کو بستی چلے جاتے تھے ۔ سہہ پہر کو سکول سے پلٹ کر کھانا کھاتے ہی ضروری سامان تانگے پر دھر ، جو ہمیں لانے کے لیے صبح ہی بھجوا دیا جاتا تھا ، ہم کچھ ہلکی پھلکی خریداری کے بعد اس اہتمام سے گاؤں کا رُخ کرتے تھے کہ شام سے پہلے گھر پہنچ جائیں ۔ وجہ راستے کا غیر محفوظ ہونا نہیں تاریکی میں سفر کا دشوار ہو جانا تھا ۔ تعطیلات میں مستقل قیام بستی ہی میں رہتا تھا البتہ کسی کام کے لیے شہر آتے تو مکان کا چکر بھی لگا لیا جاتا۔

شہر میں کمروں کی تقسیم یوں تھی کہ پچھلے حصّے کا شمالی کمرہ مردانہ استعمال میں تھا اور بائیں جانب والا کمرہ مستورات کے حصّے میں آیا ۔ دائیں بائیں دونوں دیواروں میں الماریاں بنی تھیں اور کمرے میں آنے اور دوسرے کمرے میں جانے کا دروازہ دائیں طرف تھا ۔ اس لیے میں بائیں الماری پر قابض ہوا ۔ وہیں نواڑ کی پٹّی والا سنگل پلنگ ڈلوایا اور ساتھ والا پلنگ طالب کے حصّے میں آیا ۔ سرہانے ہوا کے لیے بڑی سی ونڈو تھی ۔ اس کے اوپر روشنی کے لیے بلب ۔ مجھے یاد ہے فلپس کا وہ دودھیا بلب کہیں تیس برس کے بعد فیوز ہوا اور اس کمرے کا پنکھا تو اب بھی بستی کے ایک کمرے میں ہوا دیتا ہے۔

یہ الماری میری کتابوں سے بھری رہتی تھی ، جن میں اکثریت کہانیوں کی کتابوں اور رسائل کی تھی ۔ ایک ٹرنک میں نے بستی کے منّھی والے کمرے میں بھر رکھّا تھا ۔ مجھے ماں کے منع کرنے کے باوجود رات کو دیر تک لیٹ کر پڑھنے کی عادت تھی ۔ اس لیے ایک نفیس ٹیبل لیمپ کا بندوست لازم تھا سو وہ بھی کر لیا مگر اب خریدی ہوئی کتب میرے مطالعے کی رفتار کا ساتھ نہیں دیتی تھیں سو میں مزید کی جستجو میں لگ گیا ۔ کسی نے مجھے میونسپل لائبریری کے خزانے کے بارے میں بتایا ۔ میں دو ایک بار وہاں گیا اور لوگوں کو کتابیں لیتے اور پڑھتے دیکھا مگر میری عمر کا کوئی قاری وہاں موجود نہیں تھا اور کتاب دار نے بھی میری حوصلہ افزائی نہیں فرمائی تو مجھے یہ مسئلہ اپنے والد کے حضور پیش کرنا پڑا ۔ انھوں نے اپنے دوست میاں ثنا اللہ بودلہ سے ذکر کیا جو شاید اُس زمانے میں شہر یا تحصیل کی سطح پر کسی نوع کے حکومتی نمائندے تھے ۔ اُن کے خوشہ چینوں اور سیاسی کارندوں میں غلام حیدر وائیں بھی تھے جو بعد میں پنجاب کے وزیرِ ِاعلیٰ بنے ۔ وہ ان دنوں میونسپل کمیٹی کے کسی عہدے پر متمکن تھے اور اُس وقت میاں صاحب کی محفل میں موجود تھے ۔ میری خواہش فوراً ان کے علم میں لائی گئی اور انہوں نے ترنت میرے لیے لائبریری کے دروازے کھلوا دیے ۔ میں نے اگلے روز ہی سے عصر کے لگ بھگ وہاں جانا شروع کر دیا اور کوئی کتاب پسند آنے پر اسے میرے ہمراہ کرنا ممکن ہو گیا مگر وہاں نولکّھا بازار کی کتابوں کا کال تھا ۔ البتہ ظفر عمر ، تیرتھ رام فیروز پوری ، قیسی رام پوری ، دت بھارتی ، عادل رشید ، شوکت تھانوی وغیرہ کی اپنی اور ترجمہ کی ہوئی کتابوں کی کمی نہیں تھی ۔ میں نے انہیں پڑھنا شروع کیا اور نہ معلوم کیا کچھ پڑھ ڈالا مگر میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ کتاب بہت زیادہ ضخیم نہ ہو تاکہ ایک آدھ دن میں ختم کی جا سکے۔

اکرم الہٰ آبادی کے جاسوس کرداروں”خان”اور بالے” سے تعارف کا یہی زمانہ تھا ۔ میں اب ساتویں جماعت میں تھا اور شہری پنجابی کو شہریوں جیسی روانی سے بولنے لگا تھا مگر گاؤں آتے ہی میرا لہجہ بھی بدل جاتا تھا اور برتاؤ بھی ۔ سبھی ترک کئے ہوئے کھیل کھیلے جاتے ۔ کھال میں نہایا اور درختوں پر ڈیرا جمایا جاتا ۔ پٹھو گرم کیا جاتا گو اب کپڑے کی گیند کی جگہ ست ربڑی گیند (ٹینس بال) نے لے لی تھی ۔ کبڈی کھیلی اور کُشتی لڑی جاتی اور گھر کے صحن میں نیٹ لگا کر چِڑی چھکّا (بیڈ منٹن) بھی کھیل لیتے لیکن یہ کھیل ہم بہن بھائیوں تک ہی محدود رکھّا جاتا تھا اور اس میں کسی اور کی شمولیت بند تھی۔
اُس وقت میں بہت دُبلا اور پست قد تھا مگر بہت پُھرتیلا اور طرّار۔
اپنے ہم عمر کھلاڑی کو پھلانگ کر نکل جاتا اور کُشتی میں بھی مضبوط حریف ثابت ہوتا ۔ فٹ بال سے بھی شغف تھا ۔ ایک بار 14چک کے ساتھ میچ میں ٹیم کا حصّہ بنا تو اکلوتے گول کی سعادت میرے حصّے میں آئی مگر پاؤں میں موچ کے ساتھ ۔ تاہم ہماری ٹیم کے بڑے لڑکے اتنے خوش تھے کہ دو میل واپسی کے سفر میں مجھےچلنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی ۔ بستی آنے تک میں ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر منتقل ہوتا رہا اور کسی نے مجھے زمین پر قدم دھرنے کی اجازت نہیں دی۔

بستی میں دو بھائی علی محمد اور بلی محمد تھے۔موخرالذکر کا اصل نام ولی محمد تھا اور میرے ایک کزن کے گہرے دوست تھے ۔ آدمی معقول تھے ۔ ان دنوں بستی میں ایک دکّان چلا رہے تھے ۔ میں کچھ لینے جاتا تو میرے ذوقِ مطالعہ کی تعریف کرتے ۔ ایک دن کسی کام سے گیا تو ایک ضخیم کتاب میں غرق تھے ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ نسیم حجازی کا ناول”اور تلوار ٹوٹ گئی” پڑھ رہے ہیں ۔ انہوں نے ناول کی اس قدر تعریف کی کہ مجھے بھی اس کتاب کے پڑھنے کی ہُڑک لگ گئی ۔ انہوں نے کمال مہربانی یہ کی کہ کتاب دوسرے دن ہی میرے حوالے کر دی ۔ میں نے پڑھنا آغاز کی تو مجاہدین کے بارے میں سُنی ہوئی سبھی حکایتیں میری سہاتا کو آن کھڑی ہوئیں ۔ تخّیل ، تاریخ ، مثالی کردار، جذباتیت ، منظر کشی اور اسلامی رومانس مجھے اپنے ساتھ اس طرح بہا کر لے گیا کہ میں نے اس ضخیم کتاب کو ایک ہی دن میں پڑھ ڈالا ۔ غالبا” گرمی کی چھٹیاں تھیں مگر میں ہی اگلے دن شہر پہنچا اور میونسپل لائبریری سے”معظم علی” تلاش کر لایا ۔ پھر یہ سلسلہ اُن کے پہلے سے آخری ناول تک پھیل گیا ۔ اس بیچ میں رئیس احمد جعفری ، صادق حسین سردھنوی اور ہیرلڈ لیم بھی آدھمکے ۔ "بابر” سے "صلاح الدین ایوبی” تک آنے میں مجھے دو برس لگے اور میں اپنے آپ کو کبھی "زبیر” اور کبھی "یوسف” کی جگہ پر رکھ کر دیکھنے لگا۔

سکول معمول کے مطابق چل رہا تھا ۔ کلاس فیلوز میں ایک طرف نذر اور منظور جیسے لوگ تھے ۔ جن کا مستقبل معلوم تھا ۔ وہی سبزی کی دکّان اور ناشتے کا ڈھابہ تو دوسری طرف ظفر(غلام حیدر وائیں کے بھانجے۔۔ مقیم لندن) ، آصف (مقیم ریاض) ، شاکر (مرحوم) ، محمود الحسن (مقیم اسلام آباد) ممتاز (تبلیغی جماعت کو پیارے ہوئے) ضیا احمد (مقیم شکاگو) اور سلیم (مرحوم) جیسے فطین لوگ بھی تھے ۔ ملاقات تو سب سے تھی اور مسلسل تھی مگر محفل آصف کے گھر ہی میں جمتی تھی کہ اُن کی بیٹھک بہت کشادہ اور سلیقے سے سجی تھی اور اس کے ماں باپ اُس کے دوستوں کے لیے بہت شفیق تھے ۔ شربت ، پانی اور پُرتکلف چائے سے تواضع عام بات تھی اور اُس کے بھائی بہن اپنوں سے زیادہ اپنے محسوس ہوتے تھے ۔ مدّت بعد ایک بار ماسی نے میری ماں سے شکوہ کیا کہ ان کی صاحب زادی کا معقول رشتہ اس لیے نہیں مل سکا کہ آصف کے سبھی دوست اُسے بہن جانتے تھے اور وہ بھی منہ چڑھ کر کسی کو رشتے کی پیشکش نہ کر سکیں۔
آصف کے یہاں نششت روز کا معمول تھی ۔ میرے والد صاحب جب بھی شہر آ کر قیام پذیر ہوتے تھے تو عصر کے بعد لائنیں کراس کر کے بودلہ صاحب کے یہاں جایا کرتے تھے ۔ گھر کے درختوں سے ڈھکے وسیع لان میں کرسیاں اور مُوڑھے دھرے رہتے تھے اور طرح طرح کا شخص آتا رہتا تھا ۔ آُن کے صاحب زادوں میں سے میاں اسلم میرے ہم جماعت تھے جو باپ کی موروثی گدّی پر بیٹھے تو پانچ مرتبہ ایم این اے بنے ۔ افضل اور سلیم بڑے اور باقی بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔عموما” یہ بھائی ہمارا تانگہ لے کر گھومنے نکل جاتے تھے کہ اُن دنوں اس سواری کا بھی اپنا ایک رومانس تھا ۔ میں بڑے میاں صاحب اور دوسرے لوگوں کی باتیں سُنتا اور حیران ہوتا کہ ان لوگوں نےاس قدر دانش کہاں سے پائی ہے ۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ہر آدمی کے اندر دیکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو جمادات کو بھی بولنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ میں بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر یہ میرے حجاب کا زمانہ تھا ، جس نے اب تک میرا دامن نہیں چھوڑا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے