درس گاہ – 15

یہ زمانہ سُست رو تبدیلیوں کا تھا۔ہم محلّہ رحمانیہ میں تھے اور چھے نمبر گلی کا دوسرا پلاٹ ہمارا تھا۔پہلے پلاٹ میں پہلوان گِل کا ٹال تھا اور سامنے حکیم عصمت اللہ کا کُشادہ گھر اور اُس کے بغل میں محلّے کی جامع مسجد یعنی "یہ بندہءکمینہ ہمسایہءخُدا تھا”. مسجد میں اذان دی جاتی تھی تو اس کے حلق سے فلک تک رسائی رکھنے والے سپیکروں کا ارتعاش گھر کے درودیوار پر لرزہ طاری کر دیتا تھا ۔ گھر پر لرزہ طاری ہونے کا ایک سبب اور بھی تھا اور وہ تھا ٹرینوں کی آمدورفت ۔ پہلے پہل تو میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتا تھا مگرجلد ہی ہر دو طرح کے بھونچال سے اچھی نسبت قائم ہو گئی اور بعض اوقات اذان اور ٹرین لوری کا کام دینے لگیں۔
کچھ حق ِ ہمسائیگی، کچھ رواداری اور کبھی اپنے ہم جماعت ممتاز احمد (اب میاں چنوں کی تبلیغی جماعت کے امیر) جن کے والد ہمارے ایک عزیز کی آڑھت پر منشی تھے اور جو ہماری ہی گلی کے آخر میں چلنے والے پانی کے کھال کے پار رہتے تھے، کے اُکسانے پر ہم چو وقتے نمازی تو بن گئے مگر پنج وقتہ نمازی بننے کی سعادت حاصل نہیں کر پائے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ظہر کے وقت ہم ابھی سکول میں ہوا کرتے تھے۔
سکول آنے جانے کے دو راستے تھے ۔ لائنیں پار کر کے ٹی چوک سے لاہور روڈ پر چلتے ہوئے سکول تک یا گھر سے نکلتے ہی دائیں مڑ کر پلیٹ فارم پر مٹر گشت کرتے ہوئےاسٹیشن کے سامنے سے گزر کر ریلوے بازار کے پل کے نیچے سے گزر کر میونسپل کمیٹی کے دفتر کی بغل سے لاہور ملتان روڈ پر نکل کر سکول ۔ ہم عموماً یہی راہ اختیار کرتے تھے ۔ اس قافلے میں محلے کے کئی طلبہ شامل ہو جاتے تھے ۔ جن میں سے ممتاز اور اشرف سنارا میرے ہم جماعت بھی تھے ۔ ہم لوگوں میں پلیٹ فارم کو چھوڑ کر ریلوے لائن پر توازن برقرار رکھ کر چلنے کے مقابلے ہوتے ۔ گاڑی آنے کی خبر پاؤں کے نیچے لائن کے دھڑکنے سے ہو جاتی اور ہم اپنی مشق کسی اور ٹریک پر منتقل کر لیتے ۔ مجھے اس کام میں اتنی مہارت ہو گئی تھی کہ بعض اوقات میں سکول کے موڑ تک بغیر گرے لائن پر چلتا جاتا تھا ۔ چالیس برس بعد اس یاد نے ایک نظم کا روپ دھارا جو ذیل میں درج کرتا ہوں


"گڈّی دی لیناں تے ٹُریاں
پُل صراطوں ودھ چس آؤندی
ساہ لیاں جد تِھڑکے پِنڈا
آسے پاسے سبھ کجھ ڈولے
دوویں باہواں اِنج کُھل جاون
جیکن پکھوآں دے کھنب کُھلدے
وچ ہواواں دی مستی دے

میرا گھر سی ٹیشن نیڑے
اوہ وی نیڑے ای رہندی سی
نِت بنیرے دیہنہ چڑھدے ای
کُچھّڑ بستے مار کے دونویں
شنٹنگ کردیاں گڈیاں لنگھ کے
روز دیہاڑی مِل بہندے ساں
بنھ بنھ شرطاں لیناں اُتّے
سبھ ترانیں بھجدیاں ہویاں
تِکھے تِکھے ساہ لیندے ساں
ڈر سی کِدرے ڈول نہ پئیے
کوئی غُوچا مار نہ بہیے
مُڑ وی ڈول گئے سی دونویں
کیہ کجھ بول گئے سی دونویں

ایہہ گُزرے سمیاں دی گل اے
آج میں ویلے دی لیناں تے
باہواں کھول کے ٹُر نئیں سکدا
بھاویں جیڈے ترلے پاواں
ایہہ دریا نئیں پُٹھّا وگدا”
(نظم:نِکّے ہندیاں/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)
طالب حسین کا سکول میرے سکول کے پچھواڑے میں تھا سو اسے کلاس روم تک پہنچا کر میں اپنی کلاس میں چلا آتا جو گرمیوں میں سکول کی مشرقی چاردیواری کے ساتھ بنے کمروں میں اور سردیوں میں باہر کسی گھاس کے میدان پر بٹھائی جاتی۔کلاس انچارج ماسٹر عبدالحق تھے اور شاید اساتذہ میں سب سے زیادہ ڈراؤنے ۔ اُن کاجسم دُبلا، لباس سادہ اور قد درمیانہ تھا مگر شو کیس میں سجی آنکھیں خوب بڑی بڑی تھیں ۔ چہرے پر ایک دائمی سنجیدگی بل کہ خشونت سجی رہتی تھی ۔ اس لیے اُن سے خیر کی توقّع کم ہی کی جاتی تھی ۔ انہیں ہر لڑکے پر نگاہ رکھنے کا ہُنر آتا تھا ۔ اس لیے اُن کی کلاس میں شرارت کرنا محال تھا ۔ اُن کی کلاس اچھا رزلٹ دیتی تھی ۔ لوگ سفارش کرا کے اپنے بچے ان کی کلاس میں بٹھاتے تھے مگر جو بیٹھ جاتا تھا وہ ہمیشہ نکلنے کا متمنی رہتا تھا تاہم اس خُوش بختی کی کوئی مثال میرے علم میں نہیں۔
انگریزی سے پہلی بار اسی جماعت میں سامنا ہوا اور اس نے پہلی ہی کوشش میں ہمیں پچھاڑ دیا، اس شان سے کہ ہم آج تک اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکے ۔ یہ جو ہم سلمان باسط پر اور اُس کے”ناسٹلجیا” پر واری واری جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی خِلقی کمزوری ہے ۔ انگریزوں کو انگریزی پڑھانے والے ہمیں بہت مرعوب کرتے ہیں ۔ اس لیے ہم پطرس اور مامون ایمن سے زمانی بُعد کے باوجود ایک جیسی عقیدت رکھتے ہیں اور عقیدت کا یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا جا رہا ہے۔

ماسٹر عبدالحق بہت ہتھ چُھٹ تھے مگر اس سے زیادہ خوش خط اور طلبہ کے خط کو سنوارنے کی فکر کرنے والے ۔ وہ ہر طالبِ علم کی تختی پر اپنے خط میں کچھ لکھ دیا کرتے تھے اور اٗسے اُس پر قلم پھیرتے رہنے کی ہدایت کرتے تھے ۔ اپنی خطّاطی کی طرز پر لکھنے کو بھی اُکساتے تھے ۔ میرا خط قدرے بہتر نکل آیا تو مجھے جتایا کرتے تھے کہ بات تب بنے گی جب تم بوتل کے اندر بھی مجھ جیسا ہی جمیل لکھ سکو گے ۔ دھمکاتے تھے کہ وہ دن آنے پر وہ میرے والد سے "اکہوتر سو روپے انعام لیں گے” . یہ رقم کبھی میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ میں ڈرتا تھا کہ نہ معلوم میرے والد یہ رقم دے سکیں گے بھی یا نہیں ۔ میں بوتل کے اندر تو کیا کاغذ پر بھی کبھی اُن جیسا منّور حرف نقش کرنے پر قادر نہیں ہوا ۔ اس لیے اُن کو اکہوتر سو روپے کا انعام دینے کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی اور برسوں بعد میں یہ جان کر آب دیدہ ہوا کہ وہ جس انعام کے متمنی تھے، وہ ایک اُتّر سو یعنی صرف ایک سو ایک روپے تھا ۔ یہ رقم اس دور میں جتنی بڑی بھی ہو میرے والد کے لیے معمولی تھی۔
ماسٹر صاحب جلد ہی اپنی کلاس کو گھر پر بھی بلانے لگے ۔ ان کا مکان امام باڑہ والی گلی کے آخر میں چراغ چڑھوئے کے گھر سے متصل تھا اور مین بازار سے بہت قریب ۔ ہم وہاں چار بجے کے لگ بھگ یک جا ہوتےاور کوئی دو گھنٹے تک پڑھا کرتے ۔ اپنے کلاس فیلوز اور بعد میں گہرے دوست بن جانے والے محمد آصف اعجاز، شاکر علی، ممتاز احمد، جمیل اقبال، اقبال کلاچی، محمود الحسن وغیرہ سے زیادہ قربت اسی اضافی کلاس کے دوران میں ہوئی ۔ یہ کلاس اُن کے گھر کی چھت پر ہوتی تھی اور اس نے مجھ ایسے کڈھب کے سب کس بل نکال دیے۔ گھر کی سیڑھیاں عمودی تھیں اور ان پر چڑھنا اُترنا ایک امتحان ۔ جب ماسٹر صاحب کی غیر نرینہ اولاد ان سیڑھیوں پر دڑنگے مارتی چڑھتی اُترتی تھی تو میرا خوف اور بڑھ جاتا تھا۔

معلوم نہیں ماسٹر صاحب اس خدمت کا کوئی معاوضہ لیتے تھے یا نہیں مگر یہ تاکید ضرور کرتے تھے کہ اُستاد کے دروازے پر دستک کُہنی سے دینی چاہیے ۔ ہم نے تو ہمیشہ ہتھیلی ہی آزمائی اور یہ راز بہت دیر میں کُھلا کہ دروازے پر کُہنی سے دستک صرف اُس صورت میں دی جاتی ہے جب آپ کے دونوں ہاتھ کسی سوغات کو احتیاط سے تھامے ہوئے ہوں۔
اُنہوں نے اپنی بے مثل خطّاطی میں اردو کا ایک قاعدہ چار رنگوں میں تخلیق کر رکھا تھا کہ وہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے قاعدے سے مطمئن نہیں تھے ۔ شاید اُن کی زندگی کی سب سے بڑی تمنّا اس قاعدے کی بطور ٹیکسٹ بُک منظوری تھی ۔ مجھے اس قاعدے کو کئی بار دیکھنے کا موقع ملا اور ہر بار اُس کا جمال اور تدریسی مہارت دل کو موہ لیتی تھی مگر برسوں بعد جب میں نصابی کمیٹی کا رُکن بنا تو وہ قاعدہ اپنے خالق کے ساتھ خواب ہو چکا تھا۔اور وارث شاہ کے بقول” اجیہا کوئی نہ ملیا میں ڈھونڈھ تھکّی،جیہڑا گیاں نوں موڑ لیانوندا ای” – میرا داستانیں پڑھنے کا سلسلہ جاری تھا ۔ بچّوں کے رسائل باقاعدگی سے خریدتا تھا اور اب تو مین بازار سے گزرتے ہوئے تمباکو کی ہٹّی سے آواز دے کر بھی نئی کہانی یا رسالے کی آمد کی نوید مل جاتی تھی ۔ ایک بار میرے جی میں آئی کہ کیوں نہ میں بھی کہانی لکھنے کی کوشش کر دیکھوں سو میں نے ماں سے سُنی ہوئی ایک کہانی اپنے اکھڑ بیانیے میں ڈھالی اور”بچوں کی دنیا” کو”غلام حسین” کے نام سے بھجوا دی ۔ یہ کہانی کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ اگلے ہی ماہ شائع ہو گئی اور وہ شمارہ مجھے آصف کے گھر کے پتے پر مل گیا کیونکہ میں نے خط کتابت کے لیے اُس کے گھر کا پتا دیا تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو اپنی سرگرمی کو خُفیہ رکھنا تھا اور دوسری وجہ اپنے گھر کے پتے پر عدم اعتماد تھا ۔ مجھے وہ علاقہ شہر سے باہر اور غیر منّظم محسوس ہوتا تھا اور میرا خیال تھا کہ ڈاکیے کے لیے اُسے تلاش کرنا مشکل ہو گا۔
پڑھنے کے ساتھ شہر میں پینڈو کھیلوں کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ ریلوے لائن اور لکڑی کے ٹال کے درمیان کنچے اور اخروٹ کھیلنے اور بے وجہ اچھل کود کو کافی جگہ تھی ۔ کبھی پلیٹ فارم پر مٹر گشت کی جاتی تو کبھی سگنل ٹاور کا معائنہ کیا جاتا ۔ دو ایک بار کانٹا بدلنے کی کوشش بھی کی مگر ٹریک کو متحرک کرنا ممکن نہ ہو سکا۔گاڑی کی لائن پر سکّے رکھ کے اُن کو پھیلانے کا مشغلہ بھی جاری رکّھا اور گھر کے سامنے بند ٹریک پر لگے متروکہ ڈِبوں میں استراحت کرنے کا شوق بھی پورا کر دیکھا ۔ پھر بھی گھر پر گزارنے اور سونے کے لیے بہت وقت مِل جاتا تھا اور اس کی وجہ دنوں کا بڑا ہونا نہیں شہر کا چھوٹا ہونا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے