میں نے شہر جانے یا شہر سے آنے کی کئی ذاتی نشانیاں مقّرر کر رکھی تھیں ۔ پکاحاجی مجید کی طرف سے جاتے ہوئے پیر شینہ، پکا حاجی مجید، پکّا موڑ، خُونی موڑ، گھراٹ، کوارٹرز اور شہر اور جراحی روڈ کی طرف سے کوٹ برکت علی، کشنے والا کھوہ، کچّی مسجد، گھراٹ وغیرہ ۔ لاری یا سالم تانگہ نہ ملنے پر میں پیدل سفر کے لیے ہمیشہ جراحی بینس کاانتخاب کرتا تھا مگر یہ قِصّہ بہت بعد کا ہے ۔ بچپن میں اس کی نوبت کبھی نہیں آئی اور اس کی وجہ یہ کہ اکیلے سفر کرنے کی اجازت ہی نہیں تھی سوائے ایک بار کے جب مجھے اور میرے ہم عمر ملازم چراغ کو نہ معلوم کس وجہ سے شہر بھجوانے کے لیے ماچھیوں کے ہمراہ کر دیا گیا جو لئی کے لدے اونٹ لے کر بالن بیچنے کے لیے میاں چنوں جا رہے تھے ۔ طے یہ تھا کہ وہ گھراٹاں سے یا جراحی روڈ پر کسی شہر جانے والے تانگے سے معاملہ کر کے ہمیں سوار کرا دیں گے اور خود اپنی راہ لیں گے مگر گھراٹ پہنچ کر انھوں نے وہاں موجود ایک آدھ تانگے والے سے سرسری مذاکرات کیے اور ہمیں ساتھ لے کر آگے چل دیے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے وہاں سے شہر جانے کا کرایہ چار آنے تھا اور دو روپے میں سالم تانگہ مل جاتا تھا مگر وہ بڑھتی ہوئی حدّت کی پرواہ کئے بغیر چلتے رہے ۔ شہر ہر قدم پر دور ہوتا گیا اور چھے میل کے پیدل سفر کے بعد جب منزل قریب آئی تو اونٹ اور ان کے ساربان ہم دونوں خُرد ہمراہیوں سے اتنے فاصلے پر تھے کہ ہم بمشکل ان کے ہیولے ہی دیکھ سکتے تھے۔
یہ دونوں راستے میری پنجابی شاعری کی کتابوں میں اپنے تمام تر اسرار کے ساتھ موجود ہیں،ذرا دیکھیے تو
کوئی گھر نئیں،کوئی ڈر نئیں
نہ کوئی ہٹّی،نہ کجھ کھٹّی
نہ کوئی بیلی،نہ کوئی تیلی
نہ کوئی بُوٹا،نہ کوئی ہُوٹا
نہ کوئی پرایا،نہ ماں جایا
نہ کوئی لنگھیا،نہ کوئی کھنگیا
ہکّو چُپ اے،ہکّو چّپ سی
(نظم:چونہہ سڑکاں تے/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)
"سُتیاں پیراں ہیٹھ مدھولے،جاگدیاں چِتھ ویکھے
ٹُریاں کانیاں پِچھوں شُوکن،کھلیاں مویاں لیکھے
گُزرے ویلے ورگیاں قبراں،کلّر مارے بُوٹے
بھونہہ دے گارے رنگّی لیمبی،دیسی کال دے ہُوٹے
سُکیاں پتراں ہیٹھوں بولن،ازلوں رنڈن رُتّاں
ہک واری مُڑ جیون منگن،مِٹّی ہوئیاں گُتّاں
جد کوئی رُت دا بُھلیا جھکّڑ،پِپل اوہلے رووے
اکھاں جھمک نہ سکدے پنچھی،سپ ہووے نہ ہووے
(نظم:پیر شینے دے سپ/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)
"کشنے والے کھوہ”توں میرے گھر دی ڈیڈھی تائیں
کِنّی کُو وِتھ اے
چونہہ قدماں دی
ہک تکنی دی
سرہیوں رنگے پِپل اوہلے
بھمبی ٹاہلی ساہنویں
میرا گھر سے
میرا گھر اے میری ساری جد دی کھٹّی
میری تاہنگھ دا تارا
سَے کوہاں توں میرے جُثّے دی کالک وچ جگدا
سَے ورھیاں توں میرے اندر وانگ چنانہہ دے وگدا
لکھ کوہاں دے پینڈے کٹ کے جد گھر پھیرا پاواں
"کشنے والے کُھوہ”تے آ کے بے چسّا ہو جاواں
ربّا! چونہہ قدماں دا پینڈا جھبدے کیوں نئیں مُکدا
میری سِک دے تا وچ رُڑ کے کیوں میرا ساہ سُکدا؟
(نظم:جراحی بینس تُوں مُڑدیاں/کتاب:بیلے وچ چِڑیاں
"پانی نال نیں وگدیاں چکیاں
جیہڑا وی ان پِیہن،نِکّا کر کے پِیہن
ٹھڈھا مِٹھّا پِیہن
بُرک دیندی اے پانی دی چِھٹ اندر دے انگارے
میں نئیں کہندا،ایہہ کہندے نیں اوڑک دے ونجارے
میرے اندر و اندری وی وگدا اے پانی
میرے جُثے وِچ وی گُھوکے چّکی
دینہہ بر رات پئی گُھوکے
میری رُوح نوں نِکّا مِٹھّا پِیھ کے ساواں کردی
پر میرے اندر دی آگ نئیں نِمھّی ہوندی
اوویں میریاں اکّھاں،میرے بِت نوں لوہندی
(نظم:پُل گھراٹاں تے/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)
مگر یہ تو بہت بعد کی واپری ہے تب تو یہ دُنیا میرے باہر اور اندر ابھی پھیلنا شروع ہی ہوئی تھی ۔ یہ نشانیاں سواد ِمنزل کی نوید تھیں ۔ شہر میں داخل ہونے سے پہلے چونگی تھی، جہاں شہر میں لائی جانے والی ہر سوغات پر ٹیکس دیا جاتا تھا ۔ یہ محصول شاید تجارت کے لیے لائی جانے والی اجناس پر تھا مگر وہ اسے ہر سواری سے وصولنا لازمی جانتے تھے ۔ ہم اپنا آٹا دال گھر میں استعمال کے لیے لاتے تھے ۔ پھر بھی اُس پر چونگی لگائی جاتی تھی اور ہم بخوشی ادا بھی کر دیتے تھے ۔ چونگی سے آگے لیڈیز پارک اور میونسپل لائبریری تھی اور اس سے آگے تانگوں کا اڈّا اور ڈنگر ہسپتال، پھر ہانسی بس سروس کی پارکنگ لاٹ اور اڈا اور اس سے پیوست جالندھر سویٹ ہاؤس ۔ شہر کا اصل چہرہ یہاں سے نمودار ہوتا تھا مگر بازار دو ہی تھے۔مین بازار جہاں کھوے سے کھوا چِھلتا تھا ۔ اُس کا مشرقی بازار جو سُناروں، بزازوں اور جوتوں کی دکانوں کا مرکز تھا ۔ اس کے ماتھے پر "ٹرنک بازار” اور اس سے آگے ریل بازار، جس کے مشرق میں سول ہسپتال ،ایم سی سکولوں کی چین اور اس سے بہت آگے کی طرف نشاط سنیما تھا جو آبادی کی آخری اور اُدھر سےآغاز ِشہر کی پہلی نشانی تھی۔
ہم جس سڑک یعنی تلمبہ روڈ سے آتے تھے ۔ شہر اس کے بائیں جانب تھا ۔ دائیں طرف گوشت مارکیٹ اور مین بازار کے ماتھے پر مغرب کی طرف کچھ آگے چل کر ڈاکٹر عنایت کا کلینک تھا جو درحقیقت کمپونڈر ہی تھے مگر مزے کے آدمی تھے ۔ دوسرا کلنیک ایک اور کمپونڈر محمد حسین کا تھا اور یہ دونوں صاحبان میرے والد کے دوست تھے ۔ مجھے ان سے کئی بار انجکشن لگوانے کا تجربہ ہے، جو آپریشن کی تیاری جیسا سنجیدہ کام ہوا کرتا تھا۔سُرنج کی ہڈیاں الگ کر کے اُبالی جاتیں، پھر انہیں جوڑ کر ایک خاص ادا سے دو تین شیشے کی نفیس نلکیوں کی گردن مروڑ کر بھرا جاتا ۔ چند کڑے جھٹکے دے کر شیرازے کو محلول کی شکل دی جاتی اور اس دعوے کے ساتھ کندھے کے کہیں قریں جلد میں اُتارا جاتا کہ ان کے ہاتھ کی نرمی اور ملاحت کی تعریف تو ماورائی مخلوق بھی کرتی ہے مگر یہاں مشکل یہ تھی کہ پوروں سے کندھے تک کہیں گوشت کی نمو ہو ہی نہیں پائی تھی سو ہڈّی میں اُترنے والی سوئی کی جو تکلیف ہونی چاہیے، وہ ہوتی تھی اور تب یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ میرے سِوا ان کے سبھی مریض ایجکشن تیار ہوتے ہی پِیٹھ موڑ کر کھڑے کیوں ہو جاتے ہیں۔
ایک اور کمپونڈر ڈاکٹر ڈُڈّا تھے ۔ نام تو کچھ بھلا سا تھا مگر اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا ۔ ان کی دکان کے ساتھ افیون کا ٹھیکہ تھا ۔ میں ان کے پاس برسوں جاتا رہا مگر وہ کبھی پِینک میں دکھائی نہیں دیے ۔ ہمیشہ بنے ٹھنے رہتے تھے اور مجھے دیکھ کر خصوصی بتّیسی دکھاتے تھے ۔ کیوں یہ بھید مجھ پر کبھی کُھل نہیں پایا۔
ٹی چوک سے بائیں طرف وسیع و عریض غلّہ منڈی تھی ۔ لاہور جانے والی سڑک کے مشرقی جانب اجناس اور کھل بنولے کی دکانیں اور دو ایک بینک، مغربی سمت میں ملتان جانے والی سڑک پر اُجل سنگھ بلڈنگ سے آگے سڑک کی بائیں طرف چار عدد کپاس کے کارخانے اور دائیں سمت دو ایک مشروب کی دکانوں اور بوہڑ درخت کے بعد رڑا میدان ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ڈیڑھ ماہ ہی میں ہر شخص ہمیں پہچاننے لگا اور جب میرے برادرِ عزیز مہر طالب کو سکول سے سٹکنے یا سِرے ہی سے وہاں قدم رنجہ نہ فرمانے کا شوق چرایا تو ان کا کھوج لگانے اور ڈنڈا ڈولی کر کے سکول پُہنچانے میں اٗن کی خدمات ہر وقت صرف دستیاب ہی نہیں تھیں بلکہ وہ کئی بار خود کفالت کا مظاہرہ بھی کر لیتے تھے۔
یہی دن تھا جب میری شہر کے لڑکوں سے دوستی کا آغاز ہوا۔اس کے باوجود کہ میرے اندر اور باہر کے جانگلی پر ابھی شہر کا رنگ چڑھنے میں بہت دیر تھی۔