درس گاہ – 13

یہی زمانہ تھا جب مہر طالب حسین کو بھی پکا حاجی مجید کے سکول سے اُٹھا کر ایم سی پرائمری سکول میاں چنوں میں داخل کرایا گیا مگر اس سے پہلے ان کی چڑیا اُڑانے کا اہتمام کیا گیا ۔ اعزّہ اور سنگتیوں کو باقاعدہ نامہ بر بھیج کر سدّا دیا گیا ۔ خواتین بن ٹھن کر بلکہ میری ماں کے بقول ہندنیاں بن کر آئیں ۔ مردوں نے بھی دھوبی کے دُھلے مائع والے کپڑے پہنے اور پگڑیوں کے دو دو طُرّے نکال کر مسجد کے پیچھے کُھلے میدان میں لگی جھولداری میں یک جا ہوئے ۔ چاروں طرف رنگین پایوں والی دوہر سرہانے والی چارپائیوں کا پِڑ بنا کر بیچ میں رنگلے پیڑھے پر موصوف کو بٹھایا گیا تو مرکز ِ نگاہ ہونے کی لذت سے آپ کی باچھیں پھٹی پڑتی تھیں اور کیوں نہ پھٹتیں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ اپنے رضاعی رشتہ داروں کی سریلی اور رسیلی آواز میں "طالب حسینا پُھلاں دا شونقی،ٹہنی پھڑ کے کھلا رہیا” جیسے مدحیہ گیت سُن کر آئے تھے مگر جب محفل میں رنگین جِھمّی اوڑھا کر نائی نے اپنی رَچھانی کھول کر آلہِ پرواز ِاوسان نکالا تو مہر صاحب نے فرار کی ایک نحیف سی کوشش کی مگر وہ کہتے ہیں نا "پھاہدھی دا کیہ پھٹکن”- دیر ہو گئی تھی اور چڑیا ہی نہیں پورا سیمرغ قریبی جنّات کے قبضے میں تھا ۔ ایک فلک شگاف چیخ سینکڑوں تماشائیوں کے فلک شگاف قہقہے کے حضور سرنگوں ٹھہری اور کافری، سرجن کے ہاتھ میں سر چُھپا کر ہمیشہ کے لیے عنقا ہو گئی۔

ہمارے یہاں کئی اقسام کے میٹھے چاول پکتے تھے مگر پلاؤ خاص مواقع پر ہی بنایا جاتا تھا ۔ اس رسم کی ادائیگی پر مٹن (مگر یہ لفظ تو وہاں کے لوگوں کے لیے آج بھی اجنبی ہے) یعنی بکرے کے گوشت کی دیگیں چڑھیں، پلاؤ اور متنجن بنایا گیا ۔ ناظرین میں باٹنے کے علاوہ گھروں میں بھی مٹھائی بھجوائی گئی ۔ جس کے لیے حلوائی رات ہی کو پہنچ گیا تھا ۔ میسو، عربی توشہ، بوندی، نمک پارے، اندرسے اور جلیبی ہمارے سامنے بنائے گئے ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جلیبی میں شیرہ انجکشن کے ذریعے نہیں بھرا جاتا اور یوں بڑے بھائی مہر نواب کی بخشی وِدیا پر مجھے پہلی بار شک ہوا ۔ یہ بات مجھے بہت بعد میں سمجھ آئی کہ وِدیا ہمیشہ شک کی محتاج ہوتی ہے اور کوئی سچ مکمل سچ نہیں ہوا کرتا۔
مہر نواب جس قدر وجیہہ، شگفتہ مزاج، شرارتی اور بہار ایجاد تھے، مہر مراد خاں اتنے ہی خاموش، ذات مست اور لیے دیے رہنے والے تھے ۔ وہ سورج نکلتے ہی دودھ دوہنے کے برتن اُٹھا کر اپنی بھینی کا رُخ کرتے تھے ۔ جہاں انھوں نے اپنی مصروفیت کا وافر انتظام کر رکھا تھا ۔ وہ کھال کمیٹی کے سربراہ تھے سو پانی کی باری اور اس سے وابستہ امور کو نپٹانے کے علاوہ اپنے طرح طرح کے ملاقاتیوں میں گِھرے رہتے تھے ۔ وہ ہر کام کو اپنی بھینی پر ہی نپٹانے کے عادی تھے ۔ شام کو گھر آتے تھے تو وہ ہوتے تھے اور ان کا ریڈیو ۔ جس پر مستقل طور پر "بی بی سی” بجتی رہتی تھی بس لوکل خبروں کے لیے کہیں کہیں لاہور کی باری بھی آ جاتی تھی ۔ میں نے پہلا ٹرانسسٹر ریڈیو انہی کے پاس دیکھا اور اس کے بعد یہ ریڈیو گاؤں سے باہر جانے پر ان کے سائیکل پر ساتھ ہی سفر کرنے لگا ۔ سائیکل سے موٹر سائیکل پر منتقل ہونے پر بھی انہوں نے اس رفاقت کو ترک نہیں کیا۔
وہ ناظرہ قرآن پڑھے تھے ۔ ابّاجی کی طرح بلند آہنگ تلاوت کے عادی تھے اور پنج وقتہ نمازی بھی اور کبھی لہر میں آ جانے پر بالکل ابّاجی کی طرح چہکتے بھی تھے ۔ اس لیے مجھے اُن سے باتیں کرنا اچّھا لگتا تھا ۔ میں بطورِ خاص انھیں ملنے جاتا تھا تو وہ ضرروت سے زیادہ احترام دیتے تھے ۔ "یار ایتھے بہو” کہہ کر اپنی چارپائی پر سُکڑتے جاتے تھے ۔ اس قدر کہ اُن کے گِرنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا تھا۔
میں اور طالب نے پہلی بار سنیما انہی کی رفاقت میں دیکھا ۔ سنیما کا ذکر تو مہر نواب کرتے تھے مگر جب ابّا جی سے میرے پانچویں جماعت پاس کرنے پر فلم دیکھنے کی اجازت ملی تو تانگے پر ہمارے ساتھ جانے والے بھاؤ مراد تھے ۔ ہماری پہلی فلم، درپن اور غالباً مسرت نذیر کی "گُلفام” تھی ۔ جس کے ایک گیت کے بول تھے "اُٹھا لے آپ ہی خنجر اُٹھا لے۔۔۔نہ کر بے درد دُنیا کے حوالے” ۔ یہ فلم ہم نے میاں چنوں کے اکلوتے سنیما کے ڈریس سرکل میں دیکھی ۔ ہم آرام دہ کرسیوں پر تھے اور ہم سے آگے لکڑی کے بنچ دھرے تھے جن کی ٹکٹ بارہ آنے تھی سو گمان ہے کہ ہم ڈیڑھ روپے والی کلاس میں تھے۔
فلم سے پہلے انگریزی کی کوئی دستاویزی فلم دکھائی گئی ۔ جس میں شیروں کا ایک جُھنڈ شکار پر نکلا ہوا تھا ۔ اس سے پہلے ہم نے شیر کو صرف تصویروں میں دیکھا تھا اور کہانیوں میں ملاقات کی تھی ۔ اُسے اس قدر بڑی سکرین پر بھاگتے دوڑتے اور جانوروں کا شکار کرتے دیکھنا انوکھا تجربہ تھا۔کچھ کچھ مزہ بھی آیا مگر دل پر ہلکے ہلکے خوف کا غلبہ بھی تھا ۔ اس بیچ خرابی یہ ہوئی کہ ایک ببر شیر نے ناظرین کی طرف منہ کر کے جست بھری ۔ بخدا یوں لگا جیسے وہ سکرین سے نکل کر ہم پر آ گرے گا ۔ میں تو کانپ کر رہ گیا مگر طالب حسین نے چیخنا اور رونا شروع کر دیا سو ہمیں سنیما سے باہر آنا پڑا ۔ باقاعدہ فلم شروع ہونے تک ہم باہر ہی رہے ۔ بھائی نے طالب کو دلاسہ دیا ۔ دل جوئی کی، سوڈا پلایا، پیسٹری کھلائی جو کاغذ کی پھول نما رکابی میں رکھ کر بیچی جاتی تھی، نشاط سنیما کی عمارت گھوم پِھر کر دکھائی اور بڑی مشکل سے طالب کو اصل فلم دیکھنے پر آمادہ کیا ۔ خیر اُس فلم کے دوران میں خیریت گزری ۔ اس لیے کہ اس میں کوئی درندہ نہیں تھا اور جو تھے انہیں ایک دوسرے کی پٹائی ہی سے فرصت نہیں تھی۔
رات کو ہم علیا سُنارے (علی محمد کھرل) کےہاں ٹھہرے ۔ ان صاحب سے ہماری نسبت بھی خوب تھی ۔ یہ میرے والد اور بھائیوں کے مشترکہ دوست تھے اور ہمارے خاندانی زرگر ۔ انہوں نے بلاشبہ ہمارے خاندان کے لیے سیروں سونا گھڑا ہو گا ۔ کٹھ مالا، جُھومر، بلاق، پازیبیں، ٹِکّے، پنجانگلے اور نہ جانے کیا کیا مگر ایک بار ضرورت پڑنے پر کسی زیور کو تڑوانے کی ضرورت پڑی تو پتا چلا ٹھوس سونے کے زیور اصل میں لوہے کے ہیں اور ان پر سونے کی مہین تہ چڑھی ہے ۔ بیسیوں دوسرے رشتہ دار سنّاروں کی موجودگی میں انہوں نے سو تولے سے بھی زائد سونا لوٹا دینے کا وعدہ کیا جو کبھی ایفا نہیں ہوا مگر دوستی برقرار رہی۔ان کی بیگم میری ماں کو”بھین”کہتی رہی اور ہم وقتے کووقتے ان کے یہاں ٹھہرتے رہے۔

طالب حسین کے داخلے کے وقت تک میاں چنوں والا مکان بن گیا تھا ۔ ہماری چھوٹی بہن پیدا ہو کر پاؤں پاؤں چلنے لگی تھی ۔ مکان میں بجلی اور پانی کے کنکشن لگ گئے تھے ۔ چولھا جلانے کے لیے لکڑی کی کمی نہیں تھی کہ ہمارے ماچھی سلطان اور پہلوان ہٹھاڑ سے لئی اور کانہہ کی جھاڑیوں کے بھار اونٹوں پر لاد کر ہمارے مکان پر اتار جاتے تھے ۔ آٹا، چاول، گھی، دودھ، مکھن اور کئی دیگر لوازمات گاؤں سے بھجوا دیے جاتے تھے ۔ ریلوے لائن اور گھر کے بیچ سرکاری اور کہیں ذاتی زمین پر لکڑی کے کئی ٹال تھے، جہاں صبح سے شام تک آرے چلتے رہتے تھے اور لکڑی کا کام ہوتا رہتا تھا ۔ ہمیں "چھوڈوں” کی طلب ہوتی تو چاچا رحیم یا چاچا پہلوان گِل کے ٹال پر پیغام بھجوانا کافی رہتا تھا ۔ وہ منوں بل کہ ٹنوں کے حساب سے لکڑی کے گٹّھے بھجوا دیتے تھے۔
گوشت کے لیے گوشت مارکیٹ میں یوسف قسائی کی دکان پر جانا طے تھا ۔ وہ روزانہ بِن کہے، بکرے کا گول بوٹی والا ایک پاؤ گوشت صاف کرکے اور تول کر ہمارے حوالے کر دیتا ۔ سبزی کے لیے میرے ہم جماعت نذر کے والد کی دکان مقّرر تھی اور یہ ساری خریداری ایک روپے سے زیادہ کی نہیں ہوا کرتی تھی۔
کریانےکا سامان ایک اور ہم جماعت ادریس کے والد کی دکان سے آتا تھا ۔ ان کی پنسار بھی تھی ۔ ان کے روبرو حکیم کمال دین کی دکان تھی جو انگریزی دوائیاں بھی بیچتے تھے ۔ ان کے ایک صاحب زادے سلیم گِل میرے ہم جماعت تھے ۔ بعد میں ان کے بڑے بھائی جمیل اقبال گِل بھی فیل ہو کر میرے ہم جماعت بن گئے، جن کے چچا زاد حفیظ بھی ہمارے دوست بنے ۔ یہ وہی عبدالحفیط ہیں جو جماعتِ اسلامی کے اہم رُکن تھے ۔ اسلامک پبلی کیشنز کے انچارج رہے اور سُنا ہے کہ موجودہ سر براہِ جماعت اسلامی کے انتخاب کے عمل کے بھی انچارج تھے ۔ میں سونے اور چاندی کے ورق حفیظ کے والد کی دکان سے خریدا کرتا تھا جو گھر کی بنی برفی اور سوہن حلوہ پر لگائے جاتے تھے ۔ ان "ورق” کے حوالے سے ایک بار معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اقبال علی اظہر سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ان کے کرائے کیمیائی ٹیسٹ میں وہ ورق سو فیصد خالص ثابت ہوئے تھے۔
ء1962 اور شاید ستمبر کا آغاز تھا جب میں،میری والدہ،بڑی بہن شمیم اختر اور چھوٹی بہن تسلیم اختر میرے ہم عمر ملازم چراغ کے ساتھ اس گھر میں منتقل ہوئے۔جس کے ماتھے پر دوکمرے، پھر صحن بائیں طرف کچن اور گھوم کر پچھلے حصّے کی چھت پر جانے کے لیے سیڑھیاں تھیں ۔ پچھلے حصّے میں دو کمروں کے سامنے برآمدہ اور بغل میں غسل خانہ تھا۔دس مرلے کا یہ پلاٹ جو وسعت میں لاہور کے بارہ مرلے کے برابر تھا،پورا چھتا نہیں گیا تھا ۔ بغل میں چارمرلے جگہ نیم پختہ تھی اور شاید تانگے گھوڑے کے لیےخالی چھوڑ دی گئی تھی ۔ اس کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا تھا اور ایک اندر صحن میں ۔ باہر کے کمروں میں مہمان ہونے کی صورت میں یہ دروازے گھر سے باہر جانے کی سہولت دیتے تھے۔
میرا سکول اور طالب کا سکول ساتھ ساتھ تھے ۔ اس لیے طے تھا کہ ہم ساتھ ہی آیا جایا کریں گے ۔ تب وہ دوسری اور میں چھٹی جماعت میں تھا اور یقین تھا کہ یہ رفاقت کم از کم پانچ برس تو ضرور برقرار رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے