درس گاہ – 12

تانگے پر روزانہ میاں چنوں آنے کا وظیفہ جاری تھا کہ ابّا جی کو شہر میں گھر بنانے کا خیال آیا ۔ اس لیے بھی کہ روزانہ شہر آنے کی مشقت آسان نہیں تھی اور اس لیے بھی کہ ابا جی کے پاس رہن رکّھی گئی چار ایکڑ زمین پٹواری نے کسی اور کو الاٹ کر دی تھی جس کی ملکیت اور قبضے کا مقدمہ کئی برسوں سے پہلے تحصیل (خانیوال) اور بعد میں ضلع (ملتان) کی دیوانی عدالت میں چل رہا تھا ۔ اسی زمانے میں بڑے بھائی مہر مراد پر قتل کے الزام میں مقدمہ بنا اور وہ خانیوال شیشن جج کی عدالت میں زیر ِسماعت تھا ۔ ان مقدمات کی پیروی کے لیے ابّا جی اکثر ملتان یا خانیوال جاتے رہتے تھے اور مطلوبہ ٹرین پکڑنے کے لیے انہیں رات کو کسی جاننے والے کے ہاں قیام کرنا پڑتا تھا ۔ ایسے بہت سے گھر تھے جو ان کی آمد کے منتظر رہتے تھے، جیسے اسٹیشن کے بالکل مقابل ریاض حسین قریشی کا دولت کدہ، ذرا آگے چل کر معین الاسلام سکول کے پہلو میں حاجی محمد جرولہ کا مکان اور شہر میں پیر ثنا اللہ بودلہ کا گھر اور کھرلوں (جو زرگری کے کام سے وابستہ تھے) کے کئی گھرانے مگر شاید وہ خود اس آئے دن کی مہمانی سے اُکتا گئے تھے کہ بعض اوقات شام کو دیر ہو جانے پر بستی جانے کے لیے کوئی سواری نہ ملنے کی وجہ سے بھی رات کو شہر میں قیام کرنا ضروری ہو جاتا تھا ۔ کرائے پر چلنے والے تانگے مغرب تک اپنی منزل پر پہنچ جاتے تھے کہ شہر سے باہر روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔ آخری بس بھی مغرب کے لگ بھگ نکل جاتی تھی اور اُس سے اپنے اڈّے (جراحی موڑ،خونی موڑ یا موڑ پکا حاجی مجید) پر اترنے کے بعد تاریکی میں کم از کم دو میل کے پیدل سفر کا عذاب الگ ۔ اگرچہ راستے اور سفر محفوظ تھا مگر آخری سواری نکل جانے کے بعد شہر میں رکنا مجبوری تھی کہ چھے میل یا دس کلومیٹر کوئی چلے تو کیسے چلے اور وہ بھی گہرے اندھیرے یا ملگجے چاند کی روشنی میں ۔ سو شہر میں گھر بنانے کا خیال آنا فطری تھا اور یہ کام اس لیے قدرے آسان بھی تھا کہ میری ماں نے اپنے پلّے سے دس مرلے جگہ پہلے ہی خرید رکھی تھی۔
مکان کا نقشہ اور بنانے کا ٹھیکہ تلمبہ کے مستریوں کو دیا گیا ۔ اس سے برسوں پہلے انھی مستریوں نے قیام ِپاکستان سے پہلے غالباً 1940ء میں ہمارا بستی والا گھر تعمیر کیا تھا ۔ اس کارخانہ نما گھر کی لاگت تو مجھے معلوم نہیں مگر میاں چنوں والے مکان کا ٹھیکہ مع میٹریل چھے ہزار روپے تھا اور یہ مجھے اس لیے معلوم ہے کہ جمع بندی پر اس مکان کے اخراجات لکھنے کا کام میرے ذمّے تھا۔
اس مقصد کے لیے ابّا جی کبھی میرے ساتھ ہی شہر آ جاتے تھے پھر مجھے چھٹی ہونے پر ساتھ لیے بستی پلٹ جاتے تھے۔ تانگے پر مجھے سب سے زیادہ دلچسپی پاؤں سے بجانے والی گھنٹی سے تھی جس کی آواز برسوں بعد مجھے میرے دفتر میں پیون کو طلب کرنے والی انگلی کے دباؤ سے بجنے والی گھنٹی سے مماثل لگی ۔ یہ گھنٹی راہ چھوڑنے کی چتاؤنی بھی تھی اور سواری کے شاہی ہونے کا اعلان بھی اور اس آواز پر راہ سے ہٹتے لوگ مجھے اچّھے لگتے تھے۔
اسی زمانے میں بڑے بھائی مہر نواب نے مجھے ایک گھڑی تحفے میں دی ۔ اس سے پہلے ابا جی کے پاس ایک رسٹ واچ تھی مگر وہ اسےکم ہی استعمال کرتے تھے ۔ ان کی پسندیدہ گھڑی ایک ٹیبل کلاک تھی جو نماز کے اوقات کے لیے الارم بجانے کے کام آتا تھا اگرچہ انہیں نماز کے لیے کبھی الارم کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔وہ پنج وقتہ نمازی تھے اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے جایا کرتے تھے، جس کا ایک فائدہ یہ تھا کہ بستی کے مردوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ نماز میں شامل ہوتی تھی ۔ وہ ہم بہن بھائیوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرتے تھے مگر کبھی اصرار کر کے مسجد نہیں لے گئے ۔ ہاں جمعے کی نماز کے لیے خصوصی تیاری ہوا کرتی تھی اور ان کے ساتھ کوٹ برکت علی خاں کی جامع مسجد میں جا کر نماز پڑھنا لازم تھا ۔ جس کے بعد کوٹھی پر کسی نہ کسی خاں صاحب سے صاحب سلامت کے لیے رکا جاتا تھا ۔ خاں صاحب خواہ لیاقت علی خاں ہوں یا ڈپٹی عبدالحمید خاں کہ ذوالفقار علی خاں سب بہت آؤ بھگت کرتے تھے ۔ چائے، شربت اور پھل سے تواضع کی جاتی تھی اور وہ بھی باغ سے تازہ چُنے ہوئے ۔ میں آم ، انار، کیلےاور امرود وغیرہ سے تو متعارف تھا مگر انجیر اور بِل میں نے پہلی مرتبہ اس بنگلے سے ملحقہ باغ میں دیکھے ۔ بِل کی سختی اور وزن دیکھ کر پقین نہیں آتا تھا کہ اس کا شمار بھی پھلوں میں کیا جا سکتا ہے ۔ مجھے تو ناریل کی طرح یہ پھل کم اور آلہء ضرب ِ شدید زیادہ لگتا تھا۔
بھاؤ نواب (مہر نواب خاں) نے مجھے جو کلائی کی گھڑی تحفے میں دی وہ چمڑے کے پٹے والی نفیس سنہرے رنگ کی فیور لیوبا تھی ۔ شاید یہ کوئی سوِس کمپنی تھی ۔ گھڑی تو بہت خوب صورت تھی مگر اس میں دو قباحتیں تھیں ۔ پہلی یہ کہ اس پر کندہ ہندسے کسی اور زبان میں تھے ۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ گنتی کی یہ ادا رومن کہلاتی ہے ۔ میں اس سے پہلے اردو، انگریزی، عربی اور ہندی ہندسوں سے آشنا تھا کہ گھر کی جمع بندیوں، جنتریوں، مذہیی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے اور سکول میں ان ہندسوں کا استعمال دکھائی دیتا تھا مگر یہ ہندسے میرے لیے نئے تھے اور مجھے وقت دیکھنے اور بتانے میں دقت ہوتی تھی اور دوسری دقت یہ کہ میں بھاؤ کی بڑے بڑے انگریزی ہندسوں اور رات کو دمکنے والی ویسٹ اینڈ واچ پر عاشق تھا ۔ اس لیے میں نے ان سے بلا تکلف اپنی ناپسند کا اظہار کر دیا اور انہوں نے نئی گھڑی دینے کا وعدہ پورا ہونے تک مجھے یہ گھڑی پہنے رکھنے کی ہدایت کی ۔ یہ وعدہ پورا ہوا مگر اس سے پہلے مجھے اس گھڑی کے مکینکس سمجھنے کا شوق چرایا کہ میں نے کہیں گھڑیوں کی دکان پر ایک صاحب کو آنکھ پر ڈھکن نما عدسہ لگا کر کسی گھڑی کو مرمت کرتے دیکھا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ مجھے بھی اس گھڑی کو کھول کر دوبارہ فٹ کرنا چاہیے سو میں نے قینچی اور بلیڈ کی مدد سے اسے کھولا، اس کی سانس اور دھڑکن ملاحظہ کی اور اسے روک کر دوبارہ بحال بھی کر لیا مگر اس کلنیکل ملاحظے میں اس کی ایک سوئی کہیں کھو گئی اور اب وہ گھنٹوں کی ذیلی تقسیم کرنے سے معذور ہو گئی سو اسے طاق ِنسیاں کے سپرد کرنا پڑا جہاں وہ اکیلی نہیں تھی، ایک گراموفون، ایک ریڈیو اور متعدد چابی والے کھلونے اس کی دل داری کے لیے وہاں پہلے سے موجود تھے۔

بھاؤ نواب اس وقت کوئی چالیس بیالیس کے پیٹے میں تھے ۔ درمیانہ قد، فربہی مائل جسم، دیدہ زیب نقش (سنا تھا کہ جوانی میں لوگ انھیں دلیپ کمار سمجھ لیتے تھے) ،بالوں سے محروم ہوتی چندیا جسں پر وہ نفیس قراقلی ٹوپی پہنتے تھے اور یہ ٹوپیاں لاہور جا کر خریدی جاتی تھیں ۔ میری فیور لیوبا بھی ایسی ہی ایک مہم کے دوران میں آئی تھی ۔ ان کی طبیعت میں شگفتگی تھی اور لبوں پر چوبیس گھنٹے مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی ۔ مجھ سے چھوٹے بھائی مہر طالب حسین کو وہ خوب چڑاتے تھے مگر مجھے نہیں ۔ وہ عام طور پر میری ذہانت کا امتحان چیستانی سوالات سے کیا کرتے تھے۔ان میں سے کئی سوال مجھے آج تک یاد ہیں جیسے
ہم دیکھیں بار بار
بادشہ کبھی کبھی
کیا ہے ایسی چیز
جسے دیکھتا خدا نہیں
ایک سوال سات چار دیواریوں اور ہر چاردیواری کے گیٹ پر متعین نگرانوں والے باغ سے سیب توڑ کر لانے کے بارے میں تھا ۔ اس طرح کہ ہر نگران کو شرط کے مطابق آدھے سیب دینے اور وعدے کے مطابق ایک سیب واپس لینے کے بعد آپ کے توڑے ہوئے سیبوں کی تعداد اتنی ہی رہے ۔ میں اس نوع کے سوالات کے جواب کم ہی دے پاتا تھا مگر مجھےان کے ساتھ مغز ماری میں لطف بہت آتا تھا اور ان سے ملنے کا ہمیشہ متمنی رہتا تھا ۔ یہ بات الگ کہ اپنے ملازمتی امور اور احباب سے انہیں کم ہی فرصت ملتی تھی اور وہ ہر روز کسی نہ کسی افسر یا زمیندار کے یہاں دعوت پر مدعو ہوا کرتے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے