زندگی کے پہلے دس برس کئی حوالوں سے اہم تھے ۔ اس لیے کہ میری کیفیت "صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے” جیسی تھی ۔ دونوں سوتیلے بھائی اور تینوں تایا زاد عمر میں پندرہ تا تیس برس بڑے تھے ۔ ایک بھائی اور ایک تایا زاد کبڈی کے معروف کھلاڑی رہ کر اب گھریلو زندگی میں مست تھے ۔ بڑے بھائی قیام پاکستان سے پہلے ایک اہم عہدے سے ترقیءمعکوس کر کے اب قریب کے کسی حلقے میں بہت دانش مند پٹواری تھے (سُنا تھا وہ کسی گیلانی وزیر کی سفارش پر نائب تحصیلدار بھرتی ہوئے تھے مگر پہلے کسی ڈپٹی کمشنر کو تھپڑ مارنے پر نوکری سے نکال دیے گئے اور پھر انہی وزیر کی دوبارہ سفارش پر ملازمت ملنے پر کاٹھیہ فیملی کے ایک بزرگ دوست کے دیوانی مقدمہ میں مدد کے لیے سرکاری ریکارڈ جلانے کے جرم میں معزول کیے گئے تھے اور اب اپنی پٹوار پر قانع تھے) ۔ دو کزنز کو اپنے دوستوں اور اپنی سیلانیء طبع سے فرصت نہیں تھی اور ایک بھائی اور کزن قتل کے الزام میں گرفتار تھےتاہم وہ جلد بری ہو کر آ گئے
سو میری دنیا اپنے ہم عمر بھائی بھتیجوں کے ساتھ کچھ دیر کھیل کود کر اپنی کتابوں تک محدود تھی ۔ گاؤں سے باہر ابھی دوستی کا دائرہ وجود میں نہیں آیا تھا ۔ ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ساتھ ارد گرد کی آبادیوں (جراحی، غازی پاندھا، بستی سنپالاں، سات چک اور کوٹ برکت علی وغیرہ) میں شادی بیاہ یا تہواروں کے مواقع پر آنا جانا رہتا تھا ۔ تلمبہ اور میاں چنوں کا چکر بھی لگ جاتا تھا (میاں چنوں کے زیادہ تلمبہ کے کم بہت کم) . میلے ٹھیلوں پر نورشاہ، پیر شینا، بالے بم تک (جدّی ملازم کے ساتھ) جانے کی اجازت بھی تھی، جہاں کبڈی کے میچ دیکھنے کا لطف اب بھی مرے وجود کا حصّہ ہے ۔ ایک آدھ بار حضرت عبدالحکیم کے میلے پر بھی گیا اور عنایت حسین بھٹّی کا تھیٹر دیکھنے کے بعد رات چڑھووں کے ہاں بسر کی تھی (نور شاہ کے میلے پر بھی کئی ٹھیٹر دیکھنے کا موقع ملا کہ وہاں تھیٹر لگانے والوں کی روٹی ہمارے یہاں سے جاتی تھی) مگر بستی میں میں اپنے کمرے تک محدود ہوتا جا رہا تھا اور مجھے اپنی اس تنہائی سے وحشت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ہم اور ہمارے ارد گرد کے زمیندار آسودہ حال تھےبلکہ ہم سے زیادہ مگر یہ نمود و نمائش کا زمانہ نہیں تھا ۔ اکثر زمینداروں کے پاس اپنے تانگے تھے۔مشینی سواریاں اتنی کم تھیں کہ مجھے ذہن پر زور دے کر صرف پیر برکت علی شاہ کی جیپ یاد آتی ہے، جسے سٹارٹ کرنے کے لیے پنکھے کے ساتھ ایک ہینڈل فٹ کر کے گھمانا پڑتا تھا اور ردھم پکڑنے کے بعد وہ کچے راستوں اور ندی نالوں کو ناپنے بلکہ ٹاپنے کے لیے تیار ہو جاتی تھی ( کسی کار یا جیپ پر میرا پہلا سفر اسی جیپ پر اپنے کنبے کے ساتھ ملتان گھومنے آنے کا تھا) ۔ کار نہ رکھنے کی ایک وجہ شاید سولنگ یا پختہ سڑکوں کا نہ ہونا بھی تھا ۔ جہاں تانگوں کے جہازی پہیے دھنس کر رہ جائیں وہاں کار کا کیا کام ۔ ہاں جیپ سے کام چل جاتا تھا ۔اس لیے وہ کچھ زمینداروں کے پاس تھی مگر بس گنتی کے دو ایک لوگوں کے پاس۔
ء1962 میں مجھے ایم سی ہائی سکول میاں چنوں داخل کرایا گیا۔اس سکول کی صلاح جراحی کے ماسٹر واحد بخش نے دی تھی اور وہ داخلہ ٹیسٹ کے سلسلے میں میرے ساتھ سکول بھی آئے تھے ۔ یہ ٹیسٹ صرف حساب کے مضمون کا تھا اور پرائمری سکول کے ایک کلاس روم میں لیا گیا تھا ۔ میرا فیل ہونا فطری تھا کہ شاید نصاب کی کتاب ہی مختلف تھی اور اکثر سوال میرے لیے نئے تھے ۔ سو میرے والد صاحب نے اپنے تعلقات کو آزمایا ۔ سکول میں ماسٹر واحد بخش کے ایک دوست ماسٹر عبدالحق تھے، جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہندو سے مسلمان ہوئے تھے، مجھے ان کی کلاس میں بٹھایا گیا اور میں اس سکول کی عمارت، وسعت اور میدان دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ یہ عمارت جلال وجمال کا خوبصورت نمونہ تھی اور میں خوش تھا کہ مجھے اگلے پانچ برس یہاں گزارنے ہیں۔
میں گھر سے تانگے پر سکول آتا ۔ سکول کے باہر درختوں کی چھاؤں میں تانگہ کھول دیا جاتا اور ممّو ماچھی جو بطور کوچوان میرے ساتھ آتا تھا، تین بجے سہہ پہر تک وہیں کہیں موجود رہ کر میرا انتظار کرتا ۔ سکول میں شہری پنجابی اور گلابی اردو بولنے کا رواج تھا اور اردو کی بیسیوں زائد از نصاب کتابیں چاٹنے کے باوجود مجھے ہر دو زبانیں بولنے میں جھجک کا سامنا تھا ۔ اس لیے شہری لڑکوں نے جو شرارتوں اور خود پر اعتماد میں مجھ سے بہت آگے تھے ۔ مجھے اپنی ذاتی گفتگو میں "جانگلی” کا لقب دے دیا ۔ میری طرف دوستی کے ہاتھ کم ہی بڑھے اور مجھے بھی کسی سے گھلنے ملنے میں دقت رہی، جب تک پہلے سہہ ماہی امتحان نہیں ہوئے ۔ اس امتحان کا نتیجہ خود میرے لیے حیران کن تھا ۔ میری پوزیشن بری نہیں تھی اور اردو میں تو میں پورے سکول میں اوّل آیا تھا ۔ میں جانگلی تو تب بھی رہا اور اب بھی ہوں مگر تب اساتذہ اور ہم جماعت لڑکوں نے مجھے سنجیدہ لینا آغاز کیا اور میں بھی اپنے احساس ِ کمتری سے نکل کر دوسروں کی برابری کی سطح پر آ کھڑا ہوا۔
سکول میں امیر غریب کی کوئی تفریق نہیں تھی ۔ سکول یونیفارم ملیشیا کا پاجامہ قمیص تھا ۔ سکول لگنے پر اسمبلی ہوتی تھی ۔ تلاوت اور ترجمے کے ساتھ تفسیر کے بعد دعا (لب یہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری..لحن کے ساتھ) اور پی ٹی ہوتی تھی اور پھر کلاسز ۔ وہی جانے پہچانے ٹاٹ، سلیٹ اور تختیاں ۔ ہاں گھر کا کام کرنے کے لیے کاپیوں ، پینسلوں اور رنگوں کا اضافہ ہوا ۔ آدھی چھٹی ہونے پر سکول کے سامنے بیسیوں ریڑھیاں مختلف سوغاتیں لیے لگ جاتی تھیں ۔ موسم کے لحاظ سے زیادہ بِکری قلفی، پکوڑوں اور شربت والوں کی ہوتی تھی ۔ خشک میوے اور پھل بھی خوب بکتے تھے اور اس عیاشی کے لیے دو آنے بہت ہوا کرتے تھے۔
میرے تانگے پر سکول آنے کا فائدہ اٹھانے والے کئی تھے ۔ شہر جانے کے لیے کچھ لوگ میرے منتظر رہتے تھے جن میں پیر سوہارے شاہ خصوصیت سے لائقِ ذکر ہیں ۔ واپسی پر بستی کا کوئی نہ کوئی آدمی ساتھ ہو لیتا تھا اور مجھے اس خدمت میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ اسی زمانے میں مجھے گھوڑے کی باگیں اپنے ہاتھ میں لینے کا شوق چرایا ۔ ہمارا گھوڑا نازوں پلا اور کافی اتھرا تھا اور وہ باگ پکڑنے والے کے ہاتھ پہچانتا تھا مگر میں نے جلد ہی اس پر قابو پا لیا اور شہر آتے جاتے تانگہ چلانے کا کام خود کرنے لگا۔اس کے باوجود کہ میرے ابّا جی کی طرف سے اس کی ممانعت تھی اور اس سلسلے میں ممّو کو خاص تاکید بھی تھی مگر جب خودسری سر چڑھ کر بول رہی ہو تو بے چارہ ممّو کیا کرتا۔