درس گاہ – 10

میں چوتھی جماعت میں تھا جب میرے چھوٹے بھائی مہر طالب حسین کو اس سکول میں داخل کرایا گیا اور بہن کو اُٹھا لیا گیا ۔ کھیلنے کودنے، لکھنے پڑھنے کے معمولات وہی تھے ۔ میں "خالص” دیہاتی تھا مگر مجھے دودھ، دہی، لسی اور مکھن سے وحشت ہوتی تھی ۔ آخری تین چیزوں کا استعمال میں نے زندگی بھر نہیں کیا ۔ دودھ پی لیتا ہوں مگر صرف دودھ نہیں ۔ رات کو دیسی تافتان کے ساتھ، جو تندور پر آٹے کو مکھن میں گوندھ کر پکایا جاتا ہے اور جسے "موئی روٹی” کہتے ہیں ۔ حالاں کہ وہ عام روٹی سے زیادہ "زندہ” ہوتی ہے ۔ "مو”کی یہ توضیح صرف تفنن ِ طبع کے لیے ہے ۔ اس لفظ کے قریب ترین معنی گداز اور خمیر ہو سکتے ہیں کہ اس میں ایک خاص طرح کی خستگی ہوتی ہے جو لقمہ توڑنے، چبانے اور کھانے میں خطائی جیسا مزہ دیتی ہے اور یہ مزہ شیریں دودھ کے ساتھ مل کر دوبالا ہو جاتا ہے
رات کو کھیل کود کر آنے کے بعد گاڑھے دودھ کا ایک گلاس پینے کی پابندی تھی مگر میں جان بوجھ کر دیر کرتے کرتے سو جاتا تھا ۔ یہ الگ بات کہ وہ اکثر غنودگی کے عالم میں پلا دیا جاتا تھا اور دن میں اس کی ایک دھندلی سی یاد ہی باقی رہ جاتی تھی۔
یہی رویّہ دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی تھا ۔ گھر ماں اور بڑی بہن نے سنبھال رکھا تھا ۔ ان کی مدد کے لیے ایک آدھ نو عمر ملازمہ اور ملازم بھی موجود رہتے تھے ۔ پانی بھرنے اور تندور کا کام ماچھنوں کا تھا ۔ گاؤں میں جولاہے اور کمھار بھی تھے اور لوہار بھی ۔ بعد میں ایک ایک خاندان موچیوں اور شرنائیوں کا بھی آ بسا ۔ کپڑا بُننے، لوہے سے اوزار بنانے، مٹّی سے برتن ڈھالنے اور تلے والی جوتیوں پر تلّا کاڑھنے کا کام اس قدر دل فریب تھا کہ میں اکثر اس صنّاعی کا نظّارہ کرنے جاتا تھا اور مبہوت ہو کر مٹّی اور آگ کے کھیل دیکھتا تھا ۔ گھر میں لاڈلا ہونے کی وجہ سے میں ضدی، غصیلا اور بدتمیز تھا مگر گالی بکنے کی عادت نہیں تھی۔
ماں نے ذہن میں ایک بات ڈال دی تھی کہ کسی کو بددعا نہ دوں ۔ وہ کہتی تھیں "پُتر اساڈا پلوتا لگدا اے” .اس میں کتنی حقیقت تھی معلوم نہیں مگر ایک بار بچپن میں غصّے اور بے بسی کے عالم میں بددعا دی تو واقعی کارگر رہی۔تب متاثرہ خاندان مجھ سے اور میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا ۔ یہ تفصیل میری کہانی "تیسرے پلوتے پچھوں ” میں موجود ہے۔
چوتھی اور پانچویں جماعت میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ سال کے اختتام پر پتا چلا کہ امتحان کے لیے سنٹر گورنمنٹ ہائی سکول تلمبہ کو بنایا گیا ہے ۔ اپنے سکول سے اس امتحان کے لیے جانے والا میں اکیلا تھا ۔ مجھے تلمبہ میں رات کو ماسٹر غلام رسول کے گھر پہنچا دیا گیا اور وہ علی الصباح مجھے اپنے سائیکل پر تلمبہ سے کافی باہر میاں چنوں تلمبہ روڈ پر اس سکول میں لے کر گئے اور وہاں مذکورہ امتحان دلوایا ۔ اب یاد نہیں کہ یہ سب ایک دن کا عمل تھا کہ دو کا مگر گھر سے باہر شاید یہ میرا پہلا قیام تھا ۔ سوائے جراحی کے، جہاں ہمارا گھرانہ محرم کے دنوں میں ضروری انتظامات میں مدد کے لیے مدعو کیا جاتا تھا اور کئی بار وہاں رات کو رُکنے کی نوبت بھی آ جاتی تھی ۔ اگرچہ محرم میں وہاں رُکنا مجھے پسند نہیں تھا اور اس کی وجہ رات کو اُلٹی چارپائی پر سونے کی پابندی تھی۔

گورنمنٹ ہائی سکول تلمبہ اب بھی شہر سے کافی فاصلے پر ہے ۔ میں اس سکول میں دو ہی بار گیا ۔ پہلی بار امتحان دینے اور دوسری بار ملتان بورڈ کے انسپکٹر کی حیثیت سے میٹرک کے امتحانی مرکز کا معائنہ کرنے اور میں نے محسوس کیا کہ سکول کے شہر سے باہر ہونے کے باعث امتحان دینے والے بہت فائدے میں ہیں۔
ہم تلمبہ جاتے تھے مگر بہت کم، زیادہ رجحان میاں چنوں جانے کا تھا ۔ یوں بھی مرکزی ریلوے لائن اور لاہور ملتان روڈ پر ہونے کی وجہ سے اس کی ترقی کی رفتار بہت تیز تھی ۔ اس زمانے میں آبادی تو آٹھ دس ہزار سے زائد نہیں تھی مگر شہر کا نقشہ اور بازار بے مثال تھے ۔ تلمبہ روڈ جو ہمارے شہر جانے کا ذریعہ تھی ۔ شہر کے بیچ سے گزر کر ٹی چوک پر ختم ہوتی تھی، جہاں ایک پٹرول پمپ تھا اور لاہور ملتان روٹ پر جانے والی لاریوں کا استراحت کدہ ۔ ملتان براستہ عبدالحکیم کبیر والا کے لیے اڈہ تلمبہ روڈ پر شہر کے آغاز ہی میں تھا اور وہاں ہانسی بس سروس والوں کی اجارہ داری تھی ۔ کچھ بسیں دوست بس کمپنی کی بھی تھیں مگر شاید ان کی نسبت میاں چنوں سے نہیں تھی۔
شہر پہچنے کے بعد تانگے کو ٹی چوک میں کھول دیا جاتا تھا اور ہم لوگ شہر گھومنے کے لیے نکل جاتے تھے۔کپڑوں کی دکانوں پر ششماہی حساب چلتا تھا اور مجھے اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ وہ لوگ نقد رقم وصول کرنے سے کتراتے تھے ۔ ہم عام طور پر چراغ چڑھوئے اور مجید آرائیں کی ہٹّی پر جاتے تھے اور وہ ضرورت سے تین گُنا زائد کپڑے لادے بغیر اُٹھنے نہیں دیتے تھے ۔ وہیں شفیع درزی کی دکان تھی جو کپڑے وصول کرنے دکان پر ہی آ جاتا تھا ۔ اس کے پاس میرا ناپ موجود تھا مگر وہ ہر بار اپنا فیتہ آزماتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں مسلسل بڑا ہو رہا تھا۔
پرائمری پاس کرنے پر مجھے ایم سی ہائی سکول میاں چنوں میں داخل کرایا گیا ۔ مجھ سے پہلے میرے ایک بھانجے مہر احمد نواز وہاں پڑھ رہے تھے اور سکول کے بورڈنگ ہاؤس، جو تلمبہ روڈ پر ھانسی بس کمپنی کے اڈے کے مقابل تھا، میں رہائش پذیر تھے ۔ موصوف مجھ سے چار برس بڑے تھے اور شاید نویں جماعت میں تھے۔ان کے بڑے بھائی مہر حق نواز جو ان سے چار برس بڑے تھے، خانیوال کے اسلامیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھے اور سوٹ بوٹ میں ان کی تصویریں اچھی لگتی تھیں ۔ احمد نواز بہت مستقل مزاج طالب علم تھے ۔ ایک ایک جماعت کو خوب پختہ کرتے تھے ۔ اس لیے میٹرک کا امتحان ہم نے ایک ساتھ پاس کیا لیکن اس اجمال کی تفصیل پانچ برسوں پر محیط ہے اور یہ پانچ برس ایک نئی دنیا کی طرف بڑھنے کے لیے میرا پہلا قدم تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے