درس گاہ – 9

پکا حاجی مجید کی آبادی ہمارے گاؤں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی اور گلیاں یا سڑکیں کشادہ ۔ سکول گاؤں کے ایک کونے پر تھا مگر نہ معلوم آدھی چھٹی کے وقت یہاں پھیری والے کیوں چکر نہیں لگاتے تھے ۔ شاید اس لیے کہ کھگّوں کی اپنی اولاد اس سکول میں داخل نہیں کرائی جاتی تھی مگر ایسا تو جراحی میں بھی تھا کہ سیّدوں کی نئی نسل بھی گاؤں کے سکول میں داخل نہیں کی جاتی تھی بلکہ وہ تو کسی بھی سکول میں داخلے سے مستشنی تھی ۔ ہاں پیر برکت علی شاہ کے دو پوتے ابنِ حسن اور سبطِ حسن کے بارے میں سُنا تھا کہ "لاسال” ملتان میں پڑھتے ہیں اور بورڈر ہیں ۔
پھیری والوں کی عدم دستیابی کے باعث گاؤں کے لڑکے آدھی چھٹی ہونے پر گھروں کا رخ کرتے تھے اور ہم جیسے دو چار ایلین دکانوں کا ۔ سکول سے دائیں مڑ کر پیر رحیم شاہ کے ڈیرے سے آگے دو ایک دکانیں نسبتاً قریب تھیں مگر ہم عام طور پر کشن کی دکان پر ہی جاتے تھے جو پیر سوہارے شاہ کی کوٹھی کے سامنے سے دائیں مڑ کر بائیں گلی کی بغل میں تھی ۔ اس زمانے میں تمام دیہاتی دکانوں کا ایک ہی نقشہ ہوا کرتا تھا ۔ کوٹھڑی نما کمرہ ۔پیچھے لکڑی کی شیلفوں میں ضرورت کی چیزیں سجی ہوئی ۔ بیچ میں دکاندار کی چوکی ۔ چاروں طرف ٹین کے ڈھکنے والے کنستر اجناس اور دیسی، بناسپتی گھی یا تیل سے بھرے ۔ مٹّی کے تیل کا ڈرم الگ دھرا ہوا اور زیادہ مقدار میں بکنے والی اجناس یا سوغات کی بوریاں جمی ہوئیں ۔ چوں کہ گندم یا کپاس بھی خریدی جاتی تھی ۔ اس لیے عام ترازو کے علاوہ کونے کے شہتیر کے ساتھ ایک بڑا کنڈا مستقل طور پر لٹکا ہوا ۔ بس فرق تھا تو یہ کہ کشن کی دکان کی پچھلی دیوار میں گھر کے اندر کھلنے والی ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی تھی ۔ جہاں سے ضرورت پڑنے پر پانی یا شکر کے شربت کی ترسیل آسان تھی اور ہماری یاترا پر یہ کھڑکی ضرور کھلتی تھی۔
لباس، گفتگو، بولی ٹھولی اور شکل وصورت کے لحاظ سے کشن اور گاؤں کے دوسرے باشندوں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ وہ بہت دھیمے مزاج کا آدمی تھا اور ہر آنے جانے والے کا محبت اور احترام سے استقبال کرتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ ہمیں کیا درکار ہو سکتا ہے ۔ سو ہماری ضرورت کی چیز ہمیں دیکھتے ہی نکال کر ہمارے حوالے کر دیتا تھا ۔ اس لیے پکّا میں پڑھنے کے دوران میں ہمیں کسی اور دکان پر جانے کی حاجت نہیں ہوئی۔
سکول کی تعطیلات کا شیڈول وہی تھا جو سارے ملک میں رائج تھا ۔ تئیس مارچ سے یکم اپریل تک موسم ِبہار کی تعطیلات، پھر نئی کلاسوں کا اجرا، سولہ جون سے اکتیس اگست تک گرمیوں اور چوبیس دسمبر سے اکتیس دسمبر تک سردیوں کی چھٹیاں ۔ ہر تہوار کی تعطیلات اس کے علاوہ تھیں ۔ حتی کہ ہندو اور سکھی تہواروں کی چھٹی بھی دی جاتی تھی ۔ گھروں میں جنتری کا ہونا لازم تھا ۔ سال کے آخری دنوں میں شہروں میں اخبار کے ہاکر جنتری کی مدح میں بھی رطب اللسان رہتے تھے ۔ میں نے اپنی زندگی کی پہلی فحش نظم "کلید ِجنّت” ایسی ہی کسی جنتری میں پڑھی تھی۔
یہ ایوب خانی مارشل لاء کا زمانہ تھا ۔ سنا تھا پاکستان ایشین ٹائیگر بن رہا ہے اور ملک میں سبز انقلاب آیا ہی چاہتا ہے مگر ہمارے علاقے اور سکول ابھی اس انقلاب کی زد میں نہیں آئے تھے ۔ ابھی اعشاری نظام بھی لاگو نہیں ہوا تھا اور اگر تھا تو ہمارے علاقے میں ابھی رائج نہیں ہوا تھا ۔ گندم دس روپے اور کپاس بیس روپے من رہی ہو گی ۔دیسی گھی کے کنستر چونگی بھر کر بکنے کو شہر بھجوائے جاتے تھے تو سولہ سیر کے کنستر کے مشکل سے نوے روپے ملتے تھے مگر یہ نوے روپے بہت معنی رکھتے تھے ۔ چاندی چھے روپے اور سونا ایک سو بیس روپے تولہ تھا اور میاں چنوں شہر میں زمین پچاس سے سو روپے مرلہ ۔ میری والدہ نے ہمارے جدّی سنارے رمضان کو گیارہ سو دیے تو اس نے میرے والد کے علم میں لائے بغیر بورا روڈ پر لائن پار بودلہ ہاؤس کے سامنے دس مرلہ جگہ لے کر رجسٹری کرا دی ۔ جس پر میرے میاں چنوں ایم سی ہائی سکول میں داخل ہونے کے بعد مکان بنایا گیا اور ہم اس گھر میں برسوں مقیم رہے۔
چوری چکاری تھی مگر مال ڈنگر کھول کر لے جانے کی حد تک ۔ گھروں کو سنھ کم ہی لگائی جاتی تھی ۔ یہ چوریاں عام طور پر پکڑی جاتی تھیں اور اس کی پشت پر کوئی نہ کوئی زمیندار ہی ہوا کرتا تھا ۔ چور تلاش کرنے کا کام کھوجی کا تھا اور ان کی نظر، باریک بینی اور قیافہ بے مثل ہوا کرتا تھا ۔ میرے والد صاحب جو لائی(سر پنچ)تھے ۔ چوری کی واردات کی تفصیل اور طریقہء کار جان کر ہی چور بتا دیا کرتے تھے بلکہ اسی وقت کسی دوست کو پیغام بھجواتے تھے کہ چور سے چوری کا مال برآمد کروا دے اور مال برآمد ہو بھی جاتا تھا ۔ بڑی چوریوں کی تلاش اور واپسی کے لیے واہریں نکلتی تھیں، جس کے راستے میں آنے والے گھر ان کی مناسب آؤ بھگت کرتے تھے ۔ یہ واہریں عام طور پر کامیاب لوٹتی تھیں اور ان کے ذریعے”بازوؤں”یعنی اغوا شدہ عورتوں کی واپسی بھی کرائی جاتی تھی مگر یہ قصّہ الگ تفصیل کا مقتضی ہے۔
میری تعطیلات گاؤں ہی میں گزرتی تھیں اور عام طور پر کھیل کود میں ۔ مجھے جب پتا چلتا تھا کہ فلاں لڑکا اپنے رشتہ داروں کے ہاں فلاں شہر یا گاؤں گیا ہے تو مجھے عجیب سی کمی کا احساس ہوتا تھا ۔ وجہ یہ کہ ہمارا کوئی رشتہ دار اس بستی سے باہر تھا ہی نہیں ۔ دادا اکلوتے تھے اور ان کے تین ہی بیٹے تھے، جن کی اولاد اس بستی میں مقیم تھی ۔ رشتوں میں بھی عجیب سی کمی کا سامنا تھا ۔ کوئی پھوپھی تھی نہ ماموں ۔ خالائیں تھیں مگر ہمارے خود کفیل ہونے تک وہاں جانے کا کبھی ذکر ہی نہیں چھڑا ۔ لے دے کر جراحی اور ترتالیس چک میں مہر پہلوان کاٹھیا کی طرف چکر لگ جاتا تھا، جو میرے بڑے بھائی کے ہم عمر تھے مگر میرے والد کے بھی اتنے ہی گہرے دوست تھے ۔ ان کے دو صاحب زادے حق نواز (حاکم علی رضا) اور ریاض تھے اور بالترتیب ہم دونوں بھائیوں کے ہم عمر اور دوست ۔ اس لیے ان کے یہاں جا کر یا ان کے آنے پر مسرت ہوتی تھی مگر یہ مسرت شام تک ہی کھینچی جا سکتی تھی کہ ہر دو مقام اتنے ہی فاصلے پر تھے کہ کھا پی کر اور گپ شپ لگا کر شام تک گھر پلٹ آئیں۔
کھیلوں میں دو اور کھیل گاگریں (کنچے) اور اخروٹ کھیلنا تھے ۔ پہلا بیٹھ کر انگلیوں سے کمان بنا کر اور دوسرے میں کھڑے ہو کر اخروٹ سے اخروٹ کا اس سلیقے سے نشانہ لگانا کہ مضروب کنچا یا اخروٹ کسی اور کنچے یا اخروٹ کے ساتھ مس نہ ہو ۔ چوٹ لگانے والے اخروٹ میں سیسہ بھر کر اسے وزنی بھی کیا جاتا تھا کہ ضرب لگانا آسان ہو ۔ مجھے سیسہ بھرنے اور نشانہ بازی میں بہت مہارت تھی اور میں نے اخروٹ اور کنچے جیت جیت کر دو کنستر بھر رکھے تھے ۔ اس میں فاصلے اور وزن کا اندازہ، نظر کی درستی اور کنچے یا اخروٹ کو درست نشانے پر پھینکنے کی بڑی اہمیت تھی ۔ مدتوں بعد جب ایک بار گورنمنٹ کالج ملتان (اب ایمرسن کالج)کے سالانہ کھیلوں کے چاٹی توڑنے کے مقابلے کی ایک ٹیم میں مجھے شامل کیا گیا تو اسی مہارت کی بنیاد پر ساری چاٹیاں توڑنے کی "سعادت” میرے حصّے میں آئی تھی۔
گرمیوں کی دوپہر میں ساری بستی پیپل کی چھاؤں میں اکٹھی ہو جاتی تھی ۔ چارپائیاں ڈال کر آرام بھی کیا جاتا تھا اور بُننے بٹنے کا کام بھی ۔ میں بھی سکول کا کام کرنے کے بعد بھائی، بہنوں، بھتیجوں اور بھانجوں یا گاؤں کے ہم عمر لڑکے لڑکیوں کے ساتھ بارہ ٹینی، نو گوٹی، اڈا کھڈا یا لڈو کھیلا کرتا ۔ پیپل کے نیچے نہری پانی کا کھال بھی تھا اور ہم نے بڑے مضبوط رسے کی پینگھ بھی ڈال رکھی تھی، جس پر لکڑی کی خاص طور پر بنوائی ہوئی چوکی جما کر پینگھ بھی جھُوٹی جاتی تھی ۔ دن اسی ہنگامے میں گزر جاتا اور رات کہانیاں سننے، پڑھنے اور تاروں سے باتیں کرنے میں ۔ گھر میں ریڈیو تھا اور گراموفون بھی مگر عجیب بات ہے کہ مجھے ان میں زیادہ رغبت نہیں تھی۔
حویلی تین حصوں میں بٹی تھی ۔ ایک ایکڑ ہمارے قبضے میں تھا جس کے آدھے حصے میں گھر اور دیوار کی مغربی سمت آدھی زمین زرعی تھی ۔ جس کے بیچ میں سے اور گھر کے باہر سے نہری پانی کا پیپل کے نیچے سے گزرنے والا کھال تھا ۔ گھر میں سولہ فٹ اونچی چھت اور دو فٹ چوڑی دیواروں والے دو پختہ کمرے، غلام گردش اور وسیع پختہ برامدے، سیڑھیوں، ممٹی اور قد ِآدم فینسی پردے کے ساتھ تھے، اسی طرح کے دو کمرے مکان کے اس حصے میں تھے جو بڑے بھائیوں کے تصرف میں تھا۔ سو چھت اور پردے مشترک تھے اور ایک ننھی فیکٹری جیسی طوالت رکھتے تھے ۔ کمروں کے سامنے صحن دو تختوں میں بٹا ہوا۔پہلا تختہ دوسرے کے مقابلے میں قدرے بلند، بیچ میں پھولوں کی باڑ اور پودے، دوسرے تختے کے اختتام پر ڈیوڑھی اور اس کی بغل میں دو نیم پختہ کمرے، کچن اور بیٹھک ۔ جہاں گرمیوں میں ریت ڈال کر کھڑکیوں پر خس کے چوکھٹے جڑ دیے جاتے تھے ۔ شہتیر پر جھالر والا پنکھا لگا تھا ۔ جسے فرش کی ریت اور خس کو پانی سے تر کرنے کے بعد ان کمروں پر سایہ کرنے والے چھوٹے پیپل کے تلے چارپائی ڈال کر کوئی نہ کوئی ملازم گھنٹوں کھینچتا رہتا تھا ۔ اسی پیپل کے تلے تندور تھا ۔ جہاں دوپہر اور رات کو خوب رونق ہوتی مگر صرف گرمیوں میں۔سردیوں میں توے کی روٹی کا رواج تھا اور شاید اس لیے کہ تب چولھے کے نزدیک رہنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔
بقیہ حویلی کا آدھا حصہ میرے بھائیوں اور آدھا دو برابر حصوں میں تایا زاد بھائیوں کے پاس تھا ۔ پھر انہوں نے الگ کوٹھیاں بنا لیں تو یہ ساری حویلی ہم بھائیوں کے حصے میں آگئی اور اسے ہم نے اپنی مرضی کی شکل دی مگر یہ قصّہ بہت بعد کا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے