سکول کا کوئی یونیفارم مقرر نہیں تھا مگر کم وبیش سبھی لڑکے پاجامہ قمیص پہن کر آتے تھے اور لڑکیاں (جو تعداد میں بہت کم تھیں) شلوار قمیص ۔ یوں عام دیہاتیوں کا لباس چادر(دھوتی) اور کُرتا تھا اور سچ پوچھیے تو اس کے پہننے میں کئی آسانیاں تھیں ۔ گھروں میں بھی اسی لباس کا رواج تھا، ہاں اس کے رنگ، کپڑا اور ڈیزائن صنفی لحاظ سے الگ ہوتے تھے ۔ ہماری بستی کی بہار قدرے الگ تھی ۔ یہاں سے ہندوؤں کے ہجرت کرنے کے بعد جو راجبوت خاندان مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آیا تھا ۔ اُن کی عورتوں اور مردوں کا پہناوا شلوار قمیص تھا ۔ زبان ماجھی اور رسم و رواج، آرائشِ جمال اور فلاحت کے انداز پر سکھ کلچر کے اثرات نمایاں تھے۔ ان کی ایک خاتون میرے ایک تایا زاد کی بیگم اور دو خواتین میری بہن اور چھوٹے بھائی کی رضاعی ماں تھیں ۔ اس لیے ان سے بہت محبت اور احترام کا رشتہ تھا اور ہے ۔ چوں کہ ایک "شلوار قمیص” ہماری حویلی میں بھی مستقل طور پر موجود تھی سو اس کے اثرات نئی نسل خصوصاً خواتین پر بڑی شدت سے مرتب ہوئے اور ایسا ہونا فطری تھا۔
بستی بیسویں صدی کے اوائل میں بسائی گئی اور میرے دادا کے ساتھ جس کسی نے بھی بیٹھ کر”ٹاؤن پلاننگ” کی، خوب کی ۔ یہ مستطیل صورت میں بسائی گئی ۔ جنوب کی طرف ہماری حویلی تین بھائیوں کے مکانوں میں بٹی ہوئی، جس کے مغرب میں مسجد اور حویلی کے سامنے پیپل کے دو درخت جو میرے پیدا ہونے تک چھتنار ہو چکے تھے ۔ ان میں سے ایک پیپل تنے کی موٹائی اور پھیلاؤ میں اس قدر بڑا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا پیپل کا درخت نہیں دیکھا اور میں آج تک سوچتا ہوں کہ چِینا کے ایک ذرے برابر بیچ میں قدرت نے اتنا بڑا درخت بننے اور نمو کی اس قدر طاقت کیوں رکھّی ہے تو مجھے دھیان آتا ہے کہ یہی اصول بڑے آدمیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ صفر سے آغاز کرنے والے ہی تاریخ ِعالم پر ان مٹ نقوش چھوڑتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔
خیر یہ تو ایک جُملہء معترضہ تھا ۔ ہماری حویلی کی پشت پر دو "محلے” تھے ۔ پہلا ایک کنال کے ایک ہی نقشے پر مشتمل دو رویہ مکانوں والا ۔ دو نیم پختہ کمرے، خوبصورت آدھ ڈھکے برآمدے کے ساتھ، پیچھے بیک یارڈ یا صحن ۔ یہ سب مکان ہندوؤں کے تھے اور تعداد میں دس یا بارہ رہے ہوں گے ۔ ان کی بغل میں ایک پختہ کمرہ جو میری ہوش میں گردوارہ کہلاتا تھا مگر حقیقت میں مندر رہا ہو گا کہ گاؤں میں سکھوں کا کبھی کوئی وجود نہیں رہا تھا ۔ ان سب مکانوں کے سامنے کھلا میدان اور اس میں پانی کے لیے چرخی والا کنواں تھا جہاں ہر وقت رونق رہتی تھی ۔ اس کے سامنے اسی طوالت اور نقشے کا شاگرد پیشہ (کمیوں) کا محلّہ مگر یہ بغیر برآمدے کے ایک نیم پختہ کمرے اور صحن پر مشتمل تھا اور اس کی پشت پر کھیت تھے ۔ ہماری حویلی کوئی دو ایکڑ پر مشتمل تھی ۔ مسجد کے بعد کھلا میدان اور ایک قطار میں لگے شیشم کے درخت، تالاب اور "مسلم کنواں” ۔ اسے میں نے مسلم کنویں کا نام اس لیے دیا کہ ہمارے گھروں کے لیے پانی یہیں سے آتا تھا اور تمام شاگرد پیشہ لوگ بھی یہیں نہاتے دھوتے تھے ۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ یہ ماہل والا کنواں تھا ۔ اسے کھوپے چڑھے بیل چلاتے تھےاور اس سے کھیتوں کو پانی بھی دیا جاتا تھا ۔ گھروں میں غسل خانے تو تھے مگر ٹائلٹ ندارد سو سحر خیزی ایک عادت ہی نہیں فطری ضرورت تھی اور سحر کے وقت دور دور تک سیر کے لیے نکلنا کئی حوالوں سے سود مند تھا۔
میں اور میرے بہن بھائی ہمیشہ تلاوت کی آواز پر بیدار ہوتے تھے جو میرے والد صاحب ہر روز علی الصباح نماز پڑھنے کے بعد ایک خاص لحن میں کرنے کے عادی تھے ۔ ان کی نزدیک کی نظر یقیناً کمزور تھی کہ وہ یہ تلاوت ایک جہازی سائز کے نسخہ سے کیا کرتے تھے ۔ پھر بھی وہ کسی لفظ یا حرف کی شناخت میں شبہ کا شکار ہوتے تھے تو مجھے بلا کر لفظ کے ہجّے کر لیا کرتے تھے اور دوبارہ رواں ہو جاتے تھے ۔ اتنی سی بات سے میری گردن فخر سے اکڑ جاتی تھی اور میں اپنی کمر کو آپ ہی تھاپڑنے لگتا تھا۔
گھر میں بجلی تھی نہ اس سے چلنے والے اپلائنسز سو چولھا تین بار جلتا تھا اور ہر چیز تازہ پکائی جاتی تھی ۔ ہم ڈبل روٹی تو نہیں کھاتے تھے مگر پراٹھے کے ساتھ آملیٹ، فرائڈ اور کبھی خاگینہ ضرور بنایا جاتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے گھر میں مرغیاں موجود تھیں ۔ کبھی ضرورت پڑنے پر بستی کے دوسرے گھروں سے بھی انڈے منگوا لیے جاتے تھے ۔ موسم آنے پر مجھے ناشتے میں سبز مرچوں والی بھنڈی کی ترکاری پسند تھی سو اسے گھر کے سامنے کی زمین پر بو لیا جاتا تھا اور میں ضرورت کے مطابق چن لایا کرتا تھا ۔ توری، کدو، کریلے، گاجر مولی، دھنیا، پودینہ، پیاز، لہسن، سونف اور بینگن وغیرہ بھی بوئے جاتے تھے اور فریش فرام دی گارڈن کچن میں آتے اور پکائے جاتے تھے ۔ ذائقے کی وہ بہار اور خدائی نعمتوں کی وہ خوشبو میرے دماغ میں رچی ہے مگر اُسے اب لائے کون اور میرے دماغ سے نکالے کون؟
ڈیرے میں اپنا اور مسجد میں اللّٰہ کا کوئی نہ کوئی مہمان ہر روز موجود ہوتا تھا ۔ ان کے کھانے اور ٹھہرنے کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا تھا ۔ ہاتھ دھلانے کے لیے خصوصی چلمچی تھی جس پر بڑا تھال لگا تھا کہ پانی باہر نہ گرے ۔ موسم کے لحاظ سے شربت چائے بھی پیش کی جاتی تھی اور ٹھہرنے کی وجہ کم ہی پوچھی جاتی تھی ۔ کوئی کام سے آیا ہو تو کہہ دیتا تھا وگرنہ کھا پی کر اپنی راہ لیتا تھا ۔ میری تربیت میں یہ چیز شامل تھی کہ ملازم کے ساتھ مہمان کا ہاتھ منہ مَیں دھلواوں ۔ پانی میں ڈالتا تھا جب کہ تولیہ ملازم پیش کرتا تھا۔
سکول سے واپسی پر نہانا لازم تھا ۔ اس لیے کہ راستے کی دھول کھانے اور ساتھیوں کے ساتھ سر پھٹول کے بعد نہانا ضروری ہو جاتا تھا ۔ میری مشکل یہ تھی کہ میں ماں، بڑی بہن یا ملازمہ کے ہاتھوں نہانے سے چڑتا تھا ۔ آم کے درختوں کے تلے نلکے کا پانی گرمیوں میں اس قدر یخ ہوتا تھا کہ وہاں سردیوں میں نہانا زیادہ آسان محسوس ہوتا تھا ۔ اس لیے نہانا ایک مشکل کام تھا ۔ ماں اس معاملے میں رعایت کرتی تو نہانے کے حوالے سے سارے لطیفے مجھ پر صادق اتے۔
سکول کے دونوں استاد شلوار قمیص میں آتے تھے اور اچھے لگتے تھے ۔ میرے مطالعے کا سلسلہ جاری تھا اور والد یا والدہ کے ساتھ شہر جا کر کتابیں اور بچوں کے رسائل لانے کا بھی ۔ کبھی کبھار کوئی موٹر والا کھلونا بھی لے لیتا تھا مگر میری خوشی کتابیں خریدنے ہی میں تھی ۔ ایک بار "اپنا کتاب گھر” پر پینسلیں خریدنے گیا تو نہ معلوم کیوں ایک معمولی لغت بھی خرید لایا ۔ میں نے اسے دیکھنا شروع کیا تو بہت مزہ آیا ۔ میں نے ترتیب سے پڑھنا شروع کی اور کئی روز تک پڑھتا رہا اور مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ کہانیوں سے باہر بھی معلومات کی ایک وسیع دنیا ہے ۔ اس عمل میں مزے کی بات لفظ کے معنی دیکھنے کے بعد ان لفظوں کے معکوس معنی تلاش کرنا تھا ۔ میں ایسا کیوں کر رہا تھا معلوم نہیں مگر اس نے میرے مطالعے کے سلسلے کو اور آسان بنا دیا اور مجھے لگا کہ میں پہلے کے مقابلے میں دور تک دیکھ سکتا ہوں۔