درس گاہ – 7

پکا حاجی مجید کے سکول میں داخلے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ کبھی کبھار سکول جاتے ہوئے یا گھر واپسی کے لیے سواری مل جاتی تھی ۔ میرے والد اور والدہ میاں چنوں شہر جانے کے لیے یہی راستہ اختیار کرتے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جراحی سے گھراٹ جانے والی بینس کی سروس روڈ میں گڑھے کھدے ہونے کی وجہ سے تانگہ چلانا مشکل ہوتا تھا ۔ اگرچہ ہمارے کوچوان ممّو نے گھوڑے کو گڑھوں پر سے لہرا کر نکل جانے کی مشق کرا رکھّی تھی مگر مسئلہ اُس وقت پیش آتا تھا جب اس سڑک پر کسی کار سے سامنا ہو جاتا تھا ۔ تب کسی ایک سواری کا سڑک چھوڑنا ضروری ہو جاتا تھا اور یہ اس لیے بہت مشکل ہوتا تھا کہ سروس روڈ عام سڑک سے کم وبیش دو فٹ گہری تھی ۔ اس موقع پر سرکاری اہل کاروں سے، جو اس سڑک کو اپنی جاگیر جانتے تھے، تکرار لازمی تھی ۔ خاص طور پر جب میرے والد تانگے پر موجود نہ ہوں ۔ عام سواریاں سروس روڈ کا چناؤ نہیں کرتی تھیں مگر جس سڑک یا سڑک نما راستے پر ان کا راج تھا ۔ وہ گزوں دھول اور مٹّی سے اٹا تھا ۔ اس قدر کہ بعض جگہ پر تانگے کے پہیے آدھے سے زیادہ مٹی میں دھنس جاتے تھے اور راہ میں لگنے والے ہچکولوں سے بدن کئی کئی دن دُکھتا رہتا تھا۔
پکا حاجی مجید کی سڑک بہتر حالت میں تھی ۔ اس راہ سے تلمبہ اور میاں چنوں ایک جیسے فاصلے پر تھے یعنی گاؤں سے پورے سات میل یا گیارہ کلومیٹر اور تانگے یا سائیکل پر یہ فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوتا تھا ۔ اکثر اوقات جب تانگہ ہمیں سکول اتار کر شہر کا رُخ کرتا تو پیر سوہارے شاہ شہر جانے کے لیے لفٹ لینے کو سڑک پر کھڑے ہوتے تھے ۔ بعض اوقات وہ یہ کرم فرمائی سائیکل سواروں پر بھی کرتے تھے ۔ وہ بہت بڑے زمیندار تھے اور گاڑی رکھنا ان کے لیے کوئی مشکل امر نہیں تھا ۔ مگر انہیں ان علائق سے نفور تھا۔کیوں؟ اس کی کوئی معقول وجہ میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی ۔ ہمارے پاس ایک پرائیوٹ پشاوری تانگہ تھا ۔ نہایت اعلیٰ سسپینشن
نفیس چمڑے کی سپرنگوں والی سیٹوں اور پاؤں سے دبا کر بجانے والی پیتل کی گھنٹی والا۔سفید برّاق گھوڑا، جس کے بدن پر کہیں کوئی رنگین دھبہ نہیں تھا ۔ ہماری سواری کی پہچان تھا ۔ سو جب یہ تانگہ ہمیں سکول اتارنے یا لینے آتا تھا تو سب اسے دور سے پہچان لیا کرتے تھے۔
کتابوں اور بچوں کے رسائل سے آشنائی نے ایک مسئلہ یہ پیدا کیا کہ جسمانی کھیل کود میں میری رغبت کم کر دی اور نصابی کتابوں میں بھی ۔ دن میں تو درختوں پر چڑھنے، گلی ڈنڈا اور پٹھو گرم کھیلنے کا سلسلہ جاری رہا مگر رات لیمپ کی خُنک روشنی میں دیر تک پڑھنے کی وجہ سے اب میں چُھپن چھپائی کے ساتھیوں سے کٹ گیا تھا۔ گرمیوں میں کھانا اور سونا صحن میں ہی ہوتا تھا ۔ مچھروں سے بچنے کے لیے جالی لگی بانس کی چھڑیوں والی مچھر دانیاں لگائی جاتی تھیں ۔ لیمپ بجھانے پر لالٹین کو مدھم کر کے برآمدے میں لٹکا دیا جاتا تھا تاکہ رات کو ضرورت پڑنے پر لو بڑھا کر کام میں لائی جا سکے۔
رات پڑنے پر آسمان بہت قریب آ جاتا تھا ۔ ستارے اور ان کے سلسلے جانے پہچانے تھے اور جگہ بدلتے رہتے تھے۔ گھر کی ڈیوڑھی سے باہر پیپل کے چھتنار درخت، درخت کم اور طلسمی پہرے دار زیادہ محسوس ہوتے تھے۔درختوں کی اہمیت کئی وجہ سے تھی ۔ تحفظ کے احساس کے علاوہ چولھا جلانے کی لکڑی انہی سے عطا ہوتی تھی ۔ ہوا کے چلنے کی پہلی گواہی یہی دیتے تھے ۔ مجھے حسینی غلام سمجھا جاتا تھا، اس لیے حبس کے دنوں میں گھر والے مجھے ہوا چلنے کی دعا کرنے کو کہتے تھے ۔ تب میں پیپل کے پتوں پر نظر جما کر جو جی میں آئے بُڑبڑاتا تھا اور حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ میرا دل رکھنے کو ہوا چلنے بھی لگتی تھی ۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ملازمین ، میری والدہ اور بہنوں کو ہمیں دستی پنکھوں سے ہوا دینے کے کام سے نجات مل جاتی تھی۔
گھر کے دروازے بھیڑے ضرور جاتے تھے مگر تالابندی کا رواج نہیں تھا ۔ حویلی کا صدر دورازہ بھی ایسی زنجیر سے بند کیا جاتا تھا ، جسے دو انگلیاں ڈال کر آسانی سے کھول لیا جاتا تھا ۔ دیر سے گھر آنے کی مناہی تھی نہ یہ پُرشش کہ اتنی دیر کہاں اور کس کے پاس گزاری ۔ میرے ایک کزن تو اپنی بیگم کے ساتھ اپنے گھر سے باہر کُھلی جگہ پر شب بسری کرتے تھے ۔ مچھردانی لگی چارپائیاں، گھڑونجی پر پانی کا گھڑا، سرہانے میز پر ریڈیو جما ہوا، پائنتی کی طرف ایک آدھ ملازمہ یا کسی بیٹے کا بستر ۔ مجال ہے جو کوئی قریب سے کھانس کر بھی گزر جائے ۔ میں وہاں بھی حاضری دیا کرتا تھا مگر کتابوں میں غرق ہونے کے بعد یہ سلسلہ بڑی حد تک موقوف ہو گیا ۔
میرے سبھی تایا زاد اور دونوں بھائی، عمر میں ہم بہن بھائیوں سے بڑے تھے ۔ وجہ یہ کہ ہم والد کی دوسری بیگم میں سے تھے اور یہ شادی انھوں نے پہلی بیگم کی وفات کے کئی برس بعد کی تھی ۔ دونوں بڑے بھائی شادی شدہ تھے ۔ بلکہ ایک کی شادی تو میری پیدائش سے دس برس قبل ہو چکی تھی اور ان کی مجھ سے نو برس بڑی ایک بیٹی بھی تھی ۔ دونوں سوتیلی بہنیں شادی کے بعد بچوں کو جنم کر فوت ہو چکی تھیں ۔ اس لیے میں وہ ماموں اور چچا تھا، جس کے کئی "بزرگ بھانجے بھتیجے” تھے۔
سو تایا زادوں اور بھائیوں سے جنریشن گیپ کا مسئلہ تھا ۔ زیادہ قربت دور یا نزدیک کے بھتیجوں اور اپنے بھائی بہنوں سے تھی اور اس سے بھی زیادہ کتابوں اور رسائل سے ۔ بچوں کے رسائل کے مطالعے سے پہلی بار مجھ پر یہ راز افشا ہوا کہ عام آدمی کی کہانی بھی لکھی جا سکتی ہے اور اس میں بھی ہماری دل چسپی کا وافر سامان ہو سکتا ہے۔
چوتھی جماعت میں پہنچا تو میرے چھوٹے بھائی کو بھی کچی پہلی جماعت میں داخل کرا دیا گیا مگر اس سے میرے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔تب تک گھر میں گرانڈک کمپنی کا گراموفون اور فلپس کا بیٹری والا ریڈیو آ گیا تھا،جسے بڑے اہتمام سے شب بسری کے لیے لگی چارپائیوں کے سرہانے میز پر سجایا جاتا تھا۔بی بی سی کی سیربین اور سیلون کی بناکا گیت مالا اہتمام سے سننے کے بعد میڈیم ویوو پر لاہور اسٹیشن لگا دیا جاتا تھا اور الم غلم جو دستیاب ہوا کرتا،بجتا رہتا تھا۔اسی رو میں میں نے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ سُنا۔تب میں کوئی نو برس کا ہوں گا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس ریڈیو اسٹیشن سے خود میری آواز اُڑ کر میرے والد کے کانوں تک پہنچے گی اور میرے شاعر ہونے کا راز راز نہیں رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے