درس گاہ – 6

میں پکا حاجی مجید کے پرائمری سکول میں تیسری جماعت میں داخل ہوا تو میری عمر آٹھ برس کے لگ بھگ تھی ۔ ایک بڑی بہن دس برس بڑی تھی، دوسری ڈھائی برس بڑی اور مجھ سے ڈھائی پونے تین برس چھوٹا بھائی مہر طالب حسین، جب کہ تیسری بہن کے پیدا ہونے میں ابھی دو برس کی دیر تھی ۔ طالب حسین کو ابھی سکول میں داخل نہیں کرایا گیا تھا ۔ اس لیے بستی کے ایک دو اور بچوں کے ساتھ میں اور میری منجھلی بہن ہی سکول جاتے تھے ۔ سکول نو بجے آغاز ہوتا تھا اور چُھٹّی تین بجے ہوا کرتی تھی ۔ اس لیے گھر سے سوا آٹھ بجے تک نکلنا پڑتا تھا ۔ واپسی چار بجے تک ہوتی تھی، مگرکچھ دنوں بعد ماسٹر بشیر کے پیر سوہارے شاہ کے گھر اضافی کلاس شروع کرنے پر گھر لوٹنے کا وقت گھنٹہ بھر اور بڑھ گیا ۔ یہ کلاس کیوں شروع ہوئی اور پیر صاحب کی کوٹھی کے لان یا پورچ میں کیوں ہوتی تھی ۔ یہ راز اب بھی راز ہی ہے ۔ کیوں کہ کھگّوں کے اپنے بچّے عام طور پر صادق پبلک سکول بہاولپور میں داخل کرائے جاتے تھے، جہاں وہ انگریزی پڑھتے اور میموں کے ساتھ ان کے گھروں میں رہتے تھے ۔ اس لیے شاہ صاحب کے یہاں اس کلاس کا ہونا بعید از قیاس تھا مگر یہ کلاس ہوئی اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم وہاں ان کے بنگلےکی بھول بھلیوں میں کھیل لیتے تھے ۔ کبھی کبھار پیر صاحب کے نیاز بھی حاصل ہو جاتے تھے اور مہر سجاول خاں کی اولاد ہونے کی وجہ سے شاہ صاحب اور بیگم صاحبہ ہماری آؤ بھگت بھی کرتے تھے۔

کلاس سے فارغ ہونے پر ہم سڑک کے بجائے پگڈنڈیوں اور کھیتوں میں سے گھومتے گھماتے جاتے ۔ سکول جاتے ہوئے تو سبھی بہت بیبے ہوا کرتے مگر واپسی پر ہماری جون بدل جاتی ۔ کبھی شرط بِد کر دوڑ لگ رہی ہے تو کبھی گنّے کے کھیت میں گھُسے ہیں ۔ گنّا چوسنے کے ساتھ اسی گنّے سے گتکا بھی کھیل رہے ہیں ۔ شیشم کا کوئی درخت جی کو بھا گیا تو اُس کا قد ناپے بنا آگے چلناحرام ہو جاتا ۔ یہ مقابلہ جلد ازجلد سب سے اونچی شاخ پر پہنچنےکا ہوا کرتا تھا ۔ میں دبلا پتلا اور پُھرتیلا تھا ۔ اس لیے اس مقابلے میں اکثر سُرخ رُو رہتا مگرجیت ہمیشہ میرے حصّے میں نہیں آتی تھی، خاص طور پر جب مقابلے میں گاؤں کے کسی ہم عمر ایالی(چرواہے) کو شامل کر لیاجاتا ۔ وہ لوگ درختوں کے تنوں پر زمین پر چلنے جیسی سہولت سے چلتے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اُن کے لیے درخت درخت نہ ہوں، ہموار سیڑھیوں والے مالے ہوں۔
واپسی کے سفر میں منہ چلانے کا کام موسم سے مشروط تھا ۔ گنا، شلجم، خربوزے، بیر، مالٹے، آم اور گاجریں جو ہاتھ آیا، ہمارے عصرانے کا حصّہ بنا ۔ کبھی چِبھڑ بھی آزما لیے جاتے تھے اور کسی نے منع کیا نہ گھر شکایت کرنے پہنچا ۔ پانی پینے کے لیے کسی نلکے اور ٹیوب ویل پر دھاوا بولا جاتا تھا ۔ سب جانتے تھے کہ ہم کون ہیں اور ہمیں بھی معلوم تھا کہ راہ میں کس کس کی زمین اور بھینیاں پڑتی ہیں ۔ کہیں کسی گھر میں زیادہ دیر رُک گئے تو شکر کے شربت سے تواضع کی جاتی تھی مگر گھر میں روح افزا کا چلن ہونے کی وجہ سے میری عادت بگڑی ہوئی تھی اور مجھے گھڑے کے شکر ملے پانی سے وحشت ہوتی تھی ۔ اس لیے میری کوشش ہوتی تھی کہ معاملہ پھل کھانے سے آگے نہ بڑھے مگر راہ میں ملنے والی مہربان صورتیں روز ہی کچھ نہ کچھ کھلا پلا کر ہی دم لیتی تھیں ۔ یہ کتنی بڑی بات تھی کہ ہم پڑھ رہے تھے اور ان سب سے الگ کسی اور دنیا کی مخلوق تھے۔
موسم کے اثرات ہماری چرنے کی عادت تک ہی محدود نہیں تھے ۔ زمین اور لینڈ سکیپ کے جمال پر بھی مرتب ہوتے تھے ۔ کبھی سرسوں پھول رہی ہے تو کبھی گندم کی سبز اور پھر سنہری بالیاں ہوا کی لہروں کے ساتھ جھوم رہی ہیں ۔ کہیں لوسن، برسیم، چری، دھان، مکئی اور باجرے کی سبز صفیں ایستادہ ہیں تو کہیں سن کی پھلیاں ہوا سے مس ہو کر جلترنگ بجا رہی ہیں ۔ کماد کے پرے جمے ہیں تو کہیں خربوزے کی بیلیں کیکر کے چھاپوں سے محفوظ کی گئی ہیں اور ان سب کے رنگ موسم کے ساتھ بدل رہے ہیں ۔ کبھی کیکر سونے کے جُھمکوں سے بھر جاتے ہیں تو کبھی کھڑکھڑاتی پھلیوں سے ۔ جنڈ پر سنگر کی بہار اور شیشم پھولنے پر رات کی رانی جیسے ننھے پھولوں کی مہک اس پر مستزاد ۔ کپاس کے پودوں کی روز بروز کایا کلپ منظر ہی کو نہیں آنکھوں کو بھی طراوت دیتی تھی اور اپنے وقت پر سفید سونے سے بھر جاتی تھی ۔ ساون بھادوں میں یہ سبھی رنگ یک جا ہو کر دھنک بن جاتے تھے جو کبھی مشرق سے اپنا دیدار دیتی تھی تو کبھی مغرب سے ۔ سُنا تھا اس پینگھ پر پریاں جھولتی ہیں مگر پریوں کو انسانی روپ سے الگ دیکھنے کی مجھے طلب نہیں تھی ۔ اس لیے میں نے اس روایت پر کبھی یقین نہیں کیا۔
گھر آ کر ہم سب کھیلنے کے لیے نکل جاتے تھے ۔ پٹھوگرم میں نر مادہ کی کوئی تفریق تھی نہ چُھپن چُھپائی میں۔کبڈی اور ککلی بالترتیب مردانہ اور زنانہ کھیل تھے اور "کہانی دربار” اپنی اپنی پسند کے ساتھیوں کے ساتھ لگایا جاتا تھا ۔ بستی میں بجلی نہیں تھی اس لیے اندھیرا ہوتے ہی گھر پلٹنا پڑتا ۔ گرمیوں میں صحن میں لالٹین ٹانگ کر چارپائیاں بچھا دی جاتیں ۔ سب چولھے کے چوکے پر بیٹھ کر رات کا کھانا کھاتے، سوائے میرے والد صاحب کے، جن کی چارپائی کے ساتھ میز لگایا جاتا ۔ انہیں سالن سرپوش میں اور روٹی نئے دستر خوان میں لپیٹ کر دی جاتی ۔ ملازمین کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے کھانا کھانے کے دوران میں دور رہیں ۔ بیوی اور اولاد پر ایسی کوئی قدغن نہیں تھی مگر ہم بھی ان کے استغراق کو توڑنے سے احتراز ہی کرتے تھے ۔ وہ خوش خوراک نہیں تھے بلکہ درویشی طعام کے قائل تھے مگر کھانے کے دوران میں سکون اور کسی حد تک تخلیہ کے روادار تھے ۔ کھانے سے پہلے طویل اور کھانے کے بعد شکرانے کی مختصر دُعا ان کا معمول تھی اور وہ اس پر تاحیات قائم رہے ۔
یہی وقت میرے پڑھنے کا ہوا کرتا تھا ۔ میرے سرہانے ایک تپائی پرلیمپ سجا دیا جاتا تھا اور میں سکول کے سبق کی دہرائی کے بعد الف لیلوی داستانوں میں کھو جاتا تھا مگر مجھے شہزادوں کی عدم فعالیت خوش نہیں آتی تھی ۔ مدتوں بعد اردو غزل سے معاملہ کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ غزل کے روایتی ہیرو کی تن آسانی، گریہ پسندی، مہجوری، مفعولیت اورطرز ِتجاوز سے پرہیز کی کچھ نسبت ہماری داستانوں کے ان معشوق مزاج شاہزادوں سے ضرور ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے