پکا حاجی مجید کے پرائمری سکول سے ملنے والی کتابوں میں زیادہ تر باتصویر کہانیاں تھیں ۔ یہ عام طور پر اسّی صفحے کی کتاب ہوا کرتی تھی ۔ دائیں صفحے پر قصّے کی عبارت اور بائیں صفحے پر اس صفحے کی مطابقت سے لکیری خاکہ ۔ اس کے لکھنے والے کئی تھے مگر مجھے ندیم صہبائی فیروز پوری کا نام اس لیے یاد ہے کہ ان کی لکھی کتابیں، جو نو لکھّا بازار لاہور سے شائع ہوتی تھیں، میں کبھی کبھار میاں چنوں شہر کا چکر لگنے پر مین بازار میں حقّے، چلم، نڑی وغیرہ اور تمباکو کی ایک دکان سے اپنے والد کی مہربانی سےخریدا کرتا تھا ۔ یہ ہر کتاب بارہ آنے کی ہوا کرتی تھی ۔ یہیں سے میں نے بچوں کی دنیا، کھلونا، پھلواڑی اور نونہال جیسے بچوں کے رسائل بھی خریدے اور ایک آدھ بار کوئی اخبار اور ڈائجسٹ بھی مگر یہ واقعہ قدرے بعد کا ہے۔
یہ سبھی کتابیں پریوں اور مظلوم شہزادیوں کے قصوں پر مشتمل تھیں اور درحقیقت مثنوی سحر البیان کی توسیع تھیں ۔ وہی شہزادے کو بارہ برس تک بھورے میں پالنا ۔ ایک دن کے غلط حساب سےمعصوم شہزادے کا بھورے سے وقت سے پہلے باہر نکلنا اور کسی پری کے ہتھے چڑھ کر پرستان پہنچ جانا ۔ پھر کسی شہزادی یا وزیر زادی کا شہزادے کی تلاش میں نکلنا ۔ جنوں بھوتوں سے مجادلے اور معجزاتی شجاعت کے مظاہرے کے بعد شہزادے کی بازیابی اور ہنسی خوشی عائلی زندگی بسر کرنا ۔ یہ تو بہت بعد میں پتا چلا کہ زندگی کی اصل کہانی تو عائلی زندگی کے آغاز کے بعد شروع ہوتی ہے اور زندگی کی تلخ کامی عشق کی حرارت کو چاٹ لیتی ہے۔
اس مختصر ذخیرے میں کچھ اسلامی حکایتیں بھی تھیں اور بچوں کی نظموں کے دو ایک مجموعے بھی مگر جو بات سبز پری یا لال شہزادی میں تھی وہ شمشیر بکف، پھریرے لہراتے، رہوار کی پشت پر اکڑ کر بیٹھے غیض مآب مجاہد میں کہاں ۔ نظمیں بھی ابھی کچھ گونگی سی تھیں اور ان دونوں نعمتوں کا وقت قدرے بعد میں آنے والا تھا۔
اس سکول میں سب کچھ تھا مگر جمال کی آئس کریم نہیں تھی ۔ وہ تلمبہ سے جراحی آتا تھا اور بعد میں ہماری بستی بھی آنے لگا تھا مگر پکا حاجی مجید سکول کے باہر کبھی دکھائی نہیں دیتا تھا اور اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ میاں چنوں تلمبہ روڈ کے بجائے "ککھاں والی سڑک” استعمال کرتا ہو جو نہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور لُہار والی پُل سے جراحی کو مڑ جاتی ہے ۔ اس سڑک سے پکا حاجی مجید دور پڑتا ہے اور ایک سائیکل سوار کے لیے وہاں تک رسائی پانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ یوں بھی ایک کپڑے میں لپٹی سیر دو سیر آئس کریم کو کتنے سکولوں میں بیچا جا سکتا تھا۔
جمال کے عدم موجودگی کے باعث ہم آدھی چھُٹّی کے وقت گاؤں کی اکلوتی دکان کا رخ کرتے ۔ یہ ایک ہندو رام کشن کی ملکیت تھی، جس نے قیام ِپاکستان کے بعد یہاں کی سکونت کو ترک نہیں کیا تھا ۔ برسوں بعد غالباً 1965ء میں اسے خُونی موڑ پر قتل کر دیا گیا (اس قصّے کے حوالے سے میری دو پنجابی کہانیاں "نکّے ہندیاں دا پیار” اور "اک ہور سنتالی” چھپ چکی ہیں). کشن کی دکان پر آئسکریم تو نہیں مگر گولیاں، ٹانگری، مرنڈے، مکھانے اور پُھلیاں مل جاتی تھیں اور ان کے گھر کی طاقچی سے میرے اور میری بہن کے لیے شربت بھی آ جاتا تھا ۔ مجھے یہ جان کر کہ اس شربت کو”ہندو پانی” سے بنایا گیا تھا، بڑی عجیب سی کیفیت کا سامنا ہوتا تھا مگر اس سے شربت کی مٹھاس میں کوئی فرق نہیں آتا تھا اور نہ پیاس کی شدت میں کمی آنے کی حقیقت میں۔
ہر سکول کی طرح اس سکول میں بھی سزا دینے کے کلاسیکل طریقے مرّوج تھے۔ مُرغا بنانا، انگلیوں میں پنسل رکھ کر دبانا، مولا بخش کا استعمال اور جہاز بنا کر دھوپ میں کھڑا کرنا۔ نالائق یا قابو نہ آنے والے طلبہ کو باہمی پٹائی کی سہولت بھی فراہم کی جاتی تھی۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی اس وقت تک تھپڑوں سے تواضع کرتے تھے جب تک ماسٹر صاحب کا جی بھر نہیں جاتا تھا۔ اس کا ایک ہی فائدہ ہوا اور وہ یہ کہ ان طلبہ کی اکثریت بعد میں کبڈی کی کھلاڑی بنی کہ تھپڑ تھراپی کے ذریعے مخالف کی شکل بگاڑنے میں وہ پہلے ہی طاق ہو چکے تھے۔
ایک بار میرے سوا ساری کلاس کو باہمی پٹائی کی سزا دی گئی۔ مجھے حُکم ہوا کہ میں پہلے طالب علم کو پوری قوت سے تھپڑ رسید کروں اور وہ یہ عمل اگلے لڑکے پر آزمائے اور پھر یہ سلسلہ آخری طالب علم تک جاری رہے۔ یعنی اس مار سے محفوظ اگر کوئی تھا تو صرف میں۔ ماسٹر صاحب نے مجھے یہ سلسلہ آغاز کرنے کا حکم دیا تو مجھے کئی طرح کی ہچکچاہٹ کا سامنا تھا۔ ایک تو کسی بھی دوست کو تھپڑ رسید کرنا کبھی آسان نہیں ہو سکتا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میرا ہاتھ بہت بھاری تھا اور کھیل کود میں ساتھی اس امر کی شکایت کرتے رہتے تھے اور تیسری وجہ متوقع مضروب کی آنکھوں میں لکھی التجا تھی، سو ماسٹر صاحب کے اصرار پر میرا تھپڑ ایک چٹکولی سے زیادہ نہیں تھا۔ جسے استاد نے اپنی حکم عدولی جانا اور اس طالب علم کو مجھے تھپڑ مارنے کا حکم صادر فرمایا ۔ یہ تھپڑ مجھے پوری قوت سے پڑا اور آج تک پڑ رہا ہے کہ میں اب بھی ملتجی نگاہوں کی تحریر پڑھتا ہوں اور کسی کو تھپڑ مارنے کی ہمت کم ہی جُٹا پاتا ہوں۔
یہ قصّہ میری بہن کے ذریعے میرے والد صاحب تک پہنچا ۔ وہ اگلے روز سکول آئے اور اس ماسڑ صاحب اور طالب علم کو، اپنی سواری سے اترے بغیر دو دو چابک رسید کر کے چلتے بنے۔ تب مجھے اپنے بڑے بھائیوں کے نہ پڑھنے کی وجہ سمجھ میں آئی۔ میں ڈر گیا اور میرا جی گھر جانے کو نہیں چاہتا تھا مگر وہی ماسٹر صاحب مجھے اپنے سائیکل پر بٹھا کر میرے گھر لے گئے۔کچھ دیر ڈیرے میں رُکے۔والد صاحب کے اُونچا بولنے کی آواز سنائی دیتی رہی۔ پھر مجھے بُلا کر خصوصی پیار کیا گیا اور ماسٹر صاحب گندم کا ایک گٹّو لے کر ایسے ہنستے گاتے روانہ ہوئے جیسے کسی پکنک سے گھر پلٹ رہے ہوں۔
اگلے روز سب کچھ معمول کے مطابق تھا مگر میرے دل پر پڑنے والی چوٹ اب بھی تازہ ہے۔