پکا حاجی مجید اور جراحی کے پرائمری سکولوں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ ایک جیسی عمارتیں اور وہی برآمدے کے بغیر ننگے پجنگے ڈھائی کمرے ۔ پریم اکھشر کی طرح ایک دوسرے میں دھنسے ہوئے ۔ اساتذہ کے لیے اونچی میز اور کرسیاں اور طلبہ کے لیے خواہ وہ کسی طبقے سے ہوں ۔ پٹ سن کے ٹاٹ ۔ گرد سے اٹے ہوئے، جن کی اصلی رنگت شاید اساتذہ کو بھی یاد نہیں ہو گی ۔ یہ ٹاٹ گرمیوں میں کمروں کے اندر اور سردیوں میں باہر دھوپ میں بچھا لیے جاتے تھے ۔ طلبہ کے بستے پرانے اور کبھی نئے کپڑے سے سلے جھولے ہوتے تھے، جس میں تختی کے سوا ہر چیز ٹھونس لی جاتی تھی ۔ کتابیں، سرکنڈے کے قلم، سلیٹ، اس پر لکھنے کے خصوصی چاک، کچّی سیاہی کی دوات جس میں کپڑے کی دھجی ٹھنسی ہوئی اور کسی پرانے سیل سے نکالا ہوا کاربن، تختی پر گل کاری کرنے کے لیے ۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ اس معمول کے جو اس طرح کے سکولوں کا حصہ ہوا کرتا ہے، جیسے سبق کا رٹا لگوانا، پہاڑوں کی گلہ پھاڑتی دہرائی، تختی لکھنا اور سلیٹ پر سوال حل کر کے ماسٹر صاحب کو دکھا کر تھوک سے معدوم کرنا مگر دو باتیں ایسی تھیں جو شاید میرے لیے انوکھی تھیں ۔ ۔پہلی یہ کہ جراحی کے برعکس یہاں طلبہ نادِ ِعلی سُناتے تھے نہ بارہ امام جو منظوم منقبت ہی کی ایک شکل تھے اور ہر بند "ان شالا امداد کریسی لال خاتون اطہر دا” پر ختم ہوتا تھا ۔ نہ ہی یا علی مدد کے نعرے کی تکرار اور دوسری بات محترم کلاس انچارج کا انڈہ نوشی سے اجتناب تھا ۔ ایک اور بات جس کا احساس مجھے بعد میں ہوا مجھ میں حرفوں کی پہچان اور مطالعہ میں روانی کا پیدا ہونا تھا ۔ اس قدر کہ جب اس سکول میں داخلے کے بعد میرے لیے کورس کی کتابیں خریدی گئیں تو حساب کے سوا باقی مکمل کورس میں نے ایک ہفتے میں پڑھ ڈالا اور پڑھا ہی نہیں اکثر چیزیں حفظ بھی ہو گئیں۔
مجھے تب تک معلوم نہیں تھا کہ جراحی، غازی پاندھا اور بستی سنپالاں کا "سرکاری مزاج” اثنا عشری شیعیت ہےاور ہم ، پکا حاجی مجید اور کوٹ برکت علی والے سُنّی ہیں ۔ ہماری بستی کی مسجد میں آبادی کم ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی ۔ سو ہم ہر جمعہ کو بن ٹھن کر کوٹ برکت علی کی شاندار مسجد میں جمعہ پڑھنے جاتے تھے ۔ جہاں لاہور سے درآمد کردہ ایک علاّمہ نستعلیق اردو میں مکھنی پنجابی کا تڑکہ لگا کر وعظ دیا کرتے تھے اور مجھے ان کی گفتگو ویسا ہی مزہ دیتی تھی جیسا مزہ ماں کی سُنائی کہانی میں ہوا کرتا ہے ۔ یہ کوٹ برکت علی، لاہور بیرون موچی دروازہ کے برکت علی خاں سے منسوب ہے جو لاہور کے پہلے مئیر تھے اور جن کی وجہ ِ شہرت برکت علی اسلامیہ ہال ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جراحی کی رسومات سے بے بہرہ تھے ۔ محرم کے آغاز پر ہمارا گھرانہ کم وبیش روزانہ جراحی جاتا تھا ۔ نوحے پڑھے جاتےتھے، مجلس سُنی جاتی تھی مگر ماتم میں ساتھ صرف سینے پر ہلکی علامتی چوٹ سے دیا جاتا تھا ۔ جراحی میں پنگھوڑے، قاسم کی مہندی اور روزِ عاشور پر قیدی بنانے کی رسم بھی ادا کی جاتی تھی ۔ خود مجھے میری ماں کی مانگی ایک منّت کو پورا کرنے کے لیے چودہ برس تک قیدی بنایا جاتا رہا مگر اس سے میرے سمیت کسی کے سُنّی ہونے کا ہرج ہوا نہ کسی پر شیعت کا رنگ چڑھا۔
بات اور طرف نکل گئی، کہنا یہ تھا کہ اس فرق کا اثر طلبہ کے مزاج پر بھی تھا ۔ یہاں طلبہ کو مذہبی حوالے سے کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ سکول آؤ، سبق اور پہاڑے سُناو، سلیٹ پر سوال حل کر کے دکھاو، تختی لکھو اور چلتے بنو۔
جسں کمرے میں میری جماعت بیٹھا کرتی تھی، اس کے کونے میں ایک بڑے میز پر ایک صندوق دھرا رہتا تھا ۔ مجھے ہمیشہ تجسّس رہتا کہ اس میں کون سی سوغات چھپا کر رکھّی گئی ہے ۔ پھر بڑی کلاس کے کسی بچّے نے مجھے بتایا کہ اس میں کہانیوں کی کتابیں ہیں ۔ تب تک میں چھپی ہوئی کہانی سے آ گاہ ہو چکا تھا مگر کتابی صورت میں نہیں ۔ میرے والد جب کبھی ضرورت کی کوئی چیز لینے شہر جاتے تھے تو بعض اوقات کوئی شے اخبار میں لپٹی آتی تھی ۔ اگرچہ مجھ سے بڑے دو بھائی (میرے والد کی پہلی بیگم سے) اور بھی تھے اور ان میں سے بڑے مہر نواب میٹرک تک پڑھے بھی تھے مگر وہ سرکاری ملازمت میں تھے اور عموماً گھر سے دور رہتے تھے جب کہ چھوٹے مہر مراد ان پڑھ تھے ۔ یوں بھی وہ دونوں شادی شدہ اور الگ مکان میں رہتے تھے ۔ اس لیے گھر آنے والے اخبار یا اس کے کسی ورق پر صرف میرا تصرف ہوا کرتا تھا ۔ میں اس اخبار کا ایک ایک لفظ پڑھا کرتا تھا اور اسی کوشش کے باعث میں نے شاید بچوں کے صفحے پر کوئی کہانی پڑھی تھی جو سُنی ہوئی کہانیوں جیسی دلچسپ تو نہیں تھی مگر یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ کہانی تحریری شکل میں بھی ہو سکتی ہے ۔ اب جب مجھے سکول میں موجود کہانیوں کی کتابوں کی مخبری ہوئی تو میں نے اُسی روز اپنے والد کو ان کتابوں تک رسائی کی درخواست پہنچا دی ۔ وہ اگلے ہی روز میرے سکول پہنچنے کے کچھ دیر بعد اپنے کمیت گھوڑے پر سوار ہو کر آئے ۔ میرے کلاس انچارج ماسٹر غلام رسول کو بلوا کر گھوڑے سے اُترے بغیر مدعا بیان کیا اور میری کارکردگی کی مختصر رپورٹ لے کر چلتے بنے ۔ اُس روز چُھٹی سے پہلے علی بابا کا وہ خزانہ اس سکول کی تاریخ میں پہلی بار کسی کے لیے کُھلا اور میں اس دنیا میں داخل ہوا جس سے باہر آنے کا کوئی دروازہ نہیں۔