درس گاہ – 3

پکا حاجی مجید کا ظاہری رنگ جراحی سے بالکل مختلف تھا ۔ یہ بھی کوئی ستّر مربعوں کا موضع ہے جو اسی نام کے ایک بزرگ کے نام سے منسوب ہے ۔ روایت ہے کہ میاں چنوں، میاں شینہ اور پکا حاجی مجید بھائی تھے اور ان میں سے میاں چنوں جو پہلے ڈاکو تھے، حضرت بہا الدین زکریا ملتانی کی ایک کرامت( حضرت بہا الدین زکریا نے میاں چنوں سے پینے کے لیے پانی منگوایا تھا ۔ وہ پانی لے کر پلٹا تو حضرت اگلے پڑاؤ کی طرف کوچ کر گئے تھے ۔ وہ پانی لے کر وہاں پہنچا تو آپ ایک ٹیلے پر خیمہ زن تھے اور ٹیلے کے چاروں طرف دریا بہہ رہا
تھا) سے متاثر ہو کر ڈاکہ زنی سے تائب ہو گئے تھے ۔ ان بزرگوں کا تعلق سنپال قبیلے سے تھا جو راقم کا قبیلہ بھی ہے مگر حیرانی اس بات پر ہے کہ یہاں کے قدیم باشندوں کی اکثریت حضرت بہاء الدین زکریا کے سلسلے میں بیعت نہیں بلکہ حضرت موسیٰ پاک شہید کے سلسلے کی بیعت ہے ۔ اس علاقے میں ہر دو خاندانوں کی جاگیریں ہیں اور وہ یہاں کی سیاست پر حاوی ہیں ۔ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔
موضع پکا حاجی مجید میں ہماری بستی (بستی کبیر سنپال) اور پاندھوں کے دو ایک مربعے نکال کر بقیہ زمین کھگّہ فیملی کی ملکیت ہے اور ایک ہی خاندان کی ۔ اس گاؤں کی ملکیت متعدد بھائیوں پیرسوہارے شاہ، پیرعبدالرحمان شاہ، پیرعبداللہ شاہ، پیرغلام رسول شاہ اور پیرعبدالعزیز شاہ وغیرہ کے نام تھی اور ان میں سب سے زیادہ معروف پیرسوہارے شاہ تھے جو وہنی وال (خانیوال) کے مسلم لیگی رہنما پیر بڈّھن شاہ کے داماد تھے ۔ جراحی کے سیّدوں کے برعکس یہاں سادگی کا راج تھا ۔لشٹم پشٹم نام کو بھی نہیں تھی ۔ ملنے جلنے، کھانے پینے اور لباس میں کوئی ایسی ندرت نہیں تھی جو ان کے بڑے زمیندار ہونے کی علامت ہو اورشرعی عیبوں سے دوری کا رنگ بھی نمایاں تھا ۔ حیرت ہوتی تھی کہ یہ سادگی طبیعت کے استغنا کے باعث بے یا دستِ عطا کی بندش کے نتیجے میں ۔ ایک مدت گزرنے پر مجھے احساس ہوا کہ عوام کی رائے میری بات کے دوسرے حصے کے حق میں ہے۔
پیر سوہارے شاہ کی جہازی کوٹھی گاؤں سے کم و بیش باہر تھی اور اس مزاج اور شہری طرز کا بنگلہ اس پورے علاقے میں کوئی اور نہیں تھا ۔ سُنا تھا کہ یہ بنگلہ دلھن والوں کی شرط پوری کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس میں سرونٹ کوارٹرز، گیراج، لان، ڈرائیو تھے اور بیڈ رومز کے مابین لمبی گیلریوں اور غلام گردش کی وجہ سے یہ ہمارے لیے کھیلنے کی جنت تھی ۔ شاہ صاحب کی عنایت تھی کہ انہوں نے ہمیں اپنے یہاں ادھم مچانے سے کبھی روکا نہیں ۔ ان کے ایک ہی صاحب زادے خالد شاہ تھے اور ایک بیٹی مگر انہیں شاید پڑھنے کے لیے کہیں باہر بھیج رکھا تھا۔اس لیے ان کے دیدار کم ہی ہوتے تھے۔
ہم اور گاؤں کے کچھ اور بچے سکول کے بعد شاہ صاحب کے لان میں "ٹیوشن” لیتے تھے اور کبھی کبھار ان کے نیاز بھی حاصل ہو جاتے تھے ۔ وہ میرے والد کے قدردان تھے اور بطور لائی (ستھّی) ان کے کیے فیصلوں کو سراہتے تھے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ خود میری تعریف کرنے میں بھی بخیل نہیں تھے ۔ ایک بار ان کے کسی سوال کا جواب دینے پر انہوں نے عجیب حسرت سے کہا تھا "اگر تم میرے بیٹے ہوتے تو میں تمہیں لندن میں پڑھاتا” .یہ بات الگ کہ ان کی یہ بات مجھے اپنے والد کی توہین محسوس ہوئی تھی اور میں نے کہہ بھی دیا تھا کہ یہ کام میرے والد خود بھی کر سکتے ہیں مگر اب سوچتا ہوں کہ شاید اس جملے کے بین السطور معنی کچھ اور تھے۔
خیر گورنمنٹ پرائمری سکول ان کے گھر کے سامنے سے گزر کر گاؤں کے آخر میں تھا ۔ بستی سے یہاں پہنچنے میں آدھا پون گھنٹہ تو لگ ہی جاتا تھا ۔ گھر سے نکل کر پہلے جنوب کی طرف چونہہ سڑکوں تک آتے، وہاں سے مغرب کا رخ کر کے پیر شینے اور پھر پکا حاجی مجید تک جنوب کو اور پیر سوہارے شاہ کی کوٹھی سے دائیں مڑ کر سکول ۔ یہ سڑک کا راستہ تھا ۔ درخت کم تھے اور دھول بہت ۔ اس لیے ہم اس طوالت کو کم کرنے کے لیے گاؤں سے نکلتے ہی کھالے کی پگڈنڈی پکڑ کر بھاؤ مراد کی بھینی پر آتے ، وہاں سے کھیتوں کو بیچ میں سے چیرتے ، پاندھوں اور کھگّوں کے مربعوں میں سے گزر کر پکا حاجی مجید کے پُل پر اور وہاں سے سیدھے سکول ۔ راستے میں باغوں اور جنگلی پودوں کے پھلوں پر منہ مارتے ، موسم آنے پرجنڈ کے سنگر تک کا مزہ لیتے یہ سفر ایک مستی بھری روانی میں جاری رہتا ۔ ہاں اس میں خرابی بارش ہونے پر پیدا ہوتی جب زمین پھسلواں ہو جاتی اور کھیتوں سے گزر کر راستے کو مختصر کرنا ممکن نہ رہتا۔
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے