درس گاہ – 2

جراحی بلکہ موضع جراحی کے نام کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں۔یہ، کوٹ برکت علی، پکا حاجی مجید،اور غازی پاندہ ایسے موضعے تھے جن میں بڑے زمینداروں کی اکثریت تھی ۔ جراحی کا موضع کوئی ساٹھ ستّر مربعوں (ایک مربع=پچیس ایکڑ) پر مشتمل ہو گا اور شاید کشنے والے کھوہ(جو اب بودلہ فارم کہلاتا ہے)کے سوا شیرازی سیّدوں کی ملکیت تھا اور ان مالکان میں پیر برکت علی شاہ،غلام رسول شاہ اور محب شاہ خصوصیت سے لائقِ ذکر ہیں۔میرے والد کی ان تینوں خاندانوں سے قربت تھی اور ان کے سبب سب ہم بہن بھائیوں سے اپنے بچوں کا سا سلوک کرتے تھے۔
پیر برکت علی شاہ نسبتاً بڑے زمیندار تھے، شنید تھی کہ وہ موضع میں چالیس مربعوں کے مالک ہیں ۔ ان کی چار بیگمات چار الگ الگ محل نُما کوٹھیوں میں رہتی تھیں اور وہ اپنی تیسری بیگم نوراں (نور جہاں) کے ساتھ رہتے تھے جو جلال وجمال کا مرقع تھیں اور ان کے وقار اور بردباری کو ان کی بادشاہت زیب دیتی تھیں ۔ وہ میری والدہ کے بہت قریب تھیں ۔ اس لیے ہم انہیں ماسی کہتے تھے اور سمجھتے بھی تھے اور وہ بھی ہم بھانجے بھانجیوں کی ضرورت سے زیادہ آؤ بھگت کرتی تھیں ۔ ان کے یا ہمادے گھر دعوتیں اور نشتیں تو خیر ہوتی ہی رہتی تھیں ۔ میرے پاس ہونے پر مجھے سونے کی انگوٹھی تحفے میں دینے کا رواج بھی انھی نے ڈالا ۔شاید اس لیے کہ میں پڑھنے میں جی لگاؤں اور اس کا سبب شاید یہ تھا کہ شاہ صاحب کے پانچ صاحب زادوں (اور یہ پانچوں دوسری بیگمات میں سے تھے) میں سے کسی نے بھی تعلیم میں دل نہیں لگایا تھا ۔ تب وہ سبھی بھرپور جوان تھے ۔ ایک کے سوا سب کنوارے تھے اور ہر اس شغل میں مگن تھے جو کسی جاگیر دار فیملی کی شناخت ہوتا ہے مگر میرے والد کی جی سے عزت کرتے تھے اور ہمیں اپنے بہن بھائیوں سے بڑھ کر چاہتے تھے اور ہمارے لیے بھی وہ نواب ، مراد (میرے بڑے بھائی) سے کم لائقِ عزت نہیں تھے۔
پیر محب شاہ کی بیٹی میری بڑی بہن کی سہیلی تھی اور بیٹا سید حسن شاہ عرف ادّھم شاہ میرا ہم عمر اوربے تکلف دوست ۔ اس لیے گمان تھا کہ میں پانچویں جماعت تک جراحی ہی میں پڑھوں گا ۔ پہلے ہی برس کے اختتام تک وہ انڈہ نوش استادِ محترم، جن کا نام اب میرے ذہن سے اتر گیا ہے(مگر اس آئس کریم والے کا نام مجھے یاد ہے کہ جمال تھا) گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیں گھر پر پڑھانے کے لیے بھی آنے لگے تھے ۔ سب ٹھیک چل رہا تھا اور میری ماں کا ٹبے پر آ کر شربت پلانے کا وظیفہ بھی جاری تھا کہ کسی نامعلوم وجہ سے میرے والد نے مجھے اس سکول سے اٹھا لیا اور مجھے بلکہ ہم دونوں بھائی بہن کو گورنمنٹ پرائمری سکول پکا حاجی مجید میں تیسری جماعت میں داخل کرا دیا۔اب سوچتا ہوں تو اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ جراحی کے لیے ہماری بستی سے کوئی سیدھی سڑک نہیں تھی اور پکا حاجی مجید تک جانے کی دو کچی مگر باقاعدہ سڑکیں موجود تھیں ۔ یہ الگ بات کہ وہاں پڑھنے والے ہم سب بچے اچھلتے کودتے فاصلہ گھٹانے اور بعض اوقات بڑھانے کے لیے کھیتوں میں سے ہو کر جاتے تھے، جس سے کم ازکم آدھ میل کا فرق تو پڑتا ہی تھا ۔ راہ میں بیریوں سے بیر چُن کر کھانے اور پاندھوں کے ڈیزل انجن والے کُوکُو کرتے ٹیوب ویل پر پانی پینے کا مزہ ہی الگ تھا۔
ہاں اس طرف نکلنے کا نقصان یہ ہوا کہ ماں کے بنائے شربت کی ترسیل رک گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے