درس گاہ – 27

سجاول لاج میں قیام کے دوران میں گرمیوں کی تعطیلات ہم اپنی بستی میں گزارتے تھے۔وہیں کھا پی کر پیپل کے نیچے اپنا بستہ بکھیر کر چھٹیوں کا کام نبیڑتے ہوئے کبھی پینگھ جھوٹ لی،کبھی بہن بھائیوں اور دیگر عزیزوں کے ساتھ لُڈّو کھیلی اور کبھی حق نواز کے ساتھ شطرنج کی بازی لگتی۔نویں جماعت میں تھا جب میں چالیس روپے میں شہر کے ایک بُک سٹور سے ایک لکڑی کے باکسز والا نفیس کیرم بورڈ خرید لایا تھا۔اس کے بورڈ بھی جمائے جاتے کہ آہستہ آہستہ تمام کُنبہ اس میں طاق ہو گیا تھا۔یہ بورڈ برسوں موجود رہا اور علاقے بھر کے دوست احباب کھیلنے کے لیے آتے رہے۔
تعطیلات میں شہر سے رابطہ بحال رہتا تھا۔کام اور کام کے بغیر بھی میں دوستوں سے ملنے کے لیے دوسرے تیسرے روز تانگہ جوت کر ممّو ماچھی اور کبھی خادم شرنائی کے ساتھ شہر چلا جاتا تھا۔ایسے ٹور میں عام طور پر تانگہ ماسٹر عبدالحق کے دروازے پر کھول دیا جاتا تھا،وہاں ملازم کو بیٹھنے کا ٹھکانہ مل جاتا تھا اور مجھے آوارہ گردی کی آزادی۔ٹھکانے تو اور بھی بہت تھے مگر ماسٹر صاحب کی عینک زدہ غصیلی آنکھوں اور میری تعلیمی حالت پر تند و تیز سوالات کی بارش کے باوجود وہی ایک جگہ ایسی تھی جہاں بے کھٹکے براجمان ہوا جا سکتا تھا۔میں ہی نہیں گھر کے سب افراد ماسوائے ابّا جی کے براجمان ہوتے بھی تھے اور شاید وہاں ہماری آمد کا انتظار کیا جاتا تھا مگر یہ ایک ناپختہ وہم تھا اور اب بھی ایک ناپختہ احساس ہی ہے۔
میٹرک کے امتحان قریب آ گئے تو دوستوں میں مقابلے کی فضا پروان چڑھنے لگی۔پہلے میں اور غلام حیدر وائیں کے بھانجے ظفر نے دو رُکنی گروپ بنایا اور لیڈیز پارک (اب چلڈرن پارک)میں جا کر پڑھنا شروع کیا جہاں سایہ دار درختوں اور پھولوں کی بہتات تھی۔پھر ممتاز کے ساتھ جوڑی بنی اور میرے گھر پر بیٹھک جمنے لگی۔موصوف اس قدر جُنونی نکلے کہ الجبرا کے کورس میں شامل 114 پرابلمز کو ہر روز دُہرانے پر اُتر آئے۔شاید اسی کا ردّ ِعمل تھا کہ بعد میں مَیں اپنی تعلیمی زندگی میں صرف آخری دو تین مہینے ہی کورس کی کتابوں پر مہربان رہا اور میٹرک میں ریاضی میں میری شاندار کامیابی اس مضمون میں میری آخری کامیابی ثابت ہوئی۔

میٹرک کا نتیجہ میری توّقع کے برعکس تھا۔مجھے سکول میں اوّل آنے کی آرزو تھی مگر یہ ممکن نہیں ہو سکا۔یہی نہیں کم وبیش میرے سب دوستوں کے نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔ہمارے سیکشن(C) کا رزلٹ حیران کن تھا۔پچاس طلبہ میں سے چالیس سے زیادہ کی فرسٹ ڈویژن آئی تھی۔میرے نمبر بھی اتنے بُرے نہیں تھے کہ کسی اچّھے کالج میں داخلہ نہ مل سکتا۔سکول میں ظفر کی پہلی اور شاکر کی دوسری پوزیشن تھی اور کہیں آٹھویں دسویں نمبر پر ہم بھی تھے. سنپالوں میں سائنس کے ساتھ اچھی فرسٹ ڈویژن کے ساتھ میٹرک پاس کرنے کی یہ پہلی مثال تھی تاہم میں اپنے رزلٹ سے مطمئن نہیں تھا اور اس تعلیمی نظام کا پینتیس برس حصّہ رہ کر آج بھی میں اچھّے بُرے نمبروں کو محض اتفاق جانتا ہوں۔آپ وہاں کیا کریں گے جہاں پانچ ممتحن ایک ہی جوابی کاپی کو سینتیس سے تہتّر نمبروں کا حق دار قرار دیں۔یہ تجربہ میں صدر ممتحن کی حیثیت میں کر چکا ہوں۔جب میں نے پانچ ممتحن حضرات کو انٹر میڈیٹ اردو کی ایک ہی جوابی کاپی کی فوٹو سٹیٹ فراہم کر کے مارکنگ کرائی اور درج ِ بالا نتیجہ پایا۔
اس ضمن میں ایک اور واقعہ بھی شاید میری بات کی تصدیق کے لیے مناسب ہو۔ملتان میں سنٹر مارکنگ کے دوران میں میری نشست دوسرے نمبر پر تھی۔کل چھے ممتحن تھے اور ہر ممتحن ایک سوال مارک کر رہا تھا۔پرچہ مارک ہو کر اسسٹنٹ کے پاس جاتا تھا اور وہ ٹوٹل کر کے اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔اس زمانے میں کسی موضوع پر مضمون لکھنے کے تیس نمبر تھے۔اتفاق سے پہلے ممتحن نے یہی سوال مارک کیا اور اگلے سوال کی مارکنگ کے لیے پرچہ مجھے بھجوا دیا۔انہوں نے مضمون کے اکیس نمبر دے رکھے تھے۔میں نے طالب علم کی استعداد کا اندازہ کرنے کے لیے مضمون پر سرسری نظر ڈالی تو ایک دلچسپ بات دریافت کی،سو میں نے اپنا سوال مارک کرنے کے بجائے پرچے کو نظر ِثانی کے لیے پہلے ممتحن کو لوٹا دیا۔انہوں نے دو نمبر بڑھا کر پرچہ لوٹا دیا۔میں نے پھر واپس بھیجا تو انہوں نے پھر دو نمبر بڑھا دیے۔جب میں نے یہ گُستاخی تیسری بار کی تو وہ ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ اگر اُمیدوار میرا سگا بھائی ہے تب بھی وہ مزید نمبر بڑھانے سے معذور ہیں۔تب میں نے عرض کیا کہ صاحب اگر یہ طالب علم میرا بھائی بھی ہے تو صفر نمبر کا حقدار ہے۔اس لیے کہ اُس نے جو مضمون لکھا ہے اور جس کاوش پر آپ پچیس نمبر دے چُکے ہیں،اُس موضوع پر مضمون لکھنے کے لیے کہا ہی نہیں گیا۔

اُس وقت تک میاں چنوں میں کالج کا وجود نہیں تھا۔خُدا بخش آسی صاحب کی جگہ میرے والد کی سفارش سے کچھ عرصہ ثاقب صاحب ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے مگر اب پھر آسی صاحب ہیڈ ماسٹر تھے اور کالج پراجیکٹ کے انچارج بھی۔وہ کبھی میرے استاد نہیں رہے مگر ان کے اچھے منتظم ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا۔میرے احباب میں سے کچھ لاہور کے لیے پر تول رہے تھے مگر اکثریت کی رائے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے حق میں تھی۔میں تو لاہور جانے کے خواب دیکھ رہا تھا مگر میری ماں کو میرا وہاں جانا منظور تھا نہ باپ کو۔اپنے لاہور کے اکلوتے آزاد پھیرے میں مَیں گورنمنٹ کالج کو گھوم پھر کر دیکھ چکا تھا اور شہر میں صاحب ِجمال لوگوں کے پرے بھی۔پھر بھی ماں کا دل رکھنے کے لیے مجھے ساہیوال میں داخلے کے لیے ہاں کرنا پڑی۔اس میں ایک کشش اس لیے بھی تھی کہ میں جب چاہے ایک روپیہ دس آنے خرچ کر کے ڈیڑھ گھنٹے میں گھر آ سکتا تھا۔اپنی بستی کا چکّر لگا سکتا تھا اور شہر کی گلیوں کی خاک چھان سکتا تھا۔جہاں خاک چھاننے کی روایت تو نہیں تھی مگر کسی روایت کی بنیاد رکھنے کا شرف لکیر پیٹنے سے افضل ہوتا ہے اور کیا بُرا تھا اگر یہ فضیلت میرے حصّے میں آتی

درس گاہ – 26

سٹیفن ہاکنگ نے”وقت کا سفر”میں کونیاتی وقت کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے۔اس کا تجربہ آج بھی شہر اور دیہات کی زندگی کے تقابل سے کیا جا سکتا ہے۔ساٹھ کی دہائی کے وسط میں دن لمبے تھے یا ہم انہیں کسی جادوئی قوّت سے کھینچ کر لمبے کر لیتے تھے،معلوم نہیں مگر سکول،مطالعے،دوستوں کے ساتھ محفل آرائی،کھیل کود اور بھائی بہنوں کے ساتھ دھما چوکڑی مچانے کے باوجود بہت سا وقت بچ رہتا تھا جس کا کوئی مصرف سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
ادبی کتابوں میں غرق رہنے کی وجہ سے مجھے اس نوع کی فرصت سے معاملہ کرنے میں دقّت نہیں تھی۔پھر بھی تبدیلی کی ضرورت تو رہتی ہی ہے۔اسی جبّلی خرابی نے آدم کو جنت سے نکلوایا اور من و سلویٰ سے محروم کیا۔سو ہم بہن بھائی بھی تبدیلی کی خاطر کبھی سنیما چلے جاتے تھے۔دلیپ کمار کی”آن”اور رتن کمار کی”بہت دن ہوئے” وغیرہ اسی فرصت کے خلا کو پاٹنے کے لیے دیکھی تھیں اور بہت سی پاکستانی کلاسک تصویریں مگر مشکل یہ تھی کہ نشاط سنیما شہر کے مشرقی کنارے پر تھا اور ہم مغربی سرحد کے آس پاس۔اس لیے اکیلے جانے کی اجازت ملتی نہیں تھی اور بڑے بھائی قابو میں کہاں آتے تھے؟ ابّا جی نے کبھی سنیما جانے کا سوچا نہ کھوپڑی کُھلنے کے ڈر سے اُن سے اس سلسلے میں بات کی جا سکتی تھی۔سو اس ضمن میں اگر کوئی امید تھی تو ماسی نوراں سے تھی اور وہ کبھی بر بھی آتی تھی۔
معلوم نہیں ہماری طلب رنگ لائی کہ تقدیر نے کروٹ لی کہ ایک کچّی ٹاکی سنیما”ناز”کے نام سے ریلوے پھاٹک کے سامنے ہمارے گھر کی بغل میں کُھل گیا۔اس کی بیرونی چاردیواری اور سکرین بغیر چھت کے تھی اور ہمارے گھر کی چھت سے پردے پر دوڑتی تصویریں دکھائی دیتی تھیں اور اگر اپنی چارپائی پر لیٹ کر کان ادھر لگائے جاتے تو سارے مکالمے بخوبی حفظ ہو سکتے تھے۔اس طرح ایک مفت کی تفریح ہاتھ آئی جو اس وقت اور ہی رنگ میں ڈھل گئی جب دونوں سینماؤں میں ناظرین کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے مقابلے کی دوڑ شروع ہو گئی۔پہلے دو اور پھر تین فلمیں لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ تفریح سہ لسانی ہوا کرتی یعنی ایک انگلش،ایک اردو اور ایک پنجابی فلم پر مشتمل۔اغاز میں مرکزی فلم اردو اور دو ایک برس بعد پنجابی ہوا کرتی اور ہم اپنی چھت پر سہ لسانی جمال کُشائی کا مزہ لیا کرتے کہ میرے چھوٹے بھائی نے یہ حقیقت”دریافت”
کر لی کہ تین فلمیں دیکھنے والوں کی تعداد پانچ فی صد سے زیادہ نہیں اور اکثریت پہلی یا دوسری فلم دیکھنے کے بعد گھر کی راہ لیتی ہے سو ہمیں جب سہولت سے باہر جانے کا موقع ملتا ہم سنیما میں گُھس جاتے اور مفرور ہونے والے فلم بینوں سے ٹکٹ مانگ کر اپنی پسند کی فلم دیکھ لیتے۔اس سہولت سے حقیقی فائدہ تب اُٹھایا جاتا جب کسی مہمان کو آدھی رات کی کسی گاڑی سے کہیں جانا ہوتا۔مطلوبہ ٹکٹوں کا انتظام کر کے مہمان کو سینما لے جایا جاتا اور آدھی رات کے بعد سینما سے سیدھا پلیٹ فارم پر پہنچا دیتے۔وہ ہنستے کھیلتے اپنی منزل کا اور ہم گھر کا رُخ کرتے اور جاگنے کی بے زاری سے بھی محفوظ رہتے۔
اس کے باوجود سکول کے اچھے طلبہ سے نسبت برقرار تھی اور اساتذہ بھی ہم سے مایوس نہیں تھے۔ماسٹر مختار سے اب دوستی ہو چلی تھی اور ماسٹر عبدالحق سے گھریلو مراسم بن گئے تھے۔وہ ہمارے اور ہم ان کے گھر آتے جاتے رہتے تھے اور ان کی بیٹیاں میری بہنوں ہی کی نہیں میری بھی دوست بن گئی تھیں۔آصف کے یہاں بھی بہت آنا جانا رہتا تھا اور وہ لوگ شہر اور گاؤں میں کسی تقریب کے بغیر ہمارے ہاں آتے رہتے تھے۔میرے پاس گاؤں آنا تو ایک لحاظ سے شہر کے سبھی دوستوں کی پکنک تھی اور کیوں نہ ہوتی؟میری ماں کے ہاتھ کا پکایا مرغ،بھاگن مچھانی کے ہاتھ کی لگی تندوری روٹی،سرسوں کا ساگ،مکھن اور بیسیوں دیہاتی سوغاتیں شہر میں ملتی کہاں تھیں؟ اس پر اپنے ہاتھ سے آم،جامن،بیر اور گنّے توڑ کر کھانے کی سہولت اور پڑھاکو ہونے کے باعث بستی کے ہر باشندے کی آنکھوں میں تکریم کی جھلک۔وہ جاگتے میں خواب نہ دیکھتے تو اور کیا کرتے اور وہ کیا خواب تھا کہ اب بھی ٹُوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

طالب نے دو چار بار ڈنڈا ڈولی ہو کر سکول پہنچنے کے بعد اسے تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا تھا اور چل نکلا تھا۔میں دسویں میں تھا تو وہ چھٹی جماعت میں پہنچ گیا تھا اور اب ہم ایک ہی سکول میں تھے۔تسلیم پھیری والوں سے اپنی توتلی زبان میں”آلو بارے”خریدنے لگی تھی۔ہم بھائی کچھ دیر ابّاجی کے ایک جاننے والے پُلسیے کے ساتھ اپنے ہی گھر میں”ادائی مہمان”کا تجربہ کر کے دوبارہ پرانے ڈھنگ سے شہر میں رہنے لگے تھے۔میں اب بھی پاجامہ قمیص ہی پہنتا تھا مگر اب بودے بنانا اور استری کیے ہوئے کپڑے پہننا روا ہو گیا تھا۔قد کاٹھ تو کچھ زیادہ نہیں تھا مگر اندر ہی اندر چڑھنے والی پرتیں گنتی سے باہر ہو چلی تھیں۔پھولوں کے نرم ریشمی لباس اور کھلکھلاتے رنگ خواہ وہ کہیں بھی ہوں،اب دکھائی بھی دینے لگے تھے اور لُبھانے بھی۔لبِ خنداں ہو کہ چاہِ زنخداں کہ پیشانی پر دمکنے والا چاند۔سب کی تاثیر کُھل رہی تھی۔مردانہ وجاہت اور نسائی جمال کی دُنیا سے تعارف تو داستانوں اور ناولوں کے پَنّوں پر ہو چکا تھا مگر اب وہ اپنے اردگرد اور موجود میں پھیلی نظر آنے لگی تھی۔یہی وقت تھا جب میں نے ساحر کے تتّبع میں نظموں کی کتاب لکھی اور عدم کے رنگ میں غزلوں کے دو دیوان مرتب کیے۔یہاں یہ بتانے میں کوئی ہرج نہیں کہ عدم سے مجھے”غازی کے سنپال”کے فلک شیر سنپال نے متعارف کرایا تھا اور میں نے عدم کی بیسیوں کتابیں ڈھونڈ کر پڑھی تھیں اور اس کا خراباتی رنگ مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔
کہتا ہے کون عمر ِ رفتہ لَوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی میں اُٹھا کے لا

تخلیق ِ کائنات کے دل چسپ جُرم پر
ہنستا تو ہو گا آپ بھی یزداں کبھی کبھی

آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خُدا موجود ہے

ساحر،عدم اور اختر شیرانی میرا پہلا عشق تھے اور شاعری سےمیری دلچسپی بڑھ رہی تھی۔میں نے شعر لکھنا آغاز کر دیا تھا مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ شاعری کے اوزان کیا چیز ہیں اور عروض کس چڑیا کا نام ہے؟میں شہر کے کسی صاحب ِذوق کو نہیں جانتا تھا اور نہ ہی اپنا بے وضع”الہام”کسی پر ظاہر کیا تھا۔میری بڑی بہن نسیم اختر کو ہم سب کی ٹوہ میں رہنے کی عادت تھی۔کسی طرح میرے کاغذ کالے کرنے کا راز اُس پر کُھل گیا اور شاید اُسی کی عنایت سے بات ابّاجی تک جا پہنچی۔ابّاجی کی رائے شاعروں کے ضمن میں بہت خراب تھی سو مجھے گوشمالی اور حرف ِ نصیحت کے لیے پیر ثنا اللہ بودلہ کے حضور پیش کیا گیا۔وہ خلاف ِتوقع بہت محبت سے پیش آئے۔ہم نے مطالعے کے حوالے سے اپنے خیالات سانجھے کیے۔پھر اُن کے اصرار پر میں نے اپنی”غزل”سُنائی تو وہ مجھے پہلے سے بھی زیادہ دلچسپی سے سُننے لگے اور کہا کہ مجھے آہنگ کا شعور ہے مگر الفاظ کے تلفظ کے حوالے سے خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔میرے کئی شعر وزن میں تھے اور جو نہیں تھے وہ درست تلفظ سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے تھے۔انہوں نے مجھے شاعری کو درست تلفظ کو سمجھ کر پڑھنے کی صلاح دی اور اجازت دی کہ اگر میں اپنی تعلیم پر پوری توّجہ دینے کے بعد کبھی وقت نکال سکوں تو شعر کہہ لیا کروں مگر اس شغل کو کسی صورت اپنی تعلیمی پیش رفت پر غالب نہ آنے دوں۔
اسی زمانے میں مجھے شہر کے ایک نامی کبابیے شمیم اکبر آبادی کے شاعر ہونے کی خبر ملی مگر مجھے اُن سے بس کبابی نسبت ہی خوش آئی۔میں نے انہیں اپنے شاعر ہونے کا بتایا نہ ان کی کلاسیکی آہنگ میں رچی غزلیں سُنیں۔اُن کی غزل کے ہر مقطع میں” شمیم ِزار”یا "شمیم ِخستہ تن”کی تراکیب آتی تھیں جو چار برس بعدمیرے”مستند شاعر”قرار پانے اور تلمبہ کے شاعر دوستوں کے ساتھ موصوف کی دکّان پر کباب کھانے کے لیے جانے کے دنوں میں ہم پر ظاہر ہوئیں اور میں نے ایک”خودی نامہ”میں انہیں اس طرح "نذرانہء عقیدت” پیش کیا۔
کبھی تانا کبھی پیٹا خودی کا
کُھلے گا دیر تک ریٹا خودی کا
بہت دن سے کبابوں میں مگن ہے
شمیم ِ خستہ تن بیٹا خودی کا

درس گاہ – 25

اس علاقے کی راٹھ قومیں سنپال،کھگّے،سیّد(گیلانی اور شیرازی) قریشی،ہراج،سہو،کھکھ،پادھے،بودلے اور خاکوانی ہیں۔جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں۔اُس وقت جراحی میں پیر برکت علی شاہ،محبّ شاہ،چن پیر شاہ،ریاض حسین شاہ اور غلام رسول شاہ معروف تھے اور پیر برکت علی شاہ کے پانچ صاحب زادے سیّدحسن،تقی شاہ،باقر شاہ،رضا شاہ اور مراتب شاہ جو اپنے نام سے زیادہ اپنے لقب”نوّاب”سے معروف ہوئے۔کوٹ برکت علی خاں میں لیاقت علی خان،عبدالحمید خان،ذوالفقار علی خان اور افتخار علی خان۔پکّا حاجی مجید میں پیر سوہارے شاہ،عبدالعزیز شاہ اور ان کے صاحب زادے محمد شاہ،عبدالرحمان شاہ(ذیلدار)،غلام رسول شاہ وغیرہ۔غازی پاندھا میں راج محمد پاندھا۔بستی سنپالاں میں مہر پہلوان،مہر اللہ یار،مہر احمد یار،مہر جان محمد اورمہر وریام۔کھکھوں میں مہر وریام ککھ اور قریشیوں میں پیر ظہور حسین قریشی کی دھوم تھی اور دس چک کے گیلانی تو ملتان سے نسبت کی وجہ سے معروف تھے ہی یعنی پیر شوکت حسین گیلانی اور پیر رحمت حسین گیلانی۔ان راٹھوں کے بیچ جائداد اور سیاسی جتھے بندی کے لحاظ سے ہم پدّی کی مثال تھے مگر میرے دادا اور پھر والد کی ذکاوت کے باعث ہم برابر تُلتے تھے اور ہماری حیثیت بتّیس دانتوں میں زبان کی تھی جو چلتی ہے مگر دانتوں کے دباؤ میں نہیں آتی اور آ جائے تو پورے منہ کو ناکارہ کر دیتی ہے۔
ہراج ہم سے فاصلے پر تھے مگر ان سے بھی نسبت تھی اور کافی گہری۔میں ذرا گھومنے پھرنے کے قابل ہوا تو میرے والد نے مجھے مختلف زمینداروں کی طرف شادی غمی پر بڑے بھائیوں کے ساتھ بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا۔یہ ایک طرح سے ان خاندانوں میں میرے اور مجھ سے چھوٹے بھائی کے تعارف کا آغاز تھا۔کئی جگہوں پر میں نے ملازم کے ساتھ جا کر بھی حاضری دی۔یہ سب بزرگ ہمارے چچا اور ان کی اولادیں ہماری بھائی کہلائیں اور ہم نے سب کو جھک کر،گھنٹے چھو کر تعظیم دی جو ہماری اخلاقی روایت کا حصّہ ہے۔یہی وجہ ہےکہ آج ان کی اولادیں یہی تعظیم ہمیں دیتی ہیں۔اپنی تہذیبی روایت سے میں نے ایک راز کی بات یہ جانی کہ دوستی وہی اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے جس کی جڑیں گھر کی ڈیوڑھی کے اندر ہوں۔بیگمات اور بچوں کا آپس میں میل جول ہو۔ہر خوشی اور غم کے موقع پر حاضری دی جائے اور مل بیٹھنے کی صورت نکالی جاتی رہے۔ورنہ اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے،جس کی طرف میں نے اپنی ایک پنجابی کہانی”اگّے راہ اگم دا”میں اشارہ کیا ہے۔چالیس برس کے تعلق کے بعد بھی آپ اگلی نسل کے لیے”آپ کون؟”ہوتے ہیں۔

اُس وقت کے کار سوار تو مجھے یاد نہیں مگر ہمارا،مہر وریام کھکھ اور چودھری راج محمد پاندھا کے تانگے جگت میں مشہور تھے۔ایک تانگہ پندرہ جگ کے راجوں کا بھی تھا۔اسی دوران میں پہلے لحیم شحیم موٹر سائیکل اور پھر ویسپا سکوٹر کا دور آیا۔جس کے خریدنے کی میرے کزن مہر دلدار کے نزدیک ایک وجہ تانگہ سواروں پر دھدّڑ ڈال کر "وہ جانا”تھا۔میں تو شہر میں رہتا تھا مگر میرے عزیزوں نے جنہیں شہر آنے جانے کی مشقّت اُٹھانی پڑتی تھی،مشینی سواریوں کا رُخ کرنا شروع کیا اور بھانجے حق نواز نے ایک موٹرسائیکل”کولبری
کوئکلی” خرید کی،جس کی قیمت شاید پندرہ سو تھی۔یہ کلچ کے بغیر چلتی تھی اور میں نے حق نواز کے ساتھ اسے چلانا سیکھنا شروع کیا تو پہلی ہی بار پکا حاجی مجید کی طرف سے تلمبہ روڈ پر لے آیا مگر خرابی تب ہوئی جب ایک بیل گاڑی کی آمد پر مجھے تلاش کے باوجود گئیر ملا نہ بریک اور میں کوئکلی کو کچّے میں اتار کر زمیں بوس ہو گیا۔تاہم یہ ایک ہی بار ہوا اور بہت جلد میرا شمار ماہر سواروں میں ہونے لگا۔

میاں چنوں میں ماسٹر مختار کی بیٹھک جاری تھی۔ہماری پوری ٹولی قابل طلبہ میں شمار ہوتی تھی۔ابّا جی کی پیر ثنا اللہ بودلہ کے ہاں نششت بھی جاری تھی اور میرے آنہ لائبریریوں کے پھیرے بھی مگر اب وہاں کی کتابوں میں میرا جی نہیں لگتا تھا۔اس دوران میں کسی کتاب میں خلیل جبران کے بارے میں پڑھا اور اسے پڑھنے کی لپک اس قدر بڑھی کہ میں نے شہر کی درس گاہوں کی لائبریریاں کھنگال کر ایک کتاب”اُس نے کہا”ڈھونڈ نکالی جو ان کی کتاب”النبی”کا ترجمہ تھی اور یہ اس مصنف کے عشق میں مبتلا ہونے کا آغاز تھا۔اسی عشق میں میں نے غلام یزدانی”یزد”نامی ایک دیوانے کے ملفوظات بھی پڑھ ڈالے۔آج سوچتا ہوں کہ مجھ پر اس اسلوب کے اس درجہ اثر پذیر ہونے کی وجہ اس کے اسلوب ِنثر کی شعریات تھی کہ اس نثر پر الہام یا الہام سے ملتی جلتی کسی کیفیت کا غلبہ تھا اور مجھے اس کی دانش،اساطیر اور شاعرانہ لپک بے خود کرتی تھی۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ میرا مزاج لڑکپن سے شاعرانہ تھا مگر مجھے شاعری سے قریب کی نثر اور لحن میں مزہ ضرور آتا تھا۔

میں پڑھ رہا تھا مگر لکھنا ابھی موقوف تھا۔موقوف کیا حقیقت یہ ہے کہ ابھی آغاز ہی نہیں کیا تھا،نہ یہ یقین تھا کہ مجھ میں اظہار کی اس درجہ صلاحیت ہو گی۔میرے اندر اگر کچھ ٹوٹ رہا تھا تو میں اُس سے بے خبر تھا اور اگر کچھ بن رہا تھا تو وہ بھی میرے ادراک سے بالاتر تھا۔دوستوں کے درمیان وجہ ِدوستی کورس کی کتابیں تھیں اور ابھی”نگاہوں میں سمایا ہے نہ کوئی دل میں رہتا ہے”کی حالت قائم ہی نہیں،اٹل حقیقت تھی۔پرندوں کی چہکار میں لبھانے کی ادا تو تھی مگر فراق کی کسک نہیں اور باغ میں کھلنے والے پھولوں کے رنگ عارضی ہو کر بھی”عارضی”نہیں تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب میں سمجھتا تھا کہ شاعری کی”تلخیاں”سے اچھی کتاب لکھنا ممکن نہیں۔شاید اسی لیے میں ساحر کی دوسری دو کتابوں”پرچھائیاں”اور”گاتا جائے بنجارہ”سے کبھی متاثر نہ ہو سکا۔
آصف کے گھر کی نشستیں بھی جاری رہیں۔بس ان میں یہ فرق آ گیا تھا کہ بحث کا دورانیہ بڑھ گیا تھا۔کبھی دوست مجھے ریلوے کی پٹڑی تک چھورنے آتے تو بحث کی جھونجھ میں ہم واپس چل پڑتے اور ایک دوسرے کو گھر کے قریب پہنچانے کا یہ سلسلہ ختم ہونے ہی میں نہ آتا۔ہار کر برابر فاصلے پر شب بخیر کہا جاتا اور اگلے روز بحث کا آغاز پھر وہیں سے کیا جاتا۔ممتاز احمد نے اسی دوران میں تبلیغی جماعت اور حفیظ احمد نے جماعت ِاسلامی سے متاثر ہونا شروع کر دیا تھا مگر مجھے دونوں جماعتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ایک بار ممتاز کے اصرار پر اس کا دل رکھنے کے لیے تبلیغی جماعت کا بیان سُنا اور ممتاز کی رقت بھری طویل دعا تو یہ رغبت اور کم ہو گئی۔اس جماعت کے علماء کی گفتگو میں پہلا تاثر یہ ابھرتا تھا کہ وہ دینی حوالے سے تفاخر میں مبتلا ہیں اور دوسروں کو جاہل ِمطلق اور کم تر جانتے ہیں۔بہت دن بعد کہے جانے والے ایک شعر میں شاید اسی کیفیت کا اظہار ہوا ہے:
میں سمجھا تھا کہ وہ ہے معترض کار ِمحبت پر
مگر شک ہے فقیہہ ِ شہر کو ایمان پر میرے

درس گاہ – 24

تب دریا اور بھینی کے دونوں طرف گھنا بیلا تھا اور دریا کے پار تو باقاعدہ جنگل اُگ آیا تھا۔دریا کا بیٹ خاصا چوڑا تھا اور گرما میں کشتی کے سوا پار اترنے کی کوئی صورت نہیں تھی جو پتن سنپالاں پہ لگتی تھی۔دریا کی اٹھکیلیوں اور راستہ بدلنے کی عادت کے باعث آس پاس کئی بڈّھیں وجود میں آ گئی تھیں۔جہاں سرما کے اوائل میں ہر طرح کا شکار ملتا تھا۔مرغابی،تیتر،خرگوش اور باہرلے۔آخرالذکر کا یہ نام غالباً انگریزوں سے”جانگلیوں”کی”اُلفت”کا کنایہ ہے اور خوب ہے۔
یہاں ہر طرح کے شکاری پدھارتے تھے اور ہمارے یا آس پاس کے زمینداروں کے مہمان ہوتے تھے۔مہمان تو ڈکیت اور مفرور عشّاق بھی ہوتے تھے مگر وہ ہمارے کس کام کے اور اگر کام کے تھے بھی تو ہم ابھی اس سہولت سے استفادے کے قابل نہیں تھے۔
شکاریوں کے یہاں بکثرت پدھارنے کی وجہ اس علاقے کا محل ِوقوع تھا۔ہم راوی کے اِس پار یعنی جنوب میں تھے مگر یہ زمین جس گاؤں کی تھی وہ ضلع لائلپور(اب ٹوبہ ٹیک سنگھ)کی تحصیل کمالیہ میں تھا۔یہاں تلمبے کی پولیس کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا اور اگر کمالیہ کی پولیس قدم رنجہ فرماتی تھی تو تحصیل خانیوال تک رسائی چند منٹوں کے فاصلے پر تھی۔اس لیے شکار کے لیے لائسنس کی ضرورت تھی نہ سرکار کی آشیرواد کی۔میں نے کئی بار شکاریوں اور پولیس کو تکرار کرتے اور پھر منڈلی جما کر ٹھٹّھے اُڑاتے دیکھا،جس کو تاڑی کا تڑکا دو آتشہ کیے رکھتا تھا۔
ایک بار نقشے میں راوی کا بہاؤ دیکھیے تو اُس کی صورت ایک لحیم شحیم کوبرا سے ملتی ہے۔اس کے کنارے پر بسنے والے راٹھ بھی کسی شیش ناگ سے کم نہیں۔جلّھی اور گوگیرہ سے لگنے والی کوک ان پانیوں پر ابھی تک تیرتی ہے۔
نورے نہنگ نے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا تھا:
"اُچّے بُرج لہور دے جتھے حاکم وی رہندے نیں کَھہندے
کابلوں چڑھن چُغطّے جنھاں توں لوک تراہندے
کئی آون کٹک درانیاں عزتاں ملکھاں دیاں لَہندے
ہک سکھاں دی دھاڑ نِکمّی لوک سیئیڑ وانگوں ڈر کے جنگل بیلیاں نوں چھاہندے
سندلے بنھ پِٹیندیاں پتن راوی دے رہن کُرلاندے”

میرا خمیر اسی مٹّی سے ہے اور آبا و اجداد کا سرزمین ِجھنگ سے اور ان کے اجداد کا راجپوتانہ سے۔بزرگوں سے سُنا ہے کہ ہمارا قبیلہ بابا فرید گنج شکر کے ہاتھ پر مسلمان اور بیعت ہوا تھا اور انھوں نے ہمارے جدّ ِامجد کو جھنگ کی طرف جا کر قبیلوں میں گھومنے اور دعوت ِاسلام دینے کی ہدایت کی تھی۔اسی”سیل” کے باعث وہ سیال کہلائے۔
کہانیاں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر کچھ کام سعید بھُٹا کے ذِمّے بھی رہنا چاہیے۔
۔۔۔شاید اسی لیے ہماری جمع بندیوں میں ذات کے کھاتے میں”راجپوت سیال سنپال”لکھا ہے۔مجھے سنپال کی وجہ تسمیہ نہیں معلوم مگر اس کی کچھ نسبت بھینس پالنے سے ضرور ہے۔ایک بار صفدر سلیم سیال سے بات ہو رہی تھی تو اس نے پوچھا تھا کہ سنپالوں میں بھینسیں رکھنے کا شوق اب بھی ہے یا نہیں؟ اس کا دعویٰ تھا کہ سنپال قبیلے کے ہر زمیندار کے یہاں کم از کم سو بھینسیں تو ہوتی ہی تھیں مگر میرے ہوش تک تو معاملہ دو چار تک آ پہنچا تھا مگر نسلی اور مثالی دودھیل۔
یہی دور تھا جب مجھے رنگوں،خوشبو اور سُر کی تمیز ہونا شروع ہوئی۔شاعری کا آہنگ اپنی ابتدائی جھلک دکھانے لگا اور نسائی حُسن کے اسرار منکشف ہونے کے لیے پر تولنے لگے مگر ابھی میری کیفیت اُس شخص کی تھی جو کلر بلائنڈ ہو۔منظر دُھندلے اور بے کیف تھے مگر صحن میں سوتے وقت سر پر سایہ کیے ستاروں کی روشنی بڑھ گئی تھی۔چاند کچھ آشنا سا لگنے لگا تھا اور زبان کی نوک پر حرفوں کی ڈاریں اپنی موجودگی کی خبر دینے لگی تھیں۔کچھ تھا جو زباں سے،انگلیوں سے اور آنکھوں سے ظاہر ہونے کی کوشش میں تھا اور ایسی ہی ایک رات میں نے تیرہ برس کی عمر میں اپنا پہلا شعر کہا۔
پتا نہیں یہ شعر میرا تھا بھی یا نہیں۔ایک رات چاند کو دیکھتے ہوئے یہ میری زبان پر جاری ہوا اور میں نے شہادت کی انگلی سے صحن کی کچّی مٹّی پر لکھ دیا:
دیکھو تو کتنی سست ہے رفتار وقت کی
مدھم ہے کتنا چاند بھی تیرے فراق میں
تب تک میں کسی شاعر کو نہیں جانتا تھا نہ میں نے شاعری کی کوئی کتاب پڑھی تھی۔ہاں ریڈیو پر ایک آدھ مشاعرہ ضرور سُنا تھا اور کشور ناہید کا نام یاد رہا تھا کہ اس نے اپنی غزل ترنم سے پیش کی تھی۔
ان دنوں میرے بھائی مہر نواب جہانیاں میں تعینات تھے اور میتلوں کے گاؤں میں ریتے تھے۔جن میں سے ان کے ایک دوست محمد خان میتلا کا نام مجھے یاد ہے۔میں انہیں ملنے گیا تو ایک ہم عمر لڑکے ارشد میتلا سے دوستی ہو گئی اور میں نے میاں چنوں لَوٹ کر اُسے ایک منظوم خط لکھا جو میری پہلی باقاعدہ شعری کاوش تھی۔اس خط کی میرے پاس کوئی نقل موجود نہیں نہ ہی ارشد سے دوبارہ کبھی ملاقات ہوئی مگر سُنا ہے کہ وہ سیاست میں فعال رہا اور کوئی ایم پی اے وغیرہ بن گیا تھا۔البتہ میں اسلم میتلا کے بہت قریب رہا جو بعد میں سول جج ہو گئے تھے مگر کہانی میں ان کا تفصیلی ذکر آنے میں ابھی بہت دیر ہے۔
پینسٹھ کی جنگ اسی زمانے میں لڑی گئی۔شاید میرے شاعر ہونے کے اوّلیں اشتباہ کے چند ماہ بعد۔

درس گاہ – 23

اسی زمانے میں میرے بھانجے مہر حق نواز،جو عمر میں مجھ سے آٹھ برس بڑے تھے،کالج کی بے ثمر زندگی سے اُکتا کر گاؤں واپس چلے آئے اور دریائے راوی کے کنارے ہماری زمین کو آباد کرنے کے کام پر لگ گئے۔اُن کے چھوٹے بھائی مہر احمد نواز،جو مجھ سے چار برس بڑے ہیں،میرے جماعت تھے۔سکول میں ہماری روز کی ملاقات طے شدہ تھی۔کبھی ہم گھر پر یا اُن کے بورڈنگ ہاؤس میں بھی مل لیا کرتے تھے تاہم وہ میرے دوستوں کے حلقے کا حصّہ نہیں تھے اور اس کی وجہ عمر کے فرق سے زیادہ مزاج کی عدم مطابقت تھی۔
کنارِ راوی کے علاوہ ہماری دو مربعے زمین چک 3/8 آر میں بھی تھی مگر میں کبھی اس طرف نکلا ہی نہیں تھا۔اب جو حق نواز نے دریا پر ڈیرہ جمایا اور ماسی اللّٰہ جوائی( جو حقیقت میں میری چچی تھیں)اُس کی اور کام پیشہ لوگوں کی روٹیاں تھاپنے کو اس کے ساتھ ہٹھاڑ رہنے لگی تو میں بھی احمد نواز کے ساتھ پروگرام بنا کر اپنی زمین اور دریا دیکھنے کے لیے اپنی آبائی جُوہ پر جا پہنچا۔”لُہار والی پُل”اور اس سے دائیں خان لیاقت علی خان کی رہائش تک اور بائیں "غازی پاندہ”،”ست چک”,”نواب والا”،”بستی سنپالاں” اور تلمبہ سے ملتان تک کا علاقہ میرا دیکھا ہوا تھا مگر لہار والی پُل سے نیچے دریا کے بیٹ کی طرف جانے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔
سب کچھ ویسا ہی تھا۔وہی درخت،چھاڑیاں،فصلیں،گھاس پھوس اور پرندے مگر دریا کی بار بار کی رم خوردگی اور طالع آزمائی کے باعث مٹّی میں نمی کی آمیزش تھی اور اٹ کی زیادتی کے باعث پھسلواں گداز۔یہاں چلنا اور سائیکل چلانا ہماری بستی کی مٹّی پر سفر کرنے سے کہیں دشوار تھا۔بہر صورت کوئی تین میل کے سفر کے بعد ہم کھکّھوں کے ڈیرے پر پہنچے،وہاں سے گڈگوروں کی بھینی اور پھر اپنی جھلار پر۔ دریا سے چند ایکڑ کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بھینی پر دو تین گھر آباد تھے۔کچھ آباد کی گئی زمین کے بعد دونوں طرف بیلا تھا۔کری،لئی،کانہہ،کیکر اور سرکنڈے کی خود رو جھاڑیوں اور ان دیکھے اسرار سے بھرا۔اس سے گزر کر میں نے راوی سے ملاقات کی جو اپنی آبائی مٹّی پر میری اس دریا سے پہلی ملاقات تھی۔
کہتے ہیں راوی کا پانی پارس ہے۔روایت کے مطابق سلطان سکندر کے پاس پارس پتھر تھا اور وہ اس سے اشیاء کو سونے میں ڈھال دیتا تھا۔جب یہ خبر اس کے دشمنوں کو پہنچی تو وہ فوج لے کر اس پر چڑھ دوڑے اور غالب آ گئے۔جب سلطان کو اپنی گرفتاری یقینی لگی تو اس نے راہ ِ فرار اختیار کی اور راوی پر آ کر پارس پتھر کو چڑھے دریا میں پھینک دیا۔فاتحین نے بہت تلاش کرائی،ہاتھیوں کے پیروں میں زنجیریں ڈال کر کھنگالا۔زنجیریں سونے میں تبدیل ہو جاتیں مگر پارس نہیں ملا اور بالآخر دریائی ریت میں گُھل کر دریا کے وجود کا حصّہ بن گیا۔
حقیقت اس کتھا کی یہ ہے کہ راوی اپنے ساتھ زرخیز علاقوں کی مٹّی کھینچ لاتا ہے جو سیلاب آنے پر ارد گرد کی زمین پر اٹ کی صورت میں چڑھ جاتی ہے۔وہاں کاشت کی گئی فصل دوگنا کن دیتی ہے۔سو لوگ دریا کے گدلے پانی کو پارس جانتے ہیں۔
مگر اب وہ پارس سردی کی دھوپ میں نڈھال دو نحیف چادروں میں ڈھلا بہت دھیرے سے بہتا تھا اور دریا کے دونوں کناروں تک ریت کی پٹڑیاں دمکتی تھیں۔ہاں ان نحیف نیلی چادروں پر اجنبی پرندے تھے اور جھاڑیوں میں نَہرے جانور۔جن کا شکار تو کیا جاتا تھا مگر کھانے کے لیے بہت کچھ بدلنے کی ضرورت تھی۔جن میں اوّلیت مذہب اور طرز ِحیات کو تھی۔
راوی میری پنجابی شاعری کا مستقل کردار ہے۔میری کتاب”سرسوتی توں راوی تائیں”ان دونوں دریاؤں کی پیاس سے جنمی ہے۔اُس وقت کسے معلوم تھا کہ میں یہاں بار بار آؤں گا اور ہر بار یہ دریا پہلے سے بھی زیادہ توانائی کے ساتھ میرے اندر میرے وجود میں اور گہرا اتر جائے گا اور اس کی روانی میرے قلم سے ہم آہنگ ہو جائے گی۔
دیکھیے ایک وائی جسے راوی کا جَس کہنا زیادہ مناسب ہوگا:
"راوی دے سپ لہریے
بُوٹے جُھمّر جُھوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی دے اٹ اندروں
پُھلّن عشق دے بُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی دے سب شہر نیں
بدلاں وانگ ملُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی من وچ لہردا
مار بِرہوں دے سُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی روپ انوکھڑا
نین کدی نہ نُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی دے سُر جاگدے
دِل نوں مار جھمُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں
(کتاب:پانی رمز بھرے)

درس گاہ – 22

دیہات کا رہنے والا آدمی لاکھ شہر میں جا بسے۔اُس کا دیہاتی پن رخصت ہوتا ہے نہ بتیاں دیکھنے کا شوق مدھم پڑتا ہے اور میں تو آج بھی ایک ان گھڑ جانگلی ہوں۔میلے ٹھیلے مجھے تب بھی اپنی طرف بلاتے تھے اور اب بھی ڈھول بجنے پر میرے من میں دھمال مچنے لگتی ہے۔یہ اور بات میں نے کبھی رقص کی کوئی تال نہیں آزمائی۔جھومر نہیں کھیلی۔لُڈی نہیں ڈالی۔یہ سب کرنے کی خواہش ضرور رہی مگر تمام عمر عقل پاسبان ِدل رہی اور میں اندر سے آدھا ادھورا ہی رہا۔
ہماری بستی کے آس پاس کے معروف میلوں میں نور شاہ،پیرشینا،بالے
بم اور سنگ یعنی سخی سرور کا تلمبہ میں لگنے والا میلہ اہم تھے اور میں ان چاروں ہی کی سیر کو جاتا تھا۔مجھے فالودہ،پکوڑے اور مٹھائی کھانے کی ہُڑک تو کم ہی ہوتی تھی۔زیادہ دلچسپی قصےکہانیوں کے سٹالز،موت کےکنویں،سرکس اور عجائبات ِعالم میں تھی ۔کُشتی،کبڈّی،کُتوں کی لڑائی یا بلوان بیلوں سے ہل کشی کے مقابلوں میں میری دلچسپی صرف کبڈی میں تھی۔تھیٹر لگتا ضرور تھا مگرمیں نے ایک ہی بار دیکھنے کی زحمت کی اور خاصا بدمزہ ہوا۔
ایک دلچسپ کھیل پانی کی بالٹی کی تہ میں شیشے کی پیالی رکھ کر اس میں سکّہ ڈالنا تھا۔کامیابی کی صورت میں دُگنی رقم پیش کی جاتی تھی۔پیالی میں ڈالے جانے والے سکّے فرکشن کی وجہ سے رخ بدلتے تھے اور عمودی سفر نہیں کرتےتھے۔اس لیے پیالی میں کم ہی گرتے تھے۔دو ایک بار میں نے اپنا سکہ ضائع کر،سِکّے کے وزن،فرکشن کی شرح،سمت کی تبدیلی اور اسراع کا اندازہ کر کے پیالی پر کئی درست نشانے لگائے تو دو ایک روپے ہارنے کے بعد اس کھیل کے موجد نے مجھے کِھلانے سے انکار کر دیا۔
"عجائبات ِعالم” کی صورت بھی عجیب مضحکہ خیز ہوا کرتی تھی۔بالے بم کے میلے میں ایک بار بانس کی مچان پر چڑھے منادی والے کی باتوں میں آ کر ہاتھی،شیر اور مچھلی کے دھڑ والی لڑکی کو دیکھنے گیا تو عجیب تجربہ ہوا۔بانسوں سے بنی راہداری کو طے کرکے جھولداری کے دروازے میں داخل ہوا تو ایک شخص کٹے ہوئے آدھے ڈھول پر مڑھی کھال کے وسط میں سوراخ میں سے لکڑی کا ایک گز کھال کو مس کرتا ہوا اس مہارت سے گزار رہا تھا کہ اس سے ایک خاص طرح کی گونج پیدا ہوتی تھی جو شیر کی دھاڑ سے ملتی جلتی تھی۔جھولداری کے باہر لٹکتے پردوں پر بنے شیروں اور لاؤڈ سپیکر پر ان کے جھولداری میں موجود ہونے کی حقیقت بس اتنی تھی۔میں نے زندگی میں پہلی بار دھوکا کھایا اور ایک خاص طرح کے صدمے سے بھی دوچار ہوا مگر دو ایک پنجرے میں بند گیدڑوں اور ایک آدھ اجنبی پرندے کے پنجرے کو آگے بڑھتی راہداری میں رکھا دیکھ کر مچھلی کے دھڑ والی لڑکی کو دیکھنے کی امید برقرار رہی اور میں رسیوں سے بنے راستے کی حد بندی کے ساتھ گھومتا ہوا ادھر بڑھنے لگا،جہاں مجھ سے آگے چلنے والے لوگ جا رہے تھے۔
دوچار قدم کے بعد میں نے اپنے آپ کو ایک بڑے سے پانی بھرے ٹب کے سامنے پایا جہاں میری مقصود ِنظر موجود تھی۔لمبے،کُھلے اور بدن پر کمر بلکہ اس سے بھی پیچھے تک پھیلے ہوئے بالوں والی ایک لڑکی کمر سے نیچے کسی شے میں دھنسی ہوئی تھی جو کسی بڑی مردہ مچھلی کے نچلے دھڑ سے مثابہ تھی اور جس کے فلس اپنی دمک کھو چکے تھے۔اسے بدبو اور تعفن کے باعث غور اور توجہ سے دیکھنا ممکن نہیں تھا۔لمبے،گھنے اور وجود پر مہارت سے پھیلائے بالوں کے باعث ایک نظر میں یہ ادراک کرنا ممکن نہیں تھا کہ اُس کا اپنا دھڑ مچھلی کے دھڑ سے کہاں اور کس طور جُڑا ہوا ہے اور کیا اُس کے بدن کے نیچے اس کی اپنی ٹانگیں موجود ہیں بھی یا نہیں؟اب خیال آتا ہے کہ شاید وہ پیدائشی طور پر معذور رہی ہو اور اس کے دھڑ کو مچھلی کے دھڑ سے مثابہ دھڑ میں پھنسا کر ایسا لباس پہنا دیا جاتا ہو جو ان دونوں دھڑوں کے مقام ِاتصال کی پردہ پوشی کر سکے۔
بہر صورت وہ لڑکی اس وضع کے ساتھ وہاں موجود تھی اور اپنے وجود پر نگراں لوگوں کو ایک خاص طرح کی اداسی سے تک رہی تھی۔اُس کے چہرے پر غم،خوشی،حیرت یا خوف کا کوئی تاثر نہیں تھا اور مجھے آج اسے یاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اگر ایک پل کے لیے اُس کی بھیگی ہوئی آنکھیں میری آنکھوں سے نہ ملی ہوتیں۔پانی پر تیرتے ہوئے بُلبُلوں جیسی وہ آنکھیں ایک بد رنگ اداسی سے بھری تھیں اور اُن کی ملگجی سیاہی میں کہیں احتجاج کی ہلکی سی روشنی تھی۔جیسی روشنی مرتے ہوئے انسان کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔کچھ کہتی ہوئی مگر کہہ نہ پاتی ہوئی۔اپنی بے بسی پر نالاں مگر اُس کے اظہار کی خواہش سے پہلو بچاتی ہوئی۔اُن آنکھوں میں کوئی ایسی بات تھی جو اس لمحے مجھے اپنے لہو میں تیرتی محسوس ہوئی اور جسے میں آج بھی اپنے لہو میں تیرتے محسوس کرتا ہوں۔اسے میں نے ایک نظم میں یوں بیان کیا ہے۔
"مچّھی دے دھڑ والا جاتک
مینوں بِٹ بِٹ ویکھے
میریاں اکھّاں اندروں اوہنوں خبرے کیہ کجھ دِسیا
اوہدی روح دا ہِک ہِک چھالا چشماں تھانیں پِھسیا

مچّھی نوں میں روندیاں ویکھ کے آپ وی روون لگیا
میرے اندر دیوے وانگ سی کوئی تارا جگیا
مچّھی دے روون تے مینوں بڑی نموشی ہوئی
جُثّے دے پھٹ روحوں سِمدے جانے کوئی کوئی
(بالےبم دے میلے اندر/کتاب:”بیلے وچ چڑیاں”)
افسوس میں ساون کےحبس زدہ موسم میں مصنوعی مچھلی کے وجود میں دھنسی،مجھے دیکھ کر آب دیدہ ہونے والی اُس لڑکی کو
آزاد نہیں کرا سکا مگر یہ ضرور جان گیا کہ پیٹ کی آگ آنسوؤں سے نہیں بُجھتی اور بھوک ہر حس ِلطافت کو مِٹا دیتی ہے۔
میری شاعری میں در آنے والی اداسی کی مقدار زیادہ نہیں مگر اس کی ڈور کہیں نہ کہیں اس واقعے سے جُڑی ہے۔کیوں کہ زندگی میں آگے چل کر کھلنے والی حقیقتوں کا بیج کہیں بہت پہلے پڑ چکا ہوتا ہے جو اکھوا بن کر پھوٹنے کے بعد کہیں سالوں اور دھائیوں کے بعد دھیرے دھیرے ایک بڑے تجربے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
میری اداسی اور میری خوشی کی بنیاد بھی ایسے ہی بے خیالی میں کاشت کیے بیجوں پر ہے۔

نویں میں اساتذہ نے میرے لیے سائنس کا انتخاب کیا۔میرا بھانجا احمد نواز اب میرا ہم جماعت تھا مگر وہ آرٹس سیکشن میں تھا اور اس سے ملاقات اردو اور انگریزی کے پیریڈ ہی میں ہوتی تھی۔ان دو برسوں کے اساتذہ میں اردو کے غلام ربّانی،حساب کے شوکت حسین رضوی اور انگریزی کے مختار احمد صاحب سے زیادہ قربت رہی۔مختار صاحب بی۔اے،بی۔ایڈ کرنے کے بعد پہلے دن سب سے پہلے ہماری کلاس میں پڑھانے آئے تھے اور اپنے تعارف کے دوران میں گھبرا کر بے سُدھ ہو گئے تھے مگر بعد میں وہ اچھے ٹیچر ثابت ہوئے اور گرمیوں کی تعطیلات میں ہم سب دوستوں کو ہماری بیٹھک میں ٹیوشن پڑھاتے رہے۔ہم نے بیٹھک میں صرف چارپائیاں ڈال رکھی تھیں۔ماسٹر صاحب کی روز آمد اور قدرافزائی کے خیال سےمیری ماں نے مجھے پیسے دے کر دوستوں کے ہمراہ کُرسیاں خرید لانے کو ٹی چوک بھجوایا،جہاں دو ایک دکانیں فرنیچر کی بھی تھیں اور ہم سو روپے میں لکڑی کی چھ آرام کُرسیاں اور ایک سنٹر ٹیبل خرید کر اپنے سروں پر لاد کر گھر لے آئے۔ان میں سے کچھ کُرسیاں اب بھی سلامت ہیں اور بستی والے گھر میں موجود ہیں۔

پڑھنا جاری تھا اور جاری رہا۔”تلخیاں”پڑھی تو حافظے کا حصہ بن گئی۔ایک ایک مصرع ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔میں اس کتاب کے اُسلوب اور موضوع سےاس قدر متاثر ہوا کہ اُس کے تتّبع میں نظموں کی ایک کتاب گھسیٹ ڈالی جو نہ معلوم کہاں کھو گئی وگرنہ میری درد مندی،خرد افروزی اور روشن خیالی کی اب بھی بھرپور نمائندگی کرتی۔
لاہور سے لائی ہوئی کتابوں میں زیادہ تر کُتب افسانہ نگاروں کی تھیں۔کرشن چندر کے”ان داتا”سے”کچرا بابا”،بیدی کے "گرہن” سے "سونفیا”،عصمت کے”لحاف” سے”دوزخی”،بلونت سنگھ کے”جگّا”اور ندیم کے”رئیس ِخانہ”سے انتظار کے”آنجنہاری کی گھریا”غلام عباس کے”آنندی”سے”سایہ”اور منٹو کے”تماشا”سے”پُھندنے” تک کا سفر سیدھا تو نہیں تھا مگر انہی دو برسوں میں مکمل ہوا۔یہ افسانے اور ان کے کردار میرے ذہن سے اس طرح چمٹ گئے کہ لاکھ کُھرچنے پر بھی اُن کے نقوش مدھم نہیں ہوتے۔منٹو پر قائم کئے گئے مقدمات کی روداد اور منٹو کے موقف پر مبنی کتاب”لذّت ِسنگ” نے مجھے سب سے زیادہ مزا دیا۔
اس زمانے میں پڑھنے کی ہوس اس قدر زیادہ تھی کہ میں مختصر فاصلے کے سفر میں بھی کتاب نکال لیا کرتا تھا۔ایک بار کسی کام سے اکیلے ہی گاؤں جانا پڑا۔بس سے جراحی موڑ پر اُتر کر میں شیشم کے دیو آسا درختوں کے سائے میں اس طرح چلنے لگا کہ میری نگاہ راہ سے زیادہ کتاب پر تھی۔ایک دو بار کسی جملے کی بہ آوازِ بلند داد دی۔کہیں کسی جملے کی شگفتگی پر ہنسا اور ایک آدھ بار رُک کرکسی منظر کی نُدرت اور فطری نمو پر اپنا ماتھا پیٹا تو قریب ہی اِجڑ چراتے ایک چرواہے نے یہ منظر دیکھ کر اپنے ہاتھ بلند کیے اور "ربّا!ایس بال نوں رنگ لا”اس خلوص اور رقّت سے کہا کہ اُس کی آواز کی نمی مجھے آج بھی اپنے وجود کو بھگوتی محسوس ہوتی ہے۔

آپ بتائیے اس کے بعد بھی اگر میں شعر نہ کہتا تو اور کیا کرتا؟

درس گاہ – 21

سعادت حسن منٹو تک رسائی پاتے میں نے مڈل پاس کر لیا تھا۔مجھ سمیت سکول کےمنتخب لڑکوں کو لاہور ڈائریکٹوریٹ کے امتحان میں بٹھایا گیا۔اس امتحان کو بورڈ امتحان کی طرز پر لیا گیا اور اسے فرسٹ کلاس میں پاس کرنے کی باقاعدہ سند جاری کی گئی۔مجھ سے پہلے مڈل تو میرے بڑے بھائی نے بھی کر رکھا تھا مگر گاؤں میں والد صاحب کے کمرے میں فریم ہو کر آویزاں ہونے کا اعزاز میری سند کو ملا۔
عصمت چغتائی از بے چادری تو نہیں تھیں مگر چادر میں کھیلے جانے والے کھیل نے مجھے بوکھلا دیا۔اس پر”منٹو کے افسانے”۔۔۔یوں کہیے ہم ایک ہی کتاب میں بڑے ہو گئے مگر بہت بڑے نہیں ہو پائے کہ ان کی اور کوئی کتاب کہیں مل نہیں سکی۔ملی تو عصمت چغتائی بھی نہیں مگر ان کی کتب کی عدم دستیابی جان کا روگ نہیں بنی۔اس کمی کو ہم نے مرزا عظیم بیگ چغتائی کی”شریر بیوی”اور "سوانہ کی روحیں”جیسی کتابوں سے پورا کیا۔آنہ لائبریری والوں کے اکسانے پر چوگنے کرایے پر دو تین کتابیں”و۔و” کی بھی پڑھ ڈالیں مگر اس سے معلومات میں اضافہ ہوا نہ تجربے میں کہ یہ شعبہ ابھی ہمارے مزاج کو خوش نہیں آیا تھا۔برسوں بعد عزیز دوست سعید مرتضیٰ زیدی نے شوکت تھانوی پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ”و۔و”انہی کا قلمی نام تھا اس انکشاف پر مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ پیٹ کا تنّور ہر طرح کی اخلاقیات کو چاٹ جاتا ہے۔اگر صاحبان ِعلم و دانش بُرا نہیں منائیں تو میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ جنسی اخلاقیات صرف اور صرف مڈل کلاس کا مسئلہ ہے۔
منٹو کی یہ کتاب”نیا ادارہ”سے شائع ہوئی تھی۔اس کتاب کے آخر میں اس ادارےسے شائع کی گئی کتابوں کی فہرست بھی تھی۔یہ سبھی کتابیں دل لبھانے والی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی کسی آنہ لائبریری میں موجود نہیں تھی اور وجہ یہ کہ وہ لوگ ایسی کتابیں خرید کرتے تھے جو ہاٹ کیک کی طرح ہاتھوں ہاتھ لی جائیں سو اولیت جاسوسی سیریز اور رومانی ناولوں کو حاصل تھی۔زندگی کی حقیقت اور انسانی نفسیات کی بوقلمونی سے آگاہی کی طلب کسی کو نہیں تھی۔منٹو،بیدی،عصمت اور غلام عباس اس معاشرت کے لیے اجنبی تھے اور میرا مسئلہ یہ تھا کہ میری دلچسپی کا مرکز اب یہی نام تھے۔
اسی زمانے میں جمیل اقبال کے بڑے بھائی مجید گِل نے اپنے سٹور
میں ایک آنہ لائبریری کی بنیاد رکھی۔انہوں نے میری پسند کی کتابیں بغیر کرایے پر فراہم کرنے کی آفر اس شرط پر دی کہ میں اپنے پاس موجود کاٹھ کباڑ ان کی لائبریری کے لیے عاریتا ً ان کے حوالے کر دوں۔میں نے ایسا ہی کیا اور وہ خانیوال اسٹیشن کے سٹال اور منٹگمری کی ہٹّیوں سے دو تین کتابیں لائے بھی مگر بات بنی نہیں اور یہ سلسلہ میری کتابوں کی ضبطی پر منتج ہوا۔میں چاہتا تو شاید وہ کتابیں واپس لے سکتا تھا مگر اندر ہی اندر کہیں میں ان کتابوں سے بھر پایا تھا۔اس لیے میں نے بھرپور احتجاج بھی ریکارڈ نہیں کرایا۔ہاں اس واقعے کے بعد آنہ لائبریریوں سے استفادے کا سلسلہ انجام کو پہنچا اور میں اپنے ذوق ِمطالعہ کی دل داری کی کوئی اور راہ نکالنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
اس دوران میں ایوب خانی الیکشن ہوئے۔میاں چنوں اسٹیشن پر ایک ریلوے بوگی کے دروازے سے لگ کر محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر سُنی جو سمجھ میں آئی نہ کانوں تک پہنچ پائی۔ان کی تصویر دیکھ کر مجھے ہمیشہ چاند کی بڑھیا یاد آتی تھی۔انہیں دیکھ کر یقین ہو گیا کہ میرا تاثر غلط نہیں تھا۔
اسی زمانے میں اسی اسٹیشن پر ایوب خان کو بھی دیکھا۔اس کی تقریر سنی اور وجاہت سے اس قدر متاثر ہوا کہ خلقت کی ٹانگوں سے گھسر کر ان کے اس قدر نزدیک جا پہنچا کہ میرے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھانے پر وہ میرا ہاتھ تھامنے پر مجبور ہو گئے۔افسوس وہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا وگرنہ آج فیس بک پر وہ میرے تھوبڑے کے سائے میں سمٹے دکھائی دیتے اور اچھّے لگتے۔
اسی دوران میں کہیں پاکستان نے خانہ کعبہ کے لیے غلاف بھجوایا تھا۔اس کی زیارت بھی اسی اسٹیشن پر ہوئی۔1965ء کی جنگ کا سامان بھی اسی اسٹیشن سے آتے جاتے دیکھا۔ایک پیسہ ایک ٹینک مہم میں بھرپور حصہ ڈالا اور دوستوں کے ساتھ گھر گھر جا کر سینکڑوں روپے اکٹھے کیے اور وار فنڈ میں جمع کرائے۔

میرے دوست حق نواز کاٹھیا کے ایک کزن نذر حسین لاہور میں پڑھ رہے تھے۔اُن سے صلاح مشورے کے بعد ہم دونوں موسم ِبہار کی تعطیلات میں اپنے ماں باپ سے اجازت لے کر بذریعہ بس لاہور کے لیے نکلے۔سن 1966ء تھا اور مارچ کے آخری دن جب ہم سمن آباد چوک پر اُترے۔بس تب ملتان روڈ سے براستہ سیکریٹریٹ بادامی باغ جاتی تھی۔اس لیے نیو مزنگ جانے کے لیے چوبرجی یا سمن آباد موڑ پر اترنا ہی سود مند تھا۔حق نواز مجھ سے عمر اور تجربے میں بڑا تھا(اُس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی)اور پہلے بھی نذر کے پاس لاہور آچکا تھا۔اس لیے رکشا لےکر ہمیں گھر تلاش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔سمن آباد دوسرے گول چکر کی بغل میں یہ گھر دس مرلوں پر محیط تھا اور چھے طلبہ کے تصرف میں تھا۔سب نے ہمیں بہت محبت سے خوش آمدید کہا اور دوپہر کے کھانے کے بعد ہم اومنی بس پکڑ کر اردو بازار جا پہنچے تاکہ لاہور کی باقاعدہ سیر سے پہلے”نیا ادارہ”کا کام نپٹا لیں۔
وہاں چودھری برادران موجود تھے۔شاید ریاض چودھری ہی تھے۔جنہوں نے ہمارا مطالبہ سُنا اور مطلوبہ کتابیں نکال کر دینے کے بعد اپنی پسند کی کتابیں بھی شامل کیں۔اسی پر بس نہیں مکتبہ پاکستان،البیان اور مکتبہءجدید سے انتظارحسین،احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس کے مجموعے بھی منگوا دیے۔انہوں نے تو فراق اور مجاز کو بیچنے کی سعی بھی کی مگر تب تک ہم بوکھلا چکے تھے۔سو کرشن سے انتظار حسین تک ہی محدود رہے۔ساحر لدھیانوی کی”تلخیاں”انہوں نے زبردستی شامل کر دی اور یہ اردو شاعری کی پہلی باقاعدہ کتاب تھی جو میرے مطالعے میں آئی۔اس کتاب نےاور ترقی پسند ادب کی نمائندہ کچھ اور کتابوں نے میرے سوچنے کا ڈھنگ ہی بدل دیا۔
ہماری پسندیدہ کتابیں تو پندرہ بیس سے زیادہ نہیں تھیں مگر ریاض صاحب کی توسیع پسندی نے یہ تعداد سو تک بڑھا دی۔زیادہ کتابیں پیپر بیک تھیں اور کافی سستی اس لیے بل دو سو سے زیادہ نہیں بنا۔میں نے بل کو توقع سے کم محسوس کرنے پر مکرر تصدیق چاہی تو ریاض صاحب نے خوش خبری دی کہ وہ اس پر تیس فیصد رعایت بھی دیں گے۔اس ادا کا تو ہمیں وہم و گمان بھی نہیں تھا۔میں ماں اور ابّا کو الگ الگ جذباتی”سیاہ خط”کر کے پانچ سو اینٹھ لایا تھا۔اس لیے اس رقم کی ادائیگی مشکل نہ تھی اور نہ یہ لاہور کی جی بھر کر سیر کرنے میں مانع ہو سکتی تھی۔سو رقم ادا کی۔کتابیں بندھوائیں،چائے پی اور مزنگ پلٹ آئے تا کہ اگلی منزل کے لیےکشادہ دست ہو سکیں۔
تب کون جانتا تھا کہ اسی ادارے پر محمد سلیم الرٰحمن،ریاض چودھری،انور سجاد،مستنصر حسین تارڑ،صلاح الدین محمود،احمد مشتاق،اختر حسین جعفری،سہیل احمد خان اور دیگر نابغوں کے ساتھ میں برسوں بیٹھتا رہوں گا اور کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ میں کبھی اس دکان پر صرف گاہک بن کر بھی آیا تھا۔

درس گاہ – 20

اسی دوران میں مجھے اپنے محلّے میں اسٹیشن کے نزدیک ایک آنہ لائبریری کے وجود کی خبر ملی۔شہر کی دکّانوں پر ادبی کتابیں اوّل تو تھی ہی نہیں اور اگر تھیں تو انہی مقبول مصنّفین کی جو جناح میونسپل لائبریری میں بھی موجود تھے اور ان میں سے بیشتر کتب کو میں نے پڑھ لیا تھا۔مذہبی کتابوں اور علمی کتابوں سے مجھے رغبت نہیں تھی اور نہ ہی تاریخ اور علوم شرقیہ و غربیہ سے۔انگریزی سیکھتے دو ہی برس ہوئے تھے اور عربی فارسی کا تو سرے سے شعور ہی نہیں تھا سو ان زبانوں کی کتب میرے لیے اجنبی تھیں اور یہ کچھ نئے کی تلاش تھی جو مجھے اس آنہ لائبریری تک کھینچ لےگئی۔وہاں دو روپے زر ِضمانت جمع کرانےپر ایک آنہ فی کتاب کرایہ کےحساب سے بیک وقت دو کتابیں لی جا سکتی تھیں۔دکان دار کے مشورے سے میں نے ابن ِصفی کی جاسوسی دنیا کے دو ناول کرائے پر لیے اور جیسے ایک بار پھر خان اور بالے کی اسرار بھری دنیا میں داخل ہو گیا۔کیپٹن حمید،قاسم اور تنویر وغیرہ کے متنوع کردار،بیک وقت زیرکی شگفتگی اور قہر سے بھرے۔حماقت اور دانش کے مرقعے اور اس پر کرنل فریدی کا مثالی کردار۔متانت،دانش،حُب ِوطن اور استقلال سے بھرا۔میں نے پہلے بے ترتیبی اور پھر ترتیب سے ہر دستیاب ناول پڑھ ڈالا۔اسی سیریز کے مطالعے کے دوران میں کہیں "عمران”کا تعارف ہوا اور اب عمران سیریز کی طرف ایسا راغب ہوا کہ دو ایک ماہ میں دستیاب ساری کتب پڑھ ڈالیں اور صرف ابن ِصفی کی نہیں این صفی،نجمہ صفی اور نہ جانے کس کس کی مگر ان میں وہ مولوی”مدن”والی بات مفقود تھی۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ناول مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گئے اور میں اپنے آپ کو ان کرداروں جیسا ایک کردار ہی سمجھنے لگا۔ان کی تکلیف مجھے اپنی تکلیف محسوس ہوتی اور خوشی اپنی خوشی۔میں نے انہیں بیٹھ کر،لیٹ کر اور رضائی میں چُھپ کر پڑھا اور ایک دن میں پانچ پانچ ناول بھی پڑھ ڈالے اور اسی سال گرمیوں کی تعطیلات میں "عمران سیریز”کا ایک ناول خود بھی گھسیٹنے کی کوشش کی مگر بیس پچیس صفحوں کے بعد تخلیقی بصیرت ساتھ چھوڑ گئی اور میں”حسین صفی”بنتے بنتے رہ گیا۔
اسی برس یا اس سے پہلے میں نے سکول گراؤنڈ میں قینچی سائیکل چلانا سیکھا۔میں اس کوشش میں کئی بار گرا اور میرے قد بت کے لڑکےکا سائیکل کی مثلث میں گھس کر اس ہوا سے گِر پڑنے والی سواری کو سِدھانا آسان نہیں تھا مگر یہ ہوا اور میری مہارت کو دیکھ کر میرے ابّا جی مجھے سائیکل لے کر دینے پر راضی بھی ہو گئے۔ٹی چوک کے قریب ایک دکان سے”رستم سائیکل”مع کیرئیر،بیڑی سیل والے ہارن اور سرچ لائٹ کے ایک سو بیس روپے میں ملا اور میں اسے لے کر آس پاس کے علاقے میں گھومنے لگا۔
میں بارہ تیرہ برس کا ہو چلا تھا مگر میرا وزن اور قد سب ہم جماعتوں کے مقابلے میں کم تھا۔میری ماں کو وہم ہو چلا تھا کہ میں کہیں بونا ہی نہ رہ جاؤں۔اس لیے بادام،کشمش اور نامعلوم میوہ جات کے عجیب و غریب مرکبات بنا بنا کر ہم بہن بھائیوں کو کھلانے کی کوشش کرتی رہتی تھیں۔ان کا دل رکھنے کو کبھی میں وہ مرکبات کھا بھی لیتا تھا مگر عام طور پر انہیں دھونس سے کبھی ملازم اور گاؤں میں ہونے پر ملازمہ کو کھلا دیا کرتا تھا۔میٹرک کے امتحان کے قریب کی ایک تصویر میں میں سب ہم جماعتوں کے مقابلے میں پستہ قد آور کم عمر لگ رہا ہوں مگر فرسٹ ائیر میں آتے ہی میں نے چھ ماہ میں دس انچ قد نکالا اور سب کے درمیان مناسب منصب پر بحال ہو گیا اور میری ماں نے اسے اپنے خلق کیے مفرحات کا نتیجہ جان کر حقیقی خوشی منائی۔
جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق دو ایک دوستوں کو بھی تھا۔آصف کے ایک ہمسائے اور ہم سے عمر میں دو ایک برس بڑے اعجاز ہاشمی عرف بِڈّو نے قرت العین حیدر کے”آگ کے دریا”کا ذکر کیا تو میں نے پبلک اور سکول لائبریری کے علاوہ تمام آنہ لائبریریاں چھان ڈالیں مگر وہ ناول نہیں مل سکا۔ہاں کرشن چندر کا ناول”شکست”مل گیا اور میں اس کی منظر نگاری،زبان کی چاشنی اور رومانوی نثر سے اس قدر متاثر ہوا کہ برسوں تک میں اُس کی کتابیں ڈھونڈ کر پڑھتا رہا۔متعدد افسانے اس کے اسلوب میں لکھ کر نہایت خوبصورت نوٹ بکس میں محفوظ کیے،جو بُرے نہیں تھے۔وہ شاید اب بھی کہیں موجود ہوں مگر مجھے انہیں چھپوانے کی جسارت نہیں ہوئی۔
کرشن چندر سے عشق کا عالم یہ تھا کہ کسی کتاب کو پڑھنے کے لیے اس پر ان کا نام ہی کافی ہوتا تھا۔ان کی متعدد کتابیں پبلشر مختلف ناموں سے شائع کر لیا کرتے تھے۔ایک بار ان کی ایک کتاب”میری یادوں کے چنار”(جو ان کی زندگی کے پہلے اٹھارہ برس کی کہانی ہے) کے اگلے حصے کے بارے میں استفسار کے لیے انہیں ان کی کتابوں کی فہرست بھجوا کر رہنمائی چاہی تو انہوں نے اس فہرست کی متعدد کتابوں کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
مڈل کرنے کے دوران ہی میں پہلی بار اردو ڈائجسٹ پڑھنے کو ملا۔پھر میں اسے ہر ماہ خریدنے لگا۔اسے پہلی بار پڑھا تو اس رسالے نے مجھے مبہوت کر دیا۔خاص طور پر دوسری جنگ ِعظیم اور شکاریات سے متعلق کہانیوں نے۔اس رسالے کے خریدنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب میں نے ہر طرح کی تحریر پڑھنے کی عادت اپنا لی۔اسی بیچ میں کہیں بلونت سنگھ اور بیدی آ دھمکے اور پھر منٹو اور عصمت چغتائی۔

درس گاہ – 19

گاؤں کے کھیل بھی جاری تھے اور شہر کے معمولات بھی۔دوستوں کا ایک حلقہ وجود میں آرہا تھا۔باہر کے کام کاج کے لیے میرا ہم عمرملازم چراغ موجود تھا۔کریانے،کنجڑے,قسائی،دھوبی،درزی،حلوائی اور
دودھ والے کی ہٹّیاں مقرر تھیں۔ڈاکٹر اور دواخانہ بھی طےشدہ تھا اور بزاز اور سُنار بھی۔رسوئی میں ماں کی مدد کے لیے محلے ہی کی ایک بزرگ خاتون جنّت جنھیں ہم نانی کہنے لگے تھے،بن کہے روز ہی چلی آتی تھیں۔اس کے علاؤہ مجھ سے بڑی بہن بھی کھانا بنانا سیکھنےکے لیے ماں کےآس پاس ہی رہتی تھی۔سب کچھ بہت سادہ اور خانوں میں بٹا ہوا تھا۔وہی چھ دن شہر میں اور ایک دن گاؤں میں ادھم مچاتے گزرتا۔
شہر میں ہر شام دوستوں کے ساتھ نششت جمائی جاتی۔شاکر،محمود
،جمیل اور آصف کے گھر قریب قریب تھے مگر نششت آصف کے گھر ہی میں ہوتی تھی یا کبھی کبھار میرے یہاں۔تاہم اس کی نوبت کم آتی تھی کہ ایک تو ہمارےگھر میں کوئی باقاعدہ ڈرائنگ روم تھا ہی نہیں اور دوسری وجہ یہ کہ میرے اور ممتاز کے گھر کو شہر سے باہر جانا جاتا تھا۔
آصف کے ماں باپ اور بہن بھائی کمال کے خوش مزاج اور متواضع طبع تھے۔شربت،چائے بسکٹ اور چائے سے تواضع بھی کی جاتی تھی اور کئی بار زبردستی کھانے کے لیے بھی روک لیا جاتا تھا۔آصف کے والد،الیاس صاحب جنھیں ہم اور خود ان کی اولاد چچا کہہ کر بلاتی تھی۔ہم سب کا بڑی بڑی مسکاتی آنکھوں اور کھلے ہوئے چہرے کے ساتھ استقبال کرتے تھے اور انھوں نے ہم سب کی کوئی نہ کوئی چھیڑ مقرر کر رکھّی تھی جو تعلق کی ذاتی نسبت کو مضبوط کرتی تھی۔
آصف کے بڑے بھائی فیاض تو کیمسٹ تھے اور کابل کی کسی فیکٹری میں ملازم تھے۔منجھلے ریاض اور چھوٹی دونوں بہنوں سے ہم بالکل آصف ہی کی طرح بے تکلف تھے۔اس لیے ان کے ڈرائنگ روم پر قابض ہونے کے لیے آصف کا گھر میں ہونا ضروری نہیں تھا۔
ہماری نششت کے موضوعات مذہب،کتابیں اور سکول کے معمولات ہوا کرتے تھے۔اب اتنے برسوں بعد یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے مل کر کبھی کوئی کھیل ایک ساتھ نہیں کھیلا۔سنیما نہیں گئے۔آوارہ گردی نہیں کی اور نہ ہی کسی کی غیبت۔ہم بس بے سروپا مباحث میں الجھے رہتے تھے اور شاید اس کی وجہ ہمارے مابین دو ایک ایسے دوستوں کا وجود تھا جو دینی گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور مذہب و ملت کے حوالے سے غیر معمولی دانش کے حامل تھے۔ان سب میں میری حیثیت سامع کی ہوتی تھی اور اب بھی ہے۔
ہاں میں کبھی کبھی اپنے بھانجے احمد نواز سے ملنے بورڈنگ ہاؤس چلا جاتا تھا۔وہ لوگ پہلی منزل پر رہتے تھے اور ایک بڑے سے کمرے میں مل جل کر بسر کرتے تھے۔وہیں ایک نیم مغدور طالب علم تھےجو دونوں ہاتھوں سےخطاطی کرتے تھے۔بخدا اس عمر میں میں نے ان سے بڑھ کر کسی کا خط اس قدر اُجلا نہیں دیکھا۔
ماسٹر عبدالحق کے یہاں کلاس ششم کے بعد موقوف ہو گئی تھی۔وہ اب کلاس انچارج بھی نہیں تھے مگر ان کے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔کئی بار وہ بھی اہل وعیال سمیت ہمارے ہاں چلے آتے تھے۔ان کے بڑے صاحب زادے پولیس انسپکٹر تھے اور شہر کے جید عالم مولوی ہدایت اللہ کے داماد۔ان کی پوسٹنگ کہیں باہر تھی۔دوسرے صاحب زادے گلفام میاں بھی عمر میں ہم سے بڑے تھے اور اپنی ذات میں مست تھے۔اس لیے ماسٹر صاحب کی تشریف آوری اہلیہ اور بچیوں کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔جن میں سے ایک مجھ سے دو برس بڑی تھی تو دوسری دو ڈھائی برس چھوٹی۔
ساتویں جماعت ہی میں میں نےسکول کی مرکزی عمارت سےجُڑی، کوئی دس سیڑھیوں کے چبوترے پر واقع نہایت پُرجمال لائبریری
تک رسائی حاصل کر لی تھی۔یہاں سے ایشو ہونے والی پہلی کتاب
"او ہنری کے افسانے”تھی جو مختصر افسانے سے میرا پہلا تعارف تھا۔
مجھے مترجم کا نام تو یاد نہیں مگر اس کتاب نے میرے اندر کے رومانی مجاہد کا گلہ گھونٹ دیا۔میں نے نسیم حجازی اور اس کے کُٹم کے ناول نگاروں کو پڑھنا ترک تو نہیں کیا مگر افسانے کا جادو گہرا ہوتا چلا گیا۔میرے اندر ایک رومانوی ہیرو کی تشکیل ہونے لگی۔اس کو مزید تقویت اے آر خاتون اور اس کی چیلیوں کے ناولوں نے دی۔میں جن سے جلد ہی بھر پایا مگر ان سے مکمل نجات پانے میں برس دو برس تو لگے ہی ہوں گے۔
اسی زمانے میں ایک واقعے نے ہماری برادری میں میری دھوم مچا دی۔ہوا یوں کہ ماں،بہنیں اور بھائی کسی وجہ سے بستی گئے ہوئے تھے اور گھر پر صرف میں اور ملازم(چراغ)تھے کہ شام کو برادری (بستی سنپالاں)کے کوئی پندرہ لوگ رات کو ٹکنے کے لیے چلے آئے۔انہیں صبح کسی گاڑی سے غالباً لاہور جانا تھا۔ہمارے گھر میں اس وقت نہ اتنی چارپائیاں تھیں نہ بستر نہ کھانا۔سو ان کو دستیاب چارپائیوں پر ٹکا کر میں نے نانی جنت کو بلایا۔بازار جا کر سبزی،گوشت،برف اور دودھ لایا۔اس عالم میں کہ میری جیب میں کوئی پیسہ نہیں تھا۔محلے میں گھوم کر بستر اور چارپائیاں اکٹھی کیں۔سالن نانی نے پکایا اور روٹیاں تندور سے لگ کر آئیں۔اس کام میں نانی کے بیٹے نے بڑی مدد کی۔سب کی مقدور بھر تواضع کے بعد خواتین کو صحن اور مردوں کو کچے حصے میں پیڈسٹل فین لگا کر بستر لگوا دیے اور خود ملازم کے ساتھ چھت پر سویا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا معلوم نہیں مگر ہوا اور اس کی وجہ شاید وہ تربیت تھی جو گاؤں میں آنے والے مہمانوں کی تواضع کرنے سے پائی تھی مگر اس سے اپنی واہوا بلے بلے ہو گئی اور ابّا،اماں کی شاباش نے تو ہمیشہ کے لیے نہال کر دیا۔گو شاباش کے اصل مستحق وہ دکان دار اور محلے دار تھے جنہوں نے کوئی سوال پوچھے بغیر وہ سب کچھ فراہم کیا جو میں نے چاہا۔یقیناً میرے ابّا جی نے ان کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہو گی۔

سب ٹھیک چل رہا تھا اور میں جو مل رہا تھا،پڑھے جا رہا تھا۔بچوں کے رسائل اب مزہ نہیں دیتے تھے گو ان میں”ہمدرد نونہال”اور”تعلیم و تربیت”کا اضافہ ہو گیا تھا۔اب میں”قہقہہ”،چاند”اور”آداب عرض”
بھی پڑھنے لگا تھا۔”چاند”میں معروف گیتوں کی پیروڈی شائع کی جاتی تھی۔ایڈیٹر پیرجنگلی علیہ ماعلیہ تھے جن کا دوسرا نام وحشی مارہروی تھا۔اس کی”سچّی کہانیوں”پر وقت ِمطالعہ”درج کیا جاتا تھا۔شاید یہ ایجاد مصروف لوگوں کی اعانت کے لیے تھی کہ مجھ جیسا فارغ تو ان کہانیوں کو اس سے چوتھائی وقت میں نمٹا لیا کرتا تھا۔یہ کہانیاں عام طور پر ناکام عشّاق اور مجبور لڑکیوں کی
داستان ِحیات سے معاملہ رکھتی تھیں۔بہت بعد میں، میں نے اس سلسلے کی چند کہانیاں لکھی اور طبع کرائیں تو ان کی جذباتیت بھی خاصے کی چیز تھی اور بیسیوں تعریفی مراسلوں کی موصولی کا سبب بنی۔یہ بات میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس زمانے میں خط کتابت کے لیے میں آصف کے گھر کا پتا دیا کرتا تھا۔آداب عرض میں بھی میں یہی پتا چھپواتا رہا۔
نصاب کی کتابوں کے علاوہ شاعری کی مختلف صورتیں انہی رسائل میں دیکھیں۔ایم اسلم کے ناولوں کے ہر باب کے آغاز میں بھی شاعری پڑھنے کو ملتی تھی اور مجھے یاد ہو جاتی تھی۔کبھی کسی گیت کی پیروڈی کی سوجھتی تھی تو دل ہی دل میں گنگنا کر آزما لیتا تھا۔با آواز ِبلند گانے کی ہمّت اس لیے نہیں تھی کہ غسل خانے میں گاتے ہوئے بھی اپنی آواز بھدی ہی محسوس ہوتی تھی۔پھر کس بِرتے پر تتّا پانی۔تب اوزان و اوسان دونوں خطا رہتے تھے مگر ایک بار ہمت کرکے”چاند”کو مکیش کے ایک گیت”چل اکیلا”کی پیروڈی بھجوائی تو وہ چھپ گئی مگر اسے میں نے اپنے لیے مثال نہیں بنایا اور نہ اس عمل کا اعادہ کیا۔پڑھنے اور قدرے بعد میں لکھنے کے سلسلے میں نثر ہی کو ترجیح دی اور شاعری سے وہی نسبت رہی جو چرخے کو چرخِ ِادب سے ہے۔

درس گاہ – 18

تانگہ پورے خاندان کے استعمال کی سواری تھی۔والد صاحب کو اکیلے کہیں قریب جانا ہوتا تھا تو کسی ملازم کے ساتھ پیدل ہی چلے جاتے تھے یا گھوڑے پر زین ڈال خود ہی چکّر لگا آتے تھے۔گرمیوں میں جانوروں کو آرام کا موقع دیا جاتا تھا۔خاص طور پر برسات اور حبس کے موسم میں تو تانگہ جوتنے یا گھوڑے کی سواری سے پرہیز کرنے کی تاکید تھی۔روایت تھی کہ اس موسم میں کاغذ کے ساز( چمڑے کا سینہ بند اور پٹیاں جو تانگہ جوتنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں)اور زین بنا کر اپنے رہوار کو دکھا کر اُس کی آنکھوں کے سامنے جلا دیے جاتے تھے جو اس امر کا اشارہ ہوتا تھا کہ اس موسم میں جانور کو جوتنے کی تکلیف نہیں دی جائے گی،سو برسات میں باہر نکلنےکی شرح کم ہو جاتی تھی اور یہ اس لحاظ سے اچھا تھا کہ اس موسم میں دن بھر پسینہ بہنے کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ بڑھ جاتا تھا۔موسمی پھلوں اور نمکین کچّی لسّی کا استعمال بڑھا دیا جاتا تھا اور مسافروں کی تواضع شِکونجی یعنی شکنجبین سے کی جاتی تھی۔
فصلوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بھی بہت مزے کا تھا۔ابّاجی فجر کی نماز کے فورا بعد اپنے کُھوہ پر چلے جاتے تھے۔تمام کاشت شدہ رقبے کا دورہ کرتے،با آواز ِبلند فصلوں سے ہمکلام ہوتےاور ان کی تعریف کرتے۔کہا کرتے تھے کہ فصل مالک کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔مدتوں بعد میں نے ایک سائنس میگزین میں کسی جاپانی بائیو سائنسٹسٹ کی تحقیق پڑھی۔انہوں نے کسی اناج کے دو یکساں قطعے پانی،کھاد اور ضروری ادویات کے ایک جیسے اور بروقت استعمال کے ساتھ کاشت کیے مگر ایک کھیت کی پرورش موسیقی سُنا کر اور تعریفوں کے پُل باندھ کر کی اور دوسرے کھیت کی بدکلامی اور بد دماغی کے ساتھ۔موصوف کی تحقیق کا تت یہ تھا کہ پہلے کھیت کی فصل معیار،وزن اور یافت میں دوسرے کھیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔
میرے ابّاجی سائنس دان تو نہیں تھے مگر صدیوں سے چلی آتی لوک دانش کے امین ضرور تھے۔گندم کے موسم میں فروری کے آخر یا مارچ میں ہونے والی ہلکی بارش ہر کسان کو عزیز تھی اور اس کی بوندوں کو”سونے دی کنی”کہا جاتا تھا۔برسات میں معاملہ اگرحد سے نہیں بڑھے تو یہ بارشیں حبس پیدا کرنے کے باوجود پسندیدہ تھیں۔
اس سلسلے کے ایک واقعے کا تعلق خشک سالی سے ہے۔ساون بھادوں کا زمانہ تھا اور بادل تھے کہ دھوپ میں نہا کر آتے تھے اور زمین کی طرف دیکھے بغیر گزر جاتے تھے۔لوگ دن چڑھے درختوں کےنیچے آ جاتے تھے کہ اس موسم میں کمروں میں رُکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔جب موسم ختم ہونے پر آ گیا اور پانی کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑی تو بارش کے لیے کئی ٹوٹکے کیے گئے۔بے دھیانی میں بچوں کے منہ کالے کئے گئے۔نمازیں پڑھی گئیں۔اذانیں دی گئیں اور ایک روز جب میرے والد گھر کے سامنے کھال پر دھرا شہتیری پُل پار کر رہے تھے۔گاؤں کی کُنواریوں نےاچانک اپنے پانی سے بھرے گھڑے اُن پر خالی کر دیے۔وہ بہت خفا ہوئے کہ روایت کے مطابق یہ ٹوٹکہ اُس آدمی پر آزمایا جاتا ہے جو جتی ستی(پاکباز)ہو اور اب اگر بارش نہیں ہوتی تو اُن کی عزت پر حرف آنا لازم تھا مگر اللّٰہ نے اُن کی لاج رکھ لی۔کچھ ہی دیر میں بادل گھر آئے اور کُھل کر برسے۔
بہت بعد میں اُن سے ایک ملاقات کے بعد سرّاج منیر نے مجھےکہا تھا "غلام حسین ساجد!تمہارے والد ولی ہیں” تو میں نے اُس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔اس لیے کہ میرے لیے اُن کا انسان ہونا اُن کے ولی ہونے سے اہم تھا اور ہے۔
دوسرا واقعہ غیر معمولی بارش کے ہونے سے متعلق ہے۔بادل ظہر کے بعد ٹُوٹ کر برسنا شروع ہوا،پہلے اخروٹ کے سائز کے ان گھڑے اولے پڑے،پھر طوفانی ہوا اور بارش جو رات بھر جاری رہی۔ہوا اتنی تیز تھی کہ بیسیوں درخت زمیں بوس ہو گئے۔کھیت پانی سے بھرے،پھر گذرگاہیں اور سڑکیں اور پھر صحن۔مشرق سے سیلابی ریلہ چلا اور جراحی،ڈپیٹیاں والا،بستی کبیر سنپال کی فصلوں پر رواں آئینے کی تہ جماتا پکا حاجی مجید کو نگل کر آگے بڑھ گیا۔صبح ہونے پر بارش کی چھماچھم جاری تھی گو رات کے مقابلے میں ہلکی تھی۔میں باہر کا جائزہ لینے کو باہر نکلا تو گرے ہوئے پیڑوں اور کھڑے ٹُنڈ مُنڈ درختوں پر سینکڑوں پرندے اس حالت میں بھیگےبیٹھے تھے کہ ان میں دوسری ٹہنی تک اُڑ کر جانے کی سکت نہیں تھی۔بے شمار فاختائیں پانی میں پھڑپھڑاتی تھیں مگر کسی محفوظ جگہ تک پہنچنے سے معذور تھیں۔اتفاق سے ہمارے بیلنے کا کڑاہ گھر میں دھرا تھا۔میں نے اور میرے چھوٹے بھائی نے ماں کی اجازت سے اسے پانی میں ڈالا تو وہ تیرنے لگا۔ہم نے اس "کشتی”کے ذریعے پچاسوں فاختاؤں کو ریسکیو کیا۔اپنے گھر کے برآمدے میں لا کر رکھّا اورموسم کُھلنے پر اُڑا دیں تو یوں لگاجیسے کسی اپنے کو آزادی کا تحفہ دیا ہو۔
اب دھیان آیا ہے کہ یہ شعر غالباً اسی واقعے کا پرتو ہیں:
ہمارے دل غموں میں یُوں گِھرے ہیں
کہ جیسے بارشوں میں فاختائیں

درختوں پر فقط اب ڈھیر ہیں ٹوٹے پروں کے
پرندے کون سی دُنیا میں ضم ہونے لگے ہیں

افسوس کہ زندگی کے پہلے گہرے دکھ کی یاد بھی ایک پرندے ہی سے جُڑی ہے۔
اس واقعے سے کوئی برس دو برس پہلے اپنے گاؤں کے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود کے دوران میں نہ معلوم کیسے یہ بات ہم لوگوں پر اپنے آپ کُھل گئی کہ ایک خاص موسم میں زرد یا سُرخ بِھڑیں سُست اور نڈھال پڑ کر ڈسنےسے گریز کرتی ہیں اور اُن کو پکڑ کر اور اُن کا ڈنک نکال کر اُن سے کھیلنا ممکن ہوتا ہے سو ایسے موسم میں جو غالباً آمد ِسرما کے نزدیک کا ہوا کرتا تھا،ہم کسی نہ کسی طرح ان بِھڑوں کو پکڑ کر اور ان سے کسی بے جان شے کو ڈسوا کر بے ضرر بنا دیتے تھے اور ان کے پاؤں میں مشینی دھاگہ باندھ کر انہیں اُڑنے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔اس مقابلے میں ہماری ہارجیت کا فیصلہ ہماری بِھڑ کے اُڑنے کی بلندی سے ہوتا تھا۔پاؤں میں بندھے دھاگے کے بوجھ کو اُٹھا کر اُڑنے والی بِھڑ ایک خاص بُلندی اور فاصلے تک جا کر جیسے فضا میں ساکت ہو جاتی تھی اور دھاگے کو تھام کر بِھڑ کو کسی خاص علاقے میں محدود رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ایسی بِھڑیں فضا میں ایک مخصوص بلندی پر پھڑپھڑاتی تھیں اور بالآخر تھک کر کسی نزدیک کی شے پر بیٹھ جاتی تھیں۔یہی وقت،فاصلہ اور بلندی ہماری ہار جیت کی میزان تھی۔
ان بِھڑوں کا اُڑنا اور ہوا میں ساکت ہو کر پھڑپھڑانا ایک پُرلطف اور قابلِ دید نظارہ تھا اور اس سے کسی پچھتاوے کا وابستہ ہونا ممکن نہیں تھا کہ بِھڑوں اور ڈسنے والے دیگر زہریلے بُھنگوں کو مار ڈالنا کارِ ِثواب گردانا جاتا تھا۔پچھتاوے کا مرحلہ تو اس سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں آیا اور بقول ِمنیر نیازی میری ساری زندگی کو بے ثمر کر گیا۔
ہُوا یوں کہ ہماری ٹولی نے اس تجربےکو چِڑیوں تک پھیلانے کا سوچا اور ہم بہت جلد مختلف طریقوں سے چڑیاں پکڑ کر اور اُن کے پاؤں میں بندھے دھاگے کے سرے کو اپنی انگلی پر لپیٹ کر ان کی محدود پروازوں کے دورانیے سے اپنی ہار جیت کا فیصلہ کرنے لگے۔بھڑوں کی طرح چڑیاں بھی اپنے آپ کو آزاد سمجھ کر اڑتی تھیں اور دھاگے کی لمبائی کی حد پر جا کر ایک ہی جگہ ساکت ہیلی کاپٹر کی طرح پھڑپھڑانے لگتی تھیں۔اُن کے پروں کی جھنکار ایک خاص ردھم کے ساتھ ہمارے کانوں تک آتی تھی جیسے کوئی تیزی سے پنکھا جھل رہا ہو مگر اس کی ہوا کسی تک پہنچ نہ پا رہی ہو۔
دھاگے سے بندھی ہوئی چڑیاں ہوا میں پھڑپھڑاتے ہوئے کچھ دیر پکڑنے والی کی انگلی پر اپنی قوتِ پرواز کا دباؤ برقرار رکھتی تھیں مگر اس قدر نہیں کہ دھاگہ ٹوٹنے کی نوبت آئے یا چڑیوں کے فضا میں نکلنے اور مختلف سمتوں میں اڑنے کی کوشش کے تناؤ سے کسی کھلاڑی کی انگلی پر کوئی نشان پڑ جائے۔بھڑوں کی طرح ان چڑیوں کا بھی ہوا میں ساکت ہو کر پھڑپھڑانے کا منظر بہت پُرلطف ہوتا تھا اور شاید مجبوری و مختاری یعنی جبر و قدر کے مسئلے کو سمجھنے میں بہت معاون ہو سکتا تھا اگر اُس روز میری انگلی سے لپٹے دھاگے کا سرا پھسل کر میری انگلی سے بندھی چڑیا کو آزاد نہ کر دیتا۔
نہیں معلوم یہ کیسے ہوا مگر ہوا اور میری انگلی سے بندھی،دھاگے کے دوسرے سرے پر فضا میں تیرتی چڑیا کو اچانک افق کے کھلتے چلے جانے اور اپنے پروں کی طاقت کے کارگر ہونے کا ایسا احساس ہوا کہ وہ ایک لمبی اڑان کے ساتھ میرے ہاتھ کی رسائی سے دور ہوگئی۔کچّی زمین پر دُھول اُڑا کر اس کے پیچھے بھاگ کر،جلانے کے لیے رکھی لکڑیوں کے ڈھیروں پر چڑھ کر اور راہ میں حائل گھروں کی کچی داؤدی دیواروں کو پھلانگ کر بھی میں زمین سے ایک خاص بلندی پر لٹکتے دھاگے کے سرے کو پھر پکڑ نہیں پایا اور اپنی آزادی کے نشّے میں مست مگر اپنے تعاقب میں مری موجودگی سے باخبر چڑیا چھوٹی چھوٹی اڑانیں بھرتی بالآخر ہماری چھوٹی سی بستی سے باہر کھیتوں کی طرف پرواز کر گئی اور میں ایک غیر واضح احساس ِزیاں کے ساتھ گھر پلٹ آیا۔
گھر پلٹنے کے کئی روز بعد تک مجھے اندر ہی اندر کسی ان ہونی کے وقوع پذیر ہونے کا ڈر رہا جس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔شاید یہ اپنے ہم جولیوں کے کھیل سے باہر ہونے کا رنج تھا مگر اس میں شمولیت کے لیے تو بس ایک اور چڑیا پکڑنا کافی تھی اور چڑیوں کی گاؤں کے درختوں اور گھروں کے چھپروں میں کوئی کمی نہیں تھی۔پھر بھی میں نے کوئی نئی چڑیا نہیں پکڑی اور میرا جی چاہتا تھا کہ کہیں سے اچانک وہی رہا ہو کر معدوم ہونے والی میری اپنی چڑیا پلٹ آئے اور میں اسے دوبارہ اڑانے سے پہلے اس کے پاؤں میں بندھے دھاگے کو کھول دوں۔
میں نے کوئی چڑیا پکڑی نہ ہی میری اپنی چڑیا پلٹ کر آئی اور دن پرندوں کی طرح پھڑپھڑاتے گزرتے رہے۔دن بھر گھر میں،سکول میں اور ہم جولیوں کے ساتھ میں ہر طرح کے معمول میں شریک رہا مگر کئی دنوں سے ایک اضافی کام میرے معمول کا حصہ بن گیا تھا اور اس کام کے لیے میں نے کسی کو ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں جانی۔
یہ کام تھا ظہر کے بعد بستی کے ارد گرد کے درختوں کے جھنڈوں میں جا کر آوارہ گھومنا،پیلے پھولوں سے بھرے کیکروں کو جھومتے دیکھنا،شیشم کے لدے درختوں کی بوجھل مہک سے سرشار ہو کر اپنی تنہائی کا مزہ لیتے ہوئے،لو دیتے پتّوں کی سرسراہٹ سے مس ہوکر چھنتی کرنوں کا شمار کرنا اور ایک محسوس نہ ہونے والی بے چینی کے ساتھ اپنی کھوئی ہوئی چڑیا کو تلاش کرنا۔کیوں کہ کہیں اندر ہی اندر مجھے معلوم تھا کہ اس رس بھری دنیا کو چھوڑ کر وہ کہیں دور بہت دور نہیں گئی ہو گی۔
میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اور اپنے روحانی اضطراب سے بڑی حد تک انجان مگر میرا احساس برحق تھا اور میرا یہ گمان بھی کہ میری گرفت سے نکلنے والی چڑیا کہیں دور نہیں جا سکتی۔واقعی اس کو کہیں دور جانا نصیب نہیں ہوا۔بہت دنوں بعد وہ مجھے ایک کیکر پر ملی۔اس کا سوکھا ہوا پنجر اسی دھاگے سے بندھا ہوا زمین سے چند فٹ کی بلندی پر لٹکتا تھا۔دھاگے کا دوسرا سرا کیکر کی شاخوں میں الجھا ہوا تھا۔وہ شاخیں کسی بچے کی انگلی جیسی پھسلواں نہیں تھیں اور چڑیا کے لیے موت کی اس زنجیر کو توڑ کر نکلنا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ایک بچے کی حماقت سے کھینچے ہوئے اس دائرے میں اس کی بھوک اور پیاس بجھانے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی تھی اور اس کی آزادی اس کے لیے موت کا پروانہ بن گئی تھی۔کب؟مجھے معلوم نہیں مگر مری تلاش ختم ہونے تک اس کے پنجوں اور گوشت سے خالی ڈھانچے پر تھکے ہوئے پروں کا ایک ننھا سا ڈھیر ہی باقی تھا جسے میری روح،میرے احساس میں بھی باقی رہنا تھا۔
آج اپنے پاؤں کی زنجیر کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ میری آزادی کی حد کیا ہے اور میری زندگی کا انجام کیا ہوگا؟
کاش میں نے اُس چڑیا کو پہلے ہی روز ڈھونڈ لیا ہوتا تو اپنے اندر کی اس گھٹن اور پچھتاوے سے آزاد ہوتا مگر ِ تقدیر نے جو کمی کسی کی قسمت میں لکھ دی ہو،اسے کوئی کس طرح دور کر سکتا ہے؟