اس علاقے کی راٹھ قومیں سنپال،کھگّے،سیّد(گیلانی اور شیرازی) قریشی،ہراج،سہو،کھکھ،پادھے،بودلے اور خاکوانی ہیں۔جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں۔اُس وقت جراحی میں پیر برکت علی شاہ،محبّ شاہ،چن پیر شاہ،ریاض حسین شاہ اور غلام رسول شاہ معروف تھے اور پیر برکت علی شاہ کے پانچ صاحب زادے سیّدحسن،تقی شاہ،باقر شاہ،رضا شاہ اور مراتب شاہ جو اپنے نام سے زیادہ اپنے لقب”نوّاب”سے معروف ہوئے۔کوٹ برکت علی خاں میں لیاقت علی خان،عبدالحمید خان،ذوالفقار علی خان اور افتخار علی خان۔پکّا حاجی مجید میں پیر سوہارے شاہ،عبدالعزیز شاہ اور ان کے صاحب زادے محمد شاہ،عبدالرحمان شاہ(ذیلدار)،غلام رسول شاہ وغیرہ۔غازی پاندھا میں راج محمد پاندھا۔بستی سنپالاں میں مہر پہلوان،مہر اللہ یار،مہر احمد یار،مہر جان محمد اورمہر وریام۔کھکھوں میں مہر وریام ککھ اور قریشیوں میں پیر ظہور حسین قریشی کی دھوم تھی اور دس چک کے گیلانی تو ملتان سے نسبت کی وجہ سے معروف تھے ہی یعنی پیر شوکت حسین گیلانی اور پیر رحمت حسین گیلانی۔ان راٹھوں کے بیچ جائداد اور سیاسی جتھے بندی کے لحاظ سے ہم پدّی کی مثال تھے مگر میرے دادا اور پھر والد کی ذکاوت کے باعث ہم برابر تُلتے تھے اور ہماری حیثیت بتّیس دانتوں میں زبان کی تھی جو چلتی ہے مگر دانتوں کے دباؤ میں نہیں آتی اور آ جائے تو پورے منہ کو ناکارہ کر دیتی ہے۔
ہراج ہم سے فاصلے پر تھے مگر ان سے بھی نسبت تھی اور کافی گہری۔میں ذرا گھومنے پھرنے کے قابل ہوا تو میرے والد نے مجھے مختلف زمینداروں کی طرف شادی غمی پر بڑے بھائیوں کے ساتھ بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا۔یہ ایک طرح سے ان خاندانوں میں میرے اور مجھ سے چھوٹے بھائی کے تعارف کا آغاز تھا۔کئی جگہوں پر میں نے ملازم کے ساتھ جا کر بھی حاضری دی۔یہ سب بزرگ ہمارے چچا اور ان کی اولادیں ہماری بھائی کہلائیں اور ہم نے سب کو جھک کر،گھنٹے چھو کر تعظیم دی جو ہماری اخلاقی روایت کا حصّہ ہے۔یہی وجہ ہےکہ آج ان کی اولادیں یہی تعظیم ہمیں دیتی ہیں۔اپنی تہذیبی روایت سے میں نے ایک راز کی بات یہ جانی کہ دوستی وہی اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے جس کی جڑیں گھر کی ڈیوڑھی کے اندر ہوں۔بیگمات اور بچوں کا آپس میں میل جول ہو۔ہر خوشی اور غم کے موقع پر حاضری دی جائے اور مل بیٹھنے کی صورت نکالی جاتی رہے۔ورنہ اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے،جس کی طرف میں نے اپنی ایک پنجابی کہانی”اگّے راہ اگم دا”میں اشارہ کیا ہے۔چالیس برس کے تعلق کے بعد بھی آپ اگلی نسل کے لیے”آپ کون؟”ہوتے ہیں۔
اُس وقت کے کار سوار تو مجھے یاد نہیں مگر ہمارا،مہر وریام کھکھ اور چودھری راج محمد پاندھا کے تانگے جگت میں مشہور تھے۔ایک تانگہ پندرہ جگ کے راجوں کا بھی تھا۔اسی دوران میں پہلے لحیم شحیم موٹر سائیکل اور پھر ویسپا سکوٹر کا دور آیا۔جس کے خریدنے کی میرے کزن مہر دلدار کے نزدیک ایک وجہ تانگہ سواروں پر دھدّڑ ڈال کر "وہ جانا”تھا۔میں تو شہر میں رہتا تھا مگر میرے عزیزوں نے جنہیں شہر آنے جانے کی مشقّت اُٹھانی پڑتی تھی،مشینی سواریوں کا رُخ کرنا شروع کیا اور بھانجے حق نواز نے ایک موٹرسائیکل”کولبری
کوئکلی” خرید کی،جس کی قیمت شاید پندرہ سو تھی۔یہ کلچ کے بغیر چلتی تھی اور میں نے حق نواز کے ساتھ اسے چلانا سیکھنا شروع کیا تو پہلی ہی بار پکا حاجی مجید کی طرف سے تلمبہ روڈ پر لے آیا مگر خرابی تب ہوئی جب ایک بیل گاڑی کی آمد پر مجھے تلاش کے باوجود گئیر ملا نہ بریک اور میں کوئکلی کو کچّے میں اتار کر زمیں بوس ہو گیا۔تاہم یہ ایک ہی بار ہوا اور بہت جلد میرا شمار ماہر سواروں میں ہونے لگا۔
میاں چنوں میں ماسٹر مختار کی بیٹھک جاری تھی۔ہماری پوری ٹولی قابل طلبہ میں شمار ہوتی تھی۔ابّا جی کی پیر ثنا اللہ بودلہ کے ہاں نششت بھی جاری تھی اور میرے آنہ لائبریریوں کے پھیرے بھی مگر اب وہاں کی کتابوں میں میرا جی نہیں لگتا تھا۔اس دوران میں کسی کتاب میں خلیل جبران کے بارے میں پڑھا اور اسے پڑھنے کی لپک اس قدر بڑھی کہ میں نے شہر کی درس گاہوں کی لائبریریاں کھنگال کر ایک کتاب”اُس نے کہا”ڈھونڈ نکالی جو ان کی کتاب”النبی”کا ترجمہ تھی اور یہ اس مصنف کے عشق میں مبتلا ہونے کا آغاز تھا۔اسی عشق میں میں نے غلام یزدانی”یزد”نامی ایک دیوانے کے ملفوظات بھی پڑھ ڈالے۔آج سوچتا ہوں کہ مجھ پر اس اسلوب کے اس درجہ اثر پذیر ہونے کی وجہ اس کے اسلوب ِنثر کی شعریات تھی کہ اس نثر پر الہام یا الہام سے ملتی جلتی کسی کیفیت کا غلبہ تھا اور مجھے اس کی دانش،اساطیر اور شاعرانہ لپک بے خود کرتی تھی۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ میرا مزاج لڑکپن سے شاعرانہ تھا مگر مجھے شاعری سے قریب کی نثر اور لحن میں مزہ ضرور آتا تھا۔
میں پڑھ رہا تھا مگر لکھنا ابھی موقوف تھا۔موقوف کیا حقیقت یہ ہے کہ ابھی آغاز ہی نہیں کیا تھا،نہ یہ یقین تھا کہ مجھ میں اظہار کی اس درجہ صلاحیت ہو گی۔میرے اندر اگر کچھ ٹوٹ رہا تھا تو میں اُس سے بے خبر تھا اور اگر کچھ بن رہا تھا تو وہ بھی میرے ادراک سے بالاتر تھا۔دوستوں کے درمیان وجہ ِدوستی کورس کی کتابیں تھیں اور ابھی”نگاہوں میں سمایا ہے نہ کوئی دل میں رہتا ہے”کی حالت قائم ہی نہیں،اٹل حقیقت تھی۔پرندوں کی چہکار میں لبھانے کی ادا تو تھی مگر فراق کی کسک نہیں اور باغ میں کھلنے والے پھولوں کے رنگ عارضی ہو کر بھی”عارضی”نہیں تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب میں سمجھتا تھا کہ شاعری کی”تلخیاں”سے اچھی کتاب لکھنا ممکن نہیں۔شاید اسی لیے میں ساحر کی دوسری دو کتابوں”پرچھائیاں”اور”گاتا جائے بنجارہ”سے کبھی متاثر نہ ہو سکا۔
آصف کے گھر کی نشستیں بھی جاری رہیں۔بس ان میں یہ فرق آ گیا تھا کہ بحث کا دورانیہ بڑھ گیا تھا۔کبھی دوست مجھے ریلوے کی پٹڑی تک چھورنے آتے تو بحث کی جھونجھ میں ہم واپس چل پڑتے اور ایک دوسرے کو گھر کے قریب پہنچانے کا یہ سلسلہ ختم ہونے ہی میں نہ آتا۔ہار کر برابر فاصلے پر شب بخیر کہا جاتا اور اگلے روز بحث کا آغاز پھر وہیں سے کیا جاتا۔ممتاز احمد نے اسی دوران میں تبلیغی جماعت اور حفیظ احمد نے جماعت ِاسلامی سے متاثر ہونا شروع کر دیا تھا مگر مجھے دونوں جماعتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ایک بار ممتاز کے اصرار پر اس کا دل رکھنے کے لیے تبلیغی جماعت کا بیان سُنا اور ممتاز کی رقت بھری طویل دعا تو یہ رغبت اور کم ہو گئی۔اس جماعت کے علماء کی گفتگو میں پہلا تاثر یہ ابھرتا تھا کہ وہ دینی حوالے سے تفاخر میں مبتلا ہیں اور دوسروں کو جاہل ِمطلق اور کم تر جانتے ہیں۔بہت دن بعد کہے جانے والے ایک شعر میں شاید اسی کیفیت کا اظہار ہوا ہے:
میں سمجھا تھا کہ وہ ہے معترض کار ِمحبت پر
مگر شک ہے فقیہہ ِ شہر کو ایمان پر میرے