درس گاہ – 24

تب دریا اور بھینی کے دونوں طرف گھنا بیلا تھا اور دریا کے پار تو باقاعدہ جنگل اُگ آیا تھا۔دریا کا بیٹ خاصا چوڑا تھا اور گرما میں کشتی کے سوا پار اترنے کی کوئی صورت نہیں تھی جو پتن سنپالاں پہ لگتی تھی۔دریا کی اٹھکیلیوں اور راستہ بدلنے کی عادت کے باعث آس پاس کئی بڈّھیں وجود میں آ گئی تھیں۔جہاں سرما کے اوائل میں ہر طرح کا شکار ملتا تھا۔مرغابی،تیتر،خرگوش اور باہرلے۔آخرالذکر کا یہ نام غالباً انگریزوں سے”جانگلیوں”کی”اُلفت”کا کنایہ ہے اور خوب ہے۔
یہاں ہر طرح کے شکاری پدھارتے تھے اور ہمارے یا آس پاس کے زمینداروں کے مہمان ہوتے تھے۔مہمان تو ڈکیت اور مفرور عشّاق بھی ہوتے تھے مگر وہ ہمارے کس کام کے اور اگر کام کے تھے بھی تو ہم ابھی اس سہولت سے استفادے کے قابل نہیں تھے۔
شکاریوں کے یہاں بکثرت پدھارنے کی وجہ اس علاقے کا محل ِوقوع تھا۔ہم راوی کے اِس پار یعنی جنوب میں تھے مگر یہ زمین جس گاؤں کی تھی وہ ضلع لائلپور(اب ٹوبہ ٹیک سنگھ)کی تحصیل کمالیہ میں تھا۔یہاں تلمبے کی پولیس کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا اور اگر کمالیہ کی پولیس قدم رنجہ فرماتی تھی تو تحصیل خانیوال تک رسائی چند منٹوں کے فاصلے پر تھی۔اس لیے شکار کے لیے لائسنس کی ضرورت تھی نہ سرکار کی آشیرواد کی۔میں نے کئی بار شکاریوں اور پولیس کو تکرار کرتے اور پھر منڈلی جما کر ٹھٹّھے اُڑاتے دیکھا،جس کو تاڑی کا تڑکا دو آتشہ کیے رکھتا تھا۔
ایک بار نقشے میں راوی کا بہاؤ دیکھیے تو اُس کی صورت ایک لحیم شحیم کوبرا سے ملتی ہے۔اس کے کنارے پر بسنے والے راٹھ بھی کسی شیش ناگ سے کم نہیں۔جلّھی اور گوگیرہ سے لگنے والی کوک ان پانیوں پر ابھی تک تیرتی ہے۔
نورے نہنگ نے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا تھا:
"اُچّے بُرج لہور دے جتھے حاکم وی رہندے نیں کَھہندے
کابلوں چڑھن چُغطّے جنھاں توں لوک تراہندے
کئی آون کٹک درانیاں عزتاں ملکھاں دیاں لَہندے
ہک سکھاں دی دھاڑ نِکمّی لوک سیئیڑ وانگوں ڈر کے جنگل بیلیاں نوں چھاہندے
سندلے بنھ پِٹیندیاں پتن راوی دے رہن کُرلاندے”

میرا خمیر اسی مٹّی سے ہے اور آبا و اجداد کا سرزمین ِجھنگ سے اور ان کے اجداد کا راجپوتانہ سے۔بزرگوں سے سُنا ہے کہ ہمارا قبیلہ بابا فرید گنج شکر کے ہاتھ پر مسلمان اور بیعت ہوا تھا اور انھوں نے ہمارے جدّ ِامجد کو جھنگ کی طرف جا کر قبیلوں میں گھومنے اور دعوت ِاسلام دینے کی ہدایت کی تھی۔اسی”سیل” کے باعث وہ سیال کہلائے۔
کہانیاں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر کچھ کام سعید بھُٹا کے ذِمّے بھی رہنا چاہیے۔
۔۔۔شاید اسی لیے ہماری جمع بندیوں میں ذات کے کھاتے میں”راجپوت سیال سنپال”لکھا ہے۔مجھے سنپال کی وجہ تسمیہ نہیں معلوم مگر اس کی کچھ نسبت بھینس پالنے سے ضرور ہے۔ایک بار صفدر سلیم سیال سے بات ہو رہی تھی تو اس نے پوچھا تھا کہ سنپالوں میں بھینسیں رکھنے کا شوق اب بھی ہے یا نہیں؟ اس کا دعویٰ تھا کہ سنپال قبیلے کے ہر زمیندار کے یہاں کم از کم سو بھینسیں تو ہوتی ہی تھیں مگر میرے ہوش تک تو معاملہ دو چار تک آ پہنچا تھا مگر نسلی اور مثالی دودھیل۔
یہی دور تھا جب مجھے رنگوں،خوشبو اور سُر کی تمیز ہونا شروع ہوئی۔شاعری کا آہنگ اپنی ابتدائی جھلک دکھانے لگا اور نسائی حُسن کے اسرار منکشف ہونے کے لیے پر تولنے لگے مگر ابھی میری کیفیت اُس شخص کی تھی جو کلر بلائنڈ ہو۔منظر دُھندلے اور بے کیف تھے مگر صحن میں سوتے وقت سر پر سایہ کیے ستاروں کی روشنی بڑھ گئی تھی۔چاند کچھ آشنا سا لگنے لگا تھا اور زبان کی نوک پر حرفوں کی ڈاریں اپنی موجودگی کی خبر دینے لگی تھیں۔کچھ تھا جو زباں سے،انگلیوں سے اور آنکھوں سے ظاہر ہونے کی کوشش میں تھا اور ایسی ہی ایک رات میں نے تیرہ برس کی عمر میں اپنا پہلا شعر کہا۔
پتا نہیں یہ شعر میرا تھا بھی یا نہیں۔ایک رات چاند کو دیکھتے ہوئے یہ میری زبان پر جاری ہوا اور میں نے شہادت کی انگلی سے صحن کی کچّی مٹّی پر لکھ دیا:
دیکھو تو کتنی سست ہے رفتار وقت کی
مدھم ہے کتنا چاند بھی تیرے فراق میں
تب تک میں کسی شاعر کو نہیں جانتا تھا نہ میں نے شاعری کی کوئی کتاب پڑھی تھی۔ہاں ریڈیو پر ایک آدھ مشاعرہ ضرور سُنا تھا اور کشور ناہید کا نام یاد رہا تھا کہ اس نے اپنی غزل ترنم سے پیش کی تھی۔
ان دنوں میرے بھائی مہر نواب جہانیاں میں تعینات تھے اور میتلوں کے گاؤں میں ریتے تھے۔جن میں سے ان کے ایک دوست محمد خان میتلا کا نام مجھے یاد ہے۔میں انہیں ملنے گیا تو ایک ہم عمر لڑکے ارشد میتلا سے دوستی ہو گئی اور میں نے میاں چنوں لَوٹ کر اُسے ایک منظوم خط لکھا جو میری پہلی باقاعدہ شعری کاوش تھی۔اس خط کی میرے پاس کوئی نقل موجود نہیں نہ ہی ارشد سے دوبارہ کبھی ملاقات ہوئی مگر سُنا ہے کہ وہ سیاست میں فعال رہا اور کوئی ایم پی اے وغیرہ بن گیا تھا۔البتہ میں اسلم میتلا کے بہت قریب رہا جو بعد میں سول جج ہو گئے تھے مگر کہانی میں ان کا تفصیلی ذکر آنے میں ابھی بہت دیر ہے۔
پینسٹھ کی جنگ اسی زمانے میں لڑی گئی۔شاید میرے شاعر ہونے کے اوّلیں اشتباہ کے چند ماہ بعد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے