سٹیفن ہاکنگ نے”وقت کا سفر”میں کونیاتی وقت کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے۔اس کا تجربہ آج بھی شہر اور دیہات کی زندگی کے تقابل سے کیا جا سکتا ہے۔ساٹھ کی دہائی کے وسط میں دن لمبے تھے یا ہم انہیں کسی جادوئی قوّت سے کھینچ کر لمبے کر لیتے تھے،معلوم نہیں مگر سکول،مطالعے،دوستوں کے ساتھ محفل آرائی،کھیل کود اور بھائی بہنوں کے ساتھ دھما چوکڑی مچانے کے باوجود بہت سا وقت بچ رہتا تھا جس کا کوئی مصرف سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
ادبی کتابوں میں غرق رہنے کی وجہ سے مجھے اس نوع کی فرصت سے معاملہ کرنے میں دقّت نہیں تھی۔پھر بھی تبدیلی کی ضرورت تو رہتی ہی ہے۔اسی جبّلی خرابی نے آدم کو جنت سے نکلوایا اور من و سلویٰ سے محروم کیا۔سو ہم بہن بھائی بھی تبدیلی کی خاطر کبھی سنیما چلے جاتے تھے۔دلیپ کمار کی”آن”اور رتن کمار کی”بہت دن ہوئے” وغیرہ اسی فرصت کے خلا کو پاٹنے کے لیے دیکھی تھیں اور بہت سی پاکستانی کلاسک تصویریں مگر مشکل یہ تھی کہ نشاط سنیما شہر کے مشرقی کنارے پر تھا اور ہم مغربی سرحد کے آس پاس۔اس لیے اکیلے جانے کی اجازت ملتی نہیں تھی اور بڑے بھائی قابو میں کہاں آتے تھے؟ ابّا جی نے کبھی سنیما جانے کا سوچا نہ کھوپڑی کُھلنے کے ڈر سے اُن سے اس سلسلے میں بات کی جا سکتی تھی۔سو اس ضمن میں اگر کوئی امید تھی تو ماسی نوراں سے تھی اور وہ کبھی بر بھی آتی تھی۔
معلوم نہیں ہماری طلب رنگ لائی کہ تقدیر نے کروٹ لی کہ ایک کچّی ٹاکی سنیما”ناز”کے نام سے ریلوے پھاٹک کے سامنے ہمارے گھر کی بغل میں کُھل گیا۔اس کی بیرونی چاردیواری اور سکرین بغیر چھت کے تھی اور ہمارے گھر کی چھت سے پردے پر دوڑتی تصویریں دکھائی دیتی تھیں اور اگر اپنی چارپائی پر لیٹ کر کان ادھر لگائے جاتے تو سارے مکالمے بخوبی حفظ ہو سکتے تھے۔اس طرح ایک مفت کی تفریح ہاتھ آئی جو اس وقت اور ہی رنگ میں ڈھل گئی جب دونوں سینماؤں میں ناظرین کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے مقابلے کی دوڑ شروع ہو گئی۔پہلے دو اور پھر تین فلمیں لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ تفریح سہ لسانی ہوا کرتی یعنی ایک انگلش،ایک اردو اور ایک پنجابی فلم پر مشتمل۔اغاز میں مرکزی فلم اردو اور دو ایک برس بعد پنجابی ہوا کرتی اور ہم اپنی چھت پر سہ لسانی جمال کُشائی کا مزہ لیا کرتے کہ میرے چھوٹے بھائی نے یہ حقیقت”دریافت”
کر لی کہ تین فلمیں دیکھنے والوں کی تعداد پانچ فی صد سے زیادہ نہیں اور اکثریت پہلی یا دوسری فلم دیکھنے کے بعد گھر کی راہ لیتی ہے سو ہمیں جب سہولت سے باہر جانے کا موقع ملتا ہم سنیما میں گُھس جاتے اور مفرور ہونے والے فلم بینوں سے ٹکٹ مانگ کر اپنی پسند کی فلم دیکھ لیتے۔اس سہولت سے حقیقی فائدہ تب اُٹھایا جاتا جب کسی مہمان کو آدھی رات کی کسی گاڑی سے کہیں جانا ہوتا۔مطلوبہ ٹکٹوں کا انتظام کر کے مہمان کو سینما لے جایا جاتا اور آدھی رات کے بعد سینما سے سیدھا پلیٹ فارم پر پہنچا دیتے۔وہ ہنستے کھیلتے اپنی منزل کا اور ہم گھر کا رُخ کرتے اور جاگنے کی بے زاری سے بھی محفوظ رہتے۔
اس کے باوجود سکول کے اچھے طلبہ سے نسبت برقرار تھی اور اساتذہ بھی ہم سے مایوس نہیں تھے۔ماسٹر مختار سے اب دوستی ہو چلی تھی اور ماسٹر عبدالحق سے گھریلو مراسم بن گئے تھے۔وہ ہمارے اور ہم ان کے گھر آتے جاتے رہتے تھے اور ان کی بیٹیاں میری بہنوں ہی کی نہیں میری بھی دوست بن گئی تھیں۔آصف کے یہاں بھی بہت آنا جانا رہتا تھا اور وہ لوگ شہر اور گاؤں میں کسی تقریب کے بغیر ہمارے ہاں آتے رہتے تھے۔میرے پاس گاؤں آنا تو ایک لحاظ سے شہر کے سبھی دوستوں کی پکنک تھی اور کیوں نہ ہوتی؟میری ماں کے ہاتھ کا پکایا مرغ،بھاگن مچھانی کے ہاتھ کی لگی تندوری روٹی،سرسوں کا ساگ،مکھن اور بیسیوں دیہاتی سوغاتیں شہر میں ملتی کہاں تھیں؟ اس پر اپنے ہاتھ سے آم،جامن،بیر اور گنّے توڑ کر کھانے کی سہولت اور پڑھاکو ہونے کے باعث بستی کے ہر باشندے کی آنکھوں میں تکریم کی جھلک۔وہ جاگتے میں خواب نہ دیکھتے تو اور کیا کرتے اور وہ کیا خواب تھا کہ اب بھی ٹُوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
طالب نے دو چار بار ڈنڈا ڈولی ہو کر سکول پہنچنے کے بعد اسے تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا تھا اور چل نکلا تھا۔میں دسویں میں تھا تو وہ چھٹی جماعت میں پہنچ گیا تھا اور اب ہم ایک ہی سکول میں تھے۔تسلیم پھیری والوں سے اپنی توتلی زبان میں”آلو بارے”خریدنے لگی تھی۔ہم بھائی کچھ دیر ابّاجی کے ایک جاننے والے پُلسیے کے ساتھ اپنے ہی گھر میں”ادائی مہمان”کا تجربہ کر کے دوبارہ پرانے ڈھنگ سے شہر میں رہنے لگے تھے۔میں اب بھی پاجامہ قمیص ہی پہنتا تھا مگر اب بودے بنانا اور استری کیے ہوئے کپڑے پہننا روا ہو گیا تھا۔قد کاٹھ تو کچھ زیادہ نہیں تھا مگر اندر ہی اندر چڑھنے والی پرتیں گنتی سے باہر ہو چلی تھیں۔پھولوں کے نرم ریشمی لباس اور کھلکھلاتے رنگ خواہ وہ کہیں بھی ہوں،اب دکھائی بھی دینے لگے تھے اور لُبھانے بھی۔لبِ خنداں ہو کہ چاہِ زنخداں کہ پیشانی پر دمکنے والا چاند۔سب کی تاثیر کُھل رہی تھی۔مردانہ وجاہت اور نسائی جمال کی دُنیا سے تعارف تو داستانوں اور ناولوں کے پَنّوں پر ہو چکا تھا مگر اب وہ اپنے اردگرد اور موجود میں پھیلی نظر آنے لگی تھی۔یہی وقت تھا جب میں نے ساحر کے تتّبع میں نظموں کی کتاب لکھی اور عدم کے رنگ میں غزلوں کے دو دیوان مرتب کیے۔یہاں یہ بتانے میں کوئی ہرج نہیں کہ عدم سے مجھے”غازی کے سنپال”کے فلک شیر سنپال نے متعارف کرایا تھا اور میں نے عدم کی بیسیوں کتابیں ڈھونڈ کر پڑھی تھیں اور اس کا خراباتی رنگ مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔
کہتا ہے کون عمر ِ رفتہ لَوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی میں اُٹھا کے لا
تخلیق ِ کائنات کے دل چسپ جُرم پر
ہنستا تو ہو گا آپ بھی یزداں کبھی کبھی
آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خُدا موجود ہے
ساحر،عدم اور اختر شیرانی میرا پہلا عشق تھے اور شاعری سےمیری دلچسپی بڑھ رہی تھی۔میں نے شعر لکھنا آغاز کر دیا تھا مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ شاعری کے اوزان کیا چیز ہیں اور عروض کس چڑیا کا نام ہے؟میں شہر کے کسی صاحب ِذوق کو نہیں جانتا تھا اور نہ ہی اپنا بے وضع”الہام”کسی پر ظاہر کیا تھا۔میری بڑی بہن نسیم اختر کو ہم سب کی ٹوہ میں رہنے کی عادت تھی۔کسی طرح میرے کاغذ کالے کرنے کا راز اُس پر کُھل گیا اور شاید اُسی کی عنایت سے بات ابّاجی تک جا پہنچی۔ابّاجی کی رائے شاعروں کے ضمن میں بہت خراب تھی سو مجھے گوشمالی اور حرف ِ نصیحت کے لیے پیر ثنا اللہ بودلہ کے حضور پیش کیا گیا۔وہ خلاف ِتوقع بہت محبت سے پیش آئے۔ہم نے مطالعے کے حوالے سے اپنے خیالات سانجھے کیے۔پھر اُن کے اصرار پر میں نے اپنی”غزل”سُنائی تو وہ مجھے پہلے سے بھی زیادہ دلچسپی سے سُننے لگے اور کہا کہ مجھے آہنگ کا شعور ہے مگر الفاظ کے تلفظ کے حوالے سے خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔میرے کئی شعر وزن میں تھے اور جو نہیں تھے وہ درست تلفظ سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے تھے۔انہوں نے مجھے شاعری کو درست تلفظ کو سمجھ کر پڑھنے کی صلاح دی اور اجازت دی کہ اگر میں اپنی تعلیم پر پوری توّجہ دینے کے بعد کبھی وقت نکال سکوں تو شعر کہہ لیا کروں مگر اس شغل کو کسی صورت اپنی تعلیمی پیش رفت پر غالب نہ آنے دوں۔
اسی زمانے میں مجھے شہر کے ایک نامی کبابیے شمیم اکبر آبادی کے شاعر ہونے کی خبر ملی مگر مجھے اُن سے بس کبابی نسبت ہی خوش آئی۔میں نے انہیں اپنے شاعر ہونے کا بتایا نہ ان کی کلاسیکی آہنگ میں رچی غزلیں سُنیں۔اُن کی غزل کے ہر مقطع میں” شمیم ِزار”یا "شمیم ِخستہ تن”کی تراکیب آتی تھیں جو چار برس بعدمیرے”مستند شاعر”قرار پانے اور تلمبہ کے شاعر دوستوں کے ساتھ موصوف کی دکّان پر کباب کھانے کے لیے جانے کے دنوں میں ہم پر ظاہر ہوئیں اور میں نے ایک”خودی نامہ”میں انہیں اس طرح "نذرانہء عقیدت” پیش کیا۔
کبھی تانا کبھی پیٹا خودی کا
کُھلے گا دیر تک ریٹا خودی کا
بہت دن سے کبابوں میں مگن ہے
شمیم ِ خستہ تن بیٹا خودی کا