درس گاہ – 37

اس دوران میں انٹر کے امتحان شروع ہو گئے اور گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کو امتحانی مرکز ٹھہرایا گیا۔میں نے یہ مرحلہ سائیکل چلا کر طے کیا۔سوالیہ پرچہ دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ہفت خواں مجھ سے طے ہونے والا نہیں۔میں نے تمام سوالوں کے جواب دیے ضرور مگر وہ جواب ممتحن کی سمجھ میں آنے والے نہیں تھے۔

ملتان سے میرا جی اب اُچاٹ ہونے لگا تھا۔وہاں ہونا ایک لایعنی مشقّت تھی۔اس میں کوئی رنگینی تھی تو طاہر فاروقی اور اسلم میتلا کی شاعری کی وجہ سے یا اُن دُبلی اور بالی عمریا چڑیلوں کی وجہ سے مگر اب تک میری ملاقات صرف گِٹّو(یہ نام ہماری ٹولی کا عنایت کردہ تھا )سے ہوئی تھی۔تاہم اُس کی بڑی بہن کو میں اب پہچاننے لگا تھا کہ کسی کشف سے اُسے نامہ بر کے ناقابلِ اعتبار ہونے کی خبر ہو گئی تھی اور وہ گلی میں میرے آنے جانے کے وقت کہیں غائب سے ورود کر کے دو ایک جملوں کا تبادلہ کر لیتی تھی۔دونوں بہنوں کے قد کاٹھ،جاذبیت اور طراری میں کوئی فرق تھا تو بس اتنا کہ بڑی پاس سے گزرتے ہوئے کبھی کوئی عشقیہ شعر بھی اُچھال جاتی تھی اور ادھر اپنا حال یہ تھا کہ ساحر کی”آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام؟” اور فیض کی”مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ”کے سوا زبان پر کچھ چڑھتا ہی نہیں تھا۔

اسلم میتلا کے مکان سے اُن کی باخبری میں کوئی گہرا راز پنہاں نہیں تھا۔میتلے وہاں برسوں سے رہ/آ جا رہے تھے اور لڑکیاں اُسی محلّے میں بڑی ہوئی تھیں اور بچپن سے اس گھر میں آیا جایا کرتی تھیں۔

آخر ِکار میں نے ملتان چھوڑنے اور تعلیم کو الوداع کہہ کر گاؤں آنے کا فیصلہ کیا اور طے کیا کہ دونوں چُڑیلوں سے الوداعی ملاقات کی جائے.سو میں نے اسلم سے اس ضمن میں بات کی۔وہ میرا ہم رنگ اور گُٹھے وجود کا کڑیل جوان تھا مگر میری بات سُن کر حواس باختہ ہو گیا اور اس کا سبب کسی نوعیت کا خوف نہیں،صدمہ تھا۔
نہایت رُندھی ہوئی آواز میں اٹک اٹک کر اُس نے بتایا کہ وہ گِٹّو کے عشق میں مبتلا ہے مگر وہ اس کی بات سُنتی ہی نہیں۔پھر بھی اگر میں اُسے اُس کے یہاں بُلانا چاہوں تو اُسے کوئی اعتراض نہیں۔

اسلم کے مکان میں ورق کُوٹنے والوں اور داخلے کے دروازے کے بیچ برآمدے میں بھاری چِک پڑی تھیں۔اس لیے آنے جانے والوں کے لیے پردے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔میں نے نامہ بر کو اور نامہ بر کا سہارا لیے بغیر بڑی کو گلی میں سامنا ہونے پر ایک ہی دن اور ایک ہی وقت پر اسلم کے ہاں پہنچنے کو کہا اور ضروری انتظامات کے لیے اس کی اطلاع اسلم کو بھی کر دی۔
میرے ارادے اگر نیک نہیں تو بُرے بھی نہیں تھے۔گِٹّو کے آنے کی صورت میں میرا ارادہ اُسے سمجھا بُجھا کر اُس کا”ہاتھ”اسلم کے ہاتھ میں دینے کا تھا اور”حسینہ”کی پہلے آمد کی صورت میں گِٹّو کو اختلاط کا منظر دکھا کر بددل کرنے کا۔
میں وقت ِمقررہ پر اسلم کی طرف پہنچا تو اس نے آنکھ کے اشارے سے مجھے کمرے میں جانے کو کہا۔یہ کمرہ دو کمروں کے بیچ میں تھا اور دروازہ کھولتے ہی میں نے حسینہ کو دروازے کی طرف منہ کیے بیڈ پر بیٹھے دیکھا۔اُس نے نقاب اُلٹ رکھّا تھا مگر وہ ابھی برقعے میں تھی اور ایک پاؤں سے فرش کو دھیرے دھیرے کرید رہی تھی۔
میں اندر داخل ہوا تو وہ کچھ مضطرب سی ہو کر کھڑی ہوگئی مگر میرے بیٹھے رہنے کا اشارہ سمجھ کر دوبارہ بیٹھ گئی۔
میں بڑھ کر ساتھ جا بیٹھا اور یوں ہی بات شروع کرنے کو کہا:”کیسی ہو؟”
"بُری!”
جواب میری توقع کے برعکس تھا۔
"کیوں؟”… شاید پوچھنا ضروری ہو گیا تھا۔
"آپ میری بات مانتے ہی نہیں۔میں نے گھر آنے کو کہا۔آپ آئے ہی نہیں اور اس چھنال گِٹّو سے مل لیے”.
"گھر کیسے آتا؟پکڑا جاتا تو دونوں جان سے جاتے اور تمہاری بہن نے تمہارے ساتھ دھوکا کیا تھا”.
"وہ ایسی ہی ہے مگر آپ کو اُسے نکال باہر کرنا چاہیے تھا”
"یہ غلطی ضرور ہوئی مگر ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے”
"اچھّا ٹھیک ہے۔اب بلاؤں تو چلے آئیے گا۔میرا کمرہ سیڑھیوں کی دائیں طرف ہے۔ابّا پان کی دُکان کرتے ہیں اور رات دو بجے تک آتے ہیں۔امّاں کو سب معلوم ہے،اُسے اعتراض نہیں ہوگا”.
"اچّھا دیکھوں گا”میں نے کہا اور سوچنے لگا کہ اب اگلا قدم کیا ہو کہ برآمدے میں ہلکی سی چاپ سنائی دی۔مجھے یقین تھا گِٹّو ہو گی۔معلوم نہیں کیا کرنا چاہیے تھا مگر چاپ دروازے تک آئی تو میں نے ایک اضطراری کیفیت میں حسینہ کو برقعے سمیت اپنی آغوش میں لے لیا۔شاید میں گِٹّو کو اختلاط کا یہ منظر دیکھا کر صدمہ پہچانے کی کوشش میں تھا۔
مگر آنے والا گِٹّو نہیں۔لڑکیوں کا ماموں اور محلّے کا وہی نمبردار تھا،جس کے شر سے بچنے کے لیے میں نے اسلم کا احسان اُٹھایا تھا۔
مجھے یہ سمجھنے میں ایک ہی پل لگا کہ میری کہانی کا یہ انجام اسلم کا سوچا ہوا ہے۔کمرے میں ہلکی سی تاریکی تھی مگر اتنی زیادہ بھی نہیں کہ وہ دو ہم آغوش وجودوں کو الگ ہوتا نہ دیکھ سکتا۔ایک لمحہ ٹھٹھک کر اُس نے باہر کی راہ لی۔لڑکی کب نکلی اور عنقا ہوئی،مجھے خبر ہی نہیں ہو پائی۔میں اُلجھے ہوئے دماغ کے ساتھ اُٹھا اور پچاس گز کے فاصلے پر واقع "برکت منزل”چلا آیا۔اسلم کے مکان میں ورق کُوٹے جا رہے تھے مگر وہ ہتھوڑے مجھے اپنے سر پر بجتے محسوس ہو رہے تھے۔
مجھے طوفان کے جلد آنے کی توقّع تھی اور ایسا ہی ہوا۔
کچھ دیر بعد گیٹ دھڑدھڑانے پر سینا نے دروازہ کھولا تو باہر ماموں کھڑے دکھائی دیے۔مجھے محّلے کے لونڈوں لپاڈوں کے اُس کے ساتھ ہونے کی توقّع تھی مگر”ماموں صاحب”اکیلے ہی تھے۔
سینا نے انہیں میرے کمرے کی طرف روانہ کیا تو میں سر پر پڑی ہر مصیبت سہنے کے لیے سنبھل کر بیٹھ گیا۔معلوم نہیں اُس وقت میرے دوست اپنے شیش محل میں تھے یا نہیں؟
میں پلنگ پر بیٹھا تھا،بیٹھا رہا۔ماموں آ کر کُرسی پر بیٹھ گئے۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔
"آج سب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا”وہ گویا ہوئے
میں نے چُپ رہنا ہی بہتر سمجھا.
"آپ بڑے آدمی ہیں مگر یہ بہت زیادتی ہے۔ہماری بھی کوئی عزّت ہے”وہ پھر گویا ہوئے۔
میں نے خاموشی کو برقرار رکھنا مناسب جانا۔
"دیکھیے اگر آپ کا لونڈیا پر دل آ گیا تھا تو مجھے بتاتے۔میں آپ کو یہیں کوٹھی پر لا دیتا۔پر یہ آپ نے اچھّا نہیں کیا”.
یہ سُننا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو آک کے پھول کی طرح ہلکا پھلکا اور ہوا میں تیرتا محسوس کیا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کہوں تو کیا کہوں؟
"آپ کو معلوم ہے۔آج شاہ شمس کا میلہ لگا ہے؟”میں نے ماموں کو کہتے سُنا۔
"جی”
"تو کیوں نہ ہم ایک ساتھ میلہ گھومنے چلیں”.
"نہیں!میں گھر پر رہوں گا”۔میں نے کہا۔شاید مجھے اس دعوت سے خطرے کی بُو آ رہی تھی۔
"تو تیس روپے دے دیجیے تا کہ ہم میلہ گھوم آئیں.”
میرے پاس تیس روپے نہ دینے کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر اس ملاقات کا صدمہ اسلم کے پہنچائے صدمے سے بڑا تھا۔

درس گاہ – 36

ملتان میں قیام کو چھے ماہ ہونے کو تھے۔کالج جاتا تھا مگر ابھی تک ایف ایس سی میں اٹکے ہونے کے باعث تھرڈ ائیر کی پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔کالج آنے جانے میں باقاعدگی تھی نہ ہی کبھی کسی نے اس سلسلے میں خلل آنے پر تادیب کی تھی۔عجیب بددلی کی فضا تھی اور میں اس سے نکل پانے کی راہ تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔
اسلم میتلا کے مکان پر طاہرفاروقی سے ملاقات کے بعد وہ ہماری طرف بھی آنے لگے تھے۔کبھی اسلم کے ساتھ کبھی اکیلے۔وہ شاید گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے ایم۔اے(اردو)کر رہے تھے اور ادبی میدان میں اپنی کامیابیوں کی خبر دیتے رہتے تھے۔طرح مصرع پر کہی اُن کی دو ایک غزلیں مجھے بہت پسند آئی تھیں اور یاد بھی ہو گئی تھیں۔شعر اسلم میتلا بھی کہتے تھے اور بعد میں انہوں نے اردو اور سرائیکی زبان میں اپنے کلام کے کئی مجموعے یادگار چھوڑے مگر اس وقت وہ زیادہ فعال نہیں تھے اور اُن کی توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز تھی۔
طاہرفاروقی کے اصرار پر میں نے اپنا رطب و یابس انہیں دکھایا۔اُن کے خیال میں کہیں کہیں قلم لگانے کی ضرورت تھی مگر میں نے اس کے لیے اپنی رغبت ظاہر نہیں کی تو انہوں نے بھی اصرار نہیں کیا اور جب بھی آتے،گپ لگا کر رخصت ہو جاتے۔
وہ خادم کیتھلی کے فرزند تھے اور حرم گیٹ کے دروازے کی بغل کی ایک گلی میں رہتے تھے۔ان کی نیم پلیٹ کی تخصیص یہ تھی کہ وہ گھر میں ان کی موجودگی یا عدم موجودگی کی غمازی کرتی تھی۔نام کے نیچے دو سلائڈنگ تختیوں پر”اِن”اور”آؤٹ”لکھا تھا۔گھنٹی بجانے سے پہلے اُن پر نظر ڈال لیں تو اُن کے ہونے نہ ہونے کی خبر ہو جاتی تھی۔
ہماری گلی کی دُبلی قیامتیں میرے گاؤں آنے کے بعد میرے دوستوں سے میری خبر لیتی رہی تھیں۔میں پلٹا تو نامہ بری کا سلسلہ پھر آغاز ہو گیا۔اصرار اُن کے گھر کا زینہ ناپنے پر تھا مگر مجھے خودکشی کا شوق نہیں تھا سو میں بلا توقف معذرت کر لیتا تھا۔اس مسلسل نامہ بری،جو ایک ہی جملے”نہیں!کوٹھی پر”پر مشتمل ہوا کرتی تھی،کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پیام بر نے بھی مجھ پر فدا ہونے کا تاثر دینا شروع کر دیا۔یہ بھید میں نے اپنے دوستوں پر افشا کیا تو انہوں نے اس”گرمی”کا سبب اُس گھرانے کی پان خوری کی عادت کو ٹھہرایا۔

کچھ دن بعد جب ملاقات پر مصر پہلی دُبلی قیامت کوٹھی پر آنے پر تیار ہو گئی تو طے پایا کہ یہ ملاقات دوپہر کے کھانے کے بعد ہوگی۔اس میں سہولت یہ تھی کہ اُس وقت سینا غائب رہتا تھا اور امّاں لیلیٰ اپنے کمرے میں ہوتی تھی۔ہاں یہ مشکل ضرور تھی کہ گیٹ سے میرے کمرے کے بیچ وسیع صحن تھا اور اس ایک کنال سے زیادہ رقبے کو طے کرنے میں اماں لیلیٰ کے کمرے سے دیکھ لیے جانے کا واضح امکان تھا کہ اب وہ ہماری ہلچل پر خصوصی نظر رکھتی تھی۔
طے پایا کہ اس خطرے سے نپٹنے کے لیے طاہرفاروقی سمیت سبھی دوست برآمدے میں موجود رہیں گے اور حسینہ کے بھاگ کر منزلِ مقصود تک پہنچنے تک اماں لیلیٰ کے دروازے کے سامنے کھڑے رہیں گے اور ایسا ہی کچھ واپسی کے لمحات میں کِیا جائے گا۔
وقتِ مقررہ پر گیٹ کو کُھلا رکھا گیا اور حسینہ نے وقت کی پابندی مغربی روایت کے تحت کی مگر مشکل یہ ہوئی کہ اُس وقت اماں لیلیٰ ابھی داخلے کی عمارت کے برآمدے میں براجمان تھی۔خوبیٔ قسمت سے اُس کا رُخ مخالف سمت میں تھا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ محسوس کر کے مُڑتیں۔جمیل نے لپک کر اُن کے موٹے شیشوں کی عینک اتار کر انہیں قریب قریب اندھا کر دیا اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وہ حسینہ اُڑتی ہوئی مرکزی عمارت کے کسی کمرے میں غائب ہو گئی۔میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس حصّے میں صرف میری رہائش تھی اور دوسرے بیڈ روم اور گول کمرہ خالی پڑے تھے۔
امّاں نے شور مچایا تو دوچار گالیاں کھانے کے بعد اُن کی عینک لوٹا دی گئی اور ہر طرف کا ناقدانہ جائزہ لینے اور ہم سب کو اپنے قریب پا کر وہ اس عمل کو صرف شرارت گردان کر اپنے کمرے میں چلی گئی تو میں نے اپنے کمرے کی راہ لی مگر لڑکی وہاں موجود نہیں تھی۔
دیکھا تو وہ وسیع گول کمرے کی لکڑی کی بھاری الماریوں کے قدِآدم آئینوں میں گھوم گھوم کر اپنا عکس دیکھتی پھر رہی تھی۔میرے قدموں کی چاپ پر مُڑی تو میں اُسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ یہ لڑکی کوئی اور نہیں،وہی پیام بر تھی۔کوئی فرق تھا تو بس یہ کہ وہ اس وقت برقعے میں نہیں تھی۔
مجھے دیکھ کر اس نے اپنا رُخ آئینے کے مقابل کیا اور اس میں سے مجھ پر ایک نگاہ ِغلط انداز ڈال کر فرمایا:
"آپ مجھ سے شادی کریں گے نا”؟
"اور تمہاری بہن”؟ میرے منہ سے بے اختیار نکلا
"آپ اُس چڑیل کو جانتے نہیں۔اچھا ہوا میں نے آپ کا پیغام اُسے نہیں پہنچایا ورنہ آپ کے لیے بڑی مشکل ہو جاتی”
مشکل میں تو میں اب بھی تھا مگر یہ چڑیل عمر میں اُس چڑیل سے چھوٹی تھی۔مکھ پر ابھی بچپن کی پھوار پڑتی تھی۔نقوش تیکھے اور نیم بیضوی چہرے پر بھلے لگتے تھے۔آنکھیں،لب اور بال سادگی لیے۔جسم دُبلا اور خُمار کی نشانیوں سے بے نیاز۔کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے مگر اتنا ہوش ضرور تھا کہ بغیر فرنیچر کا گول کمرہ مذاکرات کے لیے مناسب نہیں سو میں نے اُسے اپنے بیڈ روم میں آنے کو کہا اور وہ آ بھی گئی۔
بیڈ روم میں ایک پلنگ اور دو کرسیاں تھیں۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اُسے کہاں بیٹھنے کی دعوت دوں کہ اُس نے خود ہی بڑھ کر ایک کُرسی سنبھال لی۔میں پلنگ پر بیٹھنے کے لیے مڑا تو اتفاقاً میری نظر برآمدے کی چھت پر کُھلتے روشندان پر پڑی،جہاں شیشے کے پیچھے اقبال کلاچی اور جمیل کے چہرے اندر کا منظر دیکھنے کے لیے دھنسے ہوئے تھے اور دوسرے روشندان کے پیچھے آصف اور طاہر فاروقی تھے۔میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس برآمدے کی دونوں طرف گھوم کر اوپر جاتی سیڑھیوں کا یہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
ہم کوئی دو گھنٹے تک قید رہے اور ایک دوسرے کو تکتے رہے۔روشندان میں میرے دوستوں کی موجودگی سے وہ بھی باخبر تھی اور اس کے بعد وہی کچھ ہو سکتا تھا جو ہم نے کیا۔
باتیں،باتیں اور باتیں اور چند ادھر ادھر کی کہانیاں
اور لتا کے گائے کچھ گیت جو اُسے گا کر سُنانے کی طلب تھی۔
میں نے دوستوں کو ہاتھ جوڑ کر رخصت ہونے کو کہا مگر وہ جانے کو تیار تھے نہ اندر آنے کو سو یہ ملاقات نشستند،گفتند،برخاستند ہی رہی۔واپسی پر وہ برقع پہننے لگی تو اگلی ملاقات کی جگہ اور وقت کے بارے میں استفسار کیا اور میں نے نہ جانے کس لہر میں اسے اسلم میتلا کے مکان پر ملنے کی صلاح دی۔یہ بات میرے لیے حیرت کا باعث تھی کہ وہ مکان اس کا دیکھا بھالا تھا۔
وقت کے بارے میں کچھ طے نہیں پایا اور ظاہر ہے اسلم سے بات کیے بغیر ایسی کوئی فکسیشن ممکن ہی نہیں تھی۔
جمیل کے لائن کلیر ہونے کی اطلاع پر اسے رخصت کیا تو جاتے ہوئے لپٹنے کا کام بھی اُسی نے نپٹایا۔
بندے نوں اینا پینڈو وی نئیں ہونا چاہی دا۔
اس ملاقات میں اُس نے ایک ہی کام کی بات بتائی کہ اس محلے کا نمبردار اُس کا ماموں ہے۔یہ صاحب کبھی کبھار اماں لیلیٰ سے ملنے آتے تھے اور کبھی ہمارے ساتھ بھی نششت جما لیتے تھے۔ادھیڑ عمر کے خاصے طرار شخص تھے۔آتے تھے تو اُن کی متجسّس آنکھیں ایک بار سارے بنگلے کا سکین کرتی تھیں۔اس لیے اس کوٹھی پر مزید ملاقات کرنا ممکن ہی نہیں تھا کہ وہاں آنے والوں کا کوئی وقت مقرر تھا نہ جانے والوں کا۔

درس گاہ – 35

یہ گلی سات آٹھ فٹ سے زیادہ چوڑی نہیں تھی اور مکانوں کے دروازے اور زینے گلی میں اُمڈے پڑتے تھے۔دھڑ سے کُھلنے والے دروازے کے مقابل کی ننھی سی مسجد عشا کے بعد بند کر دی جاتی تھی اور ہم نے رات کے کھانے سے واپسی پر اُس پر ہمیشہ تالا پڑا دیکھا تھا۔ اسے آج بھی مقّفل ہونا چاہیے تھا مگر اس کا خیال مجھے بہت بعد میں آیا۔ایک برق رفتار سیاہ برقعے میں لپٹے ہوئے وجود نے لپک کر میرا ہاتھ پکڑا اور اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو سُنسان مسجد کے احاطے کے اندر پایا۔
لڑکی چودہ پندرہ برس سے بڑی نہیں تھی۔ضرورت سے زیادہ دُبلی اور شاید ابھی سن ِبلوغت کو بھی نہیں پُہنچی تھی۔میں ابھی اپنے حواس بحال کر رہا تھا کہ اس نے تیز لہجے میں قدرے نامانوس اردو بولتے ہوئے یہ اطلاع دی کہ اُس کی باجی مجھ سے ملنے کی خواہاں ہے۔ اگر میں رات بارہ بجے کے بعد آ جاؤں تو وہ سیڑھیوں کے ساتھ والے کمرے میں میری منتظر ہوں گی۔
اردو ادب اور خاص طور پر غزلیہ شاعری کے مطالعے نے مجھے کئی معاملات میں متجسس ضرور کر رکھا تھا اور مَیں اُن دنوں فراز کی "تنہا تنہا”کے:
جسم بِلّور سا نازک ہے جوانی بھرپور
اب کے انگڑائی نہ ٹُوٹی تو بدن ٹُوٹے گا
جیسے اشعار سےحظ بھی کشید کرنے لگا تھا مگر اتنا احمق نہیں تھا کہ اس اندھی دعوت پر لبیک کہتا سو میں نے معذرت کے ساتھ واضح کر دیا کہ یہ ممکن نہیں اور گلی کی طرف لپکا ہی تھا کہ اُس ننھی چڑیل نے لپک کر میرا بالغانہ بوسہ لیا اور گلی پھلانگ کر سیڑھیوں میں غائب ہو گی۔
اوسان بحال ہونے پر میں مسجد کی کُنڈی لگا کر گلی میں نکلا تو وہ ہمیشہ کی طرح سُنسان پڑی تھی۔جمیل وغیرہ جا چکے تھے اور گلی میں چلتے ہوئے مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔دو ایک بار مُڑ کر بھی دیکھا مگر کوئی نہیں تھا سوائے میرے سایے کے جو روشنی کے رُخ سے کبھی میرے ساتھ چلتا تھا اور کبھی آگے پیچھے۔
دوسرے روز خیریت رہی۔گلی میں چلتے ہوئے میں دوستوں کے حصار میں رہا۔جمیل نے جو عمر اور تجربے دونوں میں بڑا تھا،مسجد کا احوال سُننے کے بعد واضح کر دیا تھا کہ اُسے کوٹھی پر آنے کی صلاح دینے کے سوا کوئی آپشن قبول نہ کروں کہ ان سانپ جیسی گلیوں سے واپسی کی راہ تلاش کرنا ہمارے بس کی بات نہیں اور یہ بات ایسی گنجلک نہیں تھی کہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔
اگلے دن سہہ پہر کو میں کہیں جانے کے لیے گلی میں نکلا ہی تھا کہ سامنے سے آتی دو ایک ہی عمر اور وجود کی برقع پوش لڑکیاں پل بھر میرے قریب رُکیں۔اس سے پہلے کہ میں کسی کو پہچانتا۔خوشبو میں بسا ایک خط میرے ہاتھ میں تھا۔یہ اُسی دعوت کا اعادہ تھا اور مثبت جواب کے لیے مغرب تک کا وقت دیا گیا تھا۔
میں نے جمیل کی ہدایت کو پیشِ نظر رکھ کر دو سطری جواب لکھ رکھّا۔مجھے یقین تھا کہ امّاں لیلیٰ کی موجودگی میں محلّے کا کوئی فرد اس کوٹھی کے احاطے میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت وصال کی آرزو ںسے زیادہ مجھے اپنے تحفظ کے احساس سے مسرت ہو رہی تھی؟
ابھی مغرب کا وقت نہیں ہوا تھا اور میں نیچے شاگرد پیشہ کمروں میں سے کسی ایک میں کسی کام سے موجود تھا کہ بغیر جالی اور گرل کی کُھلی ونڈو کے قریب میں نے مسجد والی لڑکی کا سایہ دیکھا اور اس نے منہ اندر کر کے ایک ہی لفظ کہا:
"جواب”؟
میں نے اپنی جوابی چِٹ اُسے تھما دی اور وہ اس سُرعت سے غائب ہوئی کہ مجھےاُس کا پل بھر پہلے کھڑکی میں موجود ہونا وہم ہی لگا۔
اُس رات ہم کھانے کے بعد فلم دیکھنے چلے گئے۔رات بارہ بجے کے بعد پلٹےتو امّاں لیلیٰ خلاف ِمعمول جاگ رہی تھیں۔صرف جاگ ہی نہیں رہی تھیں،غیر معمولی طیش میں بھی تھیں اور اس طیش کا نشانہ کوئی اور نہیں میری ذات تھی اور کیوں نہ ہوتی؟معاملہ تھا ہی کچھ ایسا سنگین۔
جب ہم کھانے کے لیے نکلے تو ساتھ والے گھر میں کسی تقریب کا اہتمام تھا۔یہ گھر کافی بڑا تھا اور کُھلے گیٹ سے اندر صحن میں رکھی دیگیں دکھائی دی تھیں۔اُس گھر اور ہماری کوٹھی کے درمیان کم وبیش نو فٹ اونچی دیوار تھی اور تقریب میں موجود ایک لڑکی سیڑھیوں کی طرف سے اسے پھلانگ کر ادھر آنے کی کوشش میں تھی کہ کسی کی نظر پڑ گئی اور پکڑی گئی۔
تفشیش پر میرا نام سامنے آیا مگر خیریت گُزری کہ ہم سب گھر پر موجود ہی نہیں تھے اور اُس گھر کے بڑے یہ جان کر کہ میں کس کا بیٹا ہوں یہ ماننے میں متأمل تھے کہ میں ایسی کوئی حرکت کر سکتا ہوں۔وہ میرے والد کو جانتے تھے اور میرے والد کی نیک نامی اس حال میں بھی میری حفاظت کر رہی تھی۔
اماں لیلیٰ نے ہم سب کو خوب لعن طن کی پھر دو ایک مناسب دھمکیاں دے کر آئندہ کے لیے باز رہنے کی ہدایت کی۔حالاں کہ اس تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔میں تو خود اس فکر میں تھا کہ ایسی بلوان حسینہ سے امان پاؤں تو کیسے؟
فوری طور پر میری سمجھ میں یہی آیا کہ میں کچھ روز کے لیے گاؤں چلا آؤں اور اگلی ہی صبح میں نے اس فیصلے پر عمل بھی کیا۔

درس گاہ – 34

ایف ایس سی کے امتحان کا وہی نتیجہ نکلا جس کی توّقع تھی۔دو مضامین،کیمسٹری اور میتھ،میں سپلی جسے کلئیر کرنے کے تین چانسز تھے۔کسی مضمون میں کچھ ایسا ہی شاید اقبال کلاچی کے ساتھ ہوا تھا جو ہمارے ڈرائنگ ماسٹر اللّٰہ بخش کے صاحب زادے تھے سو والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سہنے کے بعد طے پایا کہ اقبال کے یہاں مل کر تیاری کی جائے۔ہم نے موجودہ لاری اڈّے کے قریب ان کی بیٹھک میں پڑھنا شروع کیا مگر چند منٹ بعد ہی بم کُھلی کھڑکیوں سے کتابیں باہر گلی میں تیرانے لگتے اور توسنِ تخیل کو پرواز کی کُھلی اجازت دے کر چاند میں نظر آنے والی صورتوں کے گُریز اور تجاوز کی ادا پر گفتگو کرنے لگتے۔ہم دونوں کو یقین تھا کہ شہر بھر میں ہم سے زیادہ پُرکشش اور صاحب ِجمال کوئی اور نہیں اور زہرہ جبینوں کو(جن کا شہر میں کہیں اگر وجود تھا تو پردے میں تھا) ہم پر مرنے میں تأمل ہے تو وہ اس شہر کی تنگ نظری اور روایت پرستی کی وجہ سے ہے۔
اقبال کی حد تک تو شاید یہ بات درست تھی کہ موصوف آرین بلکہ رومن خدوخال کے شاہکار تھے مگر میں تو ہمیشہ کا تخّیل پرست ہوں۔اس لیے اپنے دراوڑی نقوش اور رنگ کے باعث کہیں کچھ گمان سا تھا کہ اس نوع کا ہر خیال باطل ہے اور باطل تھا بھی مگر نوجوانی کے طائر ِخوش پرواز کو کوئی پنجرے میں بند کرے تو کیسے؟
ابّاجی میرے بارے میں کافی خوش گمان تھے مگر یہ نتیجہ اُن کو بددل کرنے کو کافی تھا۔اس پر میری غفلت کا در بند ہونے کے بجائے اور کُشادہ ہو رہا تھا۔معلوم نہیں کیسے انہیں کشف ہوا کہ اقبال اور میرا گٹھ جوڑ درست نہیں سو انہوں نے مجھے ملتان بھجوانے کا فیصلہ کیا اور اگلے ہی روز وہ مجھے لے کر پیر شوکت حسین گیلانی کے پاس ملتان آ پہنچے۔جنہوں نے ولایت حسین اسلامیہ کالج کے پرنسپل کو فون کر کے مجھے تھرڈ ائیر میں داخل کرنے کا حکم دیا کہ ابھی کالجز نیشنلائزڈ نہیں ہوئے تھے اور پیر صاحب ایک لحاظ سے کالج کے بلا شرکت ِغیرے مالک تھے۔یہ بات پھر بھی کسی کے ذہن میں نہیں آئی کہ میرے کالج میں داخلے کی فکر کرنے کے بجائے ان مضامین کی تیاری کے لیے کسی ٹیوٹر کا انتظام کیا جاتا۔
تب میرے دوستوں میں سے آصف،جمیل اور اقبال کلاچی بھی اسی کالج میں داخلہ لے چکے تھے اور رہائش کے لیے جگہ کی تلاش میں تھے۔میں اگلے روز پیر صاحب کی سفارشی چِٹ کے ساتھ پرنسپل صاحب سے ملا مگر بات بنی نہیں۔پرنسپل صاحب نے بہت لجاجت بھرے لہجے میں معذرت کرتے ہوئے واضح کیا کہ بورڈ/یونیورسٹی کی طرف سے کسی ایک مضمون میں کمپارٹمنٹ والے کو داخل کرنے کی اجازت ہے۔ہاں میں چاہوں تو کسی بھی کلاس میں بیٹھ سکتا ہوں مگر داخلہ کمپارٹمنٹ کلئیر کرنے کے بعد ہی ہو گا۔
اس سے بڑھ کر احمقانہ اقدام کیا ہوگا کہ میں نے اس دعوت کو قبول کر لیا۔اب رہائش کا مسئلہ درپیش ہوا تو اس کے لیے پیر برکت علی شاہ کی نشاط روڈ پر ملتان سٹی اسٹیشن کے سامنے والی کوٹھی "برکت منزل” کا انتخاب ہوا۔شاہ صاحب کو بتانے کے بعد میں کوٹھی کے ماسٹر بیڈ روم پر قابض ہوگیا اور آصف وغیرہ کو شاگرد پیشہ کے بالا خانے پر نہایت نفیس شیش محل الاٹ کیا۔صبح کالج جانے کے لیے ہم سب سائیکل سوار نشاط روڈ سے حرم گیٹ میں داخل ہو کر چوک حسین آگاہی جا نکلتے تھے اور پھر دولت گیٹ سے کالج۔واپسی النگ کے ساتھ ساتھ دلّی دروازے سے ہوتی تھی۔کھانے کے لیے حرم گیٹ کے سامنے ایک ہوٹل کا انتخاب کیا گیا۔جہاں کھانے کے لیے ماہانہ حساب مقرر کرنے کی گنجائش بھی تھی مگر میں نے روز کا بل روز ادا کرنے کو ترجیح دی۔
یہ کوٹھی چار کنال رقبے پر محیط ہو گی اور اس کی مکانیت کا ذکر پہلے آچکا۔یہاں شاہ صاحب کے ایک قدیمی ملازم کی بیوہ اور اس کا بیٹا غلام حسین نگران تھے۔بڑھیا اپنے مرحوم شوہر کے لقب”مجنوں” کی نسبت سے لیلیٰ کہلاتی تھی اور لڑکا”سینا”جو عمر میں ہم سب سے کوئی پندرہ برس بڑا تھا۔بڑھیا کا کالابھجنگ رنگ اورموٹے شیشوں کی عینک میں آگ برساتی آنکھیں تو رُعب دار تھیں ہی۔پِیر برکت علی اور میرے والد کی برسوں پرانی خادمہ ہونے کا اعزاز گویا سونے پر سہاگا تھا۔پہلے ہی دن انہوں نے کڑک مرغی کی طرح ہم سب کو اپنے پروں میں لے لیا اور واضح کر دیا کہ ان کے ساتھ ملازمہ کی طرح برتاؤ کرنا ہمارے خلاف جائے گا۔اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ عشقیہ روایت کی سرتاج لیلیٰ ہماری امّاں ٹھہری۔
علاقے بھر کے زمیندار کام سے یا داد ِعیش دینے یہاں پدھارتے رہتے تھے اور کسی بھی کمرے پر قابض ہو کر ملتان کی معروف طوائفوں اور مغنّیاؤں کے ساتھ وقت گزارتے تھے،جس کی ایک جھلک”آداب عرض”میں شائع ہونے والی میری ایک کہانی”شہناز”میں دیکھی جا سکتی ہے۔ان مہمانوں میں سے اکثر سے میں واقف تھا اور وہ میرے والد کا بہت احترام کرتے تھے۔اس لیے وہ ہم سب کو اپنی محفلوں سے دور رکھتے تھے۔یہ لوگ آتے ہی کوٹھی کا نظام سنبھال لیتے تھے۔مہینے بھر کا راشن ساتھ لاتے اور لیلیٰ اور سینا اُن کے خدمت گزاروں کے ساتھ مل کر طرح طرح کے پکوان بناتے۔اس لیے ہمیں رات کے کھانے پر باہر جانے کی ضرورت کم ہی پڑتی تھی۔یہاں تواتر سے آنے والوں میں گھمن ماڑی کے نہایت نفیس اور بردبار انسان میاں منظور کاٹھیا بھی تھے جنہیں میں چچا کہتا تھا۔یہ وہی صاحب تھے،جن کی خاطر بھاؤ نواب نے محکمہ مال کا ریکارڈ جلایا تھا۔
یہ لوگ آتے تھے تو میں عام طور پر شیش محل میں دوستوں کے پاس منتقل ہو جاتا تھا تا کہ کوٹھی کی مرکزی عمارت سے نسبت نہ رہے اور کسی کو بھی اپنا کام نپٹانے میں دشواری نہ ہو۔
محل ِوقوع کے لحاظ سے یہ کوٹھی کچھ شتر گربہ کا شکار تھی۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اس طرح کے عسرت زدہ محلّے میں یہ جہازی گھر بنانے کی ضرورت کیا تھی۔بہت بعد میں پتا چلا کہ اسی سڑک پر اس گھر کے پیچھے اس سے بھی کئی گُنا بڑے رقبے پر نواب عاشق حسین قریشی کا بنگلہ تھا مگر وہ اسے بیچ کر کہیں اور منتقل ہو چکے تھے اور اس زمین کو مرلوں میں بانٹ کر نئے گھر بنا دیے گئے تھے۔میرا گمان ہے کہ جب یہ بنگلے تعمیر کیے گئے تھے تو اس وقت باقی آبادی کا وجود ہی نہیں ہو گا۔
یہ محلہ”پیر پراٹھی شاہ”شہر کے اسٹیشن کے سامنے نشاط روڈ پر تھا۔یہ سڑک حرم گیٹ سے شروع ہو کر اسٹیشن کے مقابل گھومتی ہوئی چوک شہیداں کو نکل جاتی تھی۔تمام آبادی تنگ گلیوں اور روہتکی مہاجرین کے مختصر مکانوں پر مشتمل تھی۔بس ہمسائے میں موجود اور اگلی گلی کی بغل میں ایک گھر قدرے معقول تھے۔پہلا گھر تو اب یاد نہیں کس کا تھا مگر دوسرا مکان جہانیاں کے میتلوں کا تھا اور وہاں اسلم میتلا قیام پذیر تھے جو ولایت حسین اسلامیہ کالج ہی میں پڑھ رہے تھے اور بی۔اے کے دوسرے سال میں تھے۔اُن سے ایک بار سرسری تعارف ہوا تو وہ ہماری طرف آنے جانے لگے اور ہم بھی اُن کے در ِدولت پر سیس نِوانے جاتے تھے،جہاں صحن میں کچھ لوگ ایک ردھم کے ساتھ انسانی جبڑوں سے ملتے جلتے موٹے چمڑے کی دو تہوں کو لکڑی کے ہتھوڑوں سے کُوٹنے میں مگن ہوتے تھے۔کئی دن بعد جا کر یہ بھید کُھلا کہ وہاں سونے چاندی کے ورق تیّار کیے جاتے تھے مگر یہ راز راز ہی رہا کہ کیوں اور کس کے لیے؟طاہر فاروقی سے پہلی ملاقات اسی مکان میں ہوئی۔اسلم اور طاہر دونوں شاعر تھے اور اس طرح کسی ہم مزاج سے ملنے کا میرا یہ پہلا اتفاق تھا۔
اس رہائش گاہ پر ناشتا امّاں لیلیٰ بناتی تھیں اور اس سے ان کا اپنا بھلا ہو جاتا تھا کہ ہمارے گھروں سے اس مقصد کے لیے وافر راشن بھجوایا جاتا تھا۔دوپہر کا کھانا ہم کالج سے واپسی پر کھا آتے تھے اور ضرورت پڑنے پر مغرب کے وقت گھر کی بغل سے نکلتی پتلی گلی پکڑ کر نشاط روڈ سے ہو کر ہوٹل پہنچتے تھے۔جہاں کبھی ماسٹر عبدالحق کے چھوٹے صاحب زادے گلفام سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی جو ڈاک خانے کی ملازمت میں آنے کے بعد ملتان میں شاید کوئی ٹریننگ کر رہے تھے۔
کھانے کے لیے جاتے ہوئے مجھے دوستوں کے درمیان چلنے کی عادت تھی۔یہ عدم تحفظ کا احساس تھا یا چودھراہٹ؟معلوم نہیں مگر اس ترتیب میں خلل کم ہی پڑتا تھا۔ایک روز جاتے تھے کہ پیچھے کسی کنکر کے گرنے کی آواز آئی۔مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دیا مگر جمیل مڑا اور لپک کر کاغذ میں لپٹا ایک کنکر اٹھا لایا۔مغرب کے بعد کا وقت تھا اور گلی نیم روشن۔اس لیے اُسے وہیں پڑھ لینا ممکن نہیں تھا سو ہوٹل پہنچنے تک مجبوراً صبر کا دامن تھامے رکھا اور کھانا آرڈر کرنے کے بعد اسے جمیل نے سب کو پڑھ کر سُنایا۔
بدخطی اور اظہار کی کجی سے مملو یہ نامہ میرے لیے تھا۔معلومات خاصی برحق اور تعریف میں غلو کا پہلو ضرورت سے زیادہ در آیا تھا۔شاید ہمارے بارے میں خاصی تحقیق کی گئی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ ہمیں سرے سے خبر ہی نہیں تھی کہ ہماری خوش خرامی کا گھائل ہے کون؟
واپسی گھنٹہ بھر کے بعد اُسی راستے سے ہوئی۔اس وقت گلی سنسان تھی اور روشنیاں پہلے سے بھی کم۔ابھی”پتھریلے مقام”تک پہنچے ہی تھے کہ بائیں ہاتھ کے ایک مکان کا دروازہ،جس کے سامنے ایک ننھی مسجد کا احاطہ تھا،دھڑ سے کُھلا۔

درس گاہ – 33

میں چھٹی جماعت سے لکھ رہا تھا۔لکھ کیا رہا تھا،ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا مگر اب تک یہ طے نہیں ہو پا رہا تھا کہ مجھے لکھنا کیا ہے۔بچّوں کی ایک ہی کہانی لکھی تھی کہ نسیم حجازی کے ہتھّے چڑھ گیا۔پھر ابنِ صفی کے رنگ میں چند صفحے گھسیٹے تھے کہ دماغ کا دہی ہو گیا اور میں نے کرشن چندر میں پناہ لی۔دو چار افسانے ان کے اسلوب کی بھینٹ کیے مگر چھپوانے کی ہمّت نہیں پڑی۔آخر ِکار ایک افسانہ اپنے ملازم ممّو ماچھی کے دمہ کو موضوع بنا کر لکھا جو شاید اپنے رنگ میں میری پہلی کہانی تھی مگر اُسے عام نہیں کیا اور وہ کئی برس بعد شائع ہوئی۔یہی حال شاعری کا تھا۔اپنے لکھے منظوم خط سے عدم کے تتّبع میں سیاہ کی گئی کاپیوں تک ہر چیز خود تک محدود رہی یا دو ایک بہت قریبی دوستوں تک اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ہرزہ سرائی کو عام کرنے کی خواہش ہی نہیں تھی نہ ہی یہ معلوم تھا کہ اس کباڑ کو جو میں نے نہایت نفیس نوٹ بُکس میں اکٹھا کر رکّھا ہے،کہاں ٹھکانے لگایا جائے؟”آداب عرض”اور”اردو ڈائجسٹ”کےسوا میں صرف”فنون”سے واقف تھا اور اسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ میرے کام کی چیز نہیں۔سو کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ تھا وہ صرف خود کو محظوظ کرنے کے لیے تھا اور اُسے لکھ کر بُخار اُترنے کی سی کیفیت کا احساس ہی ذاتی تشّفی کے لیے کافی تھا۔
کالج میں اردو کے استاد،کلاس کے آغاز میں اردو افسانے پرایک مکالمے کے باعث یہ تاثر تو رکھتے تھے کہ مجھے مطالعے کی عادت ہے مگر انہیں بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میں خامہ فرسائی بھی کرتا ہوں۔انہوں نے اس بارے میں کبھی استفسار نہیں کیا اور مجھے اُن پر یہ بھید عیاں کرنے کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔مجھے بجاطور پر یہ احساس تھا کہ میری تحریر بے مایہ ہے اور ابھی اسے عام کرنے کا وقت نہیں آیا۔
شاید اس کی وجہ میرا دیہاتی پن اور غیر علمی پس منظر سے ہونا تھا۔مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ لکھا اور چھپا کیسے جاتا ہے؟کسی کتاب میں کرشن چندر نے نفیس نیلے کاغذ پر لکھنے کا ذکر کیا تو میں بھی ویسا ہی کاغذ خرید لایا مگر لکھنے بیٹھا تو اندازہ ہوا کہ صرف اچھّے کاغذ اور قیمتی قلم کا مالک ہونا ہی کافی نہیں۔اس کے لیے کچھ اور بھی درکار ہے مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کچھ اور ہے کیا؟ نہ ہی یہ علم تھا کہ یہ بھید میرے ارد گرد کسے معلوم ہے۔
شکور کے لیے لکھا ناول لاہور کی بھینٹ چڑھ گیا اور اس کے قابلِ اشاعت ہونے کی خبر کبھی آئی نہیں نہ ہی وہ یہ دور تھا کہ ہر نوع کی لاف زنی مصنّف سے نقدی وصول کر کے چھاپ دی جائے۔ادبی اداروں کا ایک وقار تھا۔اچھی کتابیں پبلشر کے خرچے پر چھپ جاتی تھیں اور لوگ کتاب خریدتے بھی تھے۔اکثر کتابوں کا پہلا ایڈیشن گیارہ سو کی تعداد میں چھپتا تھا اور مقبول عام کتابیں تو دس دس ہزار کی تعداد میں چھپتی تھیں اور اس وقت جب ملک کی آبادی موجود کے مقابلے میں ایک تہائی تھی۔
انہی دنوں میں کرنل شفیق الرحمٰن سے آگاہ ہوا اور انہیں پڑھا اور اُن کے توسط سے محمد خالد اختر،ابن ِانشا اور ضمیر جعفری کی دستیاب کتب بھی پڑھ ڈالیں تو مجھے مزاح لکھنے کا شوق چرایا اور میں نے راوی پر شکار کھیلنے کی ایک مہم”کرنے چلے شکار”کے عنوان سے خاصے شگفتہ رنگ میں لکھ دی۔یہ ایک طویل پُرلطف کتھا تھی اور اس لائق کہ کسی بھی ادبی پرچے میں شائع ہو سکے مگر کوئی بتانے والا ہوتا تو۔سو ساہیوال کا زمانہ فلم بینی اور دوستوں سے لایعنی مکالموں میں گُزرا۔پہلے برس تعلیمی حالت تسلی بخش رہی مگر دوسرے برس کیمسٹری پڑھنے سے اجتناب کرنے کا آغاز ہوا اور اس کی وجہ اُستادِ محترم ہی تھے۔یہ وقت بھی آیا کہ میں پندرہ پندرہ روز ان کی کلاس میں گیا ہی نہیں۔حتّٰی کہ انہوں نے کالج انتظامیہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے میرے گھر خط لکھ کر میرے والد کو۔میرے بڑے بھائی مہر نواب مذاکرات کے لیے آئے۔میں کلاس میں جانے لگا مگر کہیں اوپر یہ طے ہو چکا تھا کہ میں اس شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔سائنسی مضامین سے میرا جی اُچاٹ ہونے لگا۔اس کی وجہ تفہیم میں دیگر طلبہ سے پچھڑنا تھا۔اس کمی کو ٹیوشن لے کر پورا کیا جا سکتا تھا مگر عجیب بات ہے کہ اس وقت مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔پھر ایوب خان کے خلاف طلبہ تحریک کا آغاز ہو گیا۔گورنمنٹ کالج ساہیوال اس سلسلے میں زیادہ فعال نہیں تھا مگر اس تحریک کے اثرات اس کالج کے معمولات پر بھی پڑے۔جب ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو طلبہ کو امتحان کی تیاری کا وقت دینے کے بہانے گھر بھیج دیا گیا۔اسی بیچ میں کہیں ملتان بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور مجھ سمیت تمام طلبہ کے داخلے امتحان کی غرض سے بھجوا دیے گئے۔حالاں کہ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ کم ازکم مجھے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
امتحان 1969ء کی گرمیوں میں ہوا۔جس کے بعد سب اپنا بوریا بستر لپیٹ کر گھر چلے آئے۔میں نے سائیکل پر کبھی تانگے پر،روز شہر آنا شروع کیا۔دن دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزار کر شام سے پہلے گھر پلٹ جانا معمول ٹھہرا۔کیا عجیب شہر تھا کہ جس میں دوپہر کو پکا پکایا ملتا ہی نہیں تھا۔ہاں شام کو سموسے مل جاتے تھے اور شمیم اکبر آبادی کے سیخ کباب مع چُلھ سے اتاری چپاتی کے۔ اس لیےدوپہر کی میزبانی عام طور پر آصف کے ذِمّے ہوا کرتی تھی۔اُس کے ابّا چاچا الیاس صاحب ایسے مہربان تھے کہ جس روز اُن کی طرف جانے کا ناغہ کرتا۔وہ باقاعدہ جواب طلبی کرتے۔شہر جانے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی مگرمَیں دن چڑھتے ہی کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ لیا کرتا تھا۔تانگے پر جاتا تو اسے ماسٹر عبدالحق کے گھر کے سامنے کھولا جاتا اور اُن کے حضور میں حاضری لازم ٹھہرتی۔میں فاؤنٹن پین سے اچھا خاصا خوش خط لکھ لیتا تھا مگر ماسٹر صاحب مجھے خطاط بنانے پر مصر تھے۔تاہم انہوں نے کبھی بوتل کے اندر لکھ کر دکھایا نہ ہی اس جادوئی مہارت کا بھید افشا کیا۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کے اس فن کا پردہ چاک ہو تو کیسے؟
بہرطور میری میاں چنوں یاترا جاری رہی۔ان دنوں میں بھی جب گھوڑوں کی سواری کے اوزار جلا دیے جاتے ہیں اور ان دنوں میں بھی جب سِرے سے شہر جانے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہوتی تھی۔روز آصف کے ہاں نششت جمتی اور ہر طرح کے علمی مباحث برپا کیے جاتے۔میں مذہبی معاملات میں خاصا پھسڈی تھا اور سیاسی میدان میں لگ بھگ کورا۔اس لیے میرا جادو صرف ادب کے میدان میں چلتا تھا اور میرے دوستوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اس سے پہلے ایک بار آصف کے کسی کزن کی شادی کے سلسلے میں مَیں اور نواز راولپنڈی اور مری گئے تھے۔یہ تو یاد نہیں کہ ہم دونوں کے عبداللہ دیوانہ بننے کی کیا وجہ تھی مگر مری کا وہ ٹور یادگار تھا۔ستمبر کے مہینے میں ہلکی بارش میں چھاتا لے کر گھومنے،اطالوی طرز کے ریستورانوں میں سہ منزلہ پلیٹوں سے لذیذ سنیکس کے ساتھ چائے کے کئی کئی دَور اتنے پُر لطف تھے کہ میں اُن کی تلاش میں کئی بار مری گیا اور ہفتوں ٹھہرتا رہا۔طالب علمی کے زمانے میں کم وبیش ہر برس اور شادی کے بعد صرف ایک بار یعنی اپریل 1979ءمیں۔جس کے بعد تیس برس تک اُدھر کا رُخ کرنے کا دھیان ہی نہیں آیا۔2010ءمیں اپنے بیٹے عمیر کی فیملی کے ساتھ جانا ہوا تو وہاں کی حالت ِزار دیکھ کر جی بھر آیا۔نظم”مال روڈ پر ایک شام”اسی تجربے کی یاد میں ہے۔
"دبے ہوئے ہیں دُکانوں کے بیچ ریستوراں
نہ وہ غنودہ حقیقت نہ وہ بھڑکتا گماں
نہ وہ گلی میں غزالوں سے بات کرتا دھواں
نہ وہ ہوا میں درختوں کی جھلملاتی مہک
نہ وہ نظر کی صباحت نہ آئنے کی لپک
نہ وہ دلوں میں سحر دم ورود کرتا شک
نہ وہ شراب کے نشّے میں لڑکھڑاتے قدم
نہ وہ صبیح ستاروں کے غول بیش و کم
کھڑے تھے اور کھڑے ہیں یہ کیسی دھوپ میں ہم”

خیر یہ قصّہ تو بہت بعد کا ہے۔تب کی جنونی کیفیت کا سبب کچھ اور تھا۔1985ءمیں”موسم” کی اشاعت پر محمد سلیم الرحمٰن نے اپنے کالم”Starlet in a mirror”میں شکوہ کیا تھا کہ”ابھی ہمارا شاعر محبت کے گیت گانے کی طرف راغب نہیں” تو ان کا شکوہ بجا تھا کہ جس تہذیبی روایت سے میری نسبت تھی۔وہ مشاق احمد یوسفی کی بیان کردہ وہی تنگ گلی تھی۔جس سے اگر ایک عورت اور مرد کو بیک وقت گزرنا پڑے تو درمیان صرف نکاح کی گنجائش نکلتی ہے اور میں ابھی اس کام کے لیے بہت چھوٹا تھا۔یہ اور بات کہ بلوغت وارد ہونے کے دنوں میں میری آواز میں ایسی تبدیلی آئی کہ ایک بار میں گھر کے صحن میں آ کر کسی وجہ سے ذرا بلند لہجے میں بولا تو مہمان آئی ماسی نوراں نے جھٹ یہ کہہ کر پردہ کر لیا”خیال کرو بھائیا پیا امدا اے”.اس سے اُن کا اشارہ میرے والد کی طرف تھا۔
بچپن میں اپنے والد کے جوتے پہننا اور نوجوانی میں اُس کی آواز کا وارث ہونا شاید ایک ہی خواب کے دو پرتو ہیں۔پھر میں اُن کی طبعی شرافت کو کیسے داؤ پر لگا سکتا تھا؟

درس گاہ – 32

بندوق سے میرا تعارف بہت چھوٹی عمر میں ہو گیا تھا۔ایک تصویر میں مَیں اپنے والد کے پیچھے کھڑا ہوں اور انہوں نے اپنی ونچیسٹر کی شارٹ گن گود میں رکھی ہوئی ہے۔اس حوالے سےایک نظم”بندوق کی کہانی”میری نظموں کی کتاب”نیند میں چلتے ہوئے میں موجود ہے۔اس نظم کا اعزاز یہ ہے کہ اسے محمد سلیم الرحمٰن نے انگریزی میں ترجمہ کیا مگر میری اپنی پہلی بندوق ایک ائیر گن تھی جس سے پرندے شکار کرنے میں مجھے کبھی کامیابی نہیں ہو سکی۔ہاں بڑے بھائی مہر نواب کی بائیسں بور اور سیون ایم ایم نہ معلوم مجھے بھابھی کیوں کھیلنے کو دے دیتی تھیں اور میں نے اپنا نشانہ انہیں کی مدد سے پکّا کیا۔اس حد تک کہ ایک بار المونیم کا گلاس درخت سے لٹکا کر مجھے نشانہ لگانے کو کہا گیا تو نشانہ لگانے کے بعد گلاس کی حرکت اتنی خفیف تھی کہ سب اس بات پر متفق تھے کہ نشانہ چُوک گیا ہے مگر جب گلاس کو قریب جا کر دیکھا گیا تو اس کی دونوں جانب سوراخ تھے۔
اسی زمانے میں مجھے شکار کا شوق چرایا اور میں کبھی کبھی ابّا کی بندوق لے کر گھوڑے پر راوی جانے لگا۔کئی بار دوست بھی ساتھ ہوتے تھے۔عام طور پر لاوے کی مدد سے سیاہ یا بھورے تیتر کا شکار کھیلا جاتا تھا۔لاوے کے لیے سِدھا ہوا تیتر استعمال کیا جاتا تھا،بعد میں دستی ٹیپ ریکارڈر آ گیا تو یہ کام اُس سے لیا جانے لگا۔اس حوالے سے بڑے دلچسپ تجربات ہوئے۔مثلاً ایک بار آصف ساتھ تھے۔بڑی تگ و دو کے بعد تین ہی تیتر ہاتھ لگے۔ہم نے رات کو بھینی پر پکا کر کھانے کے بجائے بطورِ سوغات آصف کے ہمراہ کر دیے جو رات رات میں گھر جانے پربضد تھا۔اگلے دن اُس کی امّی سے کیفیت جانی کہ انہیں گوشت پسند آیا یا نہیں تو پتا چلا کہ انہوں نے وہ تیتر اپنے جمعدار کو دے دیے تھے۔
بیلے کے اپنے اسرار تھے۔خطرناک جانوروں کی موجودگی کا خطرہ اپنی جگہ۔دریا کا اتار چڑھاؤ بھی مسائل پیدا کر دیتا تھا۔کبھی کہیں سے داخل ہوتے اور کسی اور پتن سے گھوم پھر کر واپسی ہوتی۔حبس اور جنگل کی گہری تنہائی میں سرکنڈوں سے راہ بنانا اور لئی اور کریر کی جھاڑیوں سے گزرنا بڑے دل گردے کا کام تھا کہ دریا کے پانی کے نکلنے اور واپسی سے جھاڑیوں کے مابین قدرتی نالیاں بن جاتی تھیں مگر وہ آپ کی مرضی سے کہیں جانے یا گھومنے کی پابند نہیں تھیں۔تیتر کے شکار میں گھوڑے استعمال نہیں کیے جاتے تھے اور سور کے شکار میں مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ہاں حق نواز کو فصلوں کی رکھوالی کے لیے یہ کام بھی کرنا پڑتا تھا۔اس لیے پتن پر دو چار بندوقیں ہمیشہ موجود رہتی تھیں۔
ظاہر ہے یہ کام تعطیلات میں ہوتا تھا اور ہر شکار کے موسم کے اعتبار سے۔جاوید(ڈم ڈم )کو شرط پوری کرنے کا خبط ہوا تو اسے تمام اونچ نیچ سمجھا دی گئی۔جب وہ پھر بھی باز نہیں آیا تو بیلے کا پھیرا لگوایا۔ایک رات دریا کنارے گزاری گئی۔خیال تھا کہ دن کی وحشت اس کی آتش ِ قلب کو بجھا دے گی لیکن شاید معاملہ مردانہ سے زیادہ قلبانہ انا کا تھا۔اس لیے وہ اپنے ارادے پر اٹل رہا۔اُس وقت تک وہ کئی ڈیرے دیکھ چکا تھا۔لوگوں کے استہزاء کا نشانہ بن چکا تھا اور ابھی تک اپنے حسرت پوری کرنے میں ناکام تھا۔۔سو ہم جماعت ہونے کے ناتے طے کیا کہ اُس کی مشکل حل کر دی جائے۔حق نواز سے معاملات طے کر کے اُسے مطلع کیا اور ایک روز ہم سب راوی پر اس نیت سے یکجا ہوئے کہ آج اس کھکھیڑ کو نپٹا ہی دیں۔
سہہ پہر کو سب لوگ گھوڑوں پر روانہ ہوئے۔ڈم ڈم صاحب گھوڑے کی سواری سے معذور تھے۔اس لیے پیدل چل رہے تھے اور ایک آدمی ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ایک جگہ گھنی جھاڑیوں کے جھنڈ میں مخصوص بُو اور خرخراہٹ سنائی دی تو پانی سے بنی ایک گزرگاہ پر ڈم ڈم کو متعین کر کے بتایا گیا کہ ہم لوگ گھوڑوں پر تین طرف سے گھیرا بنا کر جھنڈ میں داخل ہوں گے تا کہ سور اسی طرف نکلیں جدھر وہ بندوق لیے موجود ہوں گے۔اب یہ اُن کا کام ہے کہ سور کے قریب آتے ہی اس پر فائر کریں اور گرا لیں۔
سور اُسی طرف نکلے جدھر وہ بندوق لیے موجود تھے مگر اس وقت وہ اپنی جگہ چھوڑ کر قدرتی نالی کے دونوں کناروں پر ٹانگیں پھیلائے قدرے جھکے ہوئے سور کی آمد کے منتظر تھے۔اس سے پہلے کہ وہ پوری طرح باخبر ہوتے اور بندوق سیدھی کرتے،پہلا سور ان کی ٹانگوں کے درمیان سے نکل گیا۔وہ بے اختیار اچھلے اور اس کے پیچھے آنے والے اگلے سور پر لینڈ کر گئے۔اُن کا رُخ سور کی مخالف سمت میں تھا۔پتا نہیں یہ کیسے ہوا مگر انہوں نے ٹانگوں سے سور کی گردن کو جکڑ لیا اور ہاتھوں سے دُم کو اور سور اس ناگہانی آفت سے نجات کے لیے انہیں لے کر گھنی جھاڑیوں میں گھس گیا۔اُن کی بندوق اس لینڈنگ سے پہلے ہی گِر گئی تھی اور ہم اس حالت میں اس عفریت پر فائر کرتے تو کیسے کرتے؟سوار اور سواری دونوں کی پریشانی دیدنی تھی اور سواری سوار سے آزادی کی ہر کوشش کر رہی تھی مگر سوار تھا کہ گرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔سواری اپنی دھن میں اسے لیے جاتی تھی کہ بیلہ ختم ہو گیا اور دریا کا بیٹ آ گیا۔ہم لوگوں نے چیخ کر ڈم ڈم کو گر جانے کی صلاح دی مگر تب تک وہ خود ہی گر گیا اور سور ایک اسرار بھری حیرانی میں رک کر اُسے دیکھنے لگا ہی تھا کہ حق نواز نے مسلسل دو فائر کر کے اُسے گرا دیا۔
اس شکار کا کریڈٹ ڈم ڈم کو دیا گیا۔اس نے سولا ہیٹ پہن کر مردہ جانور کی گردن پر پاؤں اور بندوق کی نال رکھ کر تصویر بنوائی۔دم کاٹ کر لاہور کے لیے محفوظ کی۔اُس زمانے میں انارائیڈ موبائل ہوتے تو آج اس ساری واردات کی ویڈیو شئیر کرنے کو موجود ہوتی۔
سب اچھّا رہا مگر ڈم ڈم کےجھاڑیوں سے رگڑ کھائے بدن کو بحال ہونے میں بہت دن لگے۔
انہی دنوں میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ میں نے بندوق کے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔
اس واقعے کی نسبت آوارہ کُتوں کو تلف کرنے کی خودساختہ مہم سے ہے۔میں بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا کہ میرے والد صاحب ایک خاص موسم میں آوارہ کُتوں کو تلف کرنے کے لیے ملازمین کو انہیں کُچلا ڈالنے کو کہتے تھے اور بعض اوقات کھیتوں میں کہیں کوئی آوارہ کُتّا مرا ہوا دکھائی بھی دے جاتا تھا۔جس کو کریہہ صورت گِدھوں کے غول آ کر چٹ کر جاتے تھے
میں نے اپنا نشانہ آزمانے کا سوچا اور بڑے بھائی کی پوائنٹ ٹوٹو رائفل لے کر اس مہم پر نکلا تو کسی ہم عمر کے مشورے یا اپنی ہی کج طبع سے مغلوب ہو کر یہ خیال آیا کہ کُتّوں کو دور سے نشانہ بنا کر مار ڈالنے کے بجائے باندھ کر قریب سے نشانہ بنایا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ موت کس رفتار سے اور کتنی دیر میں ان کے وجود پر حاوی ہوتی ہے؟گُمان ِغالب یہی ہے کہ فیصلہ میرا اپنا ہی تھا۔بہر صورت میرے ساتھیوں نے کسی طرح ایک آوارہ کُتّے کو گھیر کر بستی کے مغربی حصے کے قریب ایک کُھلی جگہ پر درخت سے باندھ دیا اور میں نے اپنی طرف رُخ کیے کُتّے کے ماتھے پر بنے سفید دھبے کا نشانہ لگا کر فائر کیا۔ایک تیز سِیٹی جیسی گُونج کے ساتھ چِڑیوں اور فاختاؤں کو اچانک فضا میں دھکیلتی اور شور مچانے پر مجبور کرتی آواز کے ساتھ گولی چلی اور کُتّے کے ماتھے کے سفید نشان کا رنگ بدلتی ہوئی اس کے وجود میں کہیں اُتر گئی۔میری توقع کے برعکس گولی لگنے کے بعد کُتّے کے جسم کو لگنے والا دھچکا میرے کندھے کو لگنے والے دھچکے سے بھی معمولی تھا۔ہاں! اُس کے بدن نے تھکے ہوئے اور ٹوٹتے ہوئے بدن کی طرح ایک بھرپور انگڑائی لی اور اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے بس ایک لمحے کو ملیں۔جن میں ایک بُجھتی ہوئی پہچان اور ایک دلدل میں ڈوبتی ہوئی آواز کا سا تاثٔر تھا۔چولہے میں بُجھتے انگارے کی طرح ان آنکھوں کی سُفیدی اور سُرخی سُرمئی راکھ کا رنگ اوڑھ کر لمحہ بھر میں میری نظروں سے اوجھل ہو گئی مگر میری ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو کر۔نہ معلوم کیوں میرا دل دُکھ سے بھر آیا اور اپنی زندگی میں پہلی بار مجھے بندوق سے،کسی بھی شے کی زندگی سے کھیلنے کا خیال تکلیف دینے لگا۔اُس وقت میرے ساتھی،جن کی تعداد مجھے اب یاد نہیں،مُسرّت اور جوش سے جو کچھ کہہ رہے تھے،میرے کانوں تک پہنچنے کے باوجود میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔دھوپ تھی مگر اُس کا احساس مِٹ رہا تھا اور مجھے اپنے آپ سے اور اپنے عمل سے گِھن آنے لگی تھی۔اُس کُتّے تک پہنچنے والی موت کسی پرندے کے پر کی طرح نرم روی اور خاموشی سے تیرتی ہوئی آئی تھی اور اس کے بدن نے تکلیف اور تشنّج کے سبب کسی طرح کا جھٹکا نہیں کھایا تھا مگر بندوق کے لبلبے پر میری انگلی تشنّج اور تکلیف سے اکڑی ہوئی تھی اور میرا بدن بدبو اور پسینے سے بھیگنے لگا تھا،جیسے میں آہستہ آہستہ کسی جوہڑ میں اُتر رہا ہوں۔میں رونا چاہ رہا تھا نہ ہی میری آنکھوں میں آنسو تھے مگر میری روح آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔کُتّے کی بُجھتی آنکھوں میں سُنائی دینے والی چیخ میرے بدن میں،میری رگوں میں دوڑ رہی تھی اور میں اس کی شدّت اور گُونج کو سہہ نہیں پا رہا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میں اور میرے ساتھی اس کام کو مزید جاری نہ رکھ کر اپنے گھروں کو لوٹ آئے تھے مگر کب اور کیسے؟اس بارے میں مَیں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔شاید ہماری واپسی پر بندوق میرے پاس تھی یا کسی اور نے لے لی تھی،مجھے یاد نہیں مگر اس واقعے کے بعد میں نے اپنے آپ کو ہر طرح کے اسلحے سے دور کر لیا۔میں بچپن میں تلوار کو بہت شوق سے دیکھتا تھا اور ڈرائنگ کے لیے لکیریں کھینچتے ہوئے زیادہ تر مختلف قسم کی تلواریں ہی بنایا کرتا تھا اور قبلہ برکت علی شاہ کے ہاں موجود محرّم کے دنوں میں ذوالجناح کو سجانے کے لیے استعمال ہونے والی تلوار کو موقع ملنے پر اُٹھا کر میں اکثر رغبت سے دیکھتا اور کسی کو دیکھتا نہ پا کر گھما کر بھی دیکھ لیا کرتا تھا اور اس عمل سے باطنی مسرت اخذ کرتا تھا(شاید اسی لیے آگے چل کر میری شاعری کے علائم میں شمشیر بہت قوت کے ساتھ اُبھری)۔پھر لڑکپن میں مری توجہ مختلف النوع بندوقوں اور رائفلوں کی طرف تھی مگر اس روز کے بعد مجھے بندوق اُٹھانا بوجھ لگنے لگا اور بندوق اُٹھا کر کہیں رکھتے ہوئے بھی مجھے اس کے وزنی اور خطرناک ہونے کا احساس گھیرے رہتا تھا۔شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی کسی طرح کا اسلحہ خریدنے کی زحمت نہیں کی اور وراثت میں منتقل ہونے والی اپنے باپ کی ونچسٹر شارٹ گن کو بھی اپنے نام منتقل نہیں کرایا۔حتٰی کہ میرے بچپن کا یہ خواب میری زندگی سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا۔

درس گاہ – 31

میرے ساہیوال چلے جانے کے باوجود میاں چنوں کی اقامت برقرار تھی۔طالب حسین ساتویں میں پڑھ رہا تھا اور اب تو تسلیم بھی ایم سی گرلز پرائمری سکول جانے لگی تھی۔معلوم نہیں کیسے اس کے سکول کی استانیوں کو ہمارے والد کی ثنا اللہ بودلہ صاحب اور غلام حیدر وائیں سے قربت کی خبر ہو گئی تھی اور کم وبیش ہر روز اس کے بستے سے سکول سے متعلق کسی نہ کسی معاملے کی درخواست نکلنے لگی تھی اور میرے والد بہت خلوص کے ساتھ ہر مسئلے کے حل کی سعی کرتے تھے۔
میں ساہیوال میں مگن تھا۔سنیما جانا بڑھ گیا تھا اور اس کی ایک آدھ جذباتی وجہ بھی تھی۔پڑھنے کی رفتار کم اور دوستوں سے مل بیٹھنے اور گپ ہانکنے کی شرح بڑھ گئی تھی۔خاص طور پر شکور کی ذاتی کتھائیں کئی کئی دن چلتی تھیں۔میں بہت شرمیلا اور کم گو تھا مگر دوستوں میں خوب چہکتا تھا۔کبھی کیفیت طاری ہوتی تو ایسی ساحرانہ گفتگو کرتا کہ ٹرانس سے نکل کر خود بھی دنگ رہ جاتا۔پھر بھی لکھنا موقوف تھا اور کم و بیش پڑھنا بھی۔
نواز سے قربت بہت بڑھ گئی تھی اور اس کے پاس کرنے کو ہزار کام تھے۔وہ نچلا بیٹھنا جانتا ہی نہیں تھا۔پرنسپل صاحب نے اُسی کے دھڑکے سے فجر کی نماز کے لیے خوابیدہ طلبہ پر سے چادریں کھنچنا موقوف کر دی تھیں۔ڈارمیٹری کی کھڑکی کی جالی اتارنے اور نصب کرنے کی راہ بھی اُسی نے نکالی تھی اور بس کے سفر میں نوجوان لڑکیوں والے خاندان میں گھل مل جانا بھی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا بل کہ وہ اس قربت کو بڑھانے کے لیے بریک جرنی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔
وہ کئی بار میرے ساتھ ہماری بستی آیا اور میں بھی اس کو ملنے مدرسہ گیا۔وہ ریلوے پھاٹک کے سامنے ایک چھوٹی سی بستی نجمہ آباد میں رہتا تھا۔شنید تھی کہ یہ بستی اس کی بہن کے نام پر ہے۔اس کے والد،بھائی اور بہنیں مجھے اپنے خاندان کے ہم زاد لگے۔شاید ہماری گہری دوستی کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔
ہم سب دوست ہفتے کو گھروں کے لیے نکل پڑتے تھے۔عام طور پر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بستی آ جاتا تھا۔ہاں زیادہ دیر ہونے پر سالم تانگہ کرا لیا کرتا تھا۔کئی بار بات نہ بننے پر بس لے کر کسی بھی موڑ پر اتر کر پیدل گھر آ جاتا تھا اور ہر بار واپسی اگلے دن عصر کے بعد ہوا کرتی تھی۔

میرے ساتھ کے سبھی ساتھی اب بڑے ہو چکے تھے۔لڑکے اپنے بزرگوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے لگے تھے اور لڑکیاں بیاہنے لگی تھی۔ہماری ملازمہ منظوراں جو مجھ سے دو برس بڑی تھی اور میرے گاؤں میں ہونے پر ہر رات میرے پاؤں دباتی تھی اب تاڑ کا درخت بن گئی تھی۔جسم بھر ہی نہیں آیا تھا،پھٹنے پر آمادہ تھا۔قد،بُت،کاٹھ ایسا تھا کہ فلمی ہیروئنوں کو نصیب نہ ہوا تھا۔اس پر کسی نے اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ اُسے فلموں میں کام کرنا چاہیے سو ہر بار میری آمد پر وہ مجھ سے مدد کرنے کا وعدہ لیتی تھی اور دو ایک بار اس سلسلے میں اپنی تیاری بھی دکھائی۔وہ اسے رقص کہتی تھی مگر ایسا بے ہنگم رقص تو آج کل ڈسکو کی محفلوں میں بھی نہیں ہوتا۔اس لیے میں نے اپنی والدہ کو کہہ کر اس کی شادی کرا دی۔اس نے دو چار بار رسّہ تڑانے کی کوشش کی مگر پھر کھونٹے سے بندھ گئی۔مدتوں بعد ایک بار حاکم علی رضا کے ساتھ اس کی طرف پھیرا لگایا تو پہچان نہیں پایا۔چالیس برس کی عمر میں وہ دادی بن چکی تھی۔منہ میں دانت تھے نہ پیٹ میں آنت۔اور تو اور اُس نے مجھے پہچانا ہی نہیں۔حاکم کے بہت اصرار پر نام لیا بھی تو میرے چھوٹے بھائی کا۔
راجا راؤ کی طویل کہانی”ساونی”کی کتھا بھی یہی ہے۔حُسن و جمال کی برقراری اور ثبات میں آسودگی کا حصہ سب سے زیادہ ہوا کرتا ہے۔جہالت،غربت اور ناداری وجود کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔میرے جاننے والوں میں ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی لاکھوں دلوں کی دھڑکن رہی۔کیوں کہ اُس نےکامیابی پائی اور اپنے لباس، حُلیے،برتاؤ اور محفل آرائی کی ادا کو نہایت سلیقے سے برت کر اپنی شائستگی اور جمال کی دھاک بٹھا دی مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس میں اس کی مالی آسودگی کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔
منظوراں کا چھوٹا بھائی لال عرف لالُو ہمارے پاس شہر میں ملازم تھا۔اُس کی زندگی کی سب سے بڑی تمنّا شہر میں رہ کر میری خدمت کرنا تھی مگر میں خواہش کے باوجود اُسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکا اور اب تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟

1967ء کے آخر میں بھٹو صاحب کے ساہیوال آنے کی افواہ اُڑی۔وہ ہمارے ایک ہم جماعت عامر کہ جس کے والد شاید ریٹائرڈ آرمی آفیسر تھے،کے ہاں فرید ٹاؤن آ رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی شاخ قائم کرنے یا اُس کے عہدے داروں کے تقرر کی تقریب میں شرکت کرنے۔اگلے ہی روز مظفر قادر جو اس زمانے میں ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر تھے،کا نزول ہوا اور بھٹو کے آنے کے روز کی کالج میں تعطیل کا اعلان کر کے چلتے بنے۔ہاسٹل کے طلبہ کو اس اچانک افتاد سے نپٹنے کا کوئی حل نہیں مل رہا تھا۔کوئی بھی گھر جانے پر آمادہ نہیں تھا کہ کم وبیش سبھی ایک دن پہلے ہی گھر سے ہاسٹل پلٹے تھے۔سو پرنسپل صاحب نے چھانگا مانگا کے ہنگامی ٹور کا انتظام کر دیا۔ یہ ٹور اس لحاظ سے انتظامیہ کے لیے نقصان دہ رہا کہ طلبہ سارے راستے پیپلز پارٹی اور بھٹو کے حق میں نعرے لگاتے گئے اور آئے۔اُسی رات عامر کے یہاں کھانے پر ہم چند دوستوں کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی اور میرے گھر کے پیپل پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگ گیا۔اس کے باوجود کہ میرے والد پیر ثنا اللہ بودلہ اور کھگّوں کی محبت میں مسلم لیگ کے حمایتی تھے اور ستّر کے الیکشن میں انہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ بھی دیا

میں پیپلز پارٹی کا کبھی رکن نہیں رہا نہ ہی ہمارے خاندان نے کبھی اس نسبت سے کوئی فایدہ اٗٹھایا مگر یہ جھنڈا برسوں لہراتا رہا اور علاقے کے سب سیاستدان اس حوالے سے میرے کنسرن کو جانتے تھے۔

اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو کسی شاعر سے پہلی ملاقات مجید امجد سے تھی اور کسی ادبی رسالے سے پہلا تعارف”فنون”سے۔بطور قاری نثر سے میری نسبت پرانی تھی مگر شاعری سے نئی نئی۔شکور میری تحریری صلاحیت سے مرعوب تھا سو اس نے راوی بن کر مجھے ایک ناول ڈکٹیٹ کرانا شروع کیا اور میں اسے اپنے رنگ میں لکھتا چلا گیا۔یہ ایک عشقیہ داستان تھی اور مجھے یقین ہے کہ اگر اسے رضیہ بٹ یا سلمیٰ کنول کے نام سے چھاپ دیا جاتا تو خوب پڑھی جاتی مگر میرے یا شکور کے نام سے اسے چھاپنے کے لیے پبلشر کا ملنا محال تھا۔ناول مکمل کرنے کے بعد میں نے حاکم علی رضا کو جو لاہور اسلامیہ کالج آف کامرس میں پڑھ رہا تھا،اس کی اشاعت میں اعانت کے لیے خط لکھا اور اس نے اردو بازار کے پبلشرز سے معاملہ طے کرنے کے لیے مجھے لاہور آنے کی دعوت دی بلکہ لے جانے کے لیے ساہیوال آ پہنچا۔
حاکم کی نویں جماعت میں شادی کر دی گئی تھی،جسے وہ اپنی شخصیت کی کجی کی بنیاد جانتا تھا اور اس ٹیڑھ کو نکالنے کے لیے ان دنوں ایک اور لڑکی کے عشق میں مبتلا تھا ۔اس معاملے میں اُس نے مجھے رازدار بنا رکھا تھا۔اس لیے اُس کے نزدیک میرے کسی کام کی اہمیت معمول سے بڑھ کر تھی۔
ہم ایک بار پھر "نیا ادارہ”پر آئے۔ناول اُن کے حوالے کیا اور ہر وہ کتاب خرید لی جو انہوں نے خریدنے کے لیے تجویز کی۔اس میں ضیا جالندھری کی”نارسا”سے باری کی”کمپنی کی حکومت”تک بہت کچھ تھا اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس علمی خزانے نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔
میرے لکھے ناول کو چھپنا تھا نہ چھپا۔میں نے اسے غلام حسین سیفی کے نام سے لکھا تھا۔اس نام کی کوئی وجہ تسمیہ نہ تھی۔کچھ عرصہ "داغ "بھی رہا مگر بڑی حد تک بے داغ۔افسانے لکھ اور شاعری کر رہا تھا مگر اسے کسی کے ساتھ سانجھا نہیں کرتا تھا۔معلوم تھا میری ہر تحریر ناپختہ اور اصلاح طلب ہے اور ابھی اتنی ہمّت نہیں تھی کہ اپنا بستہ اُٹھا کر کسی کے چرنوں میں جا بیٹھوں۔
مجید امجد کی”شب ِرفتہ”اسی زمانے میں پڑھی مگر اس نے وہ اثر نہیں کیا جو ساحر کی”تلخیاں” اور فیض کی "نقش فریادی”نے دکھایا تھا۔
میں نے پہلا سٹیج ڈرامے اپنے کالج کے ہال میں دیکھا،جس کا مرکزی کردار ایک سیکشن آفیسر تھا۔اب یاد نہیں یہ کس نے لکھا اور ڈائریکٹ کیا تھا مگر ڈرامہ خوب تھا اور تا دیر میرے حواس پر سوار رہا۔

درس گاہ – 30

جراحی کی طرف سے آنے والا راجباہ ڈپٹیاں والا سے پہلے دو کھالوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ایک ٹّبّے سے دائیں ہو کر پنج کسّی اور پھر ہمارے گھر کی چاردیواری کو چُوم کر بھاؤ مراد کی بھینی سے آگے نکل جاتا تھا اور دوسرا خان ذوالفقار کے باغ سے مُڑ کر نور شاہ کے قبرستان کی بیرونی حد کو چُھو کر کھگّوں اور ہماری زمین کی سیرابی کا فریضہ ادا کرتا تھا۔اس نالے پر قبرستان کے ماتھے پر سلیم شاہ کا ٹیوب ویل نصب تھا اور پگڈنڈی پر ایک مختصر سا پختہ پُل۔میں اور حق نواز شام کو سیر کرتے گھر سے تین چار مربعے کے فاصلے پر اسی پل پر آ کر بیٹھتے تھے اور وہ باتیں کیا کرتے تھے جو ہمیشہ ادھوری رہتی ہیں اور اب بھی ادھوری ہی ہیں۔حق نواز مجھ سے آٹھ برس بڑے تھے اور کسی فلمی مکالمے سے متاثر ہو کر مجھے ماموں یار کہتے تھے اور میں اُسے عزیزی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔اُس کی رہائش دریا کنارے تھی اور میں ساہیوال جا چکا تھا مگر پھر بھی ہر ہفتے یہ ملاقات ہوا کرتی اور وچار سانجھے کیے جاتے۔
اسی زمانے میں نور شاہ قبرستان میں چڑیل کی موجودگی کی افواہ اُڑی اور آہستہ آہستہ کیفیت یہ ہو گئی کہ پانی کی باری والوں نے کھالے کے ساتھ ساتھ رات کو قبرستان سے گزرنا چھوڑ دیا۔یوں بھی قبرستان کی خستہ حالت،سُنسانی،جابجا ون،کیکر اور جال کے پُر اسرار درخت،بوڑھ کے دو مہان گیانیوں کی وسیع چھایا اور اس پر عاشق چمگادڑوں کے پرّے۔یہ سب مل کر ایسا منظر نامہ تشکیل دیتے تھے جو کسی رات کے راہی کو کم ہی خوش آ سکتا تھا۔
انہی دنوں ایک بار میں ساہیوال سے گھر کے لیے نکلا تو بس کے خراب ہو جانے کی وجہ سے کہیں مغرب کے بعد میاں چنوں پہنچا۔گھر والے گاؤں میں تھے اور مجھے کوشش کے باوجود گاؤں کے لیے کوئی سواری نہیں مل سکی۔ایک تانگے والے سے سالم تانگہ لے جانے کی بات کی مگر وہ لوئر باری دوآب کے کنارے کے کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔اس لیے معقول رقم کی پیشکش کے باوجود بھی راضی نہیں ہوا۔سو میں گھراٹاں پر اُتر گیا اور جراحی بینس پر پیدل ہی گاؤں کی راہ لی۔ ذہن میں گھر کی ہوئی شاعری پڑھتا اور مکیش کے گیت گنگناتا میں ڈپٹیاں والا کے باہر پہنچا تو کُتّوں اور چڑیل میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ آیا۔مجھے چوں کہ کُتوں کے وجود پر یقین اور چڑیل کے وجود پر شک تھا۔اس لیے پانچ منٹ کے جرنی بریک کے بعد میں نے قبرستان کے پہلو سے ہو کر بوڑھ کے نیچے سے پُل اور کھیتوں میں سے اپنے گھر کو جاتی پگڈنڈی کا رُخ کیا اور تین سے چار منٹ کی اس مسافت کو دھڑکتے دل کے ساتھ طے کرنے لگا۔
اندھیری رات تھی اور بوڑھ کے نیچے اس قدر تاریکی کہ پُل تک کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ہاں چلتے ہوئے پانی کی سرسراہٹ تھی اور اس کی روانی میں خلل ڈالتی کچھ ایسی آواز جیسے کوئی اسے روک کر اُچھالنے کی کوشش میں ہو۔میں نے لاکھ آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر بے سُود۔میں ایسا گدھا تھا جس کے پاس ماچس تھی نہ ٹارچ۔ سو میں نے تاریکی سے باہر آنے کے لیے چلتے رہنا ہی بہتر سمجھا اور پُل پر پہنچا ہی تھا کہ کوئی شے ٹیوب ویل کے پانی سے بنی تلیا میں سے پانی کی جھالر کے ساتھ اپنے پورے قد کے ساتھ اُٹھی اور ایک غیر انسانی غراہٹ کے ساتھ میری طرف بڑھی ۔معلوم نہیں کیا ہوا مگر کسی غیر ارادی قوّت کے ساتھ میں اُس سایے سے گُتھم گُتھا ہو گیا۔کسی طرح میرے ہاتھ اُس کے بالوں میں الجھ گئے اور میں نے انہیں پوری قوت سے جکڑ کر کھینچ لیا۔اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو ایک ریشمی وجود پر گرا ہوا پایا اور مجھے لگا کہ اس کے بدن پر کسی ملبوس کا ایک تار بھی موجود نہیں۔کچھ نامانوس نشیب و فراز تھے اور ان پر سرکتے پانی کی ہلکی نمی اور میں تھا جو ایک وحشت بھرے اضطراب کے ساتھ اسے زمین پر رگڑے جا رہا تھا اور رگڑے جاتا اگر وہ تاریکی اور ٹھنڈک میں نہایا وجود سسکنے کا آغاز نہ کرتا۔
میں گھبرا کر الگ ہوا اور اُسی تاریکی میں اسے ملبوس میں اترنے کی اجازت دے کر اپنے پسندیدہ پُل پر جا بیٹھا کہ اس خوف سے نکلنے کی ضرورت مجھے بھی تھی۔
لڑکی قریب ہی کے گاؤں کی تھی۔وہی پرانی کہانی۔اولاد نہ ہونے کا مسئلہ۔پیر پرستی۔قبرستان میں چِلّہ اور غُسل۔آج کا واقعہ راز رکھنے کی شرط پر میں نے اُسے اس کام سے باز آنے کا کہا اور ہم دونوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔آج بھی سوچتا ہوں کہ اولاد کی تمنا عورت کو کتنا جری بنا دیتی ہے۔جس علاقے سے مرد دن میں گزرتے گھبراتے ہوں وہ وہاں راتیں بِتانے پر آمادہ ہو جاتی ہے اور ہر خوف کو جُوتی کی نوک پر رکھتی ہے۔
اٗس روز سے میں نے عورت کو کبھی کمزور نہیں سمجھا۔

دسویں جماعت میں تھے جب لاہور سے دو نوجوان جاوید اقبال (ڈم ڈم)اور اجمل ہجرت کر کے ہمارے سیکشن میں آئے۔پہلے ایچی سن کالج کے بھگوڑے تھے اور دوسرے سنٹرل ماڈل سکول کے۔ہم ایک کی ان تھک انگریزی اور دوسرے کی لشٹم پشٹم سے بہت متاثر تھے اور ممکن تھا اُن کے حلقہء ارادت میں شامل ہو لیتے مگر وقت کی تنگی کے باعث بات دوچار ملاقاتوں سے بڑھ نہیں پائی۔اجمل کے والد فیکٹری اونر تھے۔میٹرک کرنے کے بعد وہ شاید اپنے باپ کی مدد کرنے میں جُت گیا اور جاوید صاحب جو غلام حیدر وائیں(بعد میں وزیرِِاعلٰی پنجاب) کے رشتے میں پوتے تھے،ہیوی ویٹ باکسر بننے کی راہ پر چل نکلے۔
کالج کے پہلے برس گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک دن میں شہر سے موٹر سائیکل پر گاؤں جاتا تھا کہ میں نے جاوید کو جراحی بَین٘س پر نہر والوں کی بنائی سڑک پر نیکر،شرٹ اور لونگ بُوٹ میں شارٹ گن گلے میں ڈالے اور کمر میں کارتوسوں کی پیٹی اُڑسے مارچ کرتے دیکھا۔میرے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ وہ سور کے شکار پر نکلے ہیں،جس کا انہوں نے ایچی سن کی ایک ٹیچر سے وعدہ کیا ہے اور اب راوی کے بیلے کی اور پدھارتے ہیں۔میں انہیں شکار کی حدود و قیود بتا کر گھر لے آیا اور پہلی ہی تفصیلی ملاقات میں مجھ پر یہ بھید کُھل گیا کہ اُن کے تھل تھل کرتے وجود میں مقید روح کسں قدر سادہ اور معصوم ہے۔
وہ اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے تھے اور اپنی مراد کو پانے کے لیے انہوں نے ایسے ایسے گُل کھلائے کہ جن کی یاد بے اختیار ہسنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
جنگلی سور پر سواری کا شرف شاید ہی کسی اور کو حاصل ہوا ہو۔(زیر ِنظر تصویر میں دکھائی دینے والی آبادی تب موجود نہیں تھی)

درس گاہ – 29

آصف،محمود اور ضیا وغیرہ عمر میں بھی مجھ سے بڑے تھے اور قد کاٹھ میں بھی۔آصف گھونگھریالے بالوں،بڑی بڑی اسرار بھری
آنکھوں،نفیس جدّت طراز ملبوس اور لامحدود اعتماد کی وجہ سے نمایاں تھا تو محمود کے گھر کا علمی پس منظر،صوم و صلوٰۃ سے نسبت اور مذہبی مسائل اور معاملات میں قابل ِتقلید پیش رفت اسے تکریم کے قابل بنانے کو کافی تھی۔نواز اپنی معاملہ فہمی اور طراری کے باعث کسی کے قابو آنے والا نہیں تھا اور شکور کے خالص دیہاتی نقوش میں ایسی پختگی تھی جیسے برسوں سے ایک ہی کلاس کو رگڑا دے رہا ہو۔سو ریگنگ کا نشانہ اگر ہو سکتے تھے تو وہ میں اور ضیا ہی تھے وہ گفتگو میں اٹکنے کی قباحت کے باعث اور میں چار فٹ دس انچ کے قد اور نہایت دُبلے وجود کی وجہ سے اور یہی ہوا جب میں تین عدد تھری پیس سوٹ،متعدد کُرتے پاجاموں،کئی پینٹ شرٹس،یونیفارم کے دو جوڑوں اور پنجیری سے بھرے ٹرنک کے ساتھ ہوسٹل پہنچا تو سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔سینئیرز کے ایک جمّ ِغفیر نے مجھے گھیر ہی نہیں لیا،ٹرنک کھلوا کر پنجیری بھی لُوٹ لی،جس کے کھانے والوں میں پہلی قطار کے پیچھے نواز اور شکور کے چہرے بھی موجود تھے۔پہلے گانے کا حکم صادر کیا مگر میری آواز کی گڑگڑاہٹ سے گھبرا کر کچھ تحت اللفظ سنانے کی فرمائش کی گئی تو نہ معلوم کہاں سے حضرت ِ غالب میری مدد کو آ پہنچے اور میں نے ان کی غزل:
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
کے چند شعر سُنائے۔جب مقطع پر پہنچا:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
تو ہجوم کا استہزائی رنگ بے ساختہ داد میں بدل گیا اور ہجوم نے میرے ساتھ محبت سے مصافحہ کر کے پنجیری لُوٹنے پر معذرت کر کے اپنے ہمراہ لے لیا اور باقی کی ریگنگ میں مَیں بھی اس ٹولے کا حصہ رہا۔

ہاسٹل میں ناشتے کے لیے کینٹن اور کھانے کے لیے میس موجود تھا۔سینڈوچ،کپ کیک،آملیٹ،فرائیڈ انڈہ،توس اور پراٹھے سب کچھ دستیاب تھا۔سب کچھ ملا کر ماہانہ بِل تیس روپے سے زیادہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ایک حاضری دس بارہ پیسے سے زیادہ کی نہیں تھی اور ہر سوغات کی حاضریاں طے شدہ تھیں۔مثلاً دال روٹی تین حاضریاں تو مرغ یا بکرے کے گوشت کا قورمہ روٹی پانچ حاضریاں۔مہینے کے آخر میں کُل حاضریوں کو فی کس حاضری کی رقم سے ضرب دے دی جاتی تھی اور ہر طالبِ علم اپنا بِل خود بنا سکتا تھا۔مجھے گھر سے ڈیڑھ سو روپے ملتے تھے۔کچھ رقم ماں دیتی تھی اور ہر ہفتے واپسی پر ابّا جی بس یا ٹرین کے کرائے کی مد میں عنایت کرتے رہتے تھے۔یہ رقم بھی خاصی ہو جایا کرتی تھی کہ ابّا جی کی شفقت اس کی بڑھوتری کا سبب بنتی۔
بس کا کرایہ ایک روپے دس آنے اور ٹرین کا ڈیڑھ روپیہ تھا۔ابّا جی دس روپے عنایت کر کے پوچھتے:”لے یار کافی ہوسی نا؟” میں کہتا "جی” اور بیگ اُٹھا کر گُھٹنے چُھونے کو جُھک جاتا۔تب وہ دس کا ایک اور نوٹ نکالتے اور کہتے”ایہہ لے۔راہ وچ کجھ کھا پی لویں”.میں کہتا "جی”اور باہر قدم بڑھاتا تو وہ دروازے تک ساتھ چل پڑتے۔میں گلی میں آ کر تعظیم کے لیے جُھکتا تو دس کا ایک اور نوٹ اس ہدایت کے ساتھ عنایت کیا جاتا”اڈے توں کالج کان سالم تانگہ کر لویں”.
یہ سب دس روپے سے زیادہ کا نہیں تھا بلکہ میں اس سے بھی کم میں ہاسٹل پہنچ جاتا مگر یہ عمل اور مکالمہ ہر بار دہرایا جاتا اور میرا مجموعی جیب خرچ اڑھائی سو تک پہنچ جاتا۔میں اگر غلط نہیں ہوں تو اُس زمانے کے اساتذہ اس کے لگ بھگ ہی تنخواہ پاتے تھے۔

کالج کا پہلا دن تعارف کا تھا۔ہمیں مختلف مضامین کے لیےایک کمرے سے دوسرے کمرے میں منتقل ہونا پڑا۔اس لیے پہلا دن کافی ہنگامہ خیز رہا۔اساتذہ میں فزکس کے حفیظ الرٰحمن(تھیٹا)،کیمسڑی کے چودھری عبدالعزیز (لارڈ)،انگلش کے فرخ صاحب اور اردو کے اشرف صاحب مجھے یاد ہیں۔عزیز صاحب کے لارڈ کہلانے کا سبب یہ بنا کہ وہ طلبہ سے تعارف میں ایک سوال ضرور پوچھتے تھے:
"What is your father?”
اتفاق سے طلبہ کی اکثریت آس پاس کے علاقوں کے زمینداروں کے بچوں پر مشتمل تھی سو پہلا ہی جواب آیا:
"Sir!my father is a land lord”
یہ ایک ٹرینڈ سیٹر جواب تھا۔جب مجھ جیسے معمولی کسان کے بیٹے نے بھی سینہ پُھلا کر یہی جواب داغا تو شاید وہ چِڑ گئے اور فرمایا:
"Don’t try to impress me,my father was also a land lord”
اس دن کے بعد وہ لارڈ کہلانے لگے۔حفیظ الرحمٰن صاحب پہلے ہی سے”تِھیٹا”مقرر کیے جا چکے تھے اور سُنا ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور ٹرانسفر ہو بھی کر اس لقب سے پیچھا نہیں چھڑا پائے تھے۔
اس کا ایک دلچسپ تجربہ مجھے ایک بار گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان جانے پر ہوا۔یہ انوار الحکیم عثمانی کا زمانہ تھا۔ اُن کی دعوت پر کالج پہنچا تو سوچا کہ پنجابی شعبے میں اپنے جگری یار اور ہم جماعت محمد بشیر طارق سے بھی مل لُوں۔ہم کالج کے زمانے میں اُسے”لبّھا”اور”بٹھّل”کے القاب سے یاد کرتے تھے سوچا یہاں اصل نام سے یاد کرنا افضل ہو گا سو عثمانی صاحب سے کہا کہ بشیر طارق کو بلوا دیجیے۔انہوں نے چپڑاسی کو بلا کر یہ نام بتایا تو اُس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔مجھے گمان گزرا کہ شاید اصل نام طارق بشیر ہو مگر نام اُلٹانے پر بھی چپڑاسی کے چہرے کی کیفیت نہیں بدلی تو میں نے وضاحت کی کہ وہ پنجابی کے پروفیسر ہیں۔
یہ کہنے کی دیر تھی کہ چپڑاسی کے چہرے کا تناؤ ختم ہو گیا۔ایک طمانیت بھری سانس کھینچ کر فرمایا:
"سائیں انج آکھو نا۔لبّھے نوں گِھن آ”
میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس نوع کے القاب اگلی منزل تک کا سفر کیسے کرتے ہیں۔

کالج اور ہاسٹل کے معمولات طے شدہ تھے۔فجر کے وقت پرنسپل صاحب دندناتے ہوئے آتے اور طلبہ کی چادریں کھینچ کھینچ کر نماز کے لیے جگاتے۔تاہم ایک بار نواز طاہر کو چادر کے نیچے فطری لباس میں دیکھ کر انہوں نے اپنے آپ کو دروازہ دھڑدھڑانے تک محدود کر لیا تھا۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نواز کا فطری لباس میں ہونا اتفاقی نہیں تھا۔
نماز کے بعد ہم لوگ جِم جاتے یا سوئمنگ پول کا رُخ کرتے۔مسجد،سوئمنگ پول اور روز گارڈن ایسے جمیل مقام تھے کہ جن کی تصویر اب تک نگاہوں میں تیرتی ہے۔کالج سےہاسٹل کو جاتی سڑک کا اپنا اسرار تھا۔مجھے چیزیں زیادہ خوبصورت نظر آتی تھیں۔ایک بار کسی کی عینک لگائی تو دور کی اشیاء کا رنگ بدل گیا۔تب کُھلا کہ ہم نظر کی کمزوری کا شکار ہیں۔اُسی روز آصف کے ساتھ شہر جا کر ایک آئی سپیشلسٹ سے ملے اور معنک ہو کر پلٹے۔اس پھیرے میں شیونگ کٹ بھی خریدی(آصف نے وہ ساری چیزیں منتخب کیں جو اپنے بڑے بھائی کے پاس دیکھی تھیں۔جلٹ کا سامان،آسٹریا کی کنگھی،
ویسلین ہیر آئل اور دیگر لشٹم پشٹم).یہ اور بات کہ اُس کی ضرورت ایک برس تک پڑی ہی نہیں۔حتّٰی کہ ہم کھنچ کر دس انچ لمبے ہو گئے اور بال ترشوانے کے دوران میں کبھی حجام ہمارے عارضوں پر بھی قینچی آزمانے لگا۔
کون یقین کرے گا کہ تب آسٹریا کی کنگھی ہمارے بالوں میں ٹوٹ جاتی تھی۔معنک ہونے کے بعد ہم انٹلکچوئل لگنے لگے تھے اور ادب سے ہمارا رشتہ قائم ہونے لگا تھا۔
کالج میں فلم کلب بھی قائم کیا گیا تھا اور جمعہ کی شام کو یُو ٹائپ ونگ کے لان میں پروجیکٹر پر کلاسک انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔”Bridge on the river kiwai”،the great escape”،la miserable”اور”the comedy of error”جیسی فلمیں یہیں دیکھیں۔شہر کے سنیما بھی ہماری دسترس میں تھے۔پہلے تو نگران سے اجازت لینے اور ہاسٹل گیٹ پر موجود رجسٹر میں آنے جانے کے وقت کا اندراج کرنے سے بڑی کوفت ہوئی مگر بعد میں باہر کھیتوں کی طرف کُھلنے والی بغیر گرل کی جالی والی کھڑکی نے بڑی سہولت پیدا کر دی۔دس پیچ کھولنے اور واپس جمانے میں دو منٹ لگتے تھے اور شہر قدموں تلے کھنچ آتا تھا۔
یہیں غالباً آئرس سنیما کے باہر مجید امجد سے ایک ملاقات ہوئی تھی۔
مجھے تب تک شاعری کے آہنگ سے زیادہ شناسائی نہیں تھی۔کالج لائبریری میں”فنون”کا کوئی شمارہ دیکھا تو اس میں مجید امجد کی نظمیں سب سے پہلے چھپی ہوئی تھیں۔مجھے وہ نظمیں بے وزن لگیں اور بہت حیرت ہوئی کہ احمد ندیم قاسمی جیسا ایڈیٹر کسی شخص کے لیے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے؟مجھے اپنے دوستوں میں اپنے مطالعے کے حوالے سے ڈینگیں مارنے کی عادت تھی۔اس روز سینما کے باہر پہلا شو ختم ہونے کے انتظار میں مَیں فنون ہی کی بات کر رہا تھا اور مجید امجد کا نام لیا ہی تھا کہ ایک دبلے پتلے نحیف آدمی نے،جو سائیکل کو بائیں بغل میں دبائے پیدل ہی کہیں جا رہے تھے۔”مجید امجد”کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور ہم سب سے مصافحہ کیا۔وہ شاید یہ سمجھے تھے کہ میں اپنے دوستوں کو ان کی طرف متوجہ کر رہا ہوں۔میں نے شرمندہ سا ہو کر ہاتھ ملایا اور ان کے سوال کے جواب میں اپنا مشغلہ لکھنا پڑھنا بتایا تو آپ نے سٹیڈیم ہوٹل آنے اور ملتے رہنے کی ہدایت کی مگر افسوس میری جہالت مجھ پر غالب آئی اور میں ان سے ملنے کے لیے کبھی ہوٹل گیا ہی نہیں۔

ساہیوال آنے کے فوراً بعد ہم دو تین "ہٹّیوں”پر گئے۔جن میں سے ایک "بابے”کی اور ایک”مجید کی ہٹّی”تھی۔یہاں سے میں نے فیض کو خریدا اور اس محبت میں مبتلا ہوا جو آج بھی برقرار ہے۔یاداشت کا یہ عالم تھا کہ برسوں بعد فیض صاحب سے ایک ملاقات میں کچھ سُنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے نسیان کا بہانہ بنا کر ٹالنا چاہا۔تب میں نے عرض کی کہ وہ کچھ سُنانا شروع کریں،جہاں بھولیں گے یہ ناچیز یاد دلا دے گا اور یہ دعویٰ کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔

ساہیوال سے ہفتے کی سہہ پہر میاں چنوں کے لیے روانگی ہوتی تھی۔عام طور پر گھر والے میاں چنوں میں مل جاتے تھے اور ہم لوگ اکٹھے گاؤں آ جاتے تھے۔کبھی وہ لوگ پہلے نکل لیں تو میں سائیکل یا تانگہ کرایے پر لے کر پہنچ جاتا تھا۔کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ دیر ہو جانے پر میں بس کے ذریعے گھراٹ،خُونی یا پکّا موڑ پر اتر کر پیدل ہی گھر آ جاتا تھا۔مجھے سب سے زیادہ جراحی روڈ سے آنا پسند تھا مگر گھنی ٹاہلیوں،چھتنار کیکروں اور سنسانی کی وجہ سے رات کو اس راہ سے آنا غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا مگر اس طرف سے آنے میں آسانی یہ تھی کہ "ڈپٹیاں والا” کے سوا کوئی آبادی راہ میں نہیں پڑتی تھی اور آوارہ کُتوں سے کاٹے جانے کا دھڑکا کم ہوتا تھا۔ہاں ڈپٹیاں والا آ کر آبادی سے باہر قبرستان نور شاہ کے پاس سے گزرنا ایک مسئلہ ضرور ہوا کرتا تھا مگر مجھے رات کو اس قبرستان سے گزرنے میں زیادہ خوف نہیں آتا تھا۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اپنے بڑے بھانجے حق نواز سے دوستی کے بعد گاؤں میں ہونے پر ہم دونوں ہر شام سیر کرتے ہوئے اس قبرستان کے سامنے کھالے کے پُل تک آتے تھے اور وہاں بیٹھ کر دُنیا جہان کی باتیں کرتے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ کتوں کے مقابلے میں مَیں مُردوں کو زیادہ مہذب جانتا تھا۔پھر یہ سفر کو اور مختصر کرنے کا ذریعہ بھی تھا سو میں وہاں سے بے دھڑک گُزر جاتا تھا۔تب بھی جب وہاں ایک چُڑیل کی موجودگی کا شُہرہ ہوا اور ایک روز اُس سے ملاقات بھی ہو گئی۔

درس گاہ – 28

ایم سی ہائی سکول کے اساتذہ میں شوکت حسین رضوی اور سائنس کے رشید صاحب کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ دونوں نہایت شفیق اور اپنی آبائی روایت کے بہترین نمونے تھے.ایک لکھنؤ کی نستعلیقیت کا مرقع تھے تو دوسرے پنجاب کی اشرافیہ کا اور ان دونوں کی صحبت میں آدمی ان جانے میں بہت کچھ سیکھ جاتا تھا۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ زبان کا خلاقانہ استعمال میں نے رضوی صاحب سے سیکھا تو پرزم سے منعکس ہونے والے رنگوں کی پہچان اور انسانی نفسیات سے اُس کے رشتے کی خبر رشید صاحب نے دی۔
حکیم عصمت اللہ کا،جو ہمارے ہمسائے تھے،ذکر پہلے آچکا۔اُن کے بڑے صاحب زادے صفدر اور چھوٹے سرور سے دوستی ہونا چاہیے تھی اور ہوئی مگر ہم عمر ہونے کے ناتے زیادہ قربت سرور سے تھی۔ڈاکٹر صادق ملہی جو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے اور ایم پی اے بننے کے بعد پنجاب کابینہ میں تعمیرات کے وزیر رہے،اُن کے عزیز تھے۔وہ پہلے سول ہسپتال میں انچارج بن کر آئے۔آدمی معقول اور اپنے کام میں ماہر تھے۔اس پر شہر کے پہلے ایم بی بی ایس،سو بہت جلد عوامی ہو گئے اور ملازمت ترک کرکے شہر میں اپنا کلینک کھول کر پریکٹس کرنے لگے۔کسی وجہ سے میرے ابّاجی بھی اُن کے مداحین میں شامل ہو گئے اور بہت جلد انہوں نے ہمارے خاندانی معالج کی حیثیت حاصل کر لی۔وہ گھر پر آ کر بھی علاج کرنے لگے اور کلینک پر تو خصوصی شفقت کیا ہی کرتے تھے۔اُن کی ایک خاص ادا یہ تھی کہ جونہی ہم بھائیوں میں سے کوئی کسی مریض کے ساتھ اُن کے کلینک جاتا،وہ ایک مدور آئینے کا رُخ پھیر کر ہمارے سامنے رکھ دیتے تھے،جس میں شکل بگڑی نظر آتی تھی۔کبھی ماتھا اتنا بڑا ہو جاتا کہ باقی خدوخال اضافی محسوس ہوتے اور کبھی ناک ہر نقش پر حاوی ہو جاتی۔ایسا ہوتے ہی ہم احتیاط سے اس آئینے کو ڈاکٹر صاحب کے نقوش کی تفسیر پر مقّرر کر دیتے اور وہ مسکرا کر اپنے عمل کا اعادہ کرتے۔یہ کشمکش مریض کو دوا دے کر رخصت کرنے تک جاری رہتی اور کسی کے لب پر شکایت کا حرف تک نہیں آتا۔
اُن کی پریکٹس خوب چلی۔اُن کا کلینک ہسپتال میں بدلا اور اُن کے بدخواہوں نے اُن کے کس بل نکالنے کے لیے انہیں پیپلز پارٹی میں شامل کرا دیا۔وہ مسلم لیگ(قیوم)میں جانا چاہتے تھے مگر الیکٹیبل حضرات نے یہ ہونے نہیں دیا۔تب کسی کو کیا خبر تھی کہ الیکشن میں کیا جھاڑو پھرنے والا ہے مگر یہ قصّہ بہت بعد کا ہے اور اس سے بھی دلچسپ حکایت اُن کے وزیر بننے کی ہے۔

کالج میں داخلے کے لیے رزلٹ کارڈ ٹائپ ہو کر تصدیق ہو چکا اور کیمرے نے ہمارے ہوائیاں اُڑے چہرے کے نقش اُتار لیے تو ہم والد صاحب اور ماسٹر مختار احمد کے ساتھ عازم ِساہیوال ہوئے۔ہم نے صبح کی ٹرین لی اور اپنا پسندیدہ عمل دُہراتے یعنی اسٹیشنوں کے نام یاد کرتے(اقبال نگر،کسووال،کوٹلہ جندا رام،چیچہ وطنی،داد فتیانہ،ہڑپہ،میر داد معافی)ڈیڑھ گھنٹے میں ساہیوال پہنچ گئے۔وہاں سے تانگے پر کالج۔جس نے پہلی ہی نظر میں ہمیں موہ لیا۔ہم نئے نئے نسائی حُسن کی قیامت خیزی سے مغلوب ہو رہے تھے۔اس کالج کے جمال نے تو ہر نقش کو دھندلا کر دیا۔مدّتوں بعد(1977ء میں)میری مرتب کردہ کتاب”موسم”کے اوّلیں مسّودے پر نظر ڈال کر جب غلام محمد قاصر نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ میری شاعری میں آنکھوں کا ذکر بے محابہ ہے تو میں نے کہا تھا کہ ہاں ہے اور یہ آنکھیں کسی روپ میں بھی ہوں،میری اس حیرت کی توسیع ہیں جو مجھے حُسن کے ہر پیکر کے حضور سرنگوں کر دیتی ہےاور جس کا اولین نقش گورنمنٹ کالج ساہیوال کی پہلی جھلک سے مرتب ہوا۔
یہاں ہم نے کالج سے پراسپیکٹس لیا اور پری انجینئرنگ کے لیے داخلہ فارم بھرنا شروع کیا ہی تھا کہ ایک گورے چِٹّے نوجوان اپنے والد کے ساتھ ہمارے ساتھ جُڑ بیٹھے۔یہ مدرسہ(بہاول نگر)کے محمد نواز طاہر بھٹّی تھے،جن سے طویل رفاقت کا آغاز ہو رہا تھا اور جن سے ہزاروں ایسی یادیں وابستہ ہیں جو صرف انہی کی ذات سے خاص ہیں۔لا اُبالی پن،جُرأت،طراری اور شرارت کی جیسی پوٹ آپ تھے،اب تک کی زندگی میں کوئی دوسرا نہ ملا۔
ہماری واپسی کی ٹرین دو بجے تھی۔داخلہ فارم جمع کرانے کے بعد ایک خاصے معقول ہوٹل سے کھانا کھا کر اسٹیشن آئے تو جو ٹرین ملتان کا رُخ کر کے سامنے کھڑی دکھائی دی۔مختار صاحب اسی میں گُھس گئے اور وہ چل بھی پڑی۔ہمارے پاس میل گاڑی کے ٹکٹ تھے اور ہمارا خیال تھا کہ ہم ڈیڑھ گھنٹے میں میاں چنوں پہنچ جائیں گے۔وہ اُسی وقت باطل ہو گیا جب وہ دُلکی چال سے نکلی ہی نہیں اور ہماری اصل ٹرین اگلے ہی اسٹیشن پر دھڑ دھڑ کرتی ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ہم نے آٹھ اسٹیشنوں پر ٹھیکی ہی نہیں لگائی، استراحت اور پلیٹ فارم کی پیمائش کی۔ہر نلکے کا پانی پیا۔ویرانی اور ہمیں پچھاڑتی گاڑیوں کے خواب ہوتے مسافروں کی آرتی اُتاری تب جا کر کہیں چار گھنٹے کے بعد اس وقت میاں چنوں کی صورت دکھائی دی جب مجھے یہ یقین ہو چلا تھا کہ قبض ِمکاں کے بغیر آج گھر پہنچنا ممکن نہیں۔
ہر اُمیدوار کی طرح مجھے بھی یقین تھا کہ میری صورت اور تعلیمی استعداد اس کالج میں داخلے کے لائق نہیں مگر کچھ روز بعد میں جب دوستوں (آصف،محمود وغیرہ)کے ساتھ میرٹ لسٹ دیکھنے گیا تو میرا نام لسٹ میں چودھویں نمبر پر موجود تھا اور یہی میرا رول نمبر قرار پایا۔
میں نے اور میں نے ہی نہیں شہر سے باہر کے ہر طالبِ علم نے ہاسٹل میں داخلے کی درخواست دے رکھی تھی۔وہ بھی منظور ہوئی اور ہم چھے لوگوں کو کالج کے آخری کونے پر واقع (جناح) ہاسٹل میں بائیں ونگ میں ایک ڈارمیٹری الاٹ کر دی گئی۔یہ چھے لوگ،میں،آصف،نواز طاہر،افتخار احمد(گیمبر/اوکاڑہ)،خورشید احمد اور شکور احمد خالد تھے(جو 20/8BR کے رہنے والے تھے)۔ یعنی نواز اور افتخار کے سوا سب کی نسبت میاں چنوں سے تھی۔یہاں ہمیں دو برس گزارنے تھے مگر ابھی تو اُدگھاٹن باقی تھا اور سینئرز کی فولنگ سے جانبر ہونا بھی جسے آج کل ریگنگ کا نام دیا جاتا ہے۔