درس گاہ – 32

بندوق سے میرا تعارف بہت چھوٹی عمر میں ہو گیا تھا۔ایک تصویر میں مَیں اپنے والد کے پیچھے کھڑا ہوں اور انہوں نے اپنی ونچیسٹر کی شارٹ گن گود میں رکھی ہوئی ہے۔اس حوالے سےایک نظم”بندوق کی کہانی”میری نظموں کی کتاب”نیند میں چلتے ہوئے میں موجود ہے۔اس نظم کا اعزاز یہ ہے کہ اسے محمد سلیم الرحمٰن نے انگریزی میں ترجمہ کیا مگر میری اپنی پہلی بندوق ایک ائیر گن تھی جس سے پرندے شکار کرنے میں مجھے کبھی کامیابی نہیں ہو سکی۔ہاں بڑے بھائی مہر نواب کی بائیسں بور اور سیون ایم ایم نہ معلوم مجھے بھابھی کیوں کھیلنے کو دے دیتی تھیں اور میں نے اپنا نشانہ انہیں کی مدد سے پکّا کیا۔اس حد تک کہ ایک بار المونیم کا گلاس درخت سے لٹکا کر مجھے نشانہ لگانے کو کہا گیا تو نشانہ لگانے کے بعد گلاس کی حرکت اتنی خفیف تھی کہ سب اس بات پر متفق تھے کہ نشانہ چُوک گیا ہے مگر جب گلاس کو قریب جا کر دیکھا گیا تو اس کی دونوں جانب سوراخ تھے۔
اسی زمانے میں مجھے شکار کا شوق چرایا اور میں کبھی کبھی ابّا کی بندوق لے کر گھوڑے پر راوی جانے لگا۔کئی بار دوست بھی ساتھ ہوتے تھے۔عام طور پر لاوے کی مدد سے سیاہ یا بھورے تیتر کا شکار کھیلا جاتا تھا۔لاوے کے لیے سِدھا ہوا تیتر استعمال کیا جاتا تھا،بعد میں دستی ٹیپ ریکارڈر آ گیا تو یہ کام اُس سے لیا جانے لگا۔اس حوالے سے بڑے دلچسپ تجربات ہوئے۔مثلاً ایک بار آصف ساتھ تھے۔بڑی تگ و دو کے بعد تین ہی تیتر ہاتھ لگے۔ہم نے رات کو بھینی پر پکا کر کھانے کے بجائے بطورِ سوغات آصف کے ہمراہ کر دیے جو رات رات میں گھر جانے پربضد تھا۔اگلے دن اُس کی امّی سے کیفیت جانی کہ انہیں گوشت پسند آیا یا نہیں تو پتا چلا کہ انہوں نے وہ تیتر اپنے جمعدار کو دے دیے تھے۔
بیلے کے اپنے اسرار تھے۔خطرناک جانوروں کی موجودگی کا خطرہ اپنی جگہ۔دریا کا اتار چڑھاؤ بھی مسائل پیدا کر دیتا تھا۔کبھی کہیں سے داخل ہوتے اور کسی اور پتن سے گھوم پھر کر واپسی ہوتی۔حبس اور جنگل کی گہری تنہائی میں سرکنڈوں سے راہ بنانا اور لئی اور کریر کی جھاڑیوں سے گزرنا بڑے دل گردے کا کام تھا کہ دریا کے پانی کے نکلنے اور واپسی سے جھاڑیوں کے مابین قدرتی نالیاں بن جاتی تھیں مگر وہ آپ کی مرضی سے کہیں جانے یا گھومنے کی پابند نہیں تھیں۔تیتر کے شکار میں گھوڑے استعمال نہیں کیے جاتے تھے اور سور کے شکار میں مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ہاں حق نواز کو فصلوں کی رکھوالی کے لیے یہ کام بھی کرنا پڑتا تھا۔اس لیے پتن پر دو چار بندوقیں ہمیشہ موجود رہتی تھیں۔
ظاہر ہے یہ کام تعطیلات میں ہوتا تھا اور ہر شکار کے موسم کے اعتبار سے۔جاوید(ڈم ڈم )کو شرط پوری کرنے کا خبط ہوا تو اسے تمام اونچ نیچ سمجھا دی گئی۔جب وہ پھر بھی باز نہیں آیا تو بیلے کا پھیرا لگوایا۔ایک رات دریا کنارے گزاری گئی۔خیال تھا کہ دن کی وحشت اس کی آتش ِ قلب کو بجھا دے گی لیکن شاید معاملہ مردانہ سے زیادہ قلبانہ انا کا تھا۔اس لیے وہ اپنے ارادے پر اٹل رہا۔اُس وقت تک وہ کئی ڈیرے دیکھ چکا تھا۔لوگوں کے استہزاء کا نشانہ بن چکا تھا اور ابھی تک اپنے حسرت پوری کرنے میں ناکام تھا۔۔سو ہم جماعت ہونے کے ناتے طے کیا کہ اُس کی مشکل حل کر دی جائے۔حق نواز سے معاملات طے کر کے اُسے مطلع کیا اور ایک روز ہم سب راوی پر اس نیت سے یکجا ہوئے کہ آج اس کھکھیڑ کو نپٹا ہی دیں۔
سہہ پہر کو سب لوگ گھوڑوں پر روانہ ہوئے۔ڈم ڈم صاحب گھوڑے کی سواری سے معذور تھے۔اس لیے پیدل چل رہے تھے اور ایک آدمی ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ایک جگہ گھنی جھاڑیوں کے جھنڈ میں مخصوص بُو اور خرخراہٹ سنائی دی تو پانی سے بنی ایک گزرگاہ پر ڈم ڈم کو متعین کر کے بتایا گیا کہ ہم لوگ گھوڑوں پر تین طرف سے گھیرا بنا کر جھنڈ میں داخل ہوں گے تا کہ سور اسی طرف نکلیں جدھر وہ بندوق لیے موجود ہوں گے۔اب یہ اُن کا کام ہے کہ سور کے قریب آتے ہی اس پر فائر کریں اور گرا لیں۔
سور اُسی طرف نکلے جدھر وہ بندوق لیے موجود تھے مگر اس وقت وہ اپنی جگہ چھوڑ کر قدرتی نالی کے دونوں کناروں پر ٹانگیں پھیلائے قدرے جھکے ہوئے سور کی آمد کے منتظر تھے۔اس سے پہلے کہ وہ پوری طرح باخبر ہوتے اور بندوق سیدھی کرتے،پہلا سور ان کی ٹانگوں کے درمیان سے نکل گیا۔وہ بے اختیار اچھلے اور اس کے پیچھے آنے والے اگلے سور پر لینڈ کر گئے۔اُن کا رُخ سور کی مخالف سمت میں تھا۔پتا نہیں یہ کیسے ہوا مگر انہوں نے ٹانگوں سے سور کی گردن کو جکڑ لیا اور ہاتھوں سے دُم کو اور سور اس ناگہانی آفت سے نجات کے لیے انہیں لے کر گھنی جھاڑیوں میں گھس گیا۔اُن کی بندوق اس لینڈنگ سے پہلے ہی گِر گئی تھی اور ہم اس حالت میں اس عفریت پر فائر کرتے تو کیسے کرتے؟سوار اور سواری دونوں کی پریشانی دیدنی تھی اور سواری سوار سے آزادی کی ہر کوشش کر رہی تھی مگر سوار تھا کہ گرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔سواری اپنی دھن میں اسے لیے جاتی تھی کہ بیلہ ختم ہو گیا اور دریا کا بیٹ آ گیا۔ہم لوگوں نے چیخ کر ڈم ڈم کو گر جانے کی صلاح دی مگر تب تک وہ خود ہی گر گیا اور سور ایک اسرار بھری حیرانی میں رک کر اُسے دیکھنے لگا ہی تھا کہ حق نواز نے مسلسل دو فائر کر کے اُسے گرا دیا۔
اس شکار کا کریڈٹ ڈم ڈم کو دیا گیا۔اس نے سولا ہیٹ پہن کر مردہ جانور کی گردن پر پاؤں اور بندوق کی نال رکھ کر تصویر بنوائی۔دم کاٹ کر لاہور کے لیے محفوظ کی۔اُس زمانے میں انارائیڈ موبائل ہوتے تو آج اس ساری واردات کی ویڈیو شئیر کرنے کو موجود ہوتی۔
سب اچھّا رہا مگر ڈم ڈم کےجھاڑیوں سے رگڑ کھائے بدن کو بحال ہونے میں بہت دن لگے۔
انہی دنوں میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ میں نے بندوق کے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔
اس واقعے کی نسبت آوارہ کُتوں کو تلف کرنے کی خودساختہ مہم سے ہے۔میں بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا کہ میرے والد صاحب ایک خاص موسم میں آوارہ کُتوں کو تلف کرنے کے لیے ملازمین کو انہیں کُچلا ڈالنے کو کہتے تھے اور بعض اوقات کھیتوں میں کہیں کوئی آوارہ کُتّا مرا ہوا دکھائی بھی دے جاتا تھا۔جس کو کریہہ صورت گِدھوں کے غول آ کر چٹ کر جاتے تھے
میں نے اپنا نشانہ آزمانے کا سوچا اور بڑے بھائی کی پوائنٹ ٹوٹو رائفل لے کر اس مہم پر نکلا تو کسی ہم عمر کے مشورے یا اپنی ہی کج طبع سے مغلوب ہو کر یہ خیال آیا کہ کُتّوں کو دور سے نشانہ بنا کر مار ڈالنے کے بجائے باندھ کر قریب سے نشانہ بنایا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ موت کس رفتار سے اور کتنی دیر میں ان کے وجود پر حاوی ہوتی ہے؟گُمان ِغالب یہی ہے کہ فیصلہ میرا اپنا ہی تھا۔بہر صورت میرے ساتھیوں نے کسی طرح ایک آوارہ کُتّے کو گھیر کر بستی کے مغربی حصے کے قریب ایک کُھلی جگہ پر درخت سے باندھ دیا اور میں نے اپنی طرف رُخ کیے کُتّے کے ماتھے پر بنے سفید دھبے کا نشانہ لگا کر فائر کیا۔ایک تیز سِیٹی جیسی گُونج کے ساتھ چِڑیوں اور فاختاؤں کو اچانک فضا میں دھکیلتی اور شور مچانے پر مجبور کرتی آواز کے ساتھ گولی چلی اور کُتّے کے ماتھے کے سفید نشان کا رنگ بدلتی ہوئی اس کے وجود میں کہیں اُتر گئی۔میری توقع کے برعکس گولی لگنے کے بعد کُتّے کے جسم کو لگنے والا دھچکا میرے کندھے کو لگنے والے دھچکے سے بھی معمولی تھا۔ہاں! اُس کے بدن نے تھکے ہوئے اور ٹوٹتے ہوئے بدن کی طرح ایک بھرپور انگڑائی لی اور اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے بس ایک لمحے کو ملیں۔جن میں ایک بُجھتی ہوئی پہچان اور ایک دلدل میں ڈوبتی ہوئی آواز کا سا تاثٔر تھا۔چولہے میں بُجھتے انگارے کی طرح ان آنکھوں کی سُفیدی اور سُرخی سُرمئی راکھ کا رنگ اوڑھ کر لمحہ بھر میں میری نظروں سے اوجھل ہو گئی مگر میری ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو کر۔نہ معلوم کیوں میرا دل دُکھ سے بھر آیا اور اپنی زندگی میں پہلی بار مجھے بندوق سے،کسی بھی شے کی زندگی سے کھیلنے کا خیال تکلیف دینے لگا۔اُس وقت میرے ساتھی،جن کی تعداد مجھے اب یاد نہیں،مُسرّت اور جوش سے جو کچھ کہہ رہے تھے،میرے کانوں تک پہنچنے کے باوجود میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔دھوپ تھی مگر اُس کا احساس مِٹ رہا تھا اور مجھے اپنے آپ سے اور اپنے عمل سے گِھن آنے لگی تھی۔اُس کُتّے تک پہنچنے والی موت کسی پرندے کے پر کی طرح نرم روی اور خاموشی سے تیرتی ہوئی آئی تھی اور اس کے بدن نے تکلیف اور تشنّج کے سبب کسی طرح کا جھٹکا نہیں کھایا تھا مگر بندوق کے لبلبے پر میری انگلی تشنّج اور تکلیف سے اکڑی ہوئی تھی اور میرا بدن بدبو اور پسینے سے بھیگنے لگا تھا،جیسے میں آہستہ آہستہ کسی جوہڑ میں اُتر رہا ہوں۔میں رونا چاہ رہا تھا نہ ہی میری آنکھوں میں آنسو تھے مگر میری روح آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔کُتّے کی بُجھتی آنکھوں میں سُنائی دینے والی چیخ میرے بدن میں،میری رگوں میں دوڑ رہی تھی اور میں اس کی شدّت اور گُونج کو سہہ نہیں پا رہا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میں اور میرے ساتھی اس کام کو مزید جاری نہ رکھ کر اپنے گھروں کو لوٹ آئے تھے مگر کب اور کیسے؟اس بارے میں مَیں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔شاید ہماری واپسی پر بندوق میرے پاس تھی یا کسی اور نے لے لی تھی،مجھے یاد نہیں مگر اس واقعے کے بعد میں نے اپنے آپ کو ہر طرح کے اسلحے سے دور کر لیا۔میں بچپن میں تلوار کو بہت شوق سے دیکھتا تھا اور ڈرائنگ کے لیے لکیریں کھینچتے ہوئے زیادہ تر مختلف قسم کی تلواریں ہی بنایا کرتا تھا اور قبلہ برکت علی شاہ کے ہاں موجود محرّم کے دنوں میں ذوالجناح کو سجانے کے لیے استعمال ہونے والی تلوار کو موقع ملنے پر اُٹھا کر میں اکثر رغبت سے دیکھتا اور کسی کو دیکھتا نہ پا کر گھما کر بھی دیکھ لیا کرتا تھا اور اس عمل سے باطنی مسرت اخذ کرتا تھا(شاید اسی لیے آگے چل کر میری شاعری کے علائم میں شمشیر بہت قوت کے ساتھ اُبھری)۔پھر لڑکپن میں مری توجہ مختلف النوع بندوقوں اور رائفلوں کی طرف تھی مگر اس روز کے بعد مجھے بندوق اُٹھانا بوجھ لگنے لگا اور بندوق اُٹھا کر کہیں رکھتے ہوئے بھی مجھے اس کے وزنی اور خطرناک ہونے کا احساس گھیرے رہتا تھا۔شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی کسی طرح کا اسلحہ خریدنے کی زحمت نہیں کی اور وراثت میں منتقل ہونے والی اپنے باپ کی ونچسٹر شارٹ گن کو بھی اپنے نام منتقل نہیں کرایا۔حتٰی کہ میرے بچپن کا یہ خواب میری زندگی سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے