میں چھٹی جماعت سے لکھ رہا تھا۔لکھ کیا رہا تھا،ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا مگر اب تک یہ طے نہیں ہو پا رہا تھا کہ مجھے لکھنا کیا ہے۔بچّوں کی ایک ہی کہانی لکھی تھی کہ نسیم حجازی کے ہتھّے چڑھ گیا۔پھر ابنِ صفی کے رنگ میں چند صفحے گھسیٹے تھے کہ دماغ کا دہی ہو گیا اور میں نے کرشن چندر میں پناہ لی۔دو چار افسانے ان کے اسلوب کی بھینٹ کیے مگر چھپوانے کی ہمّت نہیں پڑی۔آخر ِکار ایک افسانہ اپنے ملازم ممّو ماچھی کے دمہ کو موضوع بنا کر لکھا جو شاید اپنے رنگ میں میری پہلی کہانی تھی مگر اُسے عام نہیں کیا اور وہ کئی برس بعد شائع ہوئی۔یہی حال شاعری کا تھا۔اپنے لکھے منظوم خط سے عدم کے تتّبع میں سیاہ کی گئی کاپیوں تک ہر چیز خود تک محدود رہی یا دو ایک بہت قریبی دوستوں تک اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ہرزہ سرائی کو عام کرنے کی خواہش ہی نہیں تھی نہ ہی یہ معلوم تھا کہ اس کباڑ کو جو میں نے نہایت نفیس نوٹ بُکس میں اکٹھا کر رکّھا ہے،کہاں ٹھکانے لگایا جائے؟”آداب عرض”اور”اردو ڈائجسٹ”کےسوا میں صرف”فنون”سے واقف تھا اور اسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ میرے کام کی چیز نہیں۔سو کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ تھا وہ صرف خود کو محظوظ کرنے کے لیے تھا اور اُسے لکھ کر بُخار اُترنے کی سی کیفیت کا احساس ہی ذاتی تشّفی کے لیے کافی تھا۔
کالج میں اردو کے استاد،کلاس کے آغاز میں اردو افسانے پرایک مکالمے کے باعث یہ تاثر تو رکھتے تھے کہ مجھے مطالعے کی عادت ہے مگر انہیں بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میں خامہ فرسائی بھی کرتا ہوں۔انہوں نے اس بارے میں کبھی استفسار نہیں کیا اور مجھے اُن پر یہ بھید عیاں کرنے کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔مجھے بجاطور پر یہ احساس تھا کہ میری تحریر بے مایہ ہے اور ابھی اسے عام کرنے کا وقت نہیں آیا۔
شاید اس کی وجہ میرا دیہاتی پن اور غیر علمی پس منظر سے ہونا تھا۔مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ لکھا اور چھپا کیسے جاتا ہے؟کسی کتاب میں کرشن چندر نے نفیس نیلے کاغذ پر لکھنے کا ذکر کیا تو میں بھی ویسا ہی کاغذ خرید لایا مگر لکھنے بیٹھا تو اندازہ ہوا کہ صرف اچھّے کاغذ اور قیمتی قلم کا مالک ہونا ہی کافی نہیں۔اس کے لیے کچھ اور بھی درکار ہے مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کچھ اور ہے کیا؟ نہ ہی یہ علم تھا کہ یہ بھید میرے ارد گرد کسے معلوم ہے۔
شکور کے لیے لکھا ناول لاہور کی بھینٹ چڑھ گیا اور اس کے قابلِ اشاعت ہونے کی خبر کبھی آئی نہیں نہ ہی وہ یہ دور تھا کہ ہر نوع کی لاف زنی مصنّف سے نقدی وصول کر کے چھاپ دی جائے۔ادبی اداروں کا ایک وقار تھا۔اچھی کتابیں پبلشر کے خرچے پر چھپ جاتی تھیں اور لوگ کتاب خریدتے بھی تھے۔اکثر کتابوں کا پہلا ایڈیشن گیارہ سو کی تعداد میں چھپتا تھا اور مقبول عام کتابیں تو دس دس ہزار کی تعداد میں چھپتی تھیں اور اس وقت جب ملک کی آبادی موجود کے مقابلے میں ایک تہائی تھی۔
انہی دنوں میں کرنل شفیق الرحمٰن سے آگاہ ہوا اور انہیں پڑھا اور اُن کے توسط سے محمد خالد اختر،ابن ِانشا اور ضمیر جعفری کی دستیاب کتب بھی پڑھ ڈالیں تو مجھے مزاح لکھنے کا شوق چرایا اور میں نے راوی پر شکار کھیلنے کی ایک مہم”کرنے چلے شکار”کے عنوان سے خاصے شگفتہ رنگ میں لکھ دی۔یہ ایک طویل پُرلطف کتھا تھی اور اس لائق کہ کسی بھی ادبی پرچے میں شائع ہو سکے مگر کوئی بتانے والا ہوتا تو۔سو ساہیوال کا زمانہ فلم بینی اور دوستوں سے لایعنی مکالموں میں گُزرا۔پہلے برس تعلیمی حالت تسلی بخش رہی مگر دوسرے برس کیمسٹری پڑھنے سے اجتناب کرنے کا آغاز ہوا اور اس کی وجہ اُستادِ محترم ہی تھے۔یہ وقت بھی آیا کہ میں پندرہ پندرہ روز ان کی کلاس میں گیا ہی نہیں۔حتّٰی کہ انہوں نے کالج انتظامیہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے میرے گھر خط لکھ کر میرے والد کو۔میرے بڑے بھائی مہر نواب مذاکرات کے لیے آئے۔میں کلاس میں جانے لگا مگر کہیں اوپر یہ طے ہو چکا تھا کہ میں اس شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔سائنسی مضامین سے میرا جی اُچاٹ ہونے لگا۔اس کی وجہ تفہیم میں دیگر طلبہ سے پچھڑنا تھا۔اس کمی کو ٹیوشن لے کر پورا کیا جا سکتا تھا مگر عجیب بات ہے کہ اس وقت مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔پھر ایوب خان کے خلاف طلبہ تحریک کا آغاز ہو گیا۔گورنمنٹ کالج ساہیوال اس سلسلے میں زیادہ فعال نہیں تھا مگر اس تحریک کے اثرات اس کالج کے معمولات پر بھی پڑے۔جب ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو طلبہ کو امتحان کی تیاری کا وقت دینے کے بہانے گھر بھیج دیا گیا۔اسی بیچ میں کہیں ملتان بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور مجھ سمیت تمام طلبہ کے داخلے امتحان کی غرض سے بھجوا دیے گئے۔حالاں کہ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ کم ازکم مجھے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
امتحان 1969ء کی گرمیوں میں ہوا۔جس کے بعد سب اپنا بوریا بستر لپیٹ کر گھر چلے آئے۔میں نے سائیکل پر کبھی تانگے پر،روز شہر آنا شروع کیا۔دن دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزار کر شام سے پہلے گھر پلٹ جانا معمول ٹھہرا۔کیا عجیب شہر تھا کہ جس میں دوپہر کو پکا پکایا ملتا ہی نہیں تھا۔ہاں شام کو سموسے مل جاتے تھے اور شمیم اکبر آبادی کے سیخ کباب مع چُلھ سے اتاری چپاتی کے۔ اس لیےدوپہر کی میزبانی عام طور پر آصف کے ذِمّے ہوا کرتی تھی۔اُس کے ابّا چاچا الیاس صاحب ایسے مہربان تھے کہ جس روز اُن کی طرف جانے کا ناغہ کرتا۔وہ باقاعدہ جواب طلبی کرتے۔شہر جانے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی مگرمَیں دن چڑھتے ہی کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ لیا کرتا تھا۔تانگے پر جاتا تو اسے ماسٹر عبدالحق کے گھر کے سامنے کھولا جاتا اور اُن کے حضور میں حاضری لازم ٹھہرتی۔میں فاؤنٹن پین سے اچھا خاصا خوش خط لکھ لیتا تھا مگر ماسٹر صاحب مجھے خطاط بنانے پر مصر تھے۔تاہم انہوں نے کبھی بوتل کے اندر لکھ کر دکھایا نہ ہی اس جادوئی مہارت کا بھید افشا کیا۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کے اس فن کا پردہ چاک ہو تو کیسے؟
بہرطور میری میاں چنوں یاترا جاری رہی۔ان دنوں میں بھی جب گھوڑوں کی سواری کے اوزار جلا دیے جاتے ہیں اور ان دنوں میں بھی جب سِرے سے شہر جانے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہوتی تھی۔روز آصف کے ہاں نششت جمتی اور ہر طرح کے علمی مباحث برپا کیے جاتے۔میں مذہبی معاملات میں خاصا پھسڈی تھا اور سیاسی میدان میں لگ بھگ کورا۔اس لیے میرا جادو صرف ادب کے میدان میں چلتا تھا اور میرے دوستوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اس سے پہلے ایک بار آصف کے کسی کزن کی شادی کے سلسلے میں مَیں اور نواز راولپنڈی اور مری گئے تھے۔یہ تو یاد نہیں کہ ہم دونوں کے عبداللہ دیوانہ بننے کی کیا وجہ تھی مگر مری کا وہ ٹور یادگار تھا۔ستمبر کے مہینے میں ہلکی بارش میں چھاتا لے کر گھومنے،اطالوی طرز کے ریستورانوں میں سہ منزلہ پلیٹوں سے لذیذ سنیکس کے ساتھ چائے کے کئی کئی دَور اتنے پُر لطف تھے کہ میں اُن کی تلاش میں کئی بار مری گیا اور ہفتوں ٹھہرتا رہا۔طالب علمی کے زمانے میں کم وبیش ہر برس اور شادی کے بعد صرف ایک بار یعنی اپریل 1979ءمیں۔جس کے بعد تیس برس تک اُدھر کا رُخ کرنے کا دھیان ہی نہیں آیا۔2010ءمیں اپنے بیٹے عمیر کی فیملی کے ساتھ جانا ہوا تو وہاں کی حالت ِزار دیکھ کر جی بھر آیا۔نظم”مال روڈ پر ایک شام”اسی تجربے کی یاد میں ہے۔
"دبے ہوئے ہیں دُکانوں کے بیچ ریستوراں
نہ وہ غنودہ حقیقت نہ وہ بھڑکتا گماں
نہ وہ گلی میں غزالوں سے بات کرتا دھواں
نہ وہ ہوا میں درختوں کی جھلملاتی مہک
نہ وہ نظر کی صباحت نہ آئنے کی لپک
نہ وہ دلوں میں سحر دم ورود کرتا شک
نہ وہ شراب کے نشّے میں لڑکھڑاتے قدم
نہ وہ صبیح ستاروں کے غول بیش و کم
کھڑے تھے اور کھڑے ہیں یہ کیسی دھوپ میں ہم”
خیر یہ قصّہ تو بہت بعد کا ہے۔تب کی جنونی کیفیت کا سبب کچھ اور تھا۔1985ءمیں”موسم” کی اشاعت پر محمد سلیم الرحمٰن نے اپنے کالم”Starlet in a mirror”میں شکوہ کیا تھا کہ”ابھی ہمارا شاعر محبت کے گیت گانے کی طرف راغب نہیں” تو ان کا شکوہ بجا تھا کہ جس تہذیبی روایت سے میری نسبت تھی۔وہ مشاق احمد یوسفی کی بیان کردہ وہی تنگ گلی تھی۔جس سے اگر ایک عورت اور مرد کو بیک وقت گزرنا پڑے تو درمیان صرف نکاح کی گنجائش نکلتی ہے اور میں ابھی اس کام کے لیے بہت چھوٹا تھا۔یہ اور بات کہ بلوغت وارد ہونے کے دنوں میں میری آواز میں ایسی تبدیلی آئی کہ ایک بار میں گھر کے صحن میں آ کر کسی وجہ سے ذرا بلند لہجے میں بولا تو مہمان آئی ماسی نوراں نے جھٹ یہ کہہ کر پردہ کر لیا”خیال کرو بھائیا پیا امدا اے”.اس سے اُن کا اشارہ میرے والد کی طرف تھا۔
بچپن میں اپنے والد کے جوتے پہننا اور نوجوانی میں اُس کی آواز کا وارث ہونا شاید ایک ہی خواب کے دو پرتو ہیں۔پھر میں اُن کی طبعی شرافت کو کیسے داؤ پر لگا سکتا تھا؟