ایف ایس سی کے امتحان کا وہی نتیجہ نکلا جس کی توّقع تھی۔دو مضامین،کیمسٹری اور میتھ،میں سپلی جسے کلئیر کرنے کے تین چانسز تھے۔کسی مضمون میں کچھ ایسا ہی شاید اقبال کلاچی کے ساتھ ہوا تھا جو ہمارے ڈرائنگ ماسٹر اللّٰہ بخش کے صاحب زادے تھے سو والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سہنے کے بعد طے پایا کہ اقبال کے یہاں مل کر تیاری کی جائے۔ہم نے موجودہ لاری اڈّے کے قریب ان کی بیٹھک میں پڑھنا شروع کیا مگر چند منٹ بعد ہی بم کُھلی کھڑکیوں سے کتابیں باہر گلی میں تیرانے لگتے اور توسنِ تخیل کو پرواز کی کُھلی اجازت دے کر چاند میں نظر آنے والی صورتوں کے گُریز اور تجاوز کی ادا پر گفتگو کرنے لگتے۔ہم دونوں کو یقین تھا کہ شہر بھر میں ہم سے زیادہ پُرکشش اور صاحب ِجمال کوئی اور نہیں اور زہرہ جبینوں کو(جن کا شہر میں کہیں اگر وجود تھا تو پردے میں تھا) ہم پر مرنے میں تأمل ہے تو وہ اس شہر کی تنگ نظری اور روایت پرستی کی وجہ سے ہے۔
اقبال کی حد تک تو شاید یہ بات درست تھی کہ موصوف آرین بلکہ رومن خدوخال کے شاہکار تھے مگر میں تو ہمیشہ کا تخّیل پرست ہوں۔اس لیے اپنے دراوڑی نقوش اور رنگ کے باعث کہیں کچھ گمان سا تھا کہ اس نوع کا ہر خیال باطل ہے اور باطل تھا بھی مگر نوجوانی کے طائر ِخوش پرواز کو کوئی پنجرے میں بند کرے تو کیسے؟
ابّاجی میرے بارے میں کافی خوش گمان تھے مگر یہ نتیجہ اُن کو بددل کرنے کو کافی تھا۔اس پر میری غفلت کا در بند ہونے کے بجائے اور کُشادہ ہو رہا تھا۔معلوم نہیں کیسے انہیں کشف ہوا کہ اقبال اور میرا گٹھ جوڑ درست نہیں سو انہوں نے مجھے ملتان بھجوانے کا فیصلہ کیا اور اگلے ہی روز وہ مجھے لے کر پیر شوکت حسین گیلانی کے پاس ملتان آ پہنچے۔جنہوں نے ولایت حسین اسلامیہ کالج کے پرنسپل کو فون کر کے مجھے تھرڈ ائیر میں داخل کرنے کا حکم دیا کہ ابھی کالجز نیشنلائزڈ نہیں ہوئے تھے اور پیر صاحب ایک لحاظ سے کالج کے بلا شرکت ِغیرے مالک تھے۔یہ بات پھر بھی کسی کے ذہن میں نہیں آئی کہ میرے کالج میں داخلے کی فکر کرنے کے بجائے ان مضامین کی تیاری کے لیے کسی ٹیوٹر کا انتظام کیا جاتا۔
تب میرے دوستوں میں سے آصف،جمیل اور اقبال کلاچی بھی اسی کالج میں داخلہ لے چکے تھے اور رہائش کے لیے جگہ کی تلاش میں تھے۔میں اگلے روز پیر صاحب کی سفارشی چِٹ کے ساتھ پرنسپل صاحب سے ملا مگر بات بنی نہیں۔پرنسپل صاحب نے بہت لجاجت بھرے لہجے میں معذرت کرتے ہوئے واضح کیا کہ بورڈ/یونیورسٹی کی طرف سے کسی ایک مضمون میں کمپارٹمنٹ والے کو داخل کرنے کی اجازت ہے۔ہاں میں چاہوں تو کسی بھی کلاس میں بیٹھ سکتا ہوں مگر داخلہ کمپارٹمنٹ کلئیر کرنے کے بعد ہی ہو گا۔
اس سے بڑھ کر احمقانہ اقدام کیا ہوگا کہ میں نے اس دعوت کو قبول کر لیا۔اب رہائش کا مسئلہ درپیش ہوا تو اس کے لیے پیر برکت علی شاہ کی نشاط روڈ پر ملتان سٹی اسٹیشن کے سامنے والی کوٹھی "برکت منزل” کا انتخاب ہوا۔شاہ صاحب کو بتانے کے بعد میں کوٹھی کے ماسٹر بیڈ روم پر قابض ہوگیا اور آصف وغیرہ کو شاگرد پیشہ کے بالا خانے پر نہایت نفیس شیش محل الاٹ کیا۔صبح کالج جانے کے لیے ہم سب سائیکل سوار نشاط روڈ سے حرم گیٹ میں داخل ہو کر چوک حسین آگاہی جا نکلتے تھے اور پھر دولت گیٹ سے کالج۔واپسی النگ کے ساتھ ساتھ دلّی دروازے سے ہوتی تھی۔کھانے کے لیے حرم گیٹ کے سامنے ایک ہوٹل کا انتخاب کیا گیا۔جہاں کھانے کے لیے ماہانہ حساب مقرر کرنے کی گنجائش بھی تھی مگر میں نے روز کا بل روز ادا کرنے کو ترجیح دی۔
یہ کوٹھی چار کنال رقبے پر محیط ہو گی اور اس کی مکانیت کا ذکر پہلے آچکا۔یہاں شاہ صاحب کے ایک قدیمی ملازم کی بیوہ اور اس کا بیٹا غلام حسین نگران تھے۔بڑھیا اپنے مرحوم شوہر کے لقب”مجنوں” کی نسبت سے لیلیٰ کہلاتی تھی اور لڑکا”سینا”جو عمر میں ہم سب سے کوئی پندرہ برس بڑا تھا۔بڑھیا کا کالابھجنگ رنگ اورموٹے شیشوں کی عینک میں آگ برساتی آنکھیں تو رُعب دار تھیں ہی۔پِیر برکت علی اور میرے والد کی برسوں پرانی خادمہ ہونے کا اعزاز گویا سونے پر سہاگا تھا۔پہلے ہی دن انہوں نے کڑک مرغی کی طرح ہم سب کو اپنے پروں میں لے لیا اور واضح کر دیا کہ ان کے ساتھ ملازمہ کی طرح برتاؤ کرنا ہمارے خلاف جائے گا۔اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ عشقیہ روایت کی سرتاج لیلیٰ ہماری امّاں ٹھہری۔
علاقے بھر کے زمیندار کام سے یا داد ِعیش دینے یہاں پدھارتے رہتے تھے اور کسی بھی کمرے پر قابض ہو کر ملتان کی معروف طوائفوں اور مغنّیاؤں کے ساتھ وقت گزارتے تھے،جس کی ایک جھلک”آداب عرض”میں شائع ہونے والی میری ایک کہانی”شہناز”میں دیکھی جا سکتی ہے۔ان مہمانوں میں سے اکثر سے میں واقف تھا اور وہ میرے والد کا بہت احترام کرتے تھے۔اس لیے وہ ہم سب کو اپنی محفلوں سے دور رکھتے تھے۔یہ لوگ آتے ہی کوٹھی کا نظام سنبھال لیتے تھے۔مہینے بھر کا راشن ساتھ لاتے اور لیلیٰ اور سینا اُن کے خدمت گزاروں کے ساتھ مل کر طرح طرح کے پکوان بناتے۔اس لیے ہمیں رات کے کھانے پر باہر جانے کی ضرورت کم ہی پڑتی تھی۔یہاں تواتر سے آنے والوں میں گھمن ماڑی کے نہایت نفیس اور بردبار انسان میاں منظور کاٹھیا بھی تھے جنہیں میں چچا کہتا تھا۔یہ وہی صاحب تھے،جن کی خاطر بھاؤ نواب نے محکمہ مال کا ریکارڈ جلایا تھا۔
یہ لوگ آتے تھے تو میں عام طور پر شیش محل میں دوستوں کے پاس منتقل ہو جاتا تھا تا کہ کوٹھی کی مرکزی عمارت سے نسبت نہ رہے اور کسی کو بھی اپنا کام نپٹانے میں دشواری نہ ہو۔
محل ِوقوع کے لحاظ سے یہ کوٹھی کچھ شتر گربہ کا شکار تھی۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اس طرح کے عسرت زدہ محلّے میں یہ جہازی گھر بنانے کی ضرورت کیا تھی۔بہت بعد میں پتا چلا کہ اسی سڑک پر اس گھر کے پیچھے اس سے بھی کئی گُنا بڑے رقبے پر نواب عاشق حسین قریشی کا بنگلہ تھا مگر وہ اسے بیچ کر کہیں اور منتقل ہو چکے تھے اور اس زمین کو مرلوں میں بانٹ کر نئے گھر بنا دیے گئے تھے۔میرا گمان ہے کہ جب یہ بنگلے تعمیر کیے گئے تھے تو اس وقت باقی آبادی کا وجود ہی نہیں ہو گا۔
یہ محلہ”پیر پراٹھی شاہ”شہر کے اسٹیشن کے سامنے نشاط روڈ پر تھا۔یہ سڑک حرم گیٹ سے شروع ہو کر اسٹیشن کے مقابل گھومتی ہوئی چوک شہیداں کو نکل جاتی تھی۔تمام آبادی تنگ گلیوں اور روہتکی مہاجرین کے مختصر مکانوں پر مشتمل تھی۔بس ہمسائے میں موجود اور اگلی گلی کی بغل میں ایک گھر قدرے معقول تھے۔پہلا گھر تو اب یاد نہیں کس کا تھا مگر دوسرا مکان جہانیاں کے میتلوں کا تھا اور وہاں اسلم میتلا قیام پذیر تھے جو ولایت حسین اسلامیہ کالج ہی میں پڑھ رہے تھے اور بی۔اے کے دوسرے سال میں تھے۔اُن سے ایک بار سرسری تعارف ہوا تو وہ ہماری طرف آنے جانے لگے اور ہم بھی اُن کے در ِدولت پر سیس نِوانے جاتے تھے،جہاں صحن میں کچھ لوگ ایک ردھم کے ساتھ انسانی جبڑوں سے ملتے جلتے موٹے چمڑے کی دو تہوں کو لکڑی کے ہتھوڑوں سے کُوٹنے میں مگن ہوتے تھے۔کئی دن بعد جا کر یہ بھید کُھلا کہ وہاں سونے چاندی کے ورق تیّار کیے جاتے تھے مگر یہ راز راز ہی رہا کہ کیوں اور کس کے لیے؟طاہر فاروقی سے پہلی ملاقات اسی مکان میں ہوئی۔اسلم اور طاہر دونوں شاعر تھے اور اس طرح کسی ہم مزاج سے ملنے کا میرا یہ پہلا اتفاق تھا۔
اس رہائش گاہ پر ناشتا امّاں لیلیٰ بناتی تھیں اور اس سے ان کا اپنا بھلا ہو جاتا تھا کہ ہمارے گھروں سے اس مقصد کے لیے وافر راشن بھجوایا جاتا تھا۔دوپہر کا کھانا ہم کالج سے واپسی پر کھا آتے تھے اور ضرورت پڑنے پر مغرب کے وقت گھر کی بغل سے نکلتی پتلی گلی پکڑ کر نشاط روڈ سے ہو کر ہوٹل پہنچتے تھے۔جہاں کبھی ماسٹر عبدالحق کے چھوٹے صاحب زادے گلفام سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی جو ڈاک خانے کی ملازمت میں آنے کے بعد ملتان میں شاید کوئی ٹریننگ کر رہے تھے۔
کھانے کے لیے جاتے ہوئے مجھے دوستوں کے درمیان چلنے کی عادت تھی۔یہ عدم تحفظ کا احساس تھا یا چودھراہٹ؟معلوم نہیں مگر اس ترتیب میں خلل کم ہی پڑتا تھا۔ایک روز جاتے تھے کہ پیچھے کسی کنکر کے گرنے کی آواز آئی۔مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دیا مگر جمیل مڑا اور لپک کر کاغذ میں لپٹا ایک کنکر اٹھا لایا۔مغرب کے بعد کا وقت تھا اور گلی نیم روشن۔اس لیے اُسے وہیں پڑھ لینا ممکن نہیں تھا سو ہوٹل پہنچنے تک مجبوراً صبر کا دامن تھامے رکھا اور کھانا آرڈر کرنے کے بعد اسے جمیل نے سب کو پڑھ کر سُنایا۔
بدخطی اور اظہار کی کجی سے مملو یہ نامہ میرے لیے تھا۔معلومات خاصی برحق اور تعریف میں غلو کا پہلو ضرورت سے زیادہ در آیا تھا۔شاید ہمارے بارے میں خاصی تحقیق کی گئی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ ہمیں سرے سے خبر ہی نہیں تھی کہ ہماری خوش خرامی کا گھائل ہے کون؟
واپسی گھنٹہ بھر کے بعد اُسی راستے سے ہوئی۔اس وقت گلی سنسان تھی اور روشنیاں پہلے سے بھی کم۔ابھی”پتھریلے مقام”تک پہنچے ہی تھے کہ بائیں ہاتھ کے ایک مکان کا دروازہ،جس کے سامنے ایک ننھی مسجد کا احاطہ تھا،دھڑ سے کُھلا۔