درس گاہ – 35

یہ گلی سات آٹھ فٹ سے زیادہ چوڑی نہیں تھی اور مکانوں کے دروازے اور زینے گلی میں اُمڈے پڑتے تھے۔دھڑ سے کُھلنے والے دروازے کے مقابل کی ننھی سی مسجد عشا کے بعد بند کر دی جاتی تھی اور ہم نے رات کے کھانے سے واپسی پر اُس پر ہمیشہ تالا پڑا دیکھا تھا۔ اسے آج بھی مقّفل ہونا چاہیے تھا مگر اس کا خیال مجھے بہت بعد میں آیا۔ایک برق رفتار سیاہ برقعے میں لپٹے ہوئے وجود نے لپک کر میرا ہاتھ پکڑا اور اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو سُنسان مسجد کے احاطے کے اندر پایا۔
لڑکی چودہ پندرہ برس سے بڑی نہیں تھی۔ضرورت سے زیادہ دُبلی اور شاید ابھی سن ِبلوغت کو بھی نہیں پُہنچی تھی۔میں ابھی اپنے حواس بحال کر رہا تھا کہ اس نے تیز لہجے میں قدرے نامانوس اردو بولتے ہوئے یہ اطلاع دی کہ اُس کی باجی مجھ سے ملنے کی خواہاں ہے۔ اگر میں رات بارہ بجے کے بعد آ جاؤں تو وہ سیڑھیوں کے ساتھ والے کمرے میں میری منتظر ہوں گی۔
اردو ادب اور خاص طور پر غزلیہ شاعری کے مطالعے نے مجھے کئی معاملات میں متجسس ضرور کر رکھا تھا اور مَیں اُن دنوں فراز کی "تنہا تنہا”کے:
جسم بِلّور سا نازک ہے جوانی بھرپور
اب کے انگڑائی نہ ٹُوٹی تو بدن ٹُوٹے گا
جیسے اشعار سےحظ بھی کشید کرنے لگا تھا مگر اتنا احمق نہیں تھا کہ اس اندھی دعوت پر لبیک کہتا سو میں نے معذرت کے ساتھ واضح کر دیا کہ یہ ممکن نہیں اور گلی کی طرف لپکا ہی تھا کہ اُس ننھی چڑیل نے لپک کر میرا بالغانہ بوسہ لیا اور گلی پھلانگ کر سیڑھیوں میں غائب ہو گی۔
اوسان بحال ہونے پر میں مسجد کی کُنڈی لگا کر گلی میں نکلا تو وہ ہمیشہ کی طرح سُنسان پڑی تھی۔جمیل وغیرہ جا چکے تھے اور گلی میں چلتے ہوئے مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔دو ایک بار مُڑ کر بھی دیکھا مگر کوئی نہیں تھا سوائے میرے سایے کے جو روشنی کے رُخ سے کبھی میرے ساتھ چلتا تھا اور کبھی آگے پیچھے۔
دوسرے روز خیریت رہی۔گلی میں چلتے ہوئے میں دوستوں کے حصار میں رہا۔جمیل نے جو عمر اور تجربے دونوں میں بڑا تھا،مسجد کا احوال سُننے کے بعد واضح کر دیا تھا کہ اُسے کوٹھی پر آنے کی صلاح دینے کے سوا کوئی آپشن قبول نہ کروں کہ ان سانپ جیسی گلیوں سے واپسی کی راہ تلاش کرنا ہمارے بس کی بات نہیں اور یہ بات ایسی گنجلک نہیں تھی کہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔
اگلے دن سہہ پہر کو میں کہیں جانے کے لیے گلی میں نکلا ہی تھا کہ سامنے سے آتی دو ایک ہی عمر اور وجود کی برقع پوش لڑکیاں پل بھر میرے قریب رُکیں۔اس سے پہلے کہ میں کسی کو پہچانتا۔خوشبو میں بسا ایک خط میرے ہاتھ میں تھا۔یہ اُسی دعوت کا اعادہ تھا اور مثبت جواب کے لیے مغرب تک کا وقت دیا گیا تھا۔
میں نے جمیل کی ہدایت کو پیشِ نظر رکھ کر دو سطری جواب لکھ رکھّا۔مجھے یقین تھا کہ امّاں لیلیٰ کی موجودگی میں محلّے کا کوئی فرد اس کوٹھی کے احاطے میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت وصال کی آرزو ںسے زیادہ مجھے اپنے تحفظ کے احساس سے مسرت ہو رہی تھی؟
ابھی مغرب کا وقت نہیں ہوا تھا اور میں نیچے شاگرد پیشہ کمروں میں سے کسی ایک میں کسی کام سے موجود تھا کہ بغیر جالی اور گرل کی کُھلی ونڈو کے قریب میں نے مسجد والی لڑکی کا سایہ دیکھا اور اس نے منہ اندر کر کے ایک ہی لفظ کہا:
"جواب”؟
میں نے اپنی جوابی چِٹ اُسے تھما دی اور وہ اس سُرعت سے غائب ہوئی کہ مجھےاُس کا پل بھر پہلے کھڑکی میں موجود ہونا وہم ہی لگا۔
اُس رات ہم کھانے کے بعد فلم دیکھنے چلے گئے۔رات بارہ بجے کے بعد پلٹےتو امّاں لیلیٰ خلاف ِمعمول جاگ رہی تھیں۔صرف جاگ ہی نہیں رہی تھیں،غیر معمولی طیش میں بھی تھیں اور اس طیش کا نشانہ کوئی اور نہیں میری ذات تھی اور کیوں نہ ہوتی؟معاملہ تھا ہی کچھ ایسا سنگین۔
جب ہم کھانے کے لیے نکلے تو ساتھ والے گھر میں کسی تقریب کا اہتمام تھا۔یہ گھر کافی بڑا تھا اور کُھلے گیٹ سے اندر صحن میں رکھی دیگیں دکھائی دی تھیں۔اُس گھر اور ہماری کوٹھی کے درمیان کم وبیش نو فٹ اونچی دیوار تھی اور تقریب میں موجود ایک لڑکی سیڑھیوں کی طرف سے اسے پھلانگ کر ادھر آنے کی کوشش میں تھی کہ کسی کی نظر پڑ گئی اور پکڑی گئی۔
تفشیش پر میرا نام سامنے آیا مگر خیریت گُزری کہ ہم سب گھر پر موجود ہی نہیں تھے اور اُس گھر کے بڑے یہ جان کر کہ میں کس کا بیٹا ہوں یہ ماننے میں متأمل تھے کہ میں ایسی کوئی حرکت کر سکتا ہوں۔وہ میرے والد کو جانتے تھے اور میرے والد کی نیک نامی اس حال میں بھی میری حفاظت کر رہی تھی۔
اماں لیلیٰ نے ہم سب کو خوب لعن طن کی پھر دو ایک مناسب دھمکیاں دے کر آئندہ کے لیے باز رہنے کی ہدایت کی۔حالاں کہ اس تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔میں تو خود اس فکر میں تھا کہ ایسی بلوان حسینہ سے امان پاؤں تو کیسے؟
فوری طور پر میری سمجھ میں یہی آیا کہ میں کچھ روز کے لیے گاؤں چلا آؤں اور اگلی ہی صبح میں نے اس فیصلے پر عمل بھی کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے